قسط نمبر 7

99 9 0
                                    

مرحا جیسے ہی عمارت میں داخل ہوئی نہ جانے اس کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔ حالانکہ وہ اسی عمارت میں رہتی تھی۔ دراصل یہ عمارت اسمگلروں کے استعمال میں تھی جس میں اسمگل کیا ہوا مال رکھا جاتا تھا۔ لیکن پڑوسی یہ سمجھتے تھے کہ مرحا کوئی رئیس زادی ہے اور اتنی پڑی کوٹھی میں تنہا رہتی ہے۔ بھلا عام آدمی کو کیا معلوم کہ نوکروں کی فوج کا نظر آنے والا ہر آدمی سانپ ضرور ہے۔
وہ سب خطرناک اور وہشی آدمی تھے۔ اکثر آپس میں ہی لڑ جاتے اور پھر اگلے دن ایک آدھ لاش ضرور ملتی۔ لیکن مرحا ان سے ذرہ برابر بھی خائف نہیں تھی۔ وہ ان پر اسی طرح حکم چلاتی تھی جیسے وہ سچ مچ اس کے غلام ہوں۔ یہ سب کچھ وہ اسی بوڑھے کی تقویت پر کرتی تھی جس کا تذکرہ اس نے کیپٹن حادی سے بھی کیا تھا۔
وہ پے در پے راہداریوں سے گذرتی گئی لیکن سب تاریک پڑی تھیں اور اسی اندھیرے نے اس کے رونگھٹے کھڑے کر دئیے تھے۔ وہ آگے بڑھتی رہی ۔ آخر ایک کھڑکی میں اسے روشنی نظر آئی۔
اب وہ پنجوں کے بل چلنے لگی تھی کیونکہ حالات معمول کے مطابق نہیں تھے۔ کھڑکی کے قریب پہنچ کر وہ رک گئی وہ وہاں سے کمرے کا جائزہ لے سکتی تھی۔ اس نے دیکھا کہ اندر کئی لوگ براجمان ہیں اور وہ بوڑھا بھی وہیں موجود تھا جسے وہ بابا کہتی تھی۔ اسے وہاں کچھ نئے چہرے بھی نظر آئے۔ بوڑھا غصے میں معلوم ہو رہا تھا۔ دفعتاً وہ گونجیلی آواز میں بولا "تم لوگ نالائق ترین ہو۔۔۔۔۔۔مرحا کو الزام نہ دو"
"تم بھی حد سے بڑھ رہے ہو" ایک نوجوان غصیلی آواز میں بولا "اپنے الفاظ واپس لو ورنہ میں آج تم سے نپٹ ہی لوں گا"
بوڑھا اسے قہر آلود نظروں سے گھورنے لگا۔ ادھر مرحا کا ہاتھ ہولسٹر میں رینگ گیا اور اس کی گرفت ریوالور پر مضبوط ہو گئی۔
"میں اپنے الفاظ واپس نہیں لوں گا" بوڑھا اٹھتا ہوا بولا اور پھر نوجوان کی طرف اشارہ کر کے خصوصیت سے بولا " تم سب سے بڑے گدھے ہو"
"میں تمہیں اس بدتمیزی کی سزا ضرور دوں گا" نوجوان بھی اٹھتا ہوا غصے سے پھنکارا
مرحا ہکا بکا رہ گئی وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کوئی بوڑھے سے اس طرح بھی پیش آسکتا ہے۔ اس نے دروازے پر ٹھوکر ماری اور دروازہ کھل گیا اب اس کے ریوالور کی نالی اس نوجوان کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔
"تمہاری اتنی جرات کے تم بابا کی شان میں گستاخی کرو۔۔۔۔پیچھے ہٹو ورنہ گولی مار دوں گی"
نوجوان اب مڑ کر مرحا کی طرف دیکھنے لگا
"مرحا یہاں سے چلی جاؤ" بوڑھا بول پڑا
"کیا آپ اس کی بدتمیزی برداشت کر لیں گے بابا"
"تم اپنے کمرے میں جاؤ" بوڑھا سرد لہجے میں بولا
مرحا نے ریوالور واپس رکھ لیا اور چپ چاپ دروازے کی طرف مڑی اور آہستگی سے دروازہ بند کر دیا۔ اور پہلے کی طرح کھڑکی کے شیشوں سے کمرے کا جائزہ لینے لگی۔
