Episode : 17

3K 149 102
                                    

کہیں شایان کو پتا تو نہیں چل گیا کہ میں اس وقت اس کے اسٹڈی روم میں ہوں!

مناہل کو اس سوچ کے ساتھ ہی ایک جھرجھری بھی آئی۔ 

کانپتے ہاتھوں کے ساتھ مناہل نے کال ریسیو کی اور ساتھ ہی گردن گھما کر کسی خفیہ کیمرے کی موجودگی پتا کرنی چاہی۔

"ہی...ہیلو۔" وہ بامشکل منمنائی۔

"اسلام و علیکم! طبعیت ٹھیک ہے تمہاری؟ "  مناہل کا اتنا دھیما لہجہ سن کر شایان کو تشویش ہوئی۔

"وعلیکم سلام...جج...جی میں ٹھیک ہوں۔"

  مناہل نے ایک ہاتھ سے ولید کی تصویر واپس ڈائری میں ڈالی اور ڈائری کو پاس رکھے ٹیبل کے اوپر دھرا۔

"کیا کر رہی ہو؟ اور اتنی دھیمی آواز میں کیوں بول رہی ہو؟ میری غیرموجودگی میں کہیں اپنی زبان میکے تو نہیں چھوڑ آئی!"

شایان کے طنز پر بھڑکنے کے بجاۓ مناہل نے سکون کا سانس لیا تھا کہ شکر ہے شایان کو نہیں پتا چلا۔

"کک... کچھ نہیں.... وہ... وہ میرے سر میں درد ہو رہا ہے تو بولا بھی نہیں جا رہا۔"

مناہل نے بہانا بنایا اور ساتھ ہی ایک ہاتھ ٹیبل پر جما کر اس کے سہارے اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"اچھا آرام کرو پھر۔ اور تمہاری ڈاکٹر کے ساتھ اپائنٹمنٹ کب کی ہے؟"

شایان خود کو جتنا لاپرواہ ظاہر کرتا تھا اتنا لاپرواہ وہ تھا نہیں۔

وہ مناہل کے بارے میں ہر پل کی خبر رکھتا تھا۔     

"کل دوپہر میں جانا ہے۔" اب مناہل ڈائری اٹھاۓ احتیاط سے اسٹڈی روم کا دروازہ بند کرتے ہوۓ باہر نکل رہی تھی۔ 

"میں کل واپس آ رہا ہوں لیکن اگر مجھے پہنچنے میں دیر ہو گئ تو تم ڈرائیور کے ساتھ ہی چلی جانا۔ خدا حافظ۔"

شایان کے فون بند کرتے ہی مناہل نے سکون کا سانس لیا اور اس سے بات کرنے کے دوران اے سی کی خنکی کے باوجود مناہل پسینے میں ڈوب چکی تھی۔

اب مناہل آرام سے واپس اپنے کمرے میں گئ اور ڈائری الماری میں اپنے کپڑوں کے نیچے چھپا کر دی۔ اس کا ارادہ رات میں ڈائری پڑھنے کا تھا۔

**********

شام کے ساۓ پھیلنا شروع ہو چکے تھے اور ساتھ ہی ہوا بھی ٹھنڈی ہوتی جا رہی تھی۔

تنگ و تاریک کمرے میں ایک شخص چھت سے لٹکتی زنجیروں سے بندھے بازؤں کے ساتھ بےہوشی میں جھول رہا تھا۔

گردن بائیں جانب کو لڑکھی تھی اور اس کے پیر کے انگوٹھے بامشکل سیمنٹ سے بنے فرش کو چھو رہے تھے۔   

کمرے کا دروازہ کھلا اور دیان خان اندر داخل ہوا ساتھ ہی اس نے کمرے میں لگا پیلا بلب روشن کیا۔

MOHABBAT by Haya Fatima Where stories live. Discover now