قسط نمبر 10

81 6 0
                                    

بے خبری کے عالم میں اگر اچانک کسی قسم کی غیر متوقع آواز سنائی دے تو لوگ چونک ہی پڑتے ہیں۔ وہ تو پھر ایک کان پھاڑ دینے والا دھماکا تھا۔ کان بڑی آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔ پھر دوسری مصیبت یہ نازل ہوئی کہ بادلوں سے ننھے ننھے پتھروں کی بارش ہونے لگی۔
طوفان کی اطلاع فیسٹیول سے محکمہ سراغرسانی کے وائرلیس پر پہلے ہی بھیجی جا چکی تھی۔ لیکن طوفان کا رخ شہر کی طرف نہیں تھا۔ پھر یہ پتھروں کی بارش کہاں سے اور کیسے ہوئی۔ اگر وہ طوفان ہی کے ساتھ آئے تھے تو ہوا کا زور کیوں نہیں محسوس کی گیا؟ پھر وہ دھماکہ کیسا تھا؟ اور کیاں ہوا تھا؟
ٹھیک نو بارہ بجے لوگوں کی حیرت رفع ہو گئی۔ کیونکہ ایک بار پھر پروفیسر ضرغام براڈکاسٹنگ میں خلل انداز ہو رہا تھا۔ ملک کے تمام Frequency Modulation Stations اس کی آواز ریسیو کرنے لگے وہ کہہ رہا تھا " میں پروفیسر ضرغام آپ سے مخاطب ہوں۔ شکران کی عوام نے کچھ دیر پہلے جو دھماکہ سنا تھا اس نے شکران کے شمالی پہاڑ جو کہ سڑک نکالنے کی اسکیم میں حارج ہو رہا تھا اسے ریزہ ریزہ کر دیا گیا ہے۔ اور اس سلسلے میں کوئی جانی نقصان بھی نہیں ہوا ہے۔ البتہ شکران ویلی کے حکام کو تھوڑی سی محنت کرنی پڑے گی۔ شاید شہر کی صفائی میں ایک ہفتہ لگ جائے۔ اب بھی اگر آپ ضرغام کو اپنا خادم نہیں سمجھیں تو سراسر زیادتی ہوگی۔ ایک زبردست طوفان جو شمال مغرب سے جنوب مشرق کی طرف جارہا تھا اس کا رُخ موڑ کر ادھر لانا پڑا اور پھر اسی طوفان نے اس پہاڑ کے پرخچے اڑا دئیے. میں آپ کی بھلائی کے لئے بہت کچھ کر رہا ہوں۔ اب اجازت دیجئے"
کرنل داریان کنٹرول روم میں تھا۔ جس وقت دوسرے لوگ ضرغام کو سن رہے تھے۔ داریان فریکوینسی سے پیدا ہونے والے سگنلز کی مدد سے ضرغام کی قیام گاہ کو ٹریس کرنے میں لگا ہوا تھا۔
"سمت بتاؤ۔۔۔!" داریان سپروائزر سے بولا
" شمال مغرب سر اور فاصلہ ساٹھ میل" سپروائزر نے جواب دیا
"گڈ۔۔۔۔!" داریان کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ جیسے ہی مڑا اس کی نظر محکمہ سراغرسانی کے ڈی ایس پی پر پڑی
"کیا سمت معلوم ہوئی" اس نے پوچھا
"نہ صرف سمت بلکہ فاصلہ بھی" داریان نے جواب دیا
" لیکن اتنا معلوم ہو جانے پر بھی کیا ہوسکے گا"
"فلحال میں نے اس پر غور نہیں کیا" داریان نے کہا اور روم سے نکل گیا۔
ابھی وہ باہر نکلا ہی تھا کہ گل شیر نظر آیا جو اسی کی طرف آرہا تھا۔
"کیا رپورٹ ہے۔۔۔۔؟" داریان نے پوچھا
"نہیں پتہ لگتا جناب کہ سائبرگ پر کس نے پتھر چلایا تھا"
"اس کے قریب کے لوگوں نے کیا بتایا"
