۔۔۔یقین

53 10 14
                                    

۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

ماں ؟؟؟اس لفظ کا مطلب جانتی ہیں آپ؟؟؟
جب اتنے سال آپ کو یاد نہیں آیا کہ آپ کا اک بیٹا بھی ہے۔یہاں آ کر آپ یہاں کی رنگینیوں میں اس قدر کھو گئیں کہ آپ کو احساس تک نہ تھا کہ وہ چھوٹا سا بچہ رات رات بھر روتا رہتا تھا ۔اور جب میں نے اسے پاکستان آپا کے پاس لے جانے کی بات کی تھی تب بھی آپ کو نہیں تھا یاد آیا کہ وہ آپ کا بیٹا ۔۔آپ اس کی ماں  ۔۔وہ کیسے رہے گا آپ کے بغیر؟ ؟؟
آپ کو تو صرف اتنا پتہ تھا کہ آپ رہ لیں گی اس کے بغیر ۔ایک بار بھی آپ نے نہیں کہا تھا مت حارب کو پاکستان چھوڑ کر آئیں ۔تب وہ آپ پر بوجھ تھا ۔آج کیسے بیٹا بن گیا؟ ؟؟
آج آپ کیسے اس کی ماں بن گئیں؟ ؟؟
عمر کو اس وقت کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا آج ان کا دل کر رہا تھا نور آفروز کو ان کا ان پر اور ان کے بیٹے پر کیا اک اک ظلم یاد دلائیں ۔ان کا بس نہیں چل رہا تھا ۔
نر آفروز کو عمر کے اس شدید ردعمل کی توقع نہ تھی ۔وہ خاموش تھیں ۔ان کے پاس عمر کی کسی بات کا جواب نہیں تھا ۔
آج تو آپ نے کہہ دی یہ بات دوبارہ کبھی نہیں کہیئے گا۔غلطی سے بھی نہیں ۔۔۔آپ کا کوئی بیٹا نہیں سمجھی آپ۔۔۔۔وہ نور آفروز کو تنبیہہ کرتے ہوئے باہر نکل گئے ۔
وہ وہی کھڑی رہ گئیں تھیں ۔کیا کہتی وہ۔ان کے پاس کوئی ایسی دلیل نہ تھی جو وہ عمر کو دیتی اور وہ مان جاتے۔۔
عمر کے اس ری ایکشن سے اتنا تو وہ سمجھ گئی تھیں کہ وہ حارب کو امریکہ نہیں بلائیں گے۔نا ہی اس معاملے میں ان کی کوئی مدد کریں گے۔اب جو بھی کرنا تھا انہیں خود کرنا تھا ۔

♡♡♡♡♡♡

صبح سے شام تک ہم کو
بہت سے لوگ ملتے ہیں
نگاہوں سے گزرتے ہیں
کوئی انداز تم جیسا
کوئی ہم نام تم جیسا
کسی کی آنکھیں تم جیسی
کسی کی باتیں تم جیسی
مگر تم ہی نہیں ملتے
یقین منو! بہت بے چین رہتے ہیں
بڑے بے تاب رہتے ہیں
دعا کو ہاتھ اٹھتے ہیں
دعا میں یہ ہی کہتے ہیں
لگی ہے بھیڑ لوگوں کی
مگر اس بھیڑ میں ہم کو
   کبھی تم بھی نظر آو۔۔۔۔
   کبھی تم بھی نظر آو ۔۔۔!

وہ کالج جانے کے لیے ریڈی تھا ۔ٹائم بھی ہو چکا تھا ۔مگر جانے کی بجائے وہ ابھی بھی گھر تھا ۔آج صبح سے اسے وہ نظر نہیںآئی تھی ۔
کالج تو اسے بھی جانا تھا پھر کیوں روم سے باہر نہیں آئی ابھی تک؟؟
وہ انہی سوچوں میں گم تھا جب صالحہ بیگم نے اسے آواز دی۔
حارب تم ابھی تک گئے نہیں بیٹا؟ ؟
ریڈی ہوں پھوپو بس جانے لگا ہوں۔۔وہ شش و پنج میں تھا کہ پھوپو سے منال کا پوچھے یا نا پوچھے ۔۔
جب وہ واپس جاتی رکیں۔حارب کالج کے بعد آج کہیں مت جانا۔سیدھے گھر آنا۔
خیریت پھوپو؟ ؟اس نے پرشان لہجے میں پوچھا
ہاں خیریت ہے کچھ شاپنگ کرنی ہے ۔ویسے تو میرا دل تھا منال کے ساتھ جاوں مگر اس کی طبیعت نہیں ٹھیک ۔اور عمار بھیگھر لیٹ آتا ہے۔اس لیے تمہیں کہہ رہی ہوں یاد سے آ جانا ٹائم پہ گھر ۔۔۔
جی بلکل پھوپو میں آ جاوں گا۔۔۔۔
اب تم جاو تمہیں دیر ہو رہی ہو گی ۔انہیں باتوں باتوں میں یاد آیا کہ اس کے کالج کا ٹائم ہو گیاہے اور وہ ابھی تک اسے روکے کھڑی ہیں ۔۔۔

