Episode : 8 ❤

874 40 17
                                    

موم! چچی! روئیں تو نہیں نا یار!

سب گھر واپس آچکے تھے لیکن وہ دونوں تو بس روئے جا رہی تھیں اور سمیر کب سے عالیہ کی رخصتی پر خود رونے کو ضبط کرتا بس ان دونوں کو چپ کروانے میں لگا تھا کیونکہ اسے اپنوں کو بھی تو سنبھالنا تھا۔۔۔ اس نے شانزے، جیا اور ادیان کو بھی اپنے ساتھ چلنے کا بولا۔۔۔ اسے لگا کے شاید آج وہ اکیلا اپنی موم اور چچی کو نا سنبھال پائے۔

آنٹی! سمیر صحیح کہہ رہا ہے رونے سے آپ دونوں کی طبیعت خراب ہو جائے گی۔۔۔ شانزے نے آگے بڑھتے ان دونوں کو چپ کروانا چاہا۔

میں کیسے رہوں گی عالیہ کے بغیر۔۔۔ اس گھر کی رونق تھی وہ۔۔۔ میرے گھر کو تو وہ ویران کر گئی۔۔۔ رقیہ بیگم روتے ہوئے بولیں تو سمیر کا بھی ضبط ٹوٹا یہ سن کر اس کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہوگئے جب ادیان نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا۔

________________

ہم نے آنٹی لوگوں کو آرام کی دوا دے کر سلا دیا ہے وہ اب صبح ہی اٹھیں گی۔۔۔ اب تم بھی آرام کرو ہم اب چلتے ہیں کل صبح آجائیں گے۔۔۔ جیا نے سمیر کو تسلی دیتے کہا جو اس وقت بہت اداس لگرہا تھا۔

میں آج سمیر کے ساتھ یہیں ہوں۔۔۔ چلو میں تم دونوں کو پہلے گھر چھوڑ کر آتا ہوں۔۔۔ ادیان نے سمیر کو اداس دیکھ کر آج اس کے ساتھ رکنے کا سوچا۔۔۔ ان تینوں کے جاتے ہی سمیر نے اپنے کمرے کا رخ کیا۔۔۔ اسے گھر کی اداسی سے گھبراہٹ سی ہونے لگی تھی۔۔۔ ایک تو عالیہ کی قمی اوپر سے اتنے دن جو گھر میں شادی کی رونقیں تھیں آج مہمانوں کے چلے جانے سے وہ بھی ختم ہوگئی تھیں۔

____________❤❤

تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میری بائیک کو اپنی وہ خٹارا مارنے کی۔۔۔ وہ اس لڑکی کے اوپر چڑھی اس کے بال اپنے ہاتھوں میں لئے اسے مارے جا رہی تھی اور وہ لڑکی بھی اس سے ایک قدم پیچھے نا تھی اس کے ہاتھ بھی شانزے کے بالوں میں تھے۔

یار! تم لوگ یہاں آرام سے بیٹھے ہوئے ہو اور وہاں شانزے اور ہبہ کی کیٹ فائیٹ چل رہی ہے۔۔۔ اٹھو اور انہیں روکو جا کر۔۔۔ ایک لڑکا ہامپتا ہوا ان کو یہ کہتا واپس چلا گیا۔۔۔ وہ تینوں جو کینٹین میں بیٹھے کافی پی رہے تھے سب سے پہلے تو ایک دوسرے کو دیکھا پھر وہ بھی اس لڑکے کے پیچھے اسی طرف بھاگے تھے۔

چھوڑو یار اسے۔۔۔ مارو گی کیا اس کو۔۔۔
سمیر اور ادیان شانزے کو اس لڑکی سے الگ کرتے ایک ساتھ بولے۔

میں نہیں چھوڑوں گی اس چڑیل کو۔۔۔ میں جانتی ہوں جان بوجھ کر میری بائیک کو ٹکر ماری ہے اور اب کہہ رہی ہے غلطی سے ہوگیا۔۔۔ شانزے کا غصہ کم ہونے کو نہیں آرہا تھا جب ان دونوں نے اسے گھسیٹ کر ایک بینچ پر بٹھایا۔

پانی پیو شانزے۔۔۔ جیا نے اس کی طرف پانی کی بوتل بڑھائی۔۔۔ سمیر اور ادیان جو غصے میں تھے شانزے کے کھڑے بال دیکھ کر ان کی ہنسی نکل گئی اور اب وہ تینوں ہی مسلسل اس پر ہنسے جا رہے تھے جبکہ شانزے انہیں خونخوار نظروں سے دیکھے گئی۔

 "محبت سانس در سانس مجھ میں" از قلم سوزین سائرہ 𝕔𝕠𝕞𝕡𝕝𝕖𝕥𝕖𝕕  Unde poveștirile trăiesc. Descoperă acum