قسط نمبر 11

80 6 0
                                    

تقریباً ایک ہفتے تک شکران سے ریت ہٹائی جاتی رہی۔ اسی دوران حکومت کو جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا بیان سے باہر تھیں۔
سائبرگ اب بھی شہر میں گشت کرتا تھا لیکن اب اس کے آس پاس مسلح پولیس ہوتی یا فوجی سپاہی ہوتے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ کسی ایسی جگہ نمودار ہوتا جہاں نہ پولیس ہوتی اور نہ گوج۔
ایک رات سائبرگ کا گزر ایسی جگہ سے ہوا جہاں دو پارٹیوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا تھا۔
"ہٹ جاؤ۔۔۔۔۔۔جھگڑا ختم کرو ورنہ میں زبردستی دونوں پارٹیوں کو الگ کر دوں گا" سائبرگ چیخا
لڑنے والوں نے دھیان نہ دیا۔ دفعتاً اس کے ہاتھوں سے چنگاریوں کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ لڑنے والے بوکھلا کر پیچھے ہٹ گئے۔ اور پھر چیخ کر بھاگ نکلے۔ ایک بار اس نے چند غنڈوں کی مرمت بھی کی تھی۔ غرض یہ کہ ابھی تک وہ وہ ہر طرح امن پسند ہی ثابت ہوتا رہا تھا۔
لیکن داریان مطمئن نہیں تھا۔ اس کے پاس بیک وقت دو مسائل درپیش تھے۔ ایک پروفیسر ضرغام اور دوسرے وہ اسمگلر جن کے کیس کا فائیل اس سے لے لیا گیا تھا۔ حالانکہ اس نے انہیں نظر انداز ہی کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن خود انہیں کی طرف سے چھیڑ چھاڑ جاری رہی۔ اس دوران میں بھی اس پر تین حملے ہو چکے تھے۔جبکہ تیسرا حملہ یقیناً خطرناک تھا اس پر دستی بم پھینکا گیا تھا وہ تو اس کی قسمت اچھی تھی کہ موقع پر بچ گیا نہیں تو اس کے چیتھڑے اڑ جاتے۔
اس حادثے کے بعد حادی نے قسم کھائی تھی کہ جب بھی مرحا ہاتھ لگی اسے حراست میں لے کر کم ازکم گروہ کا قلع قمع تو کر ہی ڈالے گا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اب تک اسے بیوقوف بناتی رہی ہے۔ مقصد یہی ہو سکتا تھا کہ کسی طرح داریان پر قابو پایا جاسکے۔
مرحا ایک سوال تھی؟ غیر معمولی حالات میں اس سے ملاقات ہوئی تھی اور وہ خود بھی ابھی تک غیر معمولی ثابت ہوتی رہی تھی۔
فیسٹیول سے واپسی پر بھی ایک بار وہ حادی سے ملی تھی۔ لیکن پھر جب سے داریان پر حملے شروع ہوئے تھے کہیں نظر نہیں آئی تھی۔
دوسری طرف پروفیسر ضرغام کی تلاش جاری تھی۔ شکران کے قریب و جوار کے ویران علاقے ہر وقت فوجیوں کے وزنی جوتوں کی دھمک سے گونجتے رہتے تھے۔
داریان اور حادی کی تگ و دو بھی جاری تھی۔ ان کے ساتھ کچھ ماہرین بھی ہوتے تھے اور ان کا صفر صرف شمال مغرب کی طرف ہوتا تھا۔ لیکن انہیں ابھی تک کامیابی نہیں ہو سکی تھی۔
ضرغام کی تقریر روز سنی جاتی تھیں مگر انہیں سننے کا وقت وہی تھا جو اس نے اعلان کیا تھا۔
اس وقت وہ لوگ ایک غار میں بیٹھے بارش کے تھمنے کا انتظار کر رہے تھے۔ حادی سوچ رہا تھا کی اگر یہیں رات ہو گئی تو صبح کوئی کفن دفن کرنے والا بھی نہ ملے گا۔ کیونکہ بارش کی وجہ سے اچھی خاصی سردی ہوگئی تھی۔
حادی تھک کر چور ہو چکا تھا۔ اس کے لئے واپسی کا سفر اتنا کٹھن نہ ہوتا جتنا کہ اس غار میں رات بسر کرنا۔
"کیپٹن آپ خاموش نہ ہوا کریں" محمود نے کہا
"ایک خاموشی ہزار بلائیں ٹالتی ہے" حادی بولا
"خدا کے لئے خاموش ہی رہنا ورنہ ہوسکتا ہے کہ میں ہی ٹل جاؤں" داریان نے مسکرا کر کہا
حادی کچھ نہ بولا۔ داریان نے ایک پتھر سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔ کچھ دیر بعد داریان ماہرین سے بولا" ہم اب تک شمال مغرب میں تقریباً ساٹھ میل کا سفر کر چکے ہیں لیکن ہم ساٹھ میل کا دائرہ عمل متعین نہیں کر سکے۔اب اگر ہمارے پاس کوئی ایسا۔۔۔۔۔!"
