قسط نمبر 5

108 10 0
                                    

حادی کی آنکھوں میں تارے ناچ گئے۔جب اس نے گاڑی کے باہر سات آدمیوں کو ریوالور لئے ہوئے دیکھا۔ ریوالوروں کا رخ ان ہی کی طرف تھا۔
"تمہارے آدمی کہاں رہ گئے" لڑکی بڑبڑائی
"پتہ نہیں"
"تب پھر مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ ایک نہیں سات ریوالور ہیں"
دفعتاً ایک آدمی نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور حادی کو گریبان سے پکڑ کر کھینچ لیا۔ قدرت کی طرف سے حادی کو ایک شاندار موقع ملا تھا لہٰذا وہ اس سے فائدہ کیوں نہ اٹھاتا۔ اس نے نیچے اترتے اترتے کالر پکڑنے والے کے پیروں میں اپنا داہنا پیر ڈال دیا۔ وہ لڑکھڑا کر حادی پر آپڑا اور حادی نے اسے دبوچ کر ریوالور والوں کے سامنے کر دیا اور مسکرا کر بولا" اس طرح گولی مارو کہ اس کے سینے کے پار ہو کر میرے سینے کے پار ہو جائے کیا سمجھے"
"اسے چھوڑو ورنہ ہم تمہیں سچ مچ یہیں ختم کر دیں گے" ان میں سے کسی نے غرا کر کہا
"یہ اب نہیں چھوٹ سکتا ہاں یہ ممکن ہے کہ تم سب اپنے اپنے ریوالور پھینک کر ہاتھ اوپر اٹھا لو"
یہاں چاروں طرف اونچی نیچی چٹانوں کے سلسلے بکھرے ہوئے تھے۔ گاڑی ایک ویرانے میں روکی گئی تھی۔ حادی کوشش کر رہا تھا کہ وہ اسے نرغے میں نہ لینے پائیں۔
"دیکھتے کیا ہو" کسی نے گرج کر کہا " ان دونوں کو زبردستی الگ کر دو"
حادی تو چاہتا ہی تھا کہ دو ایک اور قریب آجائیں جیسے ہی دو آدمی اس کی طرف بڑھے۔ اس نے اپنے شکار کو ان پر دھکیل دیا۔
اس طرح وہ سب کے سب ایک دوسرے سے ٹکرا کر رہ گئے اور حادی نے نشیب میں چھلانگ لگا دی۔ یہ دیکھے بغیر کہ وہاں سے زمین کی سطح کتنی نیچی ہے۔ اس کے پیر زمین سے ٹکرائے اور وہ گرتے گرتے بچا۔ اس کے چھلانگ لگاتے ہی فائر ہوئے تھے۔ لیکن اب تو وہ ایک چٹان کی آڑ لینے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس نے ریوالور نکالا اور نئے حملے کا انتظار کرنے لگا۔
اچانک اسے گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی اتنی دیر میں گاڑی کافی دور جا چکی تھی۔ یہ دراصل ٹیکسی تھی اور اس کا ڈرائیور اس اچانک واقع پر بوکھلا گیا تھا۔ حالات بدلتے دیکھتے ہی اس نے نکل بھاگنے میں ہی آفیت سمجھی۔
