قسط نمبر 14

84 7 0
                                    

حادی کو اچھی طرح یاد نہیں کہ وہ ہنگامہ کتنی دیر تک جاری رہا تھا۔ ویسے یہ ضرور ہوا کہ اس افراتفری میں داریان کا ساتھ چھوٹ گیا۔ ویسے جس کا بھی ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا وہ اسے کھینچتا ہوا ایک طرف بڑھتا چلا جارہا تھا۔ خیال یہ تھا کہ وہ نعمان کے علاوہ کوئی نہ ہوگا۔
فائروں کی آوازیں اب نہیں آرہی تھیں۔لیکن وہ دوڑتے ہوئے قدموں کی آوازیں اب بھی سن رہا تھا۔ گھپ اندھیرے میں وہ کئی بار گرتے گرتے بچا۔ اور آخر اسے رکنا پڑا۔
وہ ڈر کر نہیں بھاگا تھا۔اس کے قدم غیر ارادی طور پر ایک طرف اٹھ گئے تھے اور پھر اس اندھیرے میں ٹھہرنا حماقت ہی ہوتی۔ جب کہ اسے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ داریان نے ٹرانسمیٹر پر کن آدمیوں کو مخاطب کیا تھا اور ان کا حملہ کس جانب سے ہوگا۔
"نعمان....!" اس نے آہستہ سے کہا
لیکن جواب ندارد۔ حالانکہ اس کا ہاتھ اب بھی ہاتھ ہی میں تھا۔ حادی نے ہاتھ چھوڑ کر ٹارچ نکال لی۔ اور اب اس کی روشنی میں اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ یہ وہی چرواہا تھا جو رہنما کی حیثیت سے ان کے ساتھ آیا تھا۔
دوسرے لمحے میں حادی نے ریوالور نکال کر اس کے سینے پر رکھ دیا۔
"تم نے ہمیں دھوکا دیا" وہ اسے لات مار کر ایک طرف گراتا ہوا بولا
"سنئیے تو صاحب۔۔۔۔اس نے مجھے رقم دی تھی" چرواہا گڑگڑایا
" تم نے اسے اپنا بھائی کیوں ظاہر کیا تھا"
"اس نے یہی کہا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ وہ آفیسر لوگ ہیں اور مجھے اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں میں کسی اور کو ساتھ نہیں لے جاؤں گا۔ لیکن اس نے مجھے اس سے زیادہ رقم دی اور کہا کہ میں اسے اپنا بھائی ظاہر کر کے ساتھ لے جا سکتا ہوں"
"تمہارے بھائی نے جو کچھ بھی کیا ہے اس کا بدلہ تم سے لیا جاسکتا ہے"
چرواہا گڑگڑا رہا تھا۔۔۔۔۔۔اچانک کسی نے حادی پر چھلانگ لگائی اور ساتھ ہی اس نے چرواہے کی چیخیں بھی سنیں۔ چونکہ حملہ بے خبری میں ہوا تھا اس لئے حادی کو سنمبھلنے کا بھی موقع نہ مل سکا۔ اس کا سر بہت زور سے پتھریلی زمین پر پڑا تھا۔ اور چوٹ ایسی نہ تھی کہ وہ تھوڑی ہی دیر تک ہوش میں رہ سکتا۔
اور جب ہوش آیا تو آنکھیں خیر ہوگئیں۔ اس نے بوکھلا کر دونوں آنکھیں کھول لیں۔ اس نے اپنی جیبیں ٹٹولیں مگر ریوالور غائب تھا۔ مگر پھر یاد آیا کہ ریوالور تو اس وقت اس کے ہاتھ میں تھا جب کسی نے اس پر چھلانگ لگائی تھی۔
اب وہ چاروں طرف کا جائزہ لینے لگا۔ یہ ایک کافی وسیع کمرہ تھا لیکن حادی کو کہیں کھڑکی یا دروازہ نہیں دکھائی دیا۔ پھر یہ سوچ کر اس کا دم گھٹنے لگا۔ لیکن یہ گھٹن محض ذہنی تھی۔ جسمانی طور پر وہ ذرہ برابر بھی تکان نہیں محسوس کر رہا تھا۔
کچھ دیر بعد دیوار میں ایک دروازہ نمودار ہوا۔ دروازے سے اندر آنے والی ایک لڑکی تھی جس نے اپنا چہرہ چھپا رکھا تھا۔ اس کے اندر آتے ہی دیوار برابر ہو گئی۔
لڑکی نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ اور جب اس نے اپنے چہرے پر سے نقاب ہٹائی تو حادی اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ یہ مرحا تھی۔ اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ لیکن اس مسکراہٹ کا مفہوم حادی نہ سمجھ سکا۔
"تم آخر آہی گئے" اس نے آہستہ سے کہا
"ہاں۔۔۔۔لیکن یہ اب معلوم ہوا کہ ضرغام اور اسمگلروں میں کتنا گہرا تعلق تھا"
"میں ضرغام کے لئے بہت رنجیدہ ہوں"
"کیا مطلب؟"
"بابا نے میرے ساتھ بھی فراڈ کیا" مرحا نے ٹھنڈی سانس لی
"یعنی۔۔۔۔!"
