Episode 1

5.3K 222 25
                                    

وہ یونیورسٹی میں گراونڈ میں بیٹھیں تھیں۔۔ تھوڑی دیر پہلے ہی ابھی وہ اپنے فرسٹ سمیسٹر کا آخری پیپر دے کر آئیں تھیں اور اب گراؤنڈ میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔
"تمہیں کیا ہوا ہے ہانیہ؟ "
وہ سب باتیں کر رہیں تھیں لیکن ہانیہ ایک کونے میں خاموش بیٹھی اپنا سر دونوں ہاتھوں میں گرائے ہوئے تھی۔
"کچھ نہیں بس سر میں شدید درد ہورہا ہے۔ "
وہ آہستگی سے بولی
"تو تم کسی ڈاکٹر کو چیک کرواؤ نا ہانی۔۔۔ تقریباً ہر روز ہی تمہارے سر میں درد رہتا ہے۔ "
فاطمہ اسے مشورہ دیتی ہوئی بولی
"ہاں سوچ رہی ہوں پراپر چیک اپ کروا ہی لوں۔۔ چلو تم لوگ انجوئے کرو میں گھر جا رہی ہوں۔ "
وہ یہ کہتی ہوئی اپنی کتابیں اٹھا کر وہاں سے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا ہوا ہانی؟ پیپر اچھا نہیں ہوا کیا؟ "
وہ گھر میں داخل ہوئی تو اس کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر فرزانہ بیگم نے سوال کیا۔
"نہیں ماما۔۔ پیپر تو بہت اچھا ہوا ہے بس سر میں تھوڑا درد ہے۔"
وہ کنپٹی مسلتی ہوئی بولی
"اور چلاؤ سارا دن موبائل۔۔ چلا چلا کر موبائل اپنی آنکھیں خراب کر لی ہیں اب روز سر میں درد ہوتا ہے۔۔ "
وہ روائتی ماؤں کی طرح اسے لڑتے ہوئے بولیں
"اماں۔۔۔ چائے آپ بنا کر دیں گی یا میں خود بنا لوں؟ "
وہ اکتاہٹ سے بولی
"میں بنا دیتی ہوں تم لیٹو جا کر اور اس موبائل کی جان چھوڑ دینا اب۔۔ "
وہ یہ کہتی ہوئیں کچن میں چلی گئیں تو وہ بھی اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چائے پینے کے بعد ابھی وہ لیٹی ہی تھی کہ اس کہ کمرے کا دروازہ کھلا۔۔۔
"کیا حال احوال ہیں آدم بیزار لوگوں؟ "
ارسلان اپنی دھن میں بولتا صوفے پر جاکر بیٹھ گیا۔
"تم کیوں اس وقت منہ اٹھا کر آ گئے ہو؟ "
ارسلان کو دیکھ کر وہ بے زاری سے بولی
"میں نے سوچا اتنا سہانہ موسم ہورہا ہے تو کیوں نا جاکر آئسکریم کھا آئیں۔ "
"میں کہیں نہیں جارہی میرے سر میں پہلے ہی بہت درد ہے۔۔ "
وہ منع کرتے ہوئے بولی
"تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے ہانی؟ میں جب بھی آتا ہوں تمہارے سر کا درد ہی ختم نہیں ہوتا۔"
وہ اس کہ انکار پر غصے سے بولا
"تم فلحال جاؤ یہاں سے میرا کوئی بھی بات کرنے کا موڈ نہیں ہے۔ "
"مجھے بھی تم سے بات کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔۔ جب دیکھو تمہارے تو ڈرامے ہی ختم نہیں ہوتے۔ "
غصے سے کہتا وہ کمرے سے باہر چلا گیا تو ہانیہ اپنا سر دونوں ہاتھوں پر گرائے بیٹھی رہ گئی۔
ہانیہ اور ارسلان کی منگنی کو تقریبا چھ ماہ گزر چکے تھے۔ ہانیہ ارسلان سے دو سال چھوٹی تھی اور اس کی چچا زاد بھی تھی۔
اسلم صاحب اور کامران صاحب دونوں بھائیوں کے گھر ساتھ ساتھ ہی تھے۔۔ اسلم صاحب کے تین بچے تھے۔ بڑی بیٹی مریم شادی شدہ تھی جبکہ بیٹا ارسلان ابھی فورتھ سمیسٹر میں تھا جبکہ سب سے چھوٹی بیٹی خدیجہ فرسٹ ائیر میں تھی۔
کامران صاحب کے دو بچے تھے۔۔ بیٹا حسن سوفٹ وئیر انجینئر تھا اور کسی کمپنی میں جاب کر رہا تھا جبکہ بیٹی ہانیہ فرسٹ سمیسٹر میں تھی۔
