قسط نمبر 12

67 8 0
                                    

سراسیمگی صرف شکران تک ہی محدود نہیں تھی۔ بلکہ اس کا اثر پورے ملک پر پڑا تھا۔ چونکہ ضرغام کا اعلان ملک کے گوشے گوشے میں سنا گیا تھا۔ اسلئے بدہواسی پھیلنا لازمی تھا۔
دوسرے ہی دن شکران ویلی فوجی علاقہ قرار دے دی گئی۔ لوگ شکران ویلی سے بھاگنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ لیکن چونکہ نظم و نسق فوج کے ہاتھ میں تھا اس لئے وہ روکے جانے پر احتجاج بھی نہیں کر سکتے تھے۔
داریان اور حادی عضو معطل کی طرح محکمہ سراغرسانی کے آفس میں وقت گزار رہے تھے۔ سپرنٹینڈنٹ ہمزہ داریان سے کہہ رہا تھا" اسی شکران ویلی میں کیا کیا نہیں ہوا۔ وہ بھیانک آدمی مجھے آج تک یاد ہے۔ آپ ہی تو تھے جس نے گونزالو کو اس کے انجام تک پہنچایا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ ضرغام بھی آپ ہی کے ہاتھوں شکست کھائے گا"
"ضروری نہیں" داریان کچھ سوچتے ہوئے بولا "اس سلسلے میں کم از کم اتنا ہیجان نہیں تھا"
ہمزہ کچھ نہ بولا۔ داریان نے کہا" اگر بحریہ کے جہاز نہ ہٹائے گئے تو حقیقتاً حکومت کو کسی بڑے خسارے سے دوچار ہونا پڑے گا"
"کس قسم کا خسارہ"
"یہ تو وقت آنے پر ہی معلوم ہو سکے گا"
"آپ اس کے لئے کچھ نہیں کر سکتے"
"فلحال اتنا کہ سارے بحری جہاز ہٹانے کا مشورہ دوں۔ میں نے ہیڈ آفس کو اس سلسلے میں پیغام پہنچا دیا ہے"
"میرے خیال سے جہاز وہاں سے نہیں ہٹائے جائیں گے" حادی بول پڑا
"وہ ہٹائیں یا نہ ہٹائیں میری رائے یہی ہے۔ فلحال زیادہ سے زیادہ بچاؤ کرنا پڑے گا"
داریان اپنی وضاحت پیش کر رہا تھا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ ضرغام کی دھمکی کا انجام دیکھے بغیر نئے سرے سے کام نہیں شروع کرنا چاہتا تھا۔
شام میں وہ کریسینٹ ہوٹل میں واپس آ گئے۔ ان کا قیام اب بھی یہیں تھا۔ کریسینٹ پہنچ کر حادی کو  نعمان کی تلاش ہوئی کیونکہ وہ بے تحاشہ بور ہو رہا تھا۔
نعمان مل تو گیا لیکن حادی کو دیکھتے ہی اس کا منہ پہلے سے زیادہ ٹیڑھا ہو گیا۔
"کیا بات ہے" حادی نے پوچھا
"میں گھر جاؤں گا" نعمان غرایا
"تمہیں روکا کس نے ہے؟"
"سب تمہاری حرکت ہے"
"میں نے کیا کیا ہے"
"باہر فوجی موجود ہیں"
"آ۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔وہ تو ہمیں بھی روک رہے ہیں"
"چلے جاؤ۔۔۔۔میں بات نہیں کرنا چاہتا" نعمان آنکھیں نکال کر بولا "تم بھیس بدل کر مجھے الو بناتے ہو"
"شاید تم نشے میں ہو"
"تم خود مشے میں ہوگے۔مجھے مرحا نے بتایا تھا۔ اللّٰہ کرے تمہاری قبر میں کیڑے پڑیں"
"بڑی بی ایسا نہ کہو"
"چلے جاؤ ورنہ اچھا نہیں ہو گا"
"شاید تمہیں کسی نے ورغلایہ ہے۔۔۔۔مرحا تمہیں کب اور کہاں ملی تھی"
"میں اب اس کا نام بھی نہیں سننا چاہتا"
"مجھے اس کی تلاش ہے اگر مل گئی تو ایسی سزا دوں گا جو زندگی بھر یاد رہے"
"کیوں؟کیوں؟"
"اس نے مجھے دھوکا دیا۔ وہ پکی فراڈ ہے"
"کیسے دھوکا دیا"
"اس کا ایک ساتھی ہے بڑی مونچھوں والا"
"اب زیادہ الو نہ بناؤ۔ وہ تم ہی تو تھے۔"
"تمہیں کسی نے بہکایا ہے۔ کیا اسی نے بتایا تھا کہ وہ بڑی مونچھوں والا میں تھا"
"ہاں۔۔۔!"
