قسط نمبر 9

79 6 0
                                    

فیسٹیول کی رونق شباب پر تھی۔ سبزہ لہلہا رہا تھا اور چاند اپنے آب و تاب سے چاندنی پھیلا رہا تھا وہیں نعمان کھڑا ٹھنڈی آہیں بھر رہا تھا۔ آہیں اس لئے بھر رہا تھا کہ اب مرحا اس بڑی موچھوں والے میں دلچسپی لینے لگی تھی جس نے اسے مرحا سے عشق کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ وہ ان دونوں کو ساتھ دیکھتا اور اس کے سینے پر اژدھے لوٹ جاتے۔ اس وقت اسے حقیقتاً "حادی بھائی" کی یاد ستا رہی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اگر حادی یہاں موجود ہوتا تو اس کی مشکلیں یقینی طور پر آسان ہو جاتیں۔
نعمان پر سچ مچ عشق کا بھوت سوار تھا۔ اس کی علامت یہ تھی کہ وقفے وقفے سے اس کے برف سے ڈھکے دماغ میں اوٹ پٹانگ اشعار گونجنے لگتے  تھے۔ اسے شدت سے بڑی مونچھوں والے پر غصہ آرہا تھا۔  اس نے سوچا کیوں نہ بڑی مونچھوں والے کو جھیل میں پھینک دے۔ اس کے قدم اٹھ گئے۔ وہ حادی کے ٹینٹ کی طرف جا رہا تھا۔
حادی ٹینٹ کے باہر کھڑا نظر آیا لیکن تنہا تھا۔  اس نے نعمان کو آتے دیکھ لیا۔ وہ پہلے ہی محسوس کر چھا تھا کہ نعمان اُسے غصیلی نظروں سے گھورتا رہتا ہے۔
"سلام علیکم " حادی نے بڑے جوش سے اسے سلام کیا
"واعلیکم السلام" نعمان غصیلی آواز میں بولا
"موسم کتنا خوشگوار ہے" حادی نے کہا
"ہوگا۔۔۔۔!" نعمان غرایا
"آپ کچھ خفا لگتے ہیں"
"کچھ خفا۔۔۔۔۔!" نعمان نے ہاتھ نچا کر جملہ دہرایا
" چلو ٹہلتے ہیں"
"تم مکار اور جھوٹے ہو"
"کیوں۔۔۔۔۔؟ موٹے بھیّا"
"تم نے کہا تھا کہ وہ مجھے پسند کرتی ہے"
"ہوں۔۔۔۔وہ یہی کہتی ہے"
"پھر جھوٹ بول رہے ہو تم"
"میں کیوں جھوٹ بولوں گا"
"تم اسے ساتھ لئے پھرتے ہو"
"میں تو اسے مشورے دیا کرتا ہوں"
"کیسے مشورے"
"دراصل وہ تم سے ڈرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میں اس پہاڑ سے اظہارِ محبت کیسے کروں۔ اگر وہ مجھے زندہ نگل گیا تو۔۔۔۔۔!"
"الاقسم۔۔۔۔۔کر کے تو دیکھے اظہارِ محبت۔۔۔۔۔میں بلکل نہیں نگلوں گا" نعمان کچھ بھی بولتا گیا
"تم کیوں نہیں کرتے اس سے اظہارِ محبت۔۔۔۔۔خوشی سے مر جائے گی"
"تم خود مر جاؤ"
"یہ محاورہ ہے۔ مطلب شادیٔ مرگ"
"شادی بھی کر لے گی"
"نہیں شادی تو شاید نہ کرے" حادی بڑبڑایا
"پھر میں کیسے کروں اظہارِ محبت"
" اظہارِ محبت کے لئے ضروری ہے کہ چاندنی رات ہو اور جھیل کا کنارہ ہو۔ یہاں دونوں نصیب ہیں۔ اسے جھیل کے کنارے لے جا کر ادھر اُدھر کی باتیں کرتے رہنا۔ پھر دبی زبان سے کہہ دینا کہ مجھے آپ سے محبت ہے"
"پھر وہ کیا کہے گی" نعمان کانپتا ہوا بولا
"یہی کہے گی کہ میں بھی دن رات آپ کے لئے تڑپتی رہتی ہوں"
"قسم سے"
"ہاں ہاں۔۔۔۔ تمہاری موٹی توند کی قسم"
"پھر کب جاؤں۔۔۔!"
