قسط نمبر 13

68 5 0
                                    

پروفیسر ضرغام کی دھمکی پوری ہو کر رہی۔ داریان ٹرانسمیٹر پر جھکا ہوا تھا اور محکمہ سراغرسانی کے آپریشن روم پر قبرستان کا سناٹا مسلط تھا۔
دفعتاً ٹرانسمیٹر سے آواز آئی "کرنل داریان۔۔۔۔کرنل داریان۔۔۔۔آپ کا خیال درست نکلا۔ نیوی کے ایک جہاز کے پرخچے اڑ گئے۔ وہ جہاز بندر گاہ کی طرف آرہا تھا۔ کہ اچانک وہ تیز قسم کی بجلی کی لپیٹ میں آگیا۔ اور چشمِ ذدن میں فنا ہو گیا۔ کیا آپ سن رہے ہیں کرنل"
"ہاں میں سن رہا ہوں" داریان نے جواب دیا
"مجھے اطلاع مل چکی تھی کہ وہاں بہت سخت قسم کے انتظامات کئے گئے ہیں" سپرنٹینڈنٹ ہمزہ نے کہا "ان کا خیال تھا کہ وہاں بھی سائبرگ ہی نمودار ہوگا۔ لہٰذا بندر گاہ پر ایک پوری بٹالین موجود تھی لیکن وہاں دوسرا طریقہ اختیار کیا گیا"
داریان کچھ نہ بولا۔ دفعتاً ٹرانسمیٹر سے آواز آئی" کیوں کرنل داریان تم نے سن لیا اس جہاز کا کیا انجام ہوا۔ میں پروفیسر ضرغام تم سے مخاطب ہوں"
"تم بھی اپنے لئے دردناک خبروں کے منتظر رہو" داریان نے پر سکون لہجے میں کہا اور دوسری طرف سناٹا چھا گیا
داریان آپریشن روم سے باہر آگیا۔ کیپٹن حادی بھی اس کے ساتھ تھا۔
اگلے دن تک اس چرواہے کا سراغ مل گیا جس نے نعمان کو شکران پہنچایا تھا۔ نعمان نے بھی اسے شناخت کر لیا۔ چرواہا اس طرح پکڑے جانے پر پریشان تھا۔
"گھبراؤ مت۔۔۔۔تمہیں صرف اتنا کرنا ہے کہ ہمیں وہاں تک پہنچا دو جہاں سے اسے لائے تھے" داریان نے نرم لہجے میں کہا۔ چرواہے نے اطمینان کی سانس لی۔
اسی شام کو وہ کریسینٹ ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں بیٹھے کافی پی رہے تھے۔ دفعتاً مائیکروفون سے آواز انا شروع ہوئی " میں پروفیسر ضرغام اس ملک کی عوام سے مخاطب ہوں۔ آپ سائبرگ سے قطعی نہ ڈرئیے۔ اب وہ پہلے کی طرح آپ کا خادم ہے۔ اب میں بلکل مطمئن ہوں۔ لیکن کیا آپ موجودہ حکومت کو پسند کرتے ہیں؟ سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور کیجئے۔ اس وقت بھی آپ کی موجودہ پریشانی کا باعث آپ کی حکومت ہی ہے۔ اگر میں نے محسوس کیا کہ یہ حکومت ناکارہ ثابت ہو رہی ہے تو مجبوراً مجھے اسے ٹھکانے لگانا ہی پڑے گا."