حادی سوچ رہا تھا کہ کیا اس لڑکی نے دھوکا دیا۔ مگر خود اس کے آدمی کہاں رہ گئے تھے اور وہ گاڑی کیا ہوئی جس میں وہ لوگ موجود تھے جن کے متعلق لڑکی نے ریسٹورنٹ میں بتایا تھا، انہوں نے ریسٹورنٹ سے روانہ ہوتے ہی تعاقب شروع کر دیا تھا۔ حادی انہیں راستے بھر دیکھتا آیا تھا مگر اب ان کی گاڑی کہاں تھی۔
دس منٹ گزر گئے نہ کوئی اوپر سے نیچے آیا اور نہ فائر ہوا۔ یہ صورت الجھن میں ڈالنے والی تھی۔ حادی فوری طور پر فیصلہ نہ کر سکا کہ اسے کیا کرنا چاہئے۔اس کے پاس ٹارچ بھی نہیں تھی۔ اس نے جھک کر ایک چھوٹا سا پتھر اٹھایا اور ان لوگوں کی موجودگی یا عدم موجودگی کا اندازہ کرنے کے لئے اسے سڑک پر اچھال دیا۔ پتھر گرنے کی آواز اس نے صاف سنی لیکن پھر نہ تو اس کو قدموں کی آوازیں ہی سنائی دیں اور نہ دوسری طرف سے اس پر کوئی جوابی کارروائی ہوئی۔
کچھ دیر بعد اس نے فیصلہ کیا کہ اسے ٹٹول ٹٹول کر نیچے ہی اترنا چاہیے ممکن ہے کہ رات بسر کرنے کے لئے کوئی معقول سی جگہ مل جائے۔ وہ بہت احتیاط سے نیچے اترنے لگا۔ تھوڑی ہی دور چلا ہوگا کہ کسی کی سرگوشی پر چونک پڑا۔
"کون ہے؟"
سرگوشی کے ساتھ ہی خوشبو کی لپٹوں نے اس کا دماغ معطر کر دیا خوشبو اس کے لئے نئی نہیں تھی کچھ ہی دیر پہلے اسی قسم کی خوشبو اس کے ذہن میں گونجتی رہی تھی۔
"میں ہوں"حادی نے سرگوشی کی
"ٹھہرو۔۔۔۔!" دوسری طرف سے کہا گیا
قبل اس کے کہ حادی کچھ کہتا ایک سایہ اس کے قریب پہنچ گیا۔ خوشبو کی لپٹیں کچھ اور تیز ہو گئیں۔ یہ اس لڑکی کے علاوہ اور کون ہو سکتا تھا جو حادی کو یہاں تک لائی تھی۔
"کون کیپٹن"
"نہیں! اس وقت میرا عہدہ کافی بڑھ گیا ہے اور تم مجھے کیپٹن کے بجائے میجر کہہ سکتی ہو"
"ساری مصیبت محض اس لئے آئی کہ تمہارے آدمی وقت پر وہاں نہیں پہنچ سکے" لڑکی بولی وہ بُری طرح ہانپ رہی تھی
"تم پہلے اپنی سانسیں درست کر لو، میں زرا دیکھ کر آتا ہوں کہ سڑک پر کتنے آدمی موجود ہیں"
"وہاں اب کوئی بھی نہیں ہے۔ وہ سب تم سے بُری طرح خائف ہیں کیونکہ یہ ان کا پانچواں ناکام حملہ تھا"
"مگر تم کیوں رک گئیں کیا وہ تم سے جواب نہیں طلب کریں گے"
"نہیں وہ سمجھتے ہوں گے کہ میں ٹیکسی میں چلی گئی۔لیکن میں ٹیکسی سے اس طرح اتری تھی کہ ڈرائیور کو بھی خبر نہیں ہوئی تھی"
"میں نے پوچھا تھا تم رک کیوں گئیں"
"اس ہنگامے میں پھر اور کیا کرتی "
"تم ان کے ساتھ بھی جاسکتی تھیں"
"میں اس ویرانے میں ان پر اعتماد نہیں کر سکتی تھی"
"مجھے بے وقوف مت بناؤ تم دن رات ان کے ساتھ رہتی ہو"