داریان جملہ پورا کئے بغیر خاموش ہو گیا۔ حادی اسے گھورنے لگا کیونکہ اس کے لئے پوری بات کہے بغیر خاموش ہو جانا خلاف معمول تھا۔ ماہرین بھی اس کی طرف دیکھنے لگے تھے۔
"کیا بات ہے" آخر حادی پوچھ ہی بیٹھا
"میں سوچنے لگا تھا کہ وہ لڑکی مرحا۔۔۔۔۔اس سلسلے میں ہمارے لئے کار آمد ثابت ہوسکتی ہے"
"یہ بلکل انوکھی بات ہوئی ہے" حادی بولا
"کیوں؟"
"کیا اس پر اعتماد کی جاسکتا ہے"
"تجربے کے طور پر" داریان نے جواب دیا
"لیکن آپ اس سے کیا کام لیں گے"
"پہلے اسے تلاش کرنے کی کوشش کرو"
"کیا لڑکی سچ مچ دنیا کی عظیم ترین ہستی بننے والی ہے" حادی بڑبڑایا
"اُسے تلاش کرو" داریان نے پھر کہا
"ضروری نہیں کہ وہ مل ہی جائے"
دفعتاً ٹرانسمیٹر پر اشارہ موصول ہوا۔ داریان اس کی طرف متوجہ ہوگیا۔ دوسرے ہی لمحے ٹرانسمیٹر سے آواز آئی۔
"کرنل۔۔۔۔۔داریان۔۔۔۔۔کرنل داریان۔۔۔۔۔۔۔امجد اسپیکنگ پلیز۔۔۔۔۔!"
"داریان اسپیکنگ۔۔۔!"
"آپ کہاں ہیں"
"یہ نہیں بتایا جا سکتا"
"سائبرگ نے یہاں تہلکا مچا دیا ہے"
"کیا اس پر حملہ کیا گیا تھا"
"نہیں اس قسم کی کوئی اطلاع نہیں ملی"
"کیا فوجیوں نے اسے پکڑنے کی کوشش کی"
"نہیں۔۔۔۔۔لیکن اس پر چاروں طرف سے فائر کئیے جارہے ہیں"
"گولیوں کا نتیجہ" داریان برا سا منہ بنا کر بولا
"ان سے لاتعداد فوجی زخمی ہوئے ہیں"
"اور اس کے باوجود بھی یہ کھیل جاری ہے" داریان غرایا
"حکام نے شہر فوج کے حوالے کر دیا ہے۔ اب تجویز یہ ہے کہ اس پر گولے پھینکیں جائیں"
"پورا شکران کھنڈر بن جائے گا۔ اس خبط سے انہیں باز رکھیے"
"کرنل۔۔۔۔۔آپ جہاں کہیں بھی ہوں جلد از جلد شکران پہنچنے کی کوشش کریں"
" بارش کا زور کم ہونے سے پہلے یہ ناممکن ہے کیونکہ ہیلی کاپٹر استعمال کرنا خطرے سے خالی نہ ہوگا"
"بہرحال جلدی کیجئے" دوسری طرف سے کہا گیا اور آواز آنی بند ہوگئی۔
"وہی ہوا جس کا ڈر تھا" داریان طویل سانس لے کر بولا
"ضرغام کی نیک نفسی کہاں گئی" حادی نے کہا
حادی نے غار کے دہانے پر آکر دیکھا۔بارش کے زور میں کمی نہیں ہوئی تھی۔ وہ پھر واپس آگیا۔
"کیا آپ واپسی کی تیاری کر رہے ہیں" اس نے داریان سے پوچھا
"کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا"
"بارش کا وہی عالم ہے"
قبل اس کے کہ داریان کچھ کہتا ٹرانسمیٹر سے آواز آئی۔
"بحری فوج کے لئے جو بندرگاہ تعمیر کی جا رہی ہے فوراً روک دی جائے ورنہ اس کا انجام بہت برا ہوگا۔ میں پروفیسر ضرغام۔۔۔۔۔۔یہاں کی حکومت سے مخاطب ہوں۔ سارے جنگی جہاز وہاں سے کل صبح تک ہٹائے جائیں۔ اور اپنے جاسوسوں کو میری تلاش سے باز رکھا جائے۔ ورنہ ہر شہر میں کم از کم ایک سائبرگ ضرور نظر آئے گا۔ یہ میری وارننگ ہے۔ کل صبح تک نیوی کے جہاز ہٹ جانے چاہییں ورنہ بہت بڑے خسارے کا سمانہ کرنا پڑے گا۔"