"مکار۔۔۔۔!" داریان برا سا منہ بنا کر بڑبڑایا۔
"یہ یک بیک بدل کیسے گیا" حادی نے کہا
" اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ وہ بندر گاہ کو نیوی کے قبضے میں کیوں نہیں دیکھنا چاہتا"
پھر وہ دونوں خاموش ہوگئے۔ تین دن سے قطعی سکون تھا۔ اس دوران میں سائبرگ بھی دکھائی نہیں دیا تھا۔ شہر کی حالت آہستہ آہستہ معمول پر آرہی تھی۔
داریان نے سفر کی تیاریاں شروع کر دیں۔ پانچ چرواہوں کا ایک مختصر سا قافلہ شکران ویلی کے ویران حصے کی طرف چل پڑا۔ان میں دو تو حقیقتاً چرواہے تھے اور بقیہ تین نعمان، حادی اور داریان تھے۔
ایک جگہ رہنما رک گیا "راستہ بند ہو گیا ہے جناب" اس نے ایک درے کی طرف اشارہ کر کے کہا جس میں بڑے بڑے پتھروں کے ڈھیر نظر آرہے تھے۔
"بناؤں راستہ۔۔۔۔!" نعمان نے داریان سے پوچھا
"ٹھہرو۔۔۔!" داریان کچھ سوچتا ہوا بولا اور پھر ایک چرواہے کو مخاطب کیا" میرا خیال ہے کہ تم اپنے بھائی کو یہیں چھوڑ دو۔ تین چار بھیڑیں ساتھ لے چلو"
"نہیں صاحب میں اکیلے تو نہیں جاؤں گا۔ میرا بھائی ہر حال میں میرے ساتھ جائے گا"
"تمہاری حفاظت کا ذمہ پہلے ہی لیا جا چکا ہے"
"کچھ بھی ہو بھائی ساتھ جائے گا"
"اچھا تو چلو۔۔۔۔۔!"
"یہ آخر اپنے بھائی کو ساتھ لیجانے پر کیوں مصر ہے" حادی آہستہ سے بڑبڑایا
" تم یہ نہ سمجھنا کہ ہم محفوظ ہیں"
"کیا مطلب"
"مطلب ان دونوں چرواہوں سے ہوشیار رہنا"
سفر پھر سے جارہ ہوگیا۔ پہاڑوں کا عجیب حال تھا۔ رات گزارنے کے لئے وہ ایک ایسے مقام پر رکے جہاں مسطح زمین مشکل ہی سے نظر آتی تھی۔ چاروں طرف اونچی نیچی نامور چٹانیں پھیلی ہوئی تھیں۔ ایک بھیڑ ذبح کی گئی اور لکڑیوں پر بھونی جانے لگی۔ پیٹ بھر جانے پر وہ سونے کے لئے لیٹ گئے۔ اور تھوڑی ہی دیر بعد خراٹوں کی آوازیں فضاء میں منتشر ہونے لگیں۔ لیکن داریان جاگ رہا تھا۔ وہ اور حادی باری باری سے سوتے تھے۔
آسمان سیاح بادلوں سے چھپا جا رہا تھا۔ دن بھر کی تھکن انہیں ایسے میں بھی خوابوں کی سیر کرا رہی تھی۔
داریان نے کروٹ بدلی اور پھر یک بیک اچھل کر بیٹھ گیا۔بائیں جانب اسے روشنی نظر آئی۔ حادی اس کے قریب ہی تھا۔ اس نے اسے جھنجھوڑا اور ساتھ ہی اس کے منہ پر ہاتھ بھی رکھ دیا۔ حادی بوکھلا کر اٹھ بیٹھا۔
"سائبرگ" داریان نے آہستہ سے کہا "چپ چاپ ادھر چلے آؤ" وہ اسے ایک قریبی چٹان کے پیچھے کھینچ لے گیا
"اس کی روشنی کی زد سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کرنا" داریان بولا
ذرا ہی سی دیر میں چاروں طرف روشنی ہی روشنی پھیل گئی۔ حادی کو اس وقت ہوش آیا جب اس نے اپنے کان کے پاس ہی گولی چلنے کی آواز سنی اور یک بیک اندھیرا پھیل گیا۔
"وہ مارا" داریان دبے ہوئے جوش کے ساتھ بڑبڑایا
"یعنی۔۔۔!"