"یہ قطعی غلط ہے۔ ان میں صرف ایک آدمی ہے جس کے ساتھ میں رہتی ہوں۔ اس نے میری پرورش کی تھی اور بیٹی کی طرح عزیز رکھتا ہے"
"لاجواب اور تم سے اسی طرح کے کام بھی لیتا ہے"
"طنز پھر کرنا کیپٹن" لڑکی جل کر بولی "تم یہ نا سمجھو کہ انہوں نے تمہارا پیچھا چھوڑ دیا ہے۔ وہ اس وقت تمہیں اس ویرانے سے باہر نہیں جانے دیں گے"
"جب تک مجھ میں آخری سانس باقی ہے وہ مجھ پر ہاتھ نہیں ڈال سکیں گے"
"چلو۔۔۔۔!" لڑکی اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف گھسیٹنے لگی۔ حادی چلتا رہا اسے لڑکی کی رفتار پر حیرت ہو رہی تھی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ وہ ان اونچے نیچے راستوں پر چلنے کی عادی ہو۔ وہ تقریباً بیس منٹ تک چلتے رہے پھر ایک جگہ لڑکی رک گئی۔
"چلو میں تمہیں ایک پناہ گاہ بتاؤں"
پھر وہ ایک غار میں اترتے چلے گئے جسے چاروں طرف سے ابھری ہوئی چٹانوں نے گھیر رکھا تھا۔ حادی نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ غار پہلے ہی سے آباد رہا ہو۔ روز مرہ کے استعمال کی بہتری چیزیں یہاں نظر آئیں۔ ایک طرف چٹائی بھی پڑی ہوئی تھی۔
"کیا اب اس غار میں بند کر کے مارو گی"
لڑکی نے ٹارچ بجھا دی اور ایک مومی شمع روشن کر دی پھر مسکرا کر بولی "اب تم اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا لو۔ تھوڑی دیر بعد میں ریوالور بھی نکال لوں گی"
حادی چٹائی پر بیٹھ گیا
"یہ میرا پوشیدہ غار ہے" لڑکی بولی
"خوب۔۔۔۔!"
"میں تم میں اور ان لوگوں میں کوئی فرق نہیں محسوس کرتی، تم قانون کے نام پر خون بہاتے ہو اور وہ خود قانون کا خون بہاتے ہیں"
"کیا تم مجھے یہاں فلسفہ پڑھانے لائی ہو"
"اگر پڑھ سکو تو"
"کیا ان لوگوں کو تمہارے اس غار کا علم ہے"
"نہیں۔۔۔۔میں نے یہاں اور بھی کئی ایسے پوشیدہ غار بنا رکھے ہیں جن کا علم میرے علاوہ کسی کو نہیں ہے"
"کتنے لوگ ہیں تمہارے گروہ میں "
"کئی ہیں۔۔۔۔لیکن بابا کو ان سے بڑی نفرت ہے کیونکہ یہ اس فن سے ناواقف ہیں"
"یہ بابا کون ہستی ہیں"
"وہی جنہوں نے میرے پرورش کی تھی"
"کیا اسمگلنگ کرنا بھی فن ہے"
"کسی کام کا سلیقہ ہی فن کہلاتا ہے"
"کیا تمہیں اپنے بابا کی گرفتاری پر افسوس نہیں ہو گا" حادی نے کہا
"میں چاہتی ہوں کہ وہ شریف آدمیوں کی طرح زندگی بسر کرنے لگیں۔ اور اس زلیل آدمی کی ملازمت ترک کر دیں جس کی متعلق وہ کچھ بھی نہیں جانتے"
"کیا مطلب۔۔۔!"