"یعنی اپنی فکر کرو۔تم زندہ نہیں بچو گے، بابا بہت خونخوار ہیں"
"مجھے کوئی نہیں مار سکتا" حادی مسکرایا "کیا کرنل بھی پکڑ لئے گئے ہیں"
"نہیں۔۔۔۔۔نہ وہ اور نہ ہی وہ موٹا"
"تب تو تم اپنے بابا کے کفن دفن کا انتظام ابھی سے شروع کر دو"
"بابا پر ہاتھ ڈالنا بہت مشکل ہے۔ ویسے اب مجھے ان سے بھی نفرت ہوگئی ہے۔ انہوں نے مجھے ضرغام تک پہنچنے کے لئے استعمال کیا۔ ابا نہیں شکست دینا بہت مشکل ہے. وہ ساری دنیا کو تباہ کر سکتے ہیں"
"سائبرگ کو ہم نے تباہ کر دیا"
"سائبرگ" مرحا ہونٹ سکوڑ کر بولی " یہاں اس سے بھی زیادہ خوفناک بلائیں موجود ہیں۔کیا تم بھول گئے نیوی کا جہاز کس طرح تباہ ہوا تھا۔ ایک زرا سے کوسمک بولٹر نے اس کے پرخچے اڑا دئے تھے۔ کوسمک بولٹر سمجھتے ہو"
"نہیں۔۔۔۔پہلی بار سنا ہے"
"یہ کائناتی شعاعیں ہیں جو کہ اعلی توانائی کے پروٹان اور ایٹم ہوتے ہیں۔ جو روشنی کی رفتار سے خلا میں گزرتے ہیں۔ یہ سورج سے نکلتے ہیں ، نظام شمسی کے باہر سے اور دور کی کہکشاؤں سے۔ اسے بندر گاہ کی جگہ پر استعمال کیا گیا۔ جس نے صرف کنٹرول روم میں بیٹھے بیٹھے جہاز کے پرخچے اڑا دئے۔"
"لیکن ضرغام کیسے قابو میں آیا"
"بابا نے مجھ سے کہا تھا کہ شاید ضرغام تم سے دوستی کرنا چاہتا ہے لہٰذا تمہیں بھی چاہئے کہ اس تک پہنچنے کی کوشش کرو۔ میں نے سائبرگ سے ایک دن خواہش ظاہر کی کہ میں اس کا گھر دیکھنا چاہتی ہوں۔ وہ تیار ہو گیا۔ لیکن میں تنہا نہیں جانا چاہتی تھی۔ میری نظر موٹے پر پڑ گئی۔ میں نے سوچا کہ اسی کو ساتھ لے چلوں۔ سائبرگ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ وہ اپنے ساتھ ایک عجیب وضع کی گاڑی لایا تھا جو اڑ بھی سکتی تھی۔ ایک جگہ سائبرگ نے موٹے کو اتار دیا اور بولا کہ واپسی میں اسے ساتھ لے لیا جائے گا۔ بہرحال ہم ایک جگہ اترے جہاں چھ آدمی پہلے سے موجود تھے۔ ان میں ضرغام بھی تھا۔ اس نے کہا کہ وہ مجھے ایک نڈر اور باہمت لڑکی سمجھتا ہے۔ ابھی اتنی ہی بات ہوئی تھی کہ بابا اور اس کے ساتھی برین گنیں لئے داخل ہوئے۔ ان لوگون نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہمارا تعاقب کیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ضرغام اور اس کے ساتھی قیدی بنا لئے گئے۔"
"لیکن ضرغام نے اسے ان چیزوں کا استعمال کیسے بتا دیا"
"ضرغام مرنا نہیں چاہتا۔ بابا نے اسے ایسی اذیتیں دیں کے کلیجہ بھی پانی ہو جاتا ہے۔ اور اب وہ بابا کا ہر حکم بجا لاتا ہے اور میں بابا کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔ لیکن میں نے اپنی نفرت ان پر ظاہر نہیں ہونے دی۔اچھا۔۔۔۔اٹھو۔۔۔۔مجھے حکم ملا ہے کہ تمہیں اس کے سامنے پیش کروں"
