Yaar e Man Maseeha 13th Episode

269 13 2
                                    




ماہرہ صبح سے بور ہو رہی تھی چوں کہ اب مرحہ بھی نہیں تھی تو وہ زیادہ ہی کسلمندی محسوس کرتی تھی۔
اتوار کا دن تو اور بھی زیادہ بیزارگی لے کر آتا تھا اس کے لیے۔ شاید پورا دن ہی یونہی بوریت میں گزر جاتا۔
وہ یونہی بیٹھی چینل پر چینل سرچ کر رہی تھی کہ شاید دیکھنے کو ہی کچھ انٹرسٹنگ مل جائے۔
جب باہر گاڑی کے ہارن کی آواز پر وہ فوراً ایکٹو ہوئی تھی۔
"کہیں آپی اور زارم بھائی تو نہیں" وہ فوراً صوفے سے چھلانگ لگاتی باہر بھاگی تھی۔

باہر جانے پر آگے اپنے شبہات کو سچ پا کر وہ فوراً خوشی سے بے قابو ہوتی مرحہ سے لپٹی تھی۔
ان کو دیکھ کر اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں رہا تھا۔ ان دونوں کے ساتھ انعم بھی آئی تھی۔
شائستہ بیگم کو مرحہ نے بہت تبدیلی محسوس ہوئی تھی۔
اس کے چہرے پر آلواحی سی چمک تھی زارم بھی بہت پر تپاک انداز نے ان سے ملا تھا۔
زارم مرحہ اور انعم کو چھوڑ کر واپس جانا چاہتا تھا۔
شائستہ بیگم اور عباس صاحب نے بہت اصرار کیا تھا اس کو روکنے پر لیکن وہ شام کو آنے کا کہہ کر چلا گیا تھا۔
مرحہ زارم کو باہر تک چھوڑنے آئی تھی۔ نیوڈ پنک کلر کے کپڑوں نے اس کی اپنی رنگت بھی کپڑوں سے مشابہ ہی ہو رہی تھی۔
اور اس پر اس کے چمکتے سنہری بال وہ اسے پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ کر حسین لگ رہی تھی۔
"زارم رک جاتے نا آپ" مرحہ نے اداس ہوتے ہوئے کہا۔
"بیوی یار ایک بہت امپورٹنٹ کام سے جانا ہے میں نے آ جاؤں گا شام تک" وہ اس کی پیشانی چومتا گاڑی میں بیٹھ گیا تھا۔
اس کے گاڑی سٹارٹ کرنے پر مرحہ نے مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلا کر اسے الوداع کیا تھا۔
اسے بے ساختہ اس پر پیار آیا تھا۔
"بیوی میری کا خیال رکھنا" جاتے جاتے وہ نصیحت کرنا نہیں بولا تھا۔
اور گاڑی سٹارٹ کرتے آگے بڑھا دی تھی مرحہ بھی مسکراتے ہوئے اندر آ گئی تھی۔
بہت ہی ذیادہ خوش گپیوں میں لنچ کیا گیا۔ مائرہ سب سے زیادہ چہک رہی تھی۔
لنچ کے بعد ماہرہ اور انعم ڈرائیور کے ساتھ مال چلی گئی تھی مائرہ کو اپنا فون ریپیئر کروانے کے لیے دینا تھا اور کچھ ضروری چیزیں چاہئے تھیں،
جبکہ مرحہ عباس صاحب اورشائستہ بیگم کے پاس ہی رکی تھی کافی دیر تک وہ عباس صاحب کے کندھے پر سر رکھے ان کا بازو پکڑے صوفے پر ان کے ساتھ ہی بیٹھی رہی۔
وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے چھوٹی موٹی باتیں بھی کر رہے تھے۔
"وہ بہت زیادہ اٹیچ تھی اپنے بابا سے" شائستہ بیگم مسکراتے ہوئے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے نہیں تھک رہی تھیں۔
"عباس چائے بناؤں آپ کے لئے" ان کا معمول تھا وہ کھانے کے کچھ دیر بعد چائے ضرور پیتے تھے۔
"ماما میں بناتی ہوں چائے، آپ پیئں گی" مرحہ نے صوفے سے اٹھتے اپنے سٹائلش فلیٹ چپل پہنتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں مرحہ بیٹا میرا تو سینہ جلتا ہے چائے پی کے اپنے بابا کے لیے بنا دو بس"
"اچھا بابا کچھ لیں گے آپ چائے کے ساتھ" مرحہ نے جاتے جاتے مرتے ہوئے پوچھا تھا۔
"نہیں بیٹا کوئی چیز نہیں" عباس صاحب نے ریمورٹ اٹھاتے ہوئے ٹی وی لگا لیا تھا۔
مرحہ نے چائے کے لئے پانی رکھا تھا جب شائستہ بیگم کچن نے داخل ہوئی تھیں۔
مرحہ بیٹا زارم اور تم ٹھیک ہو نا آپس نے" شائستہ بیگم نے اس کے پاس آتے ہوئے پیار سے اس کے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
"مما زارم بہت اچھے ہیں میری سوچوں سے بالکل منفرد، مجھے نئی زندگی مل گئی مجھے جینا سکھا دیا زارم نے۔
وہ خوشی سے ان کے گلے لگتے ہوئے بولی۔
جس پر شائستہ بیگم مسکرائی تھیں۔
"ویسے تو میرا بیٹا تمہارا چہرہ کبھی میں نے اتنا جلملاتا ہوا نہیں دیکھا لیکن پھر بھی دل کی تسلی کے لئے تمہارے منہ سے سننا چاہتی تھی"
شائستہ بیگم نے خوشی سے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں نے تھام لئے تھے۔
ان کے ایسے بولنے پر مرحہ جھنیپ گئی تھی۔
"مرحہ نے بہت خوش ہوں تمہارے لیے خدا تم دونوں کو ایسے ہی شاد و آباد رکھے۔ اور ایسی ڈھیر ساری خوشیاں میری بیٹی کی جھولی میں ڈالے"
ان کی دعاؤں پر مرحہ کے دل نے چپکے سے آمین کہا تھا۔

یارِمن مسیحا (انتہائے عشق)Where stories live. Discover now