"ابھی اور اسی وقت" حادی نے کہا
"پتہ نہیں وہ کہاں ہو" نعمان نے کہا اور اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا
"اپنے ٹینٹ میں ہوگی"
"مگر وہ آنے ہی کیوں لگی"
"اس سے کہنا کہ بڑی مونچھوں والے نے بلایا ہے بس وہ سمجھ جائے گی"
"دل دھڑکتا ہے پیارے بھائی" نعمان ہکلایا
"مرد بنو۔۔۔۔۔میں اس قسم کے مشورے ہر ایک کو نہیں دیتا"
"اچھا۔۔۔!" نعمان نے دانت نکال دیئے
"اب جاؤ"
نعمان باہر نکل کر مرحا کے ٹینٹ کی طرف چل پڑا۔
                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرحا نے جھیل کے کنارے پہنچ کر چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا "وہ کہاں ہے"
"ابھی تو یہیں تھا" نعمان ہکلایا
اس نے محسوس کیا کہ مرحا اسے گھور رہی ہے۔ اسے فوراً یاد آگیا کہ ہدایت کے مطابق اسے ادھر اُدھر کی باتیں کرنی ہیں۔
"وہ دیکھئے۔۔۔۔۔۔مطلب ادھر کی بات۔۔۔۔۔۔۔یہ جھیل ہے نا۔۔۔۔۔۔ اور وہ چاند ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور اُدھر کی بات یعنی۔۔۔۔۔۔یعنی۔۔۔۔۔ ادھر اُدھر کی باتیں"
"کیا تم بھنگ پی گئے ہو" مرحا جھنجھلا کر بولی
"قسم لے لیجئے جو کبھی بھنگ کو چکھا بھی ہو تو"
"پھر افیون سے شوق کرتے ہو گے"
"توبہ توبہ" نعمان اپنے دونوں کان پکڑتا ہوا بولا
"مجھے یہاں کیوں لائے ہو" مرحا نے غصیلی آواز میں کہا
"دیکھئے۔۔۔۔ادھر اُدھر کی باتیں تو کر چکا۔۔۔۔۔اب دیکھئے چاندنی کے کنارے جھیل بھی ہو گیا"
"کیا تم ہونق ہو۔۔۔!"
"ہونق کسے کہتے ہیں؟"
"آئینے میں شکل دیکھنا سمجھ آجائے گا"
"جی بہت بہتر۔۔۔۔اب دیکھوں گا" نعمان بولا۔ اسے دراصل حادی کی دوسری ہدایت یاد آگئی تھی۔ یعنی دبی زبان سے اظہارِ محبت کرنا۔
پھر اس نے دانتوں تلے زبان دبا کر کہا "آپ سے مجتغ ہے"
"میں نہیں سمجھی"
"آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں میں نے تو اپنا فرض ادا کر دیا" نعمان اپنی زبان کو دانتوں کے دباؤ سے آزاد کر کے بولا
"کیا کہا تھا ابھی"
"جو کچھ کہا تھا دبی زبان سے کہا تھا۔۔۔۔۔۔ آپ فکر نہ کیجئے"
مرحا ایک بڑا سا پتھر اٹھا کر بولی" بتاؤ یہاں کیوں لائے تھے ورنہ سر توڑ دوں گی"
"ارے۔۔۔۔۔پیارے بھائی" نعمان نے بوکھلا کر شاید حادی کو آواز دی
"بتاؤ۔۔۔۔!" مرحا غرائی
"اظہارِ محبت"
"اوہ۔۔۔۔! ٹھیک ہے اب میں بھی اظہارِ محبت کروں گی۔ زمین پر اوندھے لیٹ جاؤ"
نعمان نے حکم کی تکمیل میں دیر نہ لگائی۔ جیسے ہی وہ لیٹا مرحا نے دو تین بڑے پتھر اس کی پیٹ پر رکھ دیے"
"ارے۔۔۔۔۔ہائیں۔۔۔۔۔میں مرا" نعمان کراہا
"میں اسی طرح اظہارِ محبت کرتی ہوں"
"کیا ہو رہا ہے" دفعتاً ایک طرف سے آواز آئی۔ یہ حادی تھا۔
"میں اظہارِ محبت کر رہی ہوں" مرحا بولی
"ہٹو۔۔۔۔!"