مرحا نے ریوالور نکال لیا اور حادی نے مسکراتے ہوئے بائیں آنکھ دبا کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دئیے۔
"سیدھے چلو" مرحا بولی "میں مجبور ہوں لیکن کوشش کروں گی کہ تمہیں بچا لیا جائے"
"شکریہ۔ میں بچ جانے کے لئے کسی کا محتاج نہیں بن سکتا۔ تم مجھے اچھی طرح جانتی ہو"
"بابا بہت خطرناک ہیں۔ وہ کرنل کو بھی طفلِ مکتب سمجھتے ہیں"
حادی جیسے ہی دیوار کے قریب پہنچا دروازہ نمودار ہو گیا۔
"چلتے رہو۔۔۔۔!" مرحا نے کہا۔ وہ ریوالور لئے ہوئے اس کے پیچھے چل رہی تھی۔
حادی خاموشی سے چلتا رہا اور پھر وہ ایک بہت بڑے کمرے میں آئے۔یہاں کچھ آدمی نظر آئے ان میں وہ چرواہا بھی تھا جس نے حادی اور داریان کے ساتھ سفر کیا تھا۔ زخمی چرواہے کا ہاتھ ابھی تک اسی حالت میں تھا۔
اس نے حادی کو دیکھ کر دانت پیستے ہوئے کہا" اب میں دیکھوں گا کہ تم لوگ کتنے طاقتور ہو"
"اگر تم یہ بات کسی کھلی جگہ پر کہتے تو میں تمہاری کافی قدر کرتا" حادی مسکرا کر بولا
"گن گن کر سارے بدلے چکاؤں گا"
مرحا اسے تیکھی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔حادی کچھ نہ بولا۔ وہ چاروں طرف نظریں دوڑا رہا تھا۔ ویسے یہ حقیقت تھی کہ اس کا ذہن داریان میں الجھا ہوا تھا۔ اس چرواہے کی موجودگی کا مقصد تو یہی ہوسکتا تھا کہ داریان کو شکست ہوئی ہے۔
دفعتاً سامنے والی دیوار میں ایک دروازہ نمودار ہوا اور دو آدمی اندر داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک تو بوڑھا تھا جبکہ دوسرے کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں تھیں اور اس کی آنکھوں سے گہرا غم جھانک رہا تھا۔
بوڑھے نے حافی کو نیچے سے اوپر تک دیکھا اور پھر قہر آلود نظروں سے زخمی چرواہے کی طرف دیکھنے لگا۔
"دلاور! تم اپنے لئے خود ہی کوئی سزا تجویز کرو"
"تم ہوش میں ہو یا نہیں۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ مجھ سے اس لہجے میں گفتگو کر سکو" دلاور غصیلی آواز میں بولا
"محض تمہاری وجہ سے داریان کو علم ہوا تھا کہ ہماری تجارت کی پشت پر کون ہےاور اب تم سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ اسے پکڑ کر یہاں تک لاسکتے۔تمہاری وجہ سے سائبرگ جیسی کارآمد چیز تباہ ہوگئی." بوڑھا غرایا
"میں تمہارے سامنے جوابدہ نہیں ہوں"
"تمہیں سزا ضرور ملے گی"
"کس میں ہمت ہے" دلاور سینہ تان کر بولا "میں صرف مرزا صاحب کو جوابدہ ہوں"
"تم ایک سراغرساں کے سامنے مرزا صاحب کا نام لے رہے ہو" بوڑھا غرایا
"شٹ اپ۔۔۔!" دلاور بھی اسی انداز میں دھاڑا "کیا یہ سراغرساں اب آسمان دیکھ سکتا ہے"
"لیکن مرزا صاحب کا نام تمہاری زبان پر کیسے آیا۔ تمہیں اس کی سزا ضرور ملے گی" بوڑھے نے کہا اور پھر مرحا کی طرف دیکھ کر بولا" مرحا تمہارے باپ کا قاتل یہی ہے"
"بابا۔۔۔۔!"