"اگر تم مجھے سزا دے سکے تو میں تمہاری سربراہی سے دستبردار ہو جاؤں گا" بوڑھے نے کہا
"ہمارا سربراہ وہ ہے جس سے ہمیں احکامات ملتے ہیں" نوجوان زہریلے لہجے میں بولا
"تمہارا سربراہ نعیم ہے" بوڑھا نفرت سے بولا
"میں کسی کی بھی سربراہی برداشت نہیں کر سکتا" نوجوان بولا
دفعتاً بوڑھا آگے بڑھا اور کمرہ "چٹاخ" کی آواز سے گونج اٹھا۔بوڑھے کا تھپڑ اس کے بائیں گال پر پڑا تھا۔ اور نوجوان لڑکھڑاتا ہوا اپنے ساتھیوں پر جا پڑا۔
بوڑھا کرسی پر بیٹھتا ہوا بولا " ہمارا کیس کرنل داریان سے لے لیا گیا ہے۔ لہٰذا تم لوگ اپ ان دونوں کا پیچھا چھوڑ دو۔ اگر ہم ان سے بھڑے بغیر اپنا کام کرتے ہیں تو بہتر ہے۔ ویسے کرنل داریان اس شکران ویلی سے اس وقت تک واپس نہیں جا سکتا جب تک کہ ضرغام کا سراغ نہ پا لے۔ اور ہم بڑی آسانی سے اس پر ہاتھ صاف کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس کا وجود ہمارے لئے خطرناک ہے۔ وہ ضد پر آجاتا ہے تو سب کچھ کر گزرتا ہے"
"یہ دم توڑ رہا ہے۔۔۔۔!" ایک آدمی زمین پر پڑے اس نوجوان کی طرف جھپٹتا ہوا چیخا
"مرنے دو" بوڑھا سفاکی سے بولا
مرحا لرز گئی اس نے کبھی بوڑھے کو اس رنگ میں نہیں دیکھا تھا۔
"سب خاموشی سے اپنی جگہ پر آکر بیٹھو" بوڑھا بولا
مرحا نے دیکھا کہ وہ سب خاموشی سے اپنی جگہ پر واپس چلے گئے اور نوجوان کی لاش وہیں پڑی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سائبرگ" داریان نے کہا " ایک حیرت انگیز ایجاد ہے لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ ضرغام کے ارادے نیک ہی ہوں"
"میں نے اب تک اسے نہیں دیکھا" حادی بولا
"ٹھکائی لگا دوں سالے کی" نعمان نے سوال کیا
"ایسی حماقت بھی نہ کرنا" داریان نے مسکرا کر کہا
"تو کیا میں اس سے کمزور ہوں"
"ابے وہ ایک روبوٹ ہے۔۔۔۔۔ہاتھی کے ہم زلف....!" حادی دانت پیس کر بولا
"تم خود ہاتھی کے ہم فلج۔۔۔ دیکھئے کرنل صاحب منع کر لیجئے"
"نعمان۔۔۔۔! تم اس کے ساتھ کیوں آئے تھے" داریان بولا
"خدا کی قسم میں بلکل الگ آیا تھا۔۔۔۔وہ تو یہیں ملاقات ہو گئی"
"لیکن کیا یہ ضروری تھا کہ تم بھی کریسنٹ میں ہی ٹھہرتے"
"میں ہمیشہ یہیں ٹھہرتا ہوں کرنل صاحب"
"میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم ہم لوگوں سے دور ہی رہو ورنہ وہ لوگ تمہیں بھی کوئی نقصان پہنچا دیں گے"
"مجھے کیوں نقصان پہنچائیں گے میں ان سے کہہ دوں گا کہ میرا ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ہے"
"بے شرم کہیں کے" حادی غرایا
"بے شرم کیوں" نعمان ہاتھ نچا کر بولا
"تم اپنے کمرے میں جاؤ" داریان نے کہا
"بہت اچھا" نعمان غصیلے انداز میں چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا
"پچھلی رات میں نے سائبرگ کو بہت قریب سے دیکھا تھا" کچھ دیر بعد داریان بولا