مرحا ایک طرف کو ہو گئی اور حادی نے نعمان کی پیٹ پر سے پتھر ہٹائے۔ نعمان نے اٹھنے کی کوشش کی مگر پھر ڈھیر ہو گیا۔
"صرف تمہاری وجہ سے اتنی سزا دی ہے ورنہ چھرا مار کر اس کی توند برابر کر دیتی" مرحا غرائی
"جاؤ۔۔۔۔جاؤ۔۔۔۔بڑی آئی توند برابر کرنے والی" نعمان بگڑ گیا
"ہاں ہاں۔۔۔۔بلکل" حادی بول پڑا
"تم چپ رہو ورنہ تمہاری مونچھیں اکھاڑ لوں گا"
"تم کیا اکھاڑو گے" مرحا نے کہا
حادی نے سوچا کہ اب اس کی شامت آجائے گی۔ لہٰذا وہ نعمان سے دور ہٹ گیا
" بھاگتے کیوں ہو۔۔۔۔۔تمہارا قیمہ بنا ڈالوں گا۔ تم نے مجھے دھوکا دیا" نعمان بولا
ٹھیک اسی وقت ایک گرجدار آواز گونجی" جھیل کے قریب والے ٹینٹ خالی کر دو۔طوفان آرہا ہے"
"سائبرگ" مرحا بڑبڑائی "یہ آواز سائبرگ ہی کی ہے بھاگو"
مرحا دوڑنے لگی۔اس کے پیچھے حادی بھی دوڑا۔ نعمان بھی گرتا پڑتا بھاگا۔ لوگ اپنے اپنے ٹینٹوں سے نکل کر دوڑ رہے تھے۔ اور سائبرگ کہہ رہا تھا "تم لوگ طوفان کی زد سے نکل آئے ہو۔ طوفان آنے والا ہے میں بلکل صحیح دعوا کر رہا ہوں"
نعمان کھڑا پلکیں جھپکا رہا تھا۔ اچانک اس نے دو آدمیوں کو سائبرگ کی طرف بڑھتے دیکھا۔ یہ مرحا اور حادی تھے۔
"کون ہے۔۔۔۔! اوہ تم ہو لڑکی۔۔۔۔۔۔یہ دوسرا کون ہے"
انہوں نے جواب میں جو کچھ بھی کہا شور کی وجہ سے کوئی نہ سن سکا۔ نعمان کی کھوپڑی گھوم گئی۔ اس نے سوچا مرحا پر روعب ڈالنے کے لئے سائبرگ سے بھڑا جائے۔
"اب کون آرہا ہے" سائبرگ کی آواز آئی
"میں آرہا ہوں" نعمان دھاڑا
"ابے کیوں شامت آئی ہے" نعمان نے حادی کی آواز سنی
"اس کے بعد تم سے نپٹوں گا" نعمان نے جواب دیا
"آنے دو" مرحا بولی
"آرہا ہوں"
"واپس جاؤ دوست۔ اگر اپنے ہاتھ پیر توڑ بیٹھے تو مجھے بھی افسوس ہو گا" سائبرگ بولا
اچانک طوفان آگیا۔ٹینٹ اڑنے لگے۔بڑی خوفناک آوازیں تھیں۔لوگ چیخ رہے تھے۔ جھیل کے کنارے والے ٹینٹ دیکھتے ہی دیکھتے فنا ہوگئے.
تقریباً سات منٹ تک ہنگامہ برپا رہا پھر سکون ہو گیا۔ سائبرگ تیزی سے فضاء میں بلند ہوتا چلا جا رہا تھا۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Continue............
GOOD READS 😊
ENJOY THE EPISODE 💜

بدلتے نقشے(Complete)Where stories live. Discover now