"ہاں مرحا۔۔۔میں برا آدمی ضرور ہوں لیکن خواہ مخواہ جھوٹ نہیں بولتا"
"مجھے یاد نہیں" دلاور نے لاپرواہی سے شانوں کو جنبش دی
مرحا نے اپنے ہاتھ میں دبے ہوئے ریوالور پر نظر ڈالی  لیکن پھر دوسرے ہی لمحے اس نے خنجر نکال لیا اور ریوالور بوڑھے کی طرف اچھال دیا.
"کیا تمہیں اس لڑکی پر رحم نہیں آتا" دلاور نے بوڑھے سے کہا
"مرحا۔۔۔۔تمہاری تربیت میرے ہاتھوں سے ہوئی ہے"
مرحا کسی شیرنی کی طرح دلاور پر جھپٹ پڑی۔ دلاور نے پہلا وار خالی دیا۔ مرحا دور کھڑی دوسرے حملے کی تاک میں تھی۔ دوسری مرتبہ مرحا نے چھلانگ لگائی اور دلاور نے پینترا بدلا حادی متحیر رہ گیا۔ مرحا خنجر کھینچ کر پیچھے ہٹ آئی۔
"بہت اچھے" بوڑھا بولا
اس بار دلاور مرحا پر جھپٹا لیکن مرحا اس کی دائیں پسلی میں وار کرتی ہوئی پیچھے ہٹ گئی۔
"واہ بھئی! کیا ہاتھ تھا۔۔۔!" حادی بیساختہ بول پڑا
"دیکھا دلاور! دشمن بھی تعریف کرتے ہیں" بوڑھے نے ہنس کر کہا
دلاور کھڑا آگے پیچھے جھول رہا تھا اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔ وہ یک بیک بوڑھے کی طرف جھپٹا لیکن مرحا نے اس کے بال پکڑ لئے اور جھٹکا دے کر داہنی پسلی پر بھی ایک وار کیا۔ اس مرتبہ دلاور اپنے پیروں پر کھڑا نہ رہ سکا۔ فرش پر خون پھیل رہا تھا۔
"اب تم اسی طرح سسکتے رہو" مرحا بولی
"شاباش۔۔۔!" بوڑھے نے جوش سے کہا
مرحا کچھ نہ بولی۔ وہ دلاور کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر خوشی اور حیرت کے ملے جلے آثار تھے۔ حادی خود کو لاپرواہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"کیوں کیپٹن؟ کیا تم بھی اسی لڑکی کے ہاتھوں مرنا پسند کرو گے" بوڑھے نے مسکرا کر حادی کو مخاطب کیا۔
"ہر گز نہیں" حادی بھی جواباً مسکرایا
"کیا تم سمجھتے ہو کہ یہاں سے بچ کر نکل جاؤ گے" بوڑھا سنجیدگی سے بولا
"یہ جملہ نہ دہراؤ۔ یہ جملہ ہمیشہ سے منحوس ثابت ہوتا چلا آرہا ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے دلاور نے بھی یہی کہا تھا۔ اس کا انجام تمہارے سامنے ہے"
"مرحا۔۔۔۔۔اسے بھی ختم کر دو" بوڑھے نے کہا
مرحا چند لمحے حادی کو گھورتی رہی پھر بولی" یہ ایک غیر دانشمندانہ فعل ہوگا بابا"
"کیوں۔۔۔۔؟" 
"اسے داریان کو پھانسنے کے لئے کیوں نہ استعمال کیا جائے۔ویسے وہ ہاتھ نہیں آئے گا۔"
"تم ٹھیک کہہ رہی ہو مرحا" بوڑھا کچھ سوچتا ہوا بولا اور پھر حادی کی طرف دیکھ کر کہا " تم نے دیکھا اس لڑکی کو۔۔۔۔۔۔ایسے حالات میں بھی عقلمندوں کی طرح سوچتی ہے"
حادی کچھ نہ بولا۔
                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Continue..........
GOOD READS 😊
ENJOY THE EPISODE 💜

بدلتے نقشے(Complete)Where stories live. Discover now