دفعتاً حادی کی نظر دروازے کی طرف اٹھ گئی، ادھر داریان کی پشت تھی۔ لہٰذا وہ نعمان کو نہ دیکھ سکا جو وہاں کھڑا حادی کو گھونسہ دکھا رہا تھا اور ساتھ ہی طرح طرح کے منہ بھی بناتا جا رہا تھا۔ حادی کو بے ساختہ ہنسی آگئی۔ حادی کو ہنستے دیکھ کر داریان بھی مڑا۔ نعمان بوکھلا گیا اور اسی بوکھلاہٹ میں گھونسہ اٹھا رہ گیا۔
"یہ کیا ہو رہا ہے" داریان حادی کی طرف دیکھ کر بولا۔
"اس کی شامت آنے والی ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ آج رات کو اسے پلا کر کسی سڑک پر چھوڑ آؤں پھر دوسرے دن آپ جا کر اس کی لاش کا مطالبہ کر سکتے ہیں" حادی شرارت سے بولا دوسرے ہی لمحے نعمان دندناتا ہوا کمرے میں داخل ہوا
"اللّٰہ نے چاہا تو کیڑے پڑیں گے تمہاری قبر میں" وہ حادی کی طرف انگلی اٹھاتا ہوا دھاڑا
"کیا لغویت ہے" داریان ناخوشگوار لہجے میں بولا
"آپ نہ بولیں۔۔۔۔وہ چوہیا مجھ کو ماموں جان کہتی ہے"
"کیا بک رہے ہو" داریان بگڑ گیا
"ارے۔۔۔۔۔وہ کچھ نہیں" حادی ہنس کر بولا
" آخر یہ کیا بک رہا ہے۔۔۔۔۔میں تم دونوں سے عاجز آگیا ہوں" داریان ٹھنڈی سانس لے کر بولا
"پچھلی رات ایک انگریز لڑکی سے اس کا تعارف کروایا اور نام ماموں جان بتایا۔ اس وقت یہ ہی ہی ہی کر رہا تھا" حادی نے وضاحت دی
"باہر تو نکلو زرا چٹنی نہ بنائی ہو تو" نعمان بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔ داریان بھی ہنسنے لگا۔
کچھ دیر دونوں خاموش بیٹھے رہے پھر داریان بولا
"ضرغام کا مسئلہ وقت طلب ہوگیا ہے"
"کیوں نہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اس کا وعدہ ہے کہ وہ کوئی غیر قانونی کام نہیں کرے گا" حادی نے کہا
"وہ جو کچھ بھی کر رہا ہے غیر قانونی ہے"
"میرا خیال ہے کہ اسمگلروں والا کیس اس طرح نہ چھوڑئیے"
"آرڈر ہے میں اس کے خلاف کیسے کر سکتا ہوں"
"سارا کام بڑی آسانی سے ہو سکتا ہے۔ وہ لڑکی مرحا ایک اچھی مددگار ثابت ہو گی"
"تب بھی میں اسے ایک ناکام کیس ہی سمجھوں گا"
"کیوں۔۔۔۔۔!"
"اس آدمی کے خلاف ثبوت اکھٹے کرنا بڑا مشکل کام ہوگا۔ شاید ان اسمگلروں کو بھی نہ معلوم ہو کہ وہ کون ہے"
"تو وہ اسی طرح ہمیشہ آزاد رہے گا"
"اس کے لئے بڑی محنت کرنی پڑے گی"
"تو وہ لڑکی۔۔۔۔۔"
"اگر وہ لڑکی ہے تو تمہارے لئے ضرور کار آمد ثابت ہوگی"
"آپ بلا وجہ بات کو ٹوئیسٹ کر رہے ہیں میں سنجیدہ ہوں"
"میں بھی سنجیدہ ہوں" داریان نے لاپرواہی سے کہا
"میں کل شکران سے جا رہا ہوں"
"یہ ناممکن ہے کیونکہ اب تم ضرغام والے کیس کو اسسٹ کر رہے ہو"
"مجھے آفیشلی کوئی آرڈر نہیں ملا"
"اچھی بات ہے تم اسی وقت دفع ہو جاؤ"
"ضرور۔۔۔۔!" حادی کا موڈ بگڑ گیا
"میں جانتا ہوں کے تم کل درہ کوہ میں منقعد ہونے والے کیو فیسٹیول (Kio Festival) میں جانا چاہتے ہو"
"آپ کا خیال درست ہے"
"کیا تم سمجھتے ہو کہ اسمگلروں نے تمہیں مار ڈالنے کا خیال ترک کر دیا ہے۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ لڑکی۔۔۔۔!"
