Yaar e Man Maseeha 22nd Episode

242 18 3
                                    

"حسام تم اتنے شدت پسند ہو سکتے ہو میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی"
اسے لگ رہا تھا جیسے وہ کسی خوفناک خواب میں تھی۔
"کاش یہ خواب ہی ہوتا وہ کیا کرنے چلا تھا اس کے ساتھ اگر۔۔۔۔ اگر وہ نہ رکتا تو تو کیا باقی رہتا اس کے پاس"
سوچتے ہوئے انعم کے ہاتھ پاؤں پھر سے لرزنے لگے تھے۔
"حسام پ پ پلیز مجھے ہاتھ مت لگاؤ" وہ اس کے ہاتھ ہٹاتی پیچھے کھسکتی دور ہوئی تھی اُس سے۔۔۔۔ اس کا دل کسی سوکھے پتے کی مانند لرز رہا تھا۔
"انعم تم مجھے نہیں روک سکتی تم پہ حق ہے میرا سمجھی تم صرف میرا۔۔۔۔۔"
حسام اس کی آنکھوں میں دیکھتا غرایا تھا اس کی آنکھوں میں شعلوں کی سی لپک تھی وہ پھر سے اسے تھامتا اپنے قریب کر گیا تھا۔
"ہاں ہاں حسام ت ت تمھارا۔۔۔ صرف تمھارا حق ہے" مصلحت اسی میں تھی کہ وہ اس کی ہاں میں ہاں ملاتی ورنہ اس پاگل کا کیا بھروسہ تھا وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔
"حسام ت ت تمھارا بہت بڑا احسان ہے مجھ پہ تم نے میری عزت کو داغ دار نہیں کیا،
دیکھو مجھے اب جانے دو ورنہ بہت ہنگامہ ہو جائے گا اگر کسی کو میری غیر موجودگی کا علم ہو گیا تو۔۔۔"
جب حسام اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا تھا۔
"انعم مجھے یقین ہے تم میرا احسان واقعی نہیں بھولو گی اور بھولنا چاہیے بھی نہیں ورنہ مجھے یاد دلانا بہت اچھے سے آتا ہے"
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر استہزایہ انداز میں بول رہا تھا۔
انعم کا خون کھول اٹھا تھا اس کا دل کر رہا تھا وہ سامنے بیٹھے شخص کا حسین چہرا نوچ ڈالے۔

"یونیورسٹی آف ہونے سے دس منٹ پہلے میں تمھیں یونیورسٹی کے باہر چھوڑ دوں گا تمھیں انتظار کرنا ہوگا تب تک"
سرد لہجے میں کہتا وہ اٹھا تھا۔
"ک ک کتنا وقت ہے یونیورسٹی آف ہونے میں"
انعم نے سر سے کھسکتی چادر اپنے ماتھے تک کرتے ہوئے اس سے پوچھا اسے وقت کا بلکل بھی اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔

"انو رو کیوں رہی ہو" اسے خود بھی خبر نہیں ہوئی تھی کب اس کی آنکھوں سے خاموش آنسو پھر سے بہنا شروع ہو چکے تھے۔
"نہ نہ نئ تو میں تو نہیں رو رہی" لرزتے ہاتھوں سے اس نے جلدی سے اپنا چہرا صاف کیا تھا۔

"انو میں یہ سب نہیں کرنا چاہتا تھا تمھارے ساتھ میرا یقین کرو تم نے خود مجھے مجبور کیا اس حد تک آنے کے لیے"
وہ پھر سے اس کے پاس بیٹھتا اب بے چینی سے بول رہا تھا۔
"حسام مجھے مجھے پانی چاہئے پانی لا دو پلیز" گھبراتے ہوئے وہ پیشانی سے پسینے کو صاف کرتی خول رہی تھی اسے وحشت ہو رہی تھی اس کے وجود سے،
وہ بس کسی بھی بہانے سے اسے خود سے دور کرنا چاہتی تھی۔

حسام کے جاتے ہی وہ گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹتے شدت سے رو دی تھی
جب تھوڑی ہی دیر بعد حسام کے قدموں کی چاپ سنتے اس نے فوراً گھبراتے ہوئے آنسو صاف کیے تھے۔
کانپتے ہاتھوں سے گلاس تھامتے اس نے ایک ہی سانس میں پورا گلاس خالی کر دیا تھا کمرے میں موجود ایک واحد کرسی جو بیڈ اور دروازے کے بلکل سامنے پڑی تھی،
حسام اب اس پر بیٹھا ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے اپنی تھوڑی کو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے تھامے سر کرسی کی پشت سے ٹکائے مسلسل اس کو نظروں کے حصار میں لئے ہوئے تھا۔

یارِمن مسیحا (انتہائے عشق)Where stories live. Discover now