دونوں گھروں میں نہایت پیار محبت تھا اسی بناہ پر انہوں نے آپس میں رشتے بھی طے کیے ہوئے تھے۔
ہانیہ اور ارسلان کی منگنی تب ہوئی تھی جب وہ سیکنڈ ائیر کے ایگزامز سے فارغ ہوئی تھی جبکہ ان کی منگنی پر ہی حسن اور خدیجہ کی بھی بات پکی کر دی گئی تھی۔۔ حسن خدیجہ سے سات سال بڑا تھا لیکن پھر بھی کامران صاحب کی خواہش پر ان کا رشتہ طے کر دیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جنید بھائی کبھی ٹائم سے بھی گھر آ جایا کریں کوئی آپ کا انتظار بھی کر رہا ہوتا ہے۔۔ "
وہ کالی پینٹ شرٹ پر سفید کوٹ پہنے گھر میں داخل ہوا تو پہلے ہی اس کا سامنہ اسامہ سے ہوگیا جو کہ ٹی وی لانج میں پاپ کارن کا ڈبا پکڑے صوفے پر بیٹھا تھا۔ اس کی نظر اسامہ سے ہوتی ہوئی عمیر کی طرف پڑی جو کہ صوفے پر اندھے منہ سویا پڑا تھا۔ پھر اس نے گھڑی کی طرف دیکھا جس پر ڈیڑھ بج چکا تھا۔ اسے صبح ان دونوں سے کیا گیا وعدہ یاد آیا۔
"سوری یار ایک ایمرجنسی کیس کی وجہ سے پھر لیٹ ہوگیا میں۔ "
وہ اپنا کوٹ اتارتا ہوا شرمندگی سے بولا
"میری تو خیر ہے اب اس کو کیسے منائیں گے جو آپ کا انتظار کرتے کرتے یہیں سو گیا ہے؟ "
اسامہ نے عمیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا
"اس کو بھی کسی نا کسی طریقے منا لیں گے تم بس مجھے ایک کپ چائے پلا دو اچھی سی۔۔ "
وہ صوفے پر بیٹھتا ہوا عاجزی سے بولا
"ڈاکٹر جنید آپ آخر شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ کب تک میں آپ کے لیے چائے بناتا رہوں گا؟ "
اسامہ دونوں ہاتھ کمر پر ٹکائے سنجیدگی سے بولا
"میں شادی کے بعد بھی تم سے ہی چائے بنواؤں گا۔"
وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا تو اسامہ منہ بسور کر کچن میں چلا گیا۔
فرزانہ بیگم ( ہانیہ کی امی) کے ایک ہی بھائی تھے محمود صاحب جن کہ تین بیٹے تھے۔ بڑا بیٹا جنید نیورو سرجن تھا دوسرا نیٹا اسامہ جس کا ابھی میڈیکل کا دوسرا سال تھا جبکہ تیسرا بیٹا عمیر میٹرک میں تھا۔
آج صبح جنید عمیر سے وعدہ کرکہ گیا تھا کہ وہ جلدی گھر آئے گا اور ان کہ ساتھ موی دیکھے گا لیکن ایک ایمرجنسی کی وجہ سے وہ پھر لیٹ ہوگیا تھا۔ جنید میٹرک کے بعد سے ہی اسلام آباد شفٹ ہوگیا تھا اور باقی کی تعلیم اس نے وہیں سے حاصل کی تھی۔ ابھی پچھلے سال ہی ڈگری مکمل ہونے پر اسے لاہور میں ہی کسی ہاسپٹل میں جاب مل گئی تھی اس لیے وہ اب یہاں واپس آگیا تھا۔ اسامہ کا ایڈمنڈسن ملتان میں ہوا تھا اس لیے وہ دو سال سے ملتان میں ریہائش پزیر تھا اور دو مہینوں میں صرف ایک بار ہی گھر آتا تھا جبکہ جنید بھی گھر ہوا نا ہوا ایک جیسا ہی تھا۔ اسی وجہ سے جب بھی اسامہ لاہور آتا تو وہ تینوں بھائی کوئی نا کوئی پلان بناتے جو کہ ہمیشہ ہی جنید کی وجہ سے پورا نہیں ہو پاتا تھا۔۔۔ آج بھی یہی ہوا تھا اور ہمیشہ کی طرح عمیر اس کا انتظار کرتے کرتے سو گیا تھا اور اب وہ جانتا تھا صبح وہ اس سے شدید ناراض ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یا اللہ پاک کوئی ایسا طریقہ بتا دو جس سے میری جان پڑھائی سے چھوٹ جائے۔۔۔ بس میٹرک کر تو لیا تھا اب آگے پڑھنے کی کیا ضرورت تھی لیکن نہیں۔۔۔ کوئی جو اس گھر میں میری بات سمجھ جائے۔۔ "
