Last Episode (Part:1)

2.8K 174 141
                                    

عید کا دن آیا، معمول کی طرح سورج طلوع ہوا اور پھر اپنے وقت پر غروب بھی ہو گیا بلکہ مزید دو دن ایسے ہی گزر گۓ۔

مناہل کی زندگی میں یہ پہلی عید تھی جو کوئی رنگ بکھیرے اور خوشیاں سمیٹے بغیر گزر گئ۔

اب تو بائیں ہاتھ پر لگی مہندی کا رنگ بھی تھوڑا مدھم پڑ گیا تھا۔

'شاید میرے نصیب کی ساری خوشیاں ختم ہو گئ ہیں۔'

اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوۓ مناہل نے افسردگی سے سوچا۔

شایان اس رات زرتاشہ کو اپنے ساتھ گھر لے آیا تھا اور اس کے بعد سے شایان کو اپنا ہوش بھی بھولا ہوا تھا ایسے میں مناہل کو یاد رکھنا تو بہت دور کی بات تھی۔

بی جان اور سفینہ بھی ہر وقت زرتاشہ کے پاس پائی جاتیں۔

اس دوران مناہل پر ایک اور انکشاف بھی ہوا تھا۔

شایان کے پورشن میں جو کمرا ہر وقت لاک رہتا تھا وہ شایان نے زرتاشہ کے لیے کھول دیا تھا۔

پہلی دفعہ تو اس کمرے میں داخل ہوتے ہی مناہل کو ایسے لگا جیسے وہ کسی اور دنیا میں آ گئ ہو۔

شایان خان کا پورا مینشن سیاہ ، سفید اور سرمئی رنگ کے امتزاج سے بنا تھا لیکن اس کمرے میں رنگوں کی بہار تھی۔

دیواروں پر رنگین پینٹنگز لگی تھیں، چھت سے رنگین تتلیاں لٹک رہیں تھیں۔

بالکنی میں رکھے گۓ پھول دار پودے بلکل تروتازہ تھے۔ یقینا یہ سب شایان خود کرتا تھا

ورنہ اس کے علاوہ تو کسی کو بھی اس کمرے میں داخل ہونے کی اجازت تھی نہ جراءت۔

فیروز خان اور اسفندیار بھی آج پہنچے تھے۔ پہلے عید کی وجہ سے تقریباً ساری مسافر پروازیں بُک تھیں۔

زرتاشہ اتنے سالوں بعد اپنے باپ اور بھائی سے ملنے کی خوشی اور ماں کے بچھڑنے کے غم میں تڑپ تڑپ کر بلکل بچوں کی طرح روئی تھی۔

اس سب صورتحال اور شایان کے رویے نے مناہل کو سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ

کیا زرتاشہ ، شایان کے لیے صرف ایک دوست ہی تھی یا وہ اسے چاہتا بھی تھا؟

***************

شایان زرتاشہ کے کمرے میں صوفے پر بیٹھا مختلف سوچوں کے جال میں پھنسا تھا۔

اتنے سال اس نے زرتاشہ کو مرا ہوا تصور کیا...

کاش اسے پہلے پتا چل جاتا کہ اس کی زری زندہ ہے تو وہ اسے اتنی اذیت سہنے سے بچا سکتا ۔

وہ انڈر ورلڈ کا بادشاہ تھا۔ پاکستان کی ساری مافیا اس کے نیچے کام کرتی تھی۔

کسی بندے کو ڈھونڈنا ، اٹھوانا اور غائب کرنا... یہ سب بائیں ہاتھ کا کھیل تھا

MOHABBAT by Haya Fatima Unde poveștirile trăiesc. Descoperă acum