اواز ختم ہوگئی۔ کچھ دیر کے لئے سکوت تاری ہوگیا۔ کیپٹن حادی سوچ رہا تھا کہ شاید اب ان کے زوال کا وقت قریب آگیا ہے۔ سائبرگ کے آگے کوئی نہیں ٹھہر سکتا تھا۔
"میرا خیال ہے کہ ہم کسی جال میں پھنس چکے ہیں۔ مجھے ضرغام سے توقع نہیں ہے کہ اتنی جلدی بدل جائے گا۔ مجھے وہ پتھر ابھی تک یاد ہے جو محکمہ سراغرسانی کے دفتر میں سائبرگ پر پھینکا گیا تھا"
"مگر ہم جال میں کس طرح پھنس سکتے ہیں؟"
"میں اس وقت اسمگلروں کی بات کر رہا ہوں"
"وہ اس ٹرانسمیٹر کے زریعے ہمیں کیسے ٹریپ کریں گے"
"کر چکے فرزند! مجھ سے احتیاط برتنے کے باوجود بھی ہیلی کاپٹر کا تزکرہ آہی گیا"
"میں نہیں سمجھ سکا" حادی نے اکتا کر کہا
" ہیلی کاپٹر ہونے کا یہی مطلب ہے کہ ہم دشوار گزار پہاڑیوں میں سفر کر رہے ہیں۔ اور شکران ویلی کے علاوہ دشوار گزار پہاڑیاں کہیں نہیں ملیں گی"
حادی منہ کھول کر رہ گیا۔ جبکہ ماہرین بھی خوفزدہ نظر آنے لگے۔
"پریشان ہونے کی ضرورت نہیں" داریان مسکرایا
"آپ غلط سمجھے۔ ہم خائف نہیں ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ ہمیں جنگ و جدل کا تجربہ نہیں ہے"
"اس کی پروہ نہ کیجئے"
"اگر گولی لگ گئی۔ مارے گئے تو کیا پروہ کرنے والے کرائے پر مہیا کئے جائیں گے" حادی نے کہا
"بکواس نہ کرو" داریان نے اسے ڈانٹا
کچھ دیر بعد بارش کا زور کم ہونے لگا۔ انہوں نے اپنا سامان سنمبھالا اور اس طرف چل پڑے جہاں ہیلی کاپٹر کھڑا کیا گیا تھا۔ حادی اس وقت تک ریوالور سنمبھالے رہا جب تک ہیلی کاپٹر فضاء میں نہیں بلند ہو گیا۔
جیسے ہی ہیلی کاپٹر شہر میں داخل ہوا ٹرانسمیٹر پر فوجی وائرلیس سے پوچھ کچھ ہونے لگی۔ داریان نے اپنی شخصیت ظاہر کئے بغیر پرواز کی اہمیت بتائی۔
پھر ہیلی کاپٹر کو لینڈ کیا گیا۔لیکن کریسینٹ ہوٹل تک پہنچنے کا مرحلہ ابھی باقی تھا کیونکہ ہیلی پیڈ ایریا کے باہر فوجیوں کا کڑا پہرا تھا۔ یہیں انہیں معلوم ہوا کہ سائبرگ پر گولے بھی پھینکے گئے تھے اور ان کا بھی وہی حشر ہوا جو گولیوں کا ہوا تھا۔ پھر ایک حادثہ اور ہوا جب سائبرگ نے فضاء میں پرواز شروع کی تو ایک جیٹ طیارہ اس کے تعاقب میں روانہ ہوا۔ لیکن وہ بھی تباہ ہو گیا۔ کسی کو نہ معلوم ہو سکا کہ یہ حادثہ کیسے ہوا تھا۔ پائیلٹ بچا ہی نہیں تھا کہ تفصیل معلوم ہو سکتی۔
لہٰذا انہوں نے وہیں رات بسر کرنے کا ارادہ کیا۔ اگر داریان چاہتا تو وہیں سے امجد کو فون کر کے اپنی روانگی کا انتظام کرا سکتا تھا۔ لیکن اس نے خود ہی ہوٹل جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔
                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Continue............
GOOD READS 😊
ENJOY THE EPISODE 💜

بدلتے نقشے(Complete)Where stories live. Discover now