"لڑکی کی بات نہ کیجئے میں صرف کیس کی حد تک اس میں دلچسپی لے رہا تھا"
"تم بہت شریف ہو" داریان مسکرایا
حادی اٹھ کر باہر چلا گیا۔ وہ دراصل کوفت میں مبتلا ہو گیا تھا۔ اسمگلروں کے کیس میں اس نت سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی لیکن عین اس وقت جب اسے کامیابی کا یقین ہو گیا تھا اس کی توقعات پر پانی پھر گیا۔وہبسوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس اسٹیج پر ایسے غیر متوقع حالات پیدا ہو جائیں گے۔ وہ ان لوگوں سے انتقام بھی تو نہ لے سکا جنہوں نے پانچ بار اس پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی تھی۔
اس دن پھر وہ داریان سے نہیں ملا اور دوسری صبح درہ کوہ کے لئے روانہ ہو گیا۔ یہ مقام شکران سے سات میل کے فاصلے پر تھا۔ اور جہاں سے جیپ وغیرہ کا گزرنا ناممکن تھا۔
لوگ جوق در جوق درہ کوہ کی طرف جا رہے تھے۔ ان میں ٹوریسٹ بھی تھے اور مقامی لوگ بھی۔ حادی نے اپنے چہرے پر گھنی مونچھ کا اضافہ کر دیا تھا کہ نعمان سے محفوظ رہ سکے۔ اسے علم تھا کہ نعمان بھی فیسٹیول کے لئے تیاریاں کر رہا تھا۔ لوگ چھوٹے چھوٹے گروپ کی صورت میں درہ کوہ کی طرف چل رہے تھے۔ کچھ لوگ ٹٹو (پونی) پر سفر کر رہے تھے۔ زیادہ تر لوگ پیدل ہی تھے۔
کریسینٹ ہوٹل کے ٹوریسٹ ایک ساتھ روانہ ہوئے تھے ان کے لئے ہوٹل ہی کی طرف سے سواریوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ لیکن نعمان بیچارہ پیدل ہی چل رہا تھا۔ کیونکہ ٹٹو اپنی نسل میں ابھی تک کوئی نعمان پیدا نہیں کر سکے تھے۔ وہ چل تو پڑا تھا مگر اس کی حالت قابلِ رحم تھی۔
حادی اس سے زیادہ دور نہیں تھا۔ ہنسی کے مارے اس کے پیٹ میں بل پڑے جا رہے تھے۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ نعمان سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دے۔
لوگ اسے دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ ہنسنے والوں میں لڑکیاں پیش پیش تھیں اور ان میں وہ انگریز لڑکی بھی تھی جو نعمان کو ماموں جان مخاطب کرتی تھی۔
ایک بار اس کا ٹٹو نعمان کے ساتھ چلنے لگا۔
"ہیلو ماموں جان" وہ انگریز ہیں بولی
لیکن نعمان منہ بنا کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔
"ماموں جان۔۔۔۔۔تمہارا ساتھی کہاں ہے" لڑکی پھر بولی
"اس سالے کی تو ایسی کی تیسی" نعمان اردو میں دہاڑا
"میں نہیں سمجھی تم نے کیا کہا" لڑکی نے کہا اور نعمان انگریزی میں ترجمہ کرنے کی کوشش کرنے لگا "سالے" کا ترجمہ اس نے "برادر ان لا" کیا جب کے "ایسی کی تیسی" میں ہکلا کر رہ گیا
"پتا نہیں تم کیا کہہ رہے ہو" لڑکی مایوسی سے کہتی اپنا ٹٹو اگے نکال لے گئی۔
ہزاروں قہقہے حادی کے حلق میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ اس بے بسی کی وجہ یہ تھی کہ حادی خود کو نعمان سے بے تعلق رکھنا چاہتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Continue.............
GOOD READS 😊
ENJOY THE EPISODE 💜

بدلتے نقشے(Complete)Dove le storie prendono vita. Scoprilo ora