"کتنی مکار ہے...! لیکن تم بتاؤ اس سے اتنے بیزار کیوں ہو؟"
"جہاں بھی مل گئی گلا گھونٹ کر مار ڈالوں گا"
"آخر کیوں!"
"کیوں۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔کیا کرتے ہو" نعمان جھلاہٹ میں بولا
"میں عنقریب اسے حراست میں لینے والا ہوں"
"وہ مجھے نا جانے کہاں لے گئی تھی۔۔۔۔کباڑا کر دیا پیدل چلتے چلتے اس کی ایسی کی تیسی"
"کہاں لے گئی تھی؟"
"فیسٹیول سے لے گئی تھی۔ وہ جس رات طوفان آیا تھا اس کی دوسری رات میرے پاس آئی اور کہنے لگی"
نعمان اسی کے انداز میں دہرانے کی کوشش کرتا ہوا بولا " چلو میرے ساتھ میری گاڑی میں بیٹھ جاؤ"
"گاڑی۔۔۔۔وہاں فیسٹیول میں" حادی نے حیرت سے کہا
"سنو تو۔۔۔۔میں بلکل الو ہو گیا تھا۔ میں نے کہا چلو۔۔۔کہاں ہے گاڑی۔ وہ مجھے وہاں لائی جہاں گاڑی کھڑی تھی۔ میں اس کے ساتھ ہی اس میں بیٹھ گیا۔ کہ اچانک گاڑی ہوا میں بلند ہونے لگی۔ میں نے خوب غل غپاڑہ مچایا۔ جس پر وہ بولی"
پھر مرحا کی آواز کی نقل اتارنے کی کوشش کرتا ہوا بولا " سائبرگ ہمیں اپنے گھر لے جا رہا ہے۔ وہ مجھے تنہا لے جا رہا تھا لیکن میں نے سوچا کہ اپنے موٹے بھیّا کو بھی لیتی چلوں۔ کچھ دیر بعد ہم لوگ واپس آجائیں گے"
"گاڑی اڑنے لگی تھی" حادی نے بے اعتباری کے ساتھ پوچھا
"ہاں اڑنے لگی تھی"
"تم نے سائبرگ کو دیکھا تھا"
"نہیں۔۔۔۔وہ تو بعد میں نظر آیا جب ہم وہاں اترے تھے"
"کہاں اترے تھے"
"تمہارے باپ کے سسرال میں" نعمان جھلا کر بولا "ابے میں کیا جانوں کہاں اترے تھے"
"اچھا۔۔۔۔!" حادی نے غصیلی آواز میں کہا "تم اتنی دیر سے مجھے بے وقوف بنا رہے تھے"
"میں سچ بول رہا ہوں۔۔۔۔وہ ایسی جگہ تھی جہاں پتھروں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا"
"ٹھیک ہے۔۔۔۔پھر!"
"میری طبعیت خراب تھی۔جب وہ گاڑی نیچے اتری تو سائبرگ بھی دکھائی دیا۔ اس نے مرحا سے کہا کہ اسے یہیں اتار دو۔ واپسی میں اسے یہاں سے لے لیں گے۔ مرحا اس پر تیار نہیں ہوئی۔ لیکن سائبرگ نے زبردستی کھینچ کر مجھے نیچے اتار دیا اور گاڑی نیچے چلے گئی"
"گاڑی نیچے چلی گئی۔۔۔۔؟ کہاں"
"جہاں میں اترا تھا اس کے نیچے بڑی گہرائی میں زمین تھی"
"تو وہ اس گہرائی میں اتر گئی تھی"
"ہاں۔۔۔اور غائب ہوگئی"
"پھر کیا ہوا" حادی اشتیاق سے بولا
"پھر کیا ہونا تھا۔۔۔۔کباڑا ہوا۔۔۔۔بارش ہونے لگی۔۔۔۔سر چھپانے کو جگہ نہ تھی۔ادھر اُدھر بھاگتا رہا۔ پھر ایک غار مل گیا"
"واپسی پر تم اسی گاڑی میں آئے ہوگے"
"مت جان جلاؤ گھونسا مار دوں گا"
"کیوں پیارے....!"