"ان کا کہنا ہے کہ مرنے والے نے پتھر نہیں پھینکا تھا ان میں سے کسی نے بھی یہ حرکت نہیں کی تھی"
"جبکہ پھاٹک بند تھا۔ اور ہم لوگ صحن میں تھے۔ پھر یہی ہو سکتا ہے کہ پتھر پھینکنے والا ہمارے ساتھ ہی اندر داخل ہوا ہو"
"یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہی کسی آدمی نے پتھر پھینکا ہو"
"یہ بھی ممکن ہے۔ بڑے آفیسر سب میرے قریب تھے۔ لہٰذہ ماتحتوں میں اتنی ہمت نہیں ہو سکتی کہ وہ آفیسروں کی موجودگی میں ایسی کوئی حرکت کر بیٹھیں"
"جی ہاں"
اتنے میں ایک کانسٹیبل نے آکر اطلاع دی " فون پر داریان صاحب کی کال آئی ہے"
"آؤ۔۔۔۔!" داریان نے کہا اور پھاٹک کی طرف مڑ گیا
"ہیلو۔۔۔۔!"
"کون!" دوسری طرف سے آواز آئی
"داریان"
"کرنل صاحب۔۔۔۔۔میں آفندی صاحب ایم پی کا سیکریٹری ہوں۔ آفندی صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں"
"کیا وہ یہیں ہیں" داریان نے کہا
"آج ہی تشریف لائے ہیں"
"میں بہت مصروف ہوں" داریان نے گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا "فلحال ایک گھنٹے تک میں محکمہ سراغرسانی کے آفس میں رہوں گا۔ اگر وہ تشریف لانا چاہیں تو میں کچھ وقت نکال لوں گا۔"
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔ داریان ریسیور رکھتے وقت مسکرایا تھا۔
                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھماکہ درہ کوہ میں بھی سنائی دیا تھا اور وہاں بھی بدہواسی پھیل گئی تھی۔ اس سے قبل طوفان نے سارسیمگی پھیلائی تھی۔ دھماکے کے بعد وہاں بھی پتھروں کی بارش ہوئی تھی۔  لیکن حادی کو اس کی وجہ نہ معلوم ہو سکی۔ یہاں ملیٹری پولیس کیمپ بھی تھا لیکن وہ اب تک اس سے بے تعلق رہا تھا۔
کچھ دیر بعد اس نے کیمپ کی راہ لی۔ وہ دراصل ٹرانسمیٹر پر داریان سے گفتگو کرنا چاہتا تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ وہ اس سلسلے میں گفتگو کرتا اسے بعض لوگوں کی گفتگو سے معلوم ہو گیا کہ ٹرانسمیٹر میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی ہے۔
وہ پھر واپس ہوا۔ اب سوال یہ تھا کہ وہ رات کہاں بسر کرے گا۔ اس کا ٹینٹ طوفان کی نظر ہو چکا تھا۔ نعمان کے ٹینٹ کا بھی یہی حال ہوا تھا۔ ورنہ وہ اس کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کرتا۔ شکران کے علاقے میں کبھی طوفان آتے ہی نہیں تھے۔ اس لئے حفظِ ماتقدم کا سوال کی نہیں پیدا ہوتا تھا۔
ٹینٹ وہی تباہ ہوئے تھے جو جھیل کے کنارے تھے۔ اس طوفان میں یقیناً کوئی غیر معمولی بات تھی۔ حادی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا۔ وہ جھیل کے کنارے ایک چٹان پر بیٹھ گیا۔ دفعتاً وہ چونک پڑا۔ کیونکہ ملیٹری پولیس کا مائیکروفون چیخ رہا تھا " کیپٹن حادی۔۔۔۔۔۔ کیپٹن حادی جہاں کہیں بھی ہوں کیمپ میں تشریف لے آئیں کرنل آپ کا انتظار کر رہے ہیں"