"سائبرگ اندھا ہوگیا۔ اب وہ ہمیں نہیں دیکھ سکے گا"
دفعتاً سائبرگ چنگھاڑنے لگا " یہ گولی کس نے چلائی ہے۔ تم پڑے سو رہے ہو نمک حراموں"
اچانک ٹارچ کی روشنی سائبرگ پر پڑی۔ یہ ٹارچ ایک چرواہے گے ہاتھ میں تھی۔ نعمان بھی اٹھ بیٹھا۔
"جواب کیوں نہیں دیتے" سائبرگ دھاڑا
"پتہ نہیں" چرواہے نے کہا اور پھر اس نے چاروں طرف ٹارچ کی روشنی ڈالی ساتھ ہی اس کا ریوالور بھی نکل آیا۔
"وہ دونوں کہاں ہیں" اس نے نعمان سے گرج کر پوچھا
"میں کیا جانوں"
"یہ کون بولا تھا" سائبرگ نے پوچھا
"موٹا آدمی" چرواہے نے جواب دیا "وہ دونوں غائب ہیں"
"میں تمہیں غارت کر دوں گا۔ تمہاری ہی غفلت کی وجہ سے میں اندھا ہو گیا۔
"ابے مرحا کہاں ہے اندھی کے بچے" نعمان دھاڑا
"اسے گولی مار دو" سائبرگ نے کہا
شاید چرواہے نے ٹریگر دبانے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ داریان کے ریوالور سے ایک شعلہ نکلا اور اندھیرے میں ایک چیخ دور تک لہرائی چلی گئی۔
"آؤ۔۔۔!" داریان نے حادی سے کہا اور چٹان کی اوٹ سے نکل آیا۔اس کے ایک ہاتھ میں دیوار تھا اور دوسرے میں ٹارچ
"تم دونوں اپنے ہاتھ اوپر اٹھا لو" داریان نے کہا ایک چرواہا اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ سے دبائے کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ سے خون کا فوارہ جاری تھا۔
"یہ کون ہے" سائبرگ سے آواز آئی
"تمہارا باپ ہے" نعمان نے کہا
داریان زخمی چرواہے سے بولا "کیوں دلاور۔۔۔۔۔ہماری یہ ملاقات کتنی دلچسپ ہے"
"دلاور۔۔۔۔!" حادی متحرانہ انداز میں بڑبڑایا "یعنی کہ........!"
"ہاں۔۔۔۔!" داریان بولا "دلاور غالباً تم اچھی طرح سمجھ گئے ہو گے"
"یہ کیسے ممکن ہے"
"ابھی تو بہت کچھ دیکھو گے"
دفعتاً سائبرگ اندھوں کی طرح ادھر اُدھر دوڑنے لگا۔ اچانک نعمان نے ایک وزنی پتھر اٹھایا اور سائبرگ پر دے مارا اور سائبرگ پتھر سمیت زمین پر دھیر ہو گیا۔
لیکن ٹھیک اسی وقت نشیب سے بے شمار قدموں کی آوازیں آنے لگیں۔ آنے والے شاید دوڑ رہے تھے۔ حادی نشیب کی طرف جھپٹا۔ سرے پر پہنچتے ہی اس نے نیچے دو تین فائر جھونک دیئے۔ وہ پے در پے فائر کرتا رہا۔ نیچے سے بھی فائر ہونے لگے۔
ادھر داریان نعمان کی مدد سے ان دونوں کو باندھ رہا تھا۔
رات کا سناٹا فائروں کی آوازوں سے مجروح ہوتا رہا۔ تھوڑی ہی دیر بعد داریان نے محسوس کیا کہ وہ چاروں طرف سے گھر گئے ہیں۔
اس نے بڑی پھرتی سے ٹرانسمیٹر نکالا اور جلدی جلدی کہنے لگا "داریان اسپیکنگ۔۔۔۔۔اب تم لوگ ان پر حملہ کر سکتے ہو"
                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Continue........
GOOD READS 😊
ENJOY THE EPISODE 💜

بدلتے نقشے(Complete)Where stories live. Discover now