Episode : 12

3.6K 194 124
                                    

یہ آنکھ شدت گریہ سے لال تھوڑی ہے
ملال ہے مگر اتنا ملال تھوڑی ھے

جسے تو حسن سمجھتا ہے میرے چہرے کا
تری نظر ھے یہ میرا جمال تھوڑی ہے

پروں کو کاٹ دیا ہے اڑان سے پہلے
یہ خوفِ ہجر ھے شوق وصال تھوڑی ہے

سزا سمجھ کے تجھے یاد رکھونگی تاعمر
وگرنہ تجھکو بھلانا محال تھوڑی ہے

جورقص دل سے نہیں پاؤں سے کیا جائے
وہ رقصِ ذات ھے کوئی دھمال تھوڑی ھے

مزا تو جب ہے کہ جب ہار مان کر ہنس دو
ہمیشہ جیت ہی جانا کمال تھوڑی ہے

لگانی پڑتی ھے ڈبکی ابھرنے سے پہلے
ھر ایک غروب کا مطلب زوال تھوڑی ہے

سب اپنے واسطے ہی فکر مند ہیں روحی
یہاں کسی کو کسی کا خیال تھوڑی ہے 

دروازے پر ہوتی دستک کی وجہ سے اس کے سوۓ ہوۓ اعصاب آہستہ آہستہ بیدار ہونے لگے۔ بمشکل آنکھیں کھولتے ہوۓ اس نے بایاں ہاتھ منہ پر رکھ کر جمائی روکی۔

کچھ پل بے توجہی سے چھت سے لٹکتے فانوس کو دیکھنے کے بعد جب اس کا ذہن پوری طرح بیدار ہوا تو اس نے خود کو شایان خان کے کمرے میں موجود پایا۔

رات کے مناظر یاد آتے ہی وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی اور گردن پھیر کر اپنی دائیں جانب دیکھا تو اس کا رکا ہوا سانس بحال ہوا، شایان بیڈ پر موجود نہیں تھا۔

دروازے پر دستک اب بھی ہو رہی تھی۔ مناہل نے ایک نظر گھڑی پر ڈالی جو دن کے بارہ بجا رہی تھی۔ اس نے ایک ہاتھ سے بال سمیٹے اور دوسرے ہاتھ سے دوپٹہ اٹھا کر کاندھے پر ڈالا۔ 

بیڈ سے اترتے ہی پاؤں کے نیچے دبیز قالین کی نرمی محسوس ہوئی تھی۔

اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو سامنے حِنا اور سفینہ چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ موجود تھیں۔  مناہل نے دروازہ پورا کھولا اور خود پیچھے ہٹ گئ۔

"گڈ مارننگ دلہن صاحبہ۔ آج تم نے جاگنے میں بہت دیر کر دی۔ میں تو صبح سے تمہارے جاگنے کا انتظار کر رہی ہوں۔  شایان لالہ تو صبح آٹھ بجے ہی ڈائیننگ ہال میں موجود تھے لگتا ہے تم کچھ زیادہ ہی تھک گئ تھی۔"

حِنا اسے کچھ بھی بولنے کا موقع دیۓ بغیر خود ہی بولے جا رہی تھی ۔

وہ ایسی ہی تھی جب بولنا شروع کرتی تھی تو خاموش ہونا بھول جاتی تھی۔ سفینہ خاموش سی حِنا کے ساتھ کھڑی مناہل کو دیکھ رہی تھی۔

"ہاں... اتنا بھاری جوڑا تھا اور ہیلز کی وجہ سے بہت تھکن محسوس ہو رہی تھی  اس لیۓ پتا ہی چلا اور میں اتنی دیر سوتی رہی۔ آپ نے پیکنگ کر لی؟" مناہل نے باتوں کا رخ بدلنا چاہا۔

حِنا ، اسفندریار اور فیروز خان آج شام واپس جا رہے تھے۔ حِنا کی لندن کی فلائٹ تھی جبکہ اسفندریار اور فیروز خان ترکی جا رہے تھے۔ 

MOHABBAT by Haya Fatima Where stories live. Discover now