"بابا بہت پُرانے اسمگلر ہیں۔ لیکن زمانے کے انقلاب نے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی اب وہ قطعی گمنام شخصیت باقی رہ گئے ہیں۔ اب وہ ایک آدمی کے لئے کام کرتے ہیں۔ جس نے خود ہی انہیں تلاش کر کے ملازم رکھا تھا۔ لیکن کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ آدمی کون ہے" لڑکی خاموش ہو کر کلائی پر بندھی گھڑی دیکھنے لگی پھر بولی "بارہ بجے کرنل داریان کا جہاز ائیرپورٹ پر پہنچے گا۔ دیکھو ان کا کیا حشر ہوتا ہے"
"میں ان کا ایک حقیر سا اسسٹنٹ ہوں اسی سے اندازہ کر لو"
"تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے لئے زہر کی تجویز تھی"
"نہیں۔۔۔۔!" حادی بے ساختہ اچھل پڑا
"کافی کرنل کا پسندیدہ مشروب ہے۔ لہٰذا جب وہ ائیرپورٹ کے ویٹنگ ایریا میں بیٹھ کر کافی آرڈر کریں گے تو اسکیم کے مطابق اس میں زہر ملا دیا جائے گا....کیا سمجھے"
"تم نے وہیں کیوں نہیں بتایا" حادی مضطربانہ انداز میں اٹھتا ہوا بولا
"تو پھر کیا ارادہ ہے۔۔۔۔مائی ڈئیر کیپٹن" لڑکی مسکرا کر بولی "تم یہ ہر گز مت سمجھنا کہ مجھے تم لوگوں سے ہمدردی ہے میں تو بس اس گروہ کو تباہ کرنا چاہتی ہوں"
"ہماری مدد کے بغیر تم کبھی کامیاب نہ ہو سکو گی" حادی بولا
"اسی لئے تو میں نے اتنا بڑا خطرہ مول لیا ہے اگر انہیں میری اس حرکت کا علم ہو جائے تو شاید میں دوسرے لمحے سانس بھی نہ لے سکوں"
"یہاں سے ائیرپورٹ کتنی دور ہوگا" حادی بولا
"صرف دس میل۔۔۔!"
"میرے خدا میں وقت پر کیسے پہنچ سکوں گا"
"رکو۔۔۔! مجھے سوچنے دو" لڑکی کچھ سوچنے لگی پھر بولی "میں تمہارے لئے اس ویرانے میں موٹر سائیکل مہیا کر سکتی ہوں لیکن میں تمہیں موت کے منہ میں نہیں جھونکنا چاہتی"
"میں نہیں سمجھا"
"ان لوگوں نے تمہاری باقاعدہ تلاش شروع کردی ہو گی"
"تم اس کی پروہ مت کرو۔ کرنل کی زندگی زیادہ قیمتی ہے"
"ٹھیک ہے۔۔۔۔! چلو!"
وہ دونوں غار سے باہر نکلے اور تقریباً دس منٹ تک چلتے رہنے کے بعد وہ ایک دوسرے غار میں داخل ہوئے اور یہاں پہنچ کر حادی کی آنکھیں کھل گئیں۔ یہ اسلحہ خانہ تھا۔ یہاں اسے اسمگل شدہ موٹر سائیکلیں بھی نظر آئیں۔
"میں تمہارا شکر گزار ہوں۔ اور تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ تمہارا نام کیا ہے؟" حادی نے پوچھا
"میں۔۔۔۔میرا نام۔۔۔۔۔مرحا ہے بس اب چپ چاپ کھسکو۔ میں تمہیں وہ راستہ بھی دکھا دوں جس سے تم باآسانی سڑک پر پہنچ سکو گے. خیر تم نے وعدہ کیا ہے کہ تم مرحا کو یاد رکھو گے"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلی کی چیخ نے بہتروں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ مگر اب وہاں بلی کی لاش تھی۔ لوگ داریان سے اس کے متعلق گفتگو کر رہے تھے اور داریان جلد از جلد کریسنٹ پہنچنا چاہتا تھا۔وہ ویٹر بھی وہیں موجود تھا جس نے کافی کی ٹرے رکھی تھی۔ اس کے چہرے پر پسینے کے قطرے نظر آنے لگے تھے لیکن داریان نے اس کی طرف دوبارہ نہیں دیکھا۔ اس نے کسی کو نہیں بتایا تھا کہ بلی کیسے مری تھی۔
وہ اٹھ ہی رہا تھا کہ حادی بوکھلایا ہوا ویٹنگ ایریا میں داخل ہوا۔سب سے پہلے اس کی نظر بلی ہی پر پڑی جس کے قریب پرچ ابھی تک فرش پر موجود تھا۔
"Very Fine......!" وہ بے ساختہ ہنس پڑا
داریان نے اسے اشارے سے خاموش رہنے کی تاکید کی۔
"چلئے۔۔۔۔۔!" حادی آہستہ سے بولا
حادی موٹر سائیکل چلا رہا تھا اور داریان پچھلی سیٹ پر تھا۔
"مجھے افسوس ہے کہ زہر والی اسکیم کا علم مجھے دیر سے ہوا" حادی بولا "اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو۔۔۔۔۔!"
