Yaar e Man Maseeha 12th Episode

277 18 10
                                    


"مائرہ رکو" کلچرل شو کے اختتام کے بعد مائرہ اپنا بیگ اور موبائل تھامے یونیورسٹی گیٹ تک آرہی تھی،
جب احمر نے پیچھے سے اسے آواز لگائی۔
مائرہ رکتے ہوئے جیسے اپنے خیالوں سے چونکی۔
"کیسے جاؤگی اب تم گاڑی تو خراب ہو گئی تھی نا" احمر نے اس کے پاس رکتے ہوئے پوچھا۔
"آں ہاں پتہ نہیں انکل نے آواز لگائی ہے کہ کوئی لینے آیا ہے مجھے باہر"
اس نے گیٹ کیپر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، چونکہ اسے اکثر و بیشر ویٹ کرنا پڑتا تھا تو وہ اس سے واقف تھے۔
وہ بات کرتے ہوئے باہر تک آگئے تھے دونوں اسی پٹھان طرز کے لباس میں ہی ملبوس تھے۔
مائرہ چلتے ہوئے اک پل کو ٹھٹھکی تھی۔
شاہنواز!!! مائرہ نے حیرت سے اس کا نام ادا کیا
احمر نے واضح طور پر اس کا ٹھٹھکنا محسوس کیا تھا۔ اور اس کی نظروں کے تاکب میں دیکھا۔
شاہنواز نے بھی ان کی طرف دیکھ لیا تھا۔
"کون ہے یہ" احمر نے حیرانگی سے پوچھا۔
یہ آپی کے ان لاز میں سے ہیں جب مائرہ نے شاہنواز پر سے نظر ہٹاتے ہوئے احمر کو بتایا تھا۔
"او آئی سی۔۔۔۔ ہینڈسم گائے" احمر نے لب بھینچتے ہوئے کہا۔
مائرہ کی نظریں بھی شاہنواز کی طرف اٹھی تھیں۔
تبھی شاہنواز نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے گاڑی کا ہارن بجایا تھا وہ اچھا خاصہ چڑ گیا تھا۔
"ایک تو وہ بامشکل ٹائم نکال کے آیا تھا اوپر سے محترمہ کے نکھرے اور جانے کس کے ساتھ کھڑی راز و نیاز کر رہی تھی"
"چلو ٹھیک ہے احمر میں چلتی ہوں" وہ اس سے الوداع لے کر شاہنواز پر سلامتی بھیجتی گاڑی میں آکر بیٹھ گئی تھی۔
جس کا جواب شاہنواز نے زیرِ لب دیتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی تھی۔
پچھلی ملاقات ان کی کافی ناخوشگوار رہی تھی پھر بھی مائرہ نے اسے مخاطب کر ہی لیا۔
بابا نے بھیجا آپ کو وہ تھوڑی ترچھی ہو کر بیٹھتی گویا ہوئی۔
جب کے شاہنواز کے چہرے کے تاثرات بہت سرد سے تھے۔
"جی ہاں آپ کے بابا نے ہی بھیجا ہے خود سے تو میں آنے سے رہا" تپ کر کہتا وہ خاموش ہو گیا تھا۔
"شاہنواز آپ سب کے ساتھ ہی ایسے رہتے ہیں یا مجھ سے کوئی خاص قسم کی خار ہے آپ کو"
اس نے تیکھی نظروں سے شاہنواز کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"بی کوائٹ مائرہ!! اور یہ شاہنواز شاہنواز کیا ہے کتنی دفعہ کہا ہے بھائی کہا کرو"
شاہنواز پل کی پل اس کی طرف دیکھتا گویا ہوا۔
"آپ ہمیشہ میرے ساتھ ایسے ہی کرتے ہیں ڈانٹ کر رکھ دیتے ہیں میں کوئی دودھ پیتی بچی ہوں کیا؟
کتنی چھوٹی ہوں بتائیں مجھے"
وہ جھلملاتی آنکھوں سے اب اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
"کیا عمر ہے تمھاری چلو بتاؤ حساب لگا لیتے ہیں" گاڑی کا موڑ احتیاط سے کاٹتے شاہنواز نے اس سے پوچھا۔
"اکیس سال" مائرہ نے منہ پھولاتے ہوئے کہا۔
"نو سال چھوٹی ہو مجھ سے" شاہنواز نے ابرو اچکا کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"تو کیا بھائی بھائی کا جاپ الاپتی رہوں میں؟
بلکے مجھے بات ہی نہیں کرنی، کوئی شوق نہیں مجھے بات کرنے کا
آئندہ میں بات بھی کی نہ آپ سے تو میرا نام بدل دینا آپ، ہونہہ خوش فہمیاں تو دیکھیں زرا"
اس کی رنگت اہانت سے سرخ پڑ گئی تھی۔
"ضرور مس مائرہ میں آپ کو یاد کروآوں گا آپ کی بات"
شاہنواز نے اسی سنجیدگی سے جواب دیا۔
"شاہنواز آپ نا بہت بہت زیادہ" کچھ کہتے کہتے اس نے خود کو روکا اور بچوں کی طرح سینے پر ہاتھ باندھتی،
لب بیھنچے اب وہ ونڈو گلاس سے باہر دیکھ رہی تھی۔
"جانے وہ کیسے اپنے چہرے کو کسی بھی قسم کے جذبات سے عاری رکھ لیتا تھا۔
جب کہ مائرہ کا ہر احساس اس کے چہرے پر جھلکتا تھا"
پھر وہ سارے رستے خاموش ہی رہی اور شاہنواز اسے گھر کے باہر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
رات کو بستر پر آتے اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھے اپنے موبائل پر پڑی،
موبائل کو دیکھتے ہی اس نے جھرجھری سی لی، شیطانی آنکھوں والے اس عجیب سے انسان کی شبیہ پھر اس کے ذہن میں ابھری تھی۔
"وہ کیا کہنا چاہتا تھا؟ یو ول بھی مائی نیکسٹ؟؟
نیکسٹ۔۔ نیکسٹ کے آگے کیا؟؟"
اس کا کہا جملہ دھراتے وہ الجھن کا شکار ہونے لگی۔
اس کا وہ وحشت بھرا لمس پھر سے جاگ اٹھا تھا، وہ گھبراتی ہوئی اٹھ بیٹھی تھی۔
"کہیں میں کسی مصیبت کا شکار تو نہیں ہونے والی، کیا مجھے کسی کو بتانا چاہئے"
پریشانی سے وہ انگوٹھے کا ناخن چباتی سوچ رہی تھی۔
"لیکن میں بتاؤں گی بھی کیا" وہ اسی ادھیڑ پن میں الجھی ٹیبل پر پڑے ایل سی ڈی کے ریموٹ کی طرف آئی تھی۔
نیند کا آنا بھی اب محال تھا اس لیے وہ خود کو ان سوچوں سے نکالنے کے لیے ٹی وی لگاتی،
ڈاکو مینٹری مووی دیکھنے میں مصروف ہو گئی تھی۔

یارِمن مسیحا (انتہائے عشق)Where stories live. Discover now