کتابیں ہاتھ میں پکڑے ہانیہ کے کمرے میں جاتی ہوئی وہ آہستہ آواز میں بڑبڑائے جا رہی تھی۔
"اللہ تعالی شادی ہی کروا دیں ایک ہی دفعہ پڑھائی سے جان چھوٹے گی پھر کوئی پڑھنے کو نہیں بولے گا۔۔ "
آنکھیں بند کیے وہ دونوں ہاتھ اٹھائے دعا کر رہی تھی اور ساتھ آہستہ آہستہ چل رہی تھی جب اچانک سے اس کی ٹکر ہوئی۔۔
اس نے پٹ سے آنکھیں کھولیں تو اپنے سامنے کھڑے حسن کو دیکھ کر اس کا دل کیا کو وہ یہیں سیڑھیوں سے چھلانگ لگا دے۔ 
"اتنا شوق ہے تمہیں شادی کا تو مجھے پہلے بتاتی نا میں بابا سے بات کر لیتا۔۔ "
وہ پتا نہین خدیجہ کی کون کون سی بکواس سن چکا تھا جو ایسی بات کر رہا تھا۔  خدیجہ کی زبان تو جیسے تالو سے چپک گئی تھی۔۔ وہ عام طور پر جتنی پٹر پٹر کرتی تھی حسن کے سامنے ایسے ہی اس کی بولتی بند ہوتی تھی۔
"اب جواب تو دے دو خاموش کیوں ہوگئی ہو؟ ابھی تو بڑی دعائیں مانگ رہی تھی شادی کے لیے۔۔"
وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا تو وہ سائڈ پر ہوکر آگے جانے لگی لیکن حسن اسی طرف ہوگیا ۔۔۔
"مجھے دیر ہورہی ہے ہانی سے سمجھنا ہے جانے دیں۔۔ "
وہ آنکھیں نیچی کیے بمشکل بولی
"تو چلی جاؤ میں کون سا روک رہا ہوں تمہیں۔۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولا تو وہ دوسری سائڈ سے ہوکر نکلنے لگی لیکن حسن اس طرف ہوگیا ۔۔ وہ جس طرف سے بھی نکلنے کی کوشش کرتی وہ اسی طرف ہوکر اس کا راستہ روک لیتا۔۔
"کیا مسئلہ ہے جانے دیں مجھے۔۔ "
وہ جھنجھلاہٹ سے بولی
"تو جاؤ۔ "
وہ اپنی پہلے والی حرکت دہراتا لاپرواہی سے بولا تو خدیجہ کچھ دیر چہرہ نیچے کیے کھڑی رہی پھر غصے سے چہرہ اٹھا کر حسن کو دیکھا۔۔ آنکھوں سے آنسو نکلنے کو بے تاب تھے۔۔ اس نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ چند آنسو آنکھوں سے نکل کر اس کا رخسار بھگو گئے۔۔
"اچھا اچھا چلی جاؤ رو کیوں رہی ہو؟ "
اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر حسن فوراََ ایک طرف کو ہوگیا اور اسے جانے کا راستہ دیا۔ راستے ملتے ہی وہ فوراََ وہاں سے بھاگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہانیہ کے کمرے میں آئی تو اس کا چہرہ سرخ تھا جبکہ آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔
اسے روتا دیکھ کر ہانیہ پریشان ہوگئی۔
"کیا ہوگیا ہے خدیجہ رو کیوں رہی ہو؟ "
اس نے پریشانی سے سوال کیا
"آپ کا بھائی مجھے تنگ کرتا ہے۔ "
وہ آنسوؤں کے درمیان بولی
"ہائے ایسا کیا کہہ دیا بھائی نے جو تم اتنا رو رہی ہو؟ "
اس نے حیرانی سے پوچھا
"بلاوجہ میری بات کو لٹکا کر میرا مزاق اڑاتے رہتے ہیں۔۔  میں نے بس۔۔۔۔۔ "
اور پھر وہ اسے اول سے سارا قصہ سناتی گئی جبکہ ہانیہ کا ہنس ہنس کر برا حال تھا۔
"تمہیں کس نے کہا تھا یوں سر عام شادی کی دعائیں مانگتی پھرو وہ بھی بھائی کے آفس سے آنے کہ وقت پر۔۔؟ "
ہانیہ ہنستے ہوئے بولی
"میں تو صرف پڑھائی سے بچنے کے لیے ایسا کہہ رہی تھی مجھے کیا پتا تھا وہ سن لیں گے۔۔ "
وہ منہ بناتے ہوئے بولی
"چلو بس ایک سال مزید پڑھائی کا رہ گیا ہے تمہارا پھر کردیں گے ہم شادی تمہاری۔۔ "
ہانیہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی تو خدیجہ کا چہرہ پھر لٹک گیا۔۔