"ایک نالائق آدمی سے تمہاری جان چھوٹ جاتی" داریان نے جواب دیا
"زہر کا نام سن کر میرا دم نکل گیا تھا"
"آخر آج کل آپ کن آسمانوں پر ہیں میں بے حد متحیر ہوں"
"ارے۔۔۔۔میں کہاں۔۔۔۔!"
"میں سنجیدگی سے پوچھ رہا ہوں تم روز بروز حیرت انگیز ہوتے جا رہے ہو۔ تمہیں میرے آنے کی بھی خبر تھی اور یہ بھی معلوم تھا کہ مجھے زہر دیا جانے والا ہے کچھ تو بتاؤ"
"مونث۔۔۔۔۔!" حادی ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ لیکن موٹر سائیکل کے شور میں داریان اس کا جواب نہ سن سکا
کریسنٹ پہنچ کر حادی نے اپنے آدمیوں کو وہیں موجود پایا جنہیں اپنا تعاقب کرنے کو کہا تھا۔ وہ ان پر گرجنے لگا
"کیپٹن سنئیے تو سہی" ایک نے کہا
"سناؤ۔۔۔۔!" وہ تیز لہجے میں بولا
"ہم نے آپ کا تعاقب کیا تھا لیکن ہمارے درمیان جو تیسری گاڑی حائل تھی اس نے ہمیں بلکل بیکار کر دیا۔ وہ لوگ اس گاڑی کو بیچ رستے میں چھوڑ کر غائب ہو گئے تھے۔ کافی دیر سچویشن پر غور کرنے کے بعد ہم نے اسے کھائی میں گرا دیا"
"پہلے ہی کیوں نہیں گرا دیا تھا" حادی غرایا
"خرم کرو" داریان ہاتھ اٹھا کر بولا
"میں یہاں صرف اس لئے آیا ہوں کہ مجھے تم پر حملوں کی اطلاع ملی تھی۔ ورنہ یہ کیس اب ہمارے پاس نہیں رہا" داریان حادی سے بولا
"کیا مطلب.....!"
"کسی اور کو دے دیا گیا ہے کیونکہ تم نے غلطی سے اسمگلروں کو پکڑ لیا تھا" داریان نے مسکرا کر کہا
"کیا مطلب۔۔۔۔!"
"کیا مطلب کا بھوت سوار ہے تم پر۔صبح بتاؤں گا"
"نہیں! میں ابھی سنوں گا" حادی بولا
"ان اسمگلروں کی پشت پر کوئی بڑا آدمی ہے لہٰذا اس کیس کا فائل بند کر دیا جائے گا۔ اب اس میں مغز نہ مارو"
"تو گویا کل ہماری واپسی ہوگی"
"نہیں۔۔۔۔! ضرغام کا کیس میرے ہی پاس ہے اس لئے میں ابھی یہاں قیام کروں گا۔ مگر وہ میں ضرور سنوں گا جو تم پر گزری"
حادی نے اپنی داستان شروع کر دی جب وہ سب کچھ کہہ چکا تو داریان ستائش سے بولا" تم نے سرخ جھنڈے کے امکانات پر غور کر کے کمال ہی کر دیا"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Continue.........
GOOD READS 😊
ENJOY THE EPISODE 💜

بدلتے نقشے(Complete)Where stories live. Discover now