Episode : 18

2.6K 169 106
                                    


جس کی قسمت میں لکھا ہو رونا محسن
وہ مسکرا بھی دیں تو آنسو نکل آتے ہیں۔

ہسپتال کے کمرے میں  سفید دیواروں کے درمیان بیڈ پر سفید ہی چادر میں لپٹا وجود،  ایسا لگتا تھا جیسے کسی مردے کو کفن میں لپیٹ کر رکھا گیا ہو۔
 

چہرہ سرسوں کے پھول کی طرح زردی مائل دکھائی دیتا تھا جیسے جسم کا سارا خون خشک ہو چکا ہو۔

ماتھے اور سر پر سفید پٹی بندھی تھی ، چہرے پر آکسیجن ماسک چڑھا تھا اور دائیں ہاتھ میں ڈرپ لگائی گئ تھی۔  

مناہل کو اس حالت میں دیکھتے ہوۓ اس وقت شایان جس کرب سے گزر رہا تھا، ناقابلِ بیان تھا۔

مناہل کے بائیں ہاتھ کو اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان نرمی مگر مضبوطی سے اس طرح تھام کر بیٹھا تھا

کہ جیسے اس نے مناہل کی سانسوں کو تھام رکھا ہو اگر ہاتھ چھوڑ دیا تو سانسیں بھی رک جائیں گی۔

دوپہر رات میں ڈھل چکی تھی لیکن شایان کے لیے گزرا ہر پل اذیت اور بےچینی سے بھرپور تھا۔ 

تکلیف تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی اور صبر تو اتنی جلدی ویسے بھی نہیں آنا تھا

اور صبر آتا بھی کیسے دل پر لگا زخم تازہ اور گہرا تھا، جس سے ابھی خون رس رہا تھا۔

دوپہر میں ڈاکٹر کے کہے جانے والے الفاظ تیز دھار خنجر کی طرح دل و دماغ میں پیوست ہو گۓ تھے۔ 

"اوہ... آئی ایم سوری ہم...

آپ کے بچے کو نہیں بچا سکے۔

آپ کی وائف کا مسِ کیرج ہو گیا ہے اور بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے آپ کی وائف کی کنڈیشن بھی کریٹیکل ہے۔

آپ دعا کریں اور جلد از جلد بی پازیٹو بلڈ کا ارینج کریں۔"

ڈاکٹر تو اپنی بات مکمل کر کے جا چکی تھی لیکن شایان کا وجود شدید زلزلوں کی زد میں تھا۔ 

کچھ پل تو ایسے ہی سکتے کے عالم میں گزر گۓ لیکن پھر اسے خیال آیا کہ وہ یہاں اکیلا ہے اور اسے سب کچھ اکیلے ہی کرنا ہے۔ 

خود کو سمبھالنا بھی خود ہی ہے اور باقی کی بھاگ دوڑ بھی کرنی ہے۔

مناہل کے لیے خون کا بندوبست کرنے کے بعد شایان آپریشن تھیٹر کے باہر دیوار سے پشت ٹیکا کر کھڑا ہو گیا۔ 

شایان خان کو اس وقت کسی مضبوط سہارے کی ضرورت تھی لیکن دماغ پر زور ڈالنے کے باوجود ذہن میں ایسا کوئی نام نہیں آیا تھا،

جو اس وقت شایان کے ایک بار بلانے پر اس کے پاس موجود ہوتا اور اس کا غم بانٹتا۔

اپنے اکیلے پن کا ایک بار پھر شدت سے احساس ہوا تو ضبط کے باوجود آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ 

MOHABBAT by Haya Fatima Where stories live. Discover now