Yaar e Man Maseeha 33rd Episode

269 19 2
                                    

وہ زائشہ کو ایسے اکیلے ہسپتال چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا اور بی جان بھی بزرگ تھیں اس لیے وہ زارام کا نمبر ڈائیل کر رہا تھا،
کہ وہ بی جان کو لے کر ہوسپٹل آجائے اور اُن کے پاس ہی رکے جب تک زائشہ کو ڈاکٹر ڈسچارج نہیں کر دیتا،
لیکن زارم کا نمبر کئ دفعہ ٹرائی کرنے پر بھی ان ریچ ایبل آ رہا تھا پھر اُس نے سوشل ایپ استعمال کرتے ہوئے زارام کو کال کی تھی۔

کچھ بیلز جانے کے بعد آخر دوسری طرف سے کال پک کر لی گئی تھی، دعا سلام کے بعد شاہ زر نے نمبر ان ریچ ایبل آنے کی بابت پوچھا تھا،

"ہاں یار بس یہاں پھنسا ہوا ہوں میں دبئی میں پروجیکٹ کے سلسلے میں بس کل کی فلائٹ سے آ جاؤں گا پاکستان" زارم کی بات پر شاہ زر کی پیشانی پر پُر سوچ لکیریں ابھری تھیں۔

"اچھا ٹھیک ہے یار بس ایک ضروری کام کے لیے کال کی تھی چلو میں دیکھ لیتا ہوں کچھ اور پھر۔۔۔"

وہ آلودعی کلمات کہتا کال ڈسکنیکٹ کرنے والا تھا جب زارم کی آواز نے اُسے روکا۔۔۔۔ "یار تو بتا کیا کام ہے میں حتیٰ مقدور کوشش کروں گا اُسے پورا کرنے کی"

زارم نے اسرار سے پوچھا۔ "نہیں یار زارم اِس کام کے لیے تمہارا پاکستان ہونا ضروری ہے دراصل میری بیوی یہاں ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہے،
اور بی جان بھی تم جانتے ہو بزرگ ہیں انہیں کیسے یہاں چھوڑ جاؤں، اور نہ ہی میں زائشہ کو ایسے اکیلے چھوڑ کر جا سکتا ہوں،
ابھی بھی میں یہاں بہت مشکل سے رُکا ہوا ہوں ڈیوٹی آورز میں، ہم بہت سیریس مشن پر کام کر رہے ہیں، اس لیے میں سوچ رہا تھا تمہیں کال کر کے بُلا لیتا ہوں کہ بی جان کو لے کر یہاں ڈسچارج ہونے تک رک جاؤ" شاہ زر نے پریشانی سے اُسے ساری بات بتائی۔

"تو یار کوئی مسئلہ نہیں شاہنواز ہے نا، میں اُسے کال کرکے بول دیتا ہوں وہ لے آئے گا بی جان کو اور رکے گا اُن کے پاس ہی تم بے فکر ہو جاؤ" زارام نے فوراً سے پہلے اُس کی پریشانی کا حل پیش کیا تھا۔
" ٹھیک ہے پھر یار ذرا جلدی میں یہاں سے اُن کے آنے کے بعد ہی جاؤں گا" پھر آلودعی کلمات کے ساتھ کال بند کرتے شاہ زر زائشہ کی طرف متوجہ ہوا تھا۔

-----------_ ----------_ ----------_ ----------_

انعم نے رات کو ہی فون کرکے مائرہ کو اپنے ساتھ جانے کے لیے انوائٹ کرلیا تھا اور مائرہ جانے کے لیے بہت زیادہ ایکسائٹڈ بھی ہو رہی تھی،
بچن میں بھی اُسے سکول، کالج کے کسی ٹرپ کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں ملتی تھی عباس صاحب سختی سے اُسے منع کر دیتے تھے،
جس پر وہ ڈھیروں ڈھیر شور مچاتی تھی لیکن اُس کے کسی واویلے کو کبھی اُس کے ماں بابا نے سیریس نہیں لیا تھا، جس کا اُسے ہمیشہ بہت دُکھ ہوتا تھا۔
عباس صاحب خود مرحہ کو اور اُسے آفس سے چھٹی کے روز قریبی پارک میں لے جاتے تھے۔

انعم اور مائرہ دونوں ہی بہت ایکسائٹڈ تھیں جانے کے لیے جب کہ مرحہ کو کچھ بھی اچھا نہیں محسوس ہو رہا تھا،
جب سے زارام گئے تھے اُسے لگ رہا تھا کچھ برا ہونے والا ہے اُسے رہ رہ کر وہ خواب یاد آرہا تھا، جس میں وہ دونوں ایک گھنے جنگل میں تھے وہ زارم کو پکار رہی تھی، لیکن زارم تک اُس کی کوئی پکار نہیں پہنچ رہی تھی۔

یارِمن مسیحا (انتہائے عشق)Where stories live. Discover now