"ہائے ابھی مزید ایک سال پڑا ہے۔۔۔ "
وہ اپنی دھن میں بولی
"تم کہو تو اسی سال کروا دیتے ہیں۔۔ "
ہانیہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی
"کیا؟"
وہ نا سمجھی سے بولی
"تمہاری شادی۔۔۔ "
"اوہو ہانی۔۔ میں پڑھائی کی بات کر رہی تھی۔۔ "
وہ سرخ چہرے کے ساتھ بولی
"سوری سوری میں سمجھی۔۔۔۔ "
اس کا لہجہ ابھی بھی شریر تھا۔
"آپ نے ایسی باتیں کرنی ہیں تو میں جا رہی ہوں "
وہ نروٹھے پن سے کہتی ہوئی اٹھنے لگی۔
"اچھا اچھا تم بیٹھو بتاؤ کیا سمجھانا ہے۔۔ "
اسے ناراض ہوتا دیکھ کر ہانیہ سنجیدہ ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ صبح اٹھا تو تب تک عمیر سکول جا چکا تھا۔۔ وہ تیار ہوکر نیچے ناشتہ کرنے آیا تو ٹیبل پر محمود صاحب بھی موجود تھے۔۔ وہ بھی آفس جانے کی تیاری میں تھے۔۔۔
"مجھے پتا لگا ہے تم نے پھر میرے چھوٹے بیٹے کو ناراض کردیا ہے؟ "
وہ جنید کو گھورتے ہوئے بولے
"میری کوئی غلطی نہیں ہے بابا رات میں ایمرجنسی کیس آگیا تھا اس وجہ سے لیٹ ہوگیا۔ "
وہ وضاحت کرتا ہوا بولا
"اب بتا دو تم کب فری ہو تاکہ پھر اس کی برتھ ڈے بھی سیلیبریٹ کریں۔۔ پچھلی بار بھی تم نہیں آ سکے تھے۔۔"
سروت بیگم یاد دہانی کرواتے ہوئے بولیں
"پرسوں اتوار کو میں بالکل فری ہوں۔۔ آپ اسی دن ارینج کر لیں پارٹی۔۔ "
"ان کی شادی کے لیے بھی کچھ کریں ماما رات کو بھی ان کو چائے میں نے بنا کر دی ہے۔۔ "
اسامہ نے اپنا کام جتانا لازمی سمجھا
"کرتے ہے کچھ اس کا بھی انتظام اب۔۔۔ بس گرین سگنل ملنے دو مجھے اس کی طرف سے۔۔ "
وہ جنید کو گھورتے ہوئے بولیں
"آپ سگنل کے گرین ہونے کا انتظار کریں۔۔ میں چلا ہاسپٹل۔۔ "
وہ اپنا کوٹ اٹھاتا ہوا چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایگزامز کے بعد اسے ایک ہفتے کی چھٹیاں تھیں۔ کل سر درد کے باعث وہ ارسلان سے لڑ بیٹھی تھی اور جانتی تھی کہ اب جب تک وہ اسے نہیں منائے گی وہ اس سے بات نہیں کرے گا۔۔۔ آج صد شکر اس کہ سر میں درد نہیں ہورہا تھا اس لیے وہ شام میں تایا جان کے گھر چلی گئی۔۔ تائی جان سے ملنے کے بعد وہ اس کہ کمرے میں آئی تو وہ کتابوں میں سر دیے پڑھنے میں مصروف تھا۔
"او ہو۔۔۔ آج تو پڑھائیاں ہورہی ہیں۔ "
وہ اندر آتے ہوئے بولی
"دروازہ بند کر کہ باہر چلی جاؤ اور مجھے پڑھنے دو۔ "
"پڑھائی میرے سے زیادہ ضروری ہے؟ "
"میرے سر میں درد ہے ہانیہ فلحال میں کوئی بات کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔۔ "
وہ اسی کہ الفاظ دہراتا ہوا بولا تو ہانیہ کہ چہرے پر مسکراہٹ آئی۔
"اچھا چلو نا یار غصہ کیوں کر رہے ہو۔۔۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے ایسا بولا تھا میں نے۔ "
"ہاں میں تو جب بھی آتا ہوں تمہاری طبیعت ہی خراب ہونے لگ جاتی ہے۔ "
وہ منہ بناتے ہوئے بولا
"بس بھی کرو۔۔ کیا عورتوں کی طرح طنز کر رہے ہو۔۔ "
وہ ہنستے ہوئے بولی تو ارسلان نے اسے گھور کر دیکھا۔
"بہت چالاک ہو تم۔۔ "
"تمہاری ہی منگیتر ہوں۔۔ "
وہ مسکراتے ہوئے بولی تو اس کہ چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Όπου ζουν οι ιστορίες. Ανακάλυψε τώρα