"پیارے مت کہو۔ پیرے کہنے والے پکے فراڈ ہوتے ہیں۔اس نے بھی تو پیارا کہا تھا" نعمان لچک گیا " لیکن پیارا سالا بارش میں بھیگتا رہا اور بھوکا رہا"
نعمان کی آواز دردناک ہوگئی۔
"کیا وہ تمہیں واپس نہیں لائی تھی"
"نہیں۔۔۔۔۔میں وہاں بھٹکتا رہا۔ مجھے راستہ بھی نہیں معلام تھا۔ ایک چرواہے نے مجھے یہاں تک پہنچایا۔ وہ بیچارہ اپنی بھیڑیں ذبح کرتا تھا اور بھون کر مجھے کھلاتا تھا"
"لیکن تم جس راستے سے پیدل آئے تھے کم از کم وہ تو تمہیں یاد ہی ہوگا"
"مجھے اتنا ہوش نہیں تھا کہ راستہ یاد رکھ سکتا"
"تم بلکل کوڑ مغز ہو" حادی کو غصہ آگیا
"اے۔۔۔۔زبان سنمبھال کے راستہ میں بھولا ہوں یا تم"
"تم گدھے ہو"
"تم گدھے کے باپ۔ خاموش رہو میں کچھ سوچنا چاہتا ہوں"
حادی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ نعمان کے بیان پر یقین کرے یا نہ کرے۔وہ چند لمحے اسے گھورتا رہا پھر بولا " میں بھی تو سنوں تم کیا سوچ رہے ہو"
"کیوں بتاؤں.....!"
"تم جو کچھ بھی سوچ رہے ہو اس کا جواب صرف میں ہی دے سکتا ہوں۔ ویسے تم سوچتے سوچتے مر جاؤ تب بھی تمہیں جواب نہ ملے گا"
"کیوں نہ ملے گا"
"زیادہ پیدل چلنے کی وجہ سے دماغ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہتا۔ اور پھر تم تو کچھ زیادہ ہی چل لئے ہو"
"بہت زیادہ۔۔۔۔دو دن بعد یہاں پہنچا ہوں"
"اور پھر سوچنے کی کوشش کر رہے ہو۔ لعنت ہو تم۔۔۔۔۔اررر۔۔۔۔۔ مجھ پر"
"کہہ دو تم پر" نعمان بولا "کیسی درگت بناتا ہوں"
"چھوڑو۔۔۔۔بتاؤ کیا سوچ رہے تھے"
"میں سوچ رہا ہوں کہ آخر سائبرگ محبت کیسے کرتا ہوگا"
حادی نے برا سا منہ بنایا۔ وہ سمجھا تھا شاید کوئی ایسی بات سوچ رہا ہے جس سے ممکن ہے معلومات میں مزید اضافہ ہو سکے۔
"سائبرگ کی محبت کا خیال کیسے آیا" حادی نے کہا
"پھر وہ اسے کیوں لے گیا"
"اس کے باپ سے پوچھ کر بتاؤں گا" حادی نے کہا اور نعمان کے کمرے سے چلا آیا۔ وہ جلد از جلد داریان کو یہ کہانی سنانا چاہتا تھا۔
داریان نے اسے بہت سکون کے ساتھ سنا۔ حادی جب کہانی سنا چکا تو اس نے کہا " نعمان کہاں ہے"
"اپنے کمرے میں"
"میں اس کی زبان سے سارے واقعات سننا چاہتا ہوں"
داریان نعمان کے کمرے کی طرف چلا گیا۔ اور حادی آنکھیں موند کر کرسی پر لیٹ گیا اس کے ذہن میں نعمان کی کہانی چکرانے لگی تھی۔ تھوڑی دیر بعد داریان واپس آگیا۔
"میرا خیال ہے وہ کہانی نہیں حقیقت ہے" داریان نے کہا
"کیوں۔۔۔!"
"اتنا شاندار جھوٹ اس کے بس کا روگ نہیں"
"مگر وہ راستہ ہی بھول گیا"
"چرواہا۔۔۔۔نعمان کے بیان کے مطابق وہ انہیں اطراف میں کہیں رہتا ہے" داریان کچھ سوچتا ہوا بولا
"اس کی تلاش آسان نہ ہوگی"
"نعمان نے جو حلیہ بتایا ہے اس کے مطابق دشواری بھی نہیں ہوگی"
داریان نے فون کا ریسیور اٹھایا اور سپرنٹینڈنٹ ہمزہ کا نمبر ڈائیل کیا۔
"ہیلو۔۔۔! سپر ہمزہ! میں داریان بول رہا ہوں۔ شکران ویلی کے اطراف میں کسی ایسے چرواہے کو تلاش کرائیے جس کے بائیں ہاتھ کی دو انگلیاں کٹی ہوئی ہوں"
"خیریت۔۔۔؟"
"بہت ضروری ہے"
"اچھی بات ہے"
"شکریہ" داریان نے ریسیور رکھ دیا
"اگر ضرغام پر قابو نہ پایا جاسکا تو" حادی بولا
"بس کل صبح تک اور ٹھہر جاؤ۔ میں دیکھ لوں کہ وہ اپنی دھمکی کو کیسے عملی جمہ پہناتا ہے" داریان نے جواب دیا اور شکران ویلی کے نقشے پر جھک پڑا۔
                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

CONTINUE..........
GOOD READS 😊
ENJOY THE EPISODE 💜

بدلتے نقشے(Complete)Where stories live. Discover now