حادی کو بڑی حیرت ہوئی۔ وہ اٹھا اور کیمپ کی طرف چل پڑا۔
"آپ۔۔۔!" حادی نے حیرت سے کہا
"آؤ۔۔۔۔!" داریان اٹھتا ہوا بولا۔ وہ دونوں کیمپ سے باہر نکل آئے اور داریان نے کہا "تم پر کیا گزری"
"اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ٹینٹ اڑ گیا اور اپنے ساتھ ایک سوٹ کیس بھی لے گیا"
"تو تم یہ رات کہاں گزارو گے۔ میری اطلاع کے مطابق ایسے لوگ بے چارگی کا شکار ہیں"
"بھگت لوں گا"
"تم ابھی اور اسی وقت میرے ساتھ واپس چلو گے"
"صبح ہو جائے گی چلتے چلتے"
"میں ہیلی کاپٹر پر آیا ہوں"
"یہ دھماکہ کیسا تھا"
داریان کچھ نہ بولا۔ دونوں چلتے رہے اور پھر اس جگہ جا پہنچے جہاں ہیلی کاپٹر اتارا گیا تھا۔ دونوں ہیلی کاپٹر میں بیٹھ گئے۔
داریان نے حادی کو دھماکے کے متعلق بتانا شروع کیا اور اس کے بعد حادی نے سائبرگ کی داستان دہرانی شروع کر دی۔ دفعتاً ایک گرج دار آواز سنائی دی "پائیلٹ ہوشیار کمپاس پر نظر رکھو۔ تمہارا رخ جنوب کی طرف ہونا چاہئے۔"
ہیلی کاپٹر میں بیٹھے ہوئے لوگ چونک پڑے۔ آواز پھر آئی" اگر تم شکران جانا چاہتے ہو تو جنوب کی طرف موڑ لو"
دوسرے ہی لمحے سائبرگ ہیلی کاپٹر کے برابر فضاء میں تیر رہا تھا اور دونوں کی رفتار یکساں تھی۔
"جنوب کی طرف موڑو۔ ادھر خطرہ ہے"
داریان کی ہدایت پر ہیلی کاپٹر کا رخ جنوب کی طرف موڑ دیا گیا۔
"تم دونوں کو تو میں پہچانتا ہوں" سائبرگ سے آواز آئی
"پروفیسر ضرغام تمہارے متعلق میری ایک پیشنگوئی ہے" داریان بولا
"میرے متعلق پیشنگوئی۔۔۔۔۔۔۔وہ کیا ہے" سائبرگ نے کہا
"تمہارا طریقِ کار تمہیں لے ڈوبے گا۔ میں اب بھی کہتا ہوں کہ اگر تم انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہو تو منظرِ عام پر آ جاؤ"
"میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ یہ ناممکن ہے" سائبرگ بولا
"تمہاری مرضی۔ لیکن اس وقت تم نے جو کچھ بھی کیا وہ قطعی غیر قانونی حیثیت رکھتا ہے" داریان بولا
سائبرگ نے جواب میں کچھ نہیں کہا
"مرحا سے تمہاری بڑی گہری دوستی معلوم ہوتی ہے" حادی نے کہا
"وہ مجھے بے حد پسند ہے۔ایک نڈر لڑکی۔ میں اسے ایک عظیم ہستی بناؤں گا" سائبرگ نے کہا
"اپنی زبان قابو میں رکھو" حادی غصیلی آواز میں بولا
"خاموش رہو" داریان نے حادی کے ہاتھ کو دبا کر آہستہ سے کہا۔
                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Continue.........
GOOD READS 😊
ENJOY THE EPISODE 💜

بدلتے نقشے(Complete)Où les histoires vivent. Découvrez maintenant