وہ جو صبح سے اس کا منتظر تھا صرف اک نظر اسے دیکھنے کے لیے ۔۔اب وہ سارا دن نظر آئے گی۔یہ سوچ کر پریشان تھا ۔اس کی طبیعت نہیں ٹھیک یہ بات اسے مزید پریشان کر رہی تھی ۔وہ بے دلی سے گاڑی میں آ کر بیٹھا تھا ۔دل اب بھی یہی کہہ رہا تھا کہ کاش وہ اک بار سامنے آ جائے ۔

اس سے پہلے کے وہ گاڑی سٹارٹ کرتا پھوپو نے اسے آواز دی تھی ۔
حارب بیٹا رکو ۔۔
جی پھوپو ۔۔۔۔۔
منال کو بھی ساتھ لے جاو۔بہت ضدی ہے یہ لڑکی طبعیت خراب ہے ۔کتنا کہا ہے مت جاو۔مگر نہیں سنتی۔اب کالج وین تو جا چکی ہو گی ۔تم اسے بھی لے جاو۔
اس کے تو دل کی مراد پوری ہو گئی تھی ۔چہرے پہ اداسی کی جگہ مسکراہٹ نے لے لی تھی ۔
لو آ گئی منال ۔۔۔
منال حارب ابھی یہیں ہے وین تو جا چکی ہو گی آج تم دونوں اکٹھے چلے جاو۔
جی امی مگر ان سے پوچھ لیں۔ان کو کوئی دقت تو نہیں ہو گی مجھے ساتھ لے جانے میں؟ ؟
اس سے پہلےکہ صالحہ بیگم بولتیں ۔وہ بول پڑا ۔
مجھے کیوں دقت ہونی ۔تم آ جاو۔
وہ دونوں سارا راستہ خاموش رہے تھے ۔منال نے اک دفعہ بھی اس کی طرف نہیں دیکھا تھا ۔جبکہ وہ سارا راستہ اس کی توجہ کا مرکزبنی رہی تھی ۔
کالج پہنچ کر جب وہ کلاسز میں جا رہے تھے ۔وہ باہر ہی رک گئی تھی ۔
اسے کھڑا دیکھ کر وہ بھی رک گیا تھا ۔کہ شاید اس کی طبیعت خراب ہے۔
منال آر یو او کے؟؟اس نے اپنائیت سے پوچھا تھا ۔
یس آئی ایم او کے۔۔آپ جائیں ۔
نہیں مجھے تم ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔
کہا نا میں ٹھیک ہوں آپ جائیں ۔یہ گھر نہیں ہے نا یہاں امی ہیں سامنے ۔تو یہ دکھاوا کیوں؟
منال یہ دکھاوا نہیں ہے۔مجھے تمہاری فکر ہو رہی اس لیے کہا  ۔
فکر؟؟؟آپ کو کیوں ہو رہی میری فکر؟ ؟کیا لگتی میں آپ کی؟؟کیوں اپنا قیمتی وقت میرے ساتھ یہاں برباد کر رہے؟ ؟
وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی وہ آج تک غلط ہی تو کرتا آیا تھا اس کے ساتھ ۔۔پھر آج وہ اس کی باتوں کا یقین کیسے کر لے۔
اس کی واقعی بہت خراب تھی ۔وہ جانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا مگر جب اس نے دیکھا اس کے ہاتھ بھی کانپ رہےتھے ۔چہرہ ایسے زرد تھا جیسے کسی نے خون نچوڑ لیا ہو۔جب تک وہ وہاں رہتا وہ ڈسٹرب رہتی ۔اسی لیے وہ وہاں سے چلا گیا تھا ۔

نیکسٹ منتھایگزامز تھے اس لیے اب وہ اور بھی ذیادہ توجہ دے رہی تھی اپنی سٹڈی پر۔یہی وجہ تھی کہ وہ بیمار ہونے کے باوجود کالج آئی تھی ۔

مہرین کے بغیر اب کالج میں اس کا زرا بھی دل نہیں لگتا تھا ۔
اس نے خود کو پڑھائی میں مصروف کر لیا تھا
کلاسز ختم ہوتے ہی وہ کینٹین میں آ گئی تھی ۔اک تو طبیعت خراب تھی دوسرا وہ آج بنا کچھ کھائے پیےکالج آ گئی تھی ۔سارا دن سٹڈی کرتے گزارا تھا ۔اب اسے چکر آ رہے تھے ۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ آج گھر کیسے جائے گی۔جتنی دفعہ بھی وہ اٹھنے کی کوشش کرتی اسے لگتا کہ وہ ابھی گر جائے گی۔پھر وہی بیٹھ جاتی۔مگر گھر تو جانا تھا ۔کچھ دیر وہاں بیٹھ کر اس نے پھر اٹھنے کی کوشش کی ۔مگر اسے چکر آ گیا تھا ۔

اچانک آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا تھا ۔اسے اپنی آنکھیں بند ہوتی محسوس ہوئی تھیں ۔آخری آواز جو اس نے سنی تھی وہ حارب کی تھی ۔وہ اسے بلا رہا تھا ۔۔۔
منال ۔۔۔۔منال ۔۔۔۔

To be continue. .....

Ab tk ki sb se barhi epi😻

یقین ۔۔۔۔Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang