Last episode.

4.2K 273 282
                                    

"کیا ہوا ہے بھائی اندر جائیں۔۔"
اسامہ جنید کو بینچ پر سر جھکا کر بیٹھے دیکھ کر بولا۔۔
"مجھ میں ہمت نہیں ہے اسامہ۔۔ میں یہ نہیں کر سکتا۔۔ میں اپنے ہاتھوں سے ہانیہ کہ سرجری نہیں کر سکتا۔۔ اگر اسے کچھ ہوگیا تو۔۔؟ اگر وہ ٹھیک نہ ہوئی تو ۔؟ میں کیسے خود کو معاف کروں گا۔۔۔"
جنید نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔
"کچھ نہیں ہوگا بھائی سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔ آپ حوصلہ کریں۔۔ ہانی بالکل ٹھیک ہوجائے گی۔۔ اور اس کہ ٹھیک ہونے کے لیے اس کی سرجری بہت ضروری ہے۔۔"
اسامہ نے اسے سمجھایا۔۔
"لیکن کسی اور ڈاکٹر سے کہہ دیتے ہیں۔۔ میں یہ نہیں کر سکتا۔۔۔"
"شروع سے ہی ہانیہ کا کیس آپ دیکھ رہے ہیں آپ ہی سہی سے کر سکتے ہیں یہ بھائی۔۔ "
"لیکن۔۔ میں۔۔ میں کیسے اسے اتنی تکلیف میں دیکھ سکتا ہوں اسامہ۔۔؟ اسے تکلیف میں دیکھ کر میرا اپنا دل کٹ کر رہ جاتا ہے۔۔۔"
"آپ حوصلہ کرین بھائی اور اللہ پر یقین رکھیں۔۔ ہانیہ بالکل ٹھیک ہوجائے گی اور آپ کو ہی اس کی سرجری کرنی ہے کیونکہ یہ ہانیہ کے لیے بہت ضروری ہے۔۔ چلیں اٹھیں۔۔ جائیں اور ہانیہ کو بھی تسلی دیں۔۔ اسے اس وقت سب سے زیادہ آپ کی ضرورت ہے۔۔ آپ خود حوصلہ ہار جائیں گے تو اسے کون ہمت دے گا۔۔"
اسامہ کے سمجھانے پر وہ اثبات میں سر ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔ اپنا کوٹ پہنا اور چہرے پر ماسک لگا کر اندر داخل ہوا جہاں ہانیہ کو اوپریشن تھیٹر میں لے جایا جا چکا تھا۔۔
"مجھ۔۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے جنید۔۔"
ہانیہ نم لہجے میں بولی ۔۔
"تم بالکل ٹھیک ہوجاؤ گی ہانی۔۔"
جنید نے اس کہ دونوں ہاتھ تھامے۔۔
"مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔۔ شاید دوبارہ کہنے کا موقع ملے نا ملے اس لیے میں آج اندر جانے سے پہلے کہہ دینا چاہتی ہوں۔۔"
وہ نم آنکھوں سے جنید کو دیکھتی ہوئی بولی۔۔
"ہم کہو۔۔۔"
جنید پوری طرح سے اس کی طرف متوجہ ہوا۔۔
"می۔۔ میں نہیں جانتی کہ یہ کب ہوا کیسے ہوا مگر جنید۔۔ آج میں اس بات کا اعتراف کرتی ہوں کہ میں خود کو آپ کی محبت میں مبتلا ہونے سے روک نہیں پائی۔۔ آپ نے مجھے خود سے محبت کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔۔ میں سمجھتی تھی میں ارسلان سے محبت کرتی ہوں لیکن میں غلط تھی۔۔ وہ محض ایک اتریکشن تھی لیکن جب اس نے رشتہ توڑا تو مجھے بہت دکھ ہوا۔۔ لگا تھا زندگی رک سی گئی ہے مگر جب سے آپ کا ساتھ ملا ہے زندگی خوبصورت لگنے لگی ہے۔۔ اگر آپ نا شامل ہوتے میری زندگی میں تو شاید میں کبھی بھی دوبارہ جینے کی خواہش نہ کرتی مگر اب آپ کہ ساتھ نے میرے اندر زندگی کی خواہش پیدا کر دی ہے۔۔ میں جینا چاہتا ہوں۔۔ آپ کے ساتھ اپنی زندگی کے تمام لمحات گزارنا چاہتی ہوں۔۔ "
ہانیہ نظریں جھکائے آہستہ سے کہہ رہی تھی جبکہ جنید چہرے پر مسکراہٹ لیے اس کا اظہار سن رہا تھا۔۔
"میں تمہاری محبت کا احترام کرتا ہوں۔۔ اور میں بھی تم سے ویسے ہی محبت کرتا ہوں جیسے تم کرتی ہو لیکن میں اس محبت سے زیادہ تمہاری عزت کرتا ہوں تمہارا احترام کرتا ہوں تمہاری پرواہ کرتا ہوں اور تم یقین رکھو میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔ میں بھی اپنی زندگی کا ہر لمحہ تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں اور ان شا اللہ ایسا ہی ہوگا۔۔۔"
جنید پر یقین سا بولا تو ہانیہ ہلکا سا مسکرائی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ انتظار بہت جان لیوا تھا۔۔ سب باہر بیٹھے تھے۔۔ چار گھنٹے ہو چکے تھے مگر اب تک کوئی خبر نا آئی تھی۔۔ تایا جان اور تائی جان کے علاوہ باقی سب ہسپتال میں موجود تھے۔۔ کامران صاحب اور فرزانہ بیگم ایک طرف بیٹھے اپنی بیٹی کی صحتیابی کے لیے دعا گو تھے جبکہ محمود صاحب اور سلمہ بیگم بھی وہیں ان دونوں کو تسلی دے رہے تھے جبکہ در حقیقت اپنی بہو کے لیے وہ خود بھی بہت پریشان تھے۔۔ حسن ایک طرف ضبط سے کھڑا تھا۔۔ اپنی اکلوتی بہن کو تکلیف میں تصور کر کہ ہی اسے بھی بہت تکلیف ہورہی تھی۔۔ خدیجہ بھی وہیں اس کہ ساتھ کھڑی تھی اور اس کہ آنسو بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔ اسامہ سب کو تسلیاں دینے میں مصروف تھا۔۔ وہ فرزانہ بیگم کو خاموش کروا رہا تھا جب اس کی نظر ایک طرف کو کھڑی اقراء پر پڑی جو بالکل خاموش سر جھکائے ایک کونے میں ان سب سے دور کھڑی تھی۔۔ اسامہ آہستہ سے اس کی طرف بڑھا اور ایک بازو اس کہ گرد لپیٹ کر اسے اپنے حصار میں لیا۔۔
"پریشان مت ہو اقراء۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔"
وہ اسے تسلی دیتے ہوئے بولا۔۔ جب وہ سب کو تسلی دے رہا تھا اپنے خاندان کا خیال رکھ رہا تھا تو اب وہ بھی اس کہ خاندان میں شامل ہوتی تھی۔۔ اس کا خیال رکھنا اس کا ساتھ دینا اسامہ پر فرض تھا۔۔ وہ اس رشتے کو قبول کرے نا کرے لیکن اسامہ کو اس رشتے کو نبھانا تھا۔۔
"مجھے ڈر لگ رہا ہے اسامہ۔۔ اگر ہانی کو کچھ ہو گیا۔۔ امی بھی ایسے ہی ہسپتال گئی تھیں دوبارہ واپس نہیں آئیں تھیں۔۔"
اقراء اسامہ کی بات پر چونکی مگر سہارا پا کر اس کہ رکے ہوئے آنسو بحال ہو گئے۔۔ ایک ڈر جو اس کہ دل میں تھا۔۔ ایک خوف تھا جو اس نے اسامہ سے کہہ دیا تھا۔۔
"ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔ تم دعا کرو اور تسلی رکھو۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ "
اسامہ کہ کہنے پر اس نے اثبات مین سر ہلایا اور اپنے آنسو صاف کیے۔۔
انتظار بہت طویل ہوتا جا رہا تھا۔۔ سب ہانیہ کی صحت کے لیے دعا گو تھے۔۔ ہر کوئی دل سے اس کی صحتیابی کے لیے دعا کر رہا تھا۔۔ آخر کار بہت جان لیوا انتظار کے بعد آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا۔۔ وہاں سے جنید اور چند اور ڈاکٹرز باہر نکلے۔۔ سب فوراََ سے جنید کی طرف بڑھے۔۔
"س۔۔سرجری کامیاب رہی ہے۔۔ ہانی ٹھیک ہو گئی ہے۔۔ "
جنید نے اطلاع دی تو سب کہ اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔ وہ خود بھی بے یقین تھا۔۔ اپنے احساسات کا اسے خود بھی احساس نہیں ہو رہا تھا۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہانیہ کو ایسی حالت میں دیکھ کر اس کا دل کٹ کر رہ گیا تھا اور اب جب وہ بالکل ٹھیک ہوگئی تھی تو وہ بالکل بے یقین سا تھا۔۔
"یا اللہ تیرا شکر۔۔"
سب کی آنکھوں سے خوشی کہ آنسو بہنا شروع ہو چکے تھے۔۔ جنید سلمہ بیگم کی طرف بڑھا اور انہیں گلے لگا لیا۔۔
"میں بہت خوش ہوں ماما۔۔ مجھے یقین نہیں آ رہا میرے اللہ نے مجھ پر اتنی بڑی مہربانی کر دی۔۔ "
وہ بے یقینی سے کہہ رہا تھا۔۔ آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔۔ فرط جذبات سے اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔۔ کیسے اپنی خوشی کا اظہار کرے۔۔
"اللہ بہت مہربان ہے جنید۔۔ وہ اپنے بندے کو کبھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔۔"
سلمہ بیگم روتے ہوئے بولیں۔۔
"ہانی کو ہوش کب آئے گا جنید۔۔؟ "
"چار پانچ گھنٹے لگ جائیں گے پھپھو۔۔ آپ تب تک گھر چلی جائیں میں یہاں موجود ہوں۔۔ "
جنید فرزانہ بیگم سے بولا۔۔
"نہیں جنید۔۔ میں اپنی بچی کو دیکھنا چاہتی ہوں پہلے۔۔"
وہ انکار کرتے ہوئے بولیں۔۔
"رات زیادہ ہو رہی ہے  ۔۔ ہسپتال کی انتظامیہ اتنے سارے بندوں کو یہاں رکنے نہیں دے گی۔۔ اپ سب چلے جائیں میں یہاں رک جاؤں گا۔۔ ہانیہ کو جب بھی ہوش آیا میں بتا دوں گا سب کو۔۔ اس کہ بعد ویسے بھی ابھی چند ٹیسٹ ہونے ہیں اس کہ ۔۔ اس سے پہلے آپ لوگ نہیں مل سکتے اس لیے صبح آ جائیے گا۔۔"
جنید کہ کہنے پر سب گھر چلے گئے جبکہ وہ ہانیہ کی طرف بڑھا جسے اب پرائیویٹ روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔۔
"ایک لمحے کو تم نے میری جان نکال دی تھی ہانی۔۔ تمہاری جدائی کا خیال بہت جان لیوا تھا۔۔ "
وہ اس کا ہاتھ پکڑے نم لہجے میں کہہ رہا تھا۔۔ وہ بے سدھ لیٹی ہوئی تھی جبکہ اس کا سر پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا۔۔
"میں اب تم تک کوئی پریشانی کوئی تکلیف نہیں آنے دوں گا۔۔ میرا وعدہ ہے تم سے میں ساری زندگی تمہاری حفاظت کروں گا۔۔"
وہ پر یقین سا بول رہا تھا۔۔ آنکھیں بار بار نم ہو رہی تھیں۔۔۔ کسی اپنے کو تکلیف میں دیکھنا بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔۔ اور اپنی بیوی کی تکلیف محسوس کر کہ اس لمبے چوڑے مرد کی آنکھیں بھی بھیگ رہی تھیں۔۔ یہ محبت نہیں تھی تو اور کیا تھا۔۔؟ یہ احساس نہیں تھا تو اور کیا تھا۔۔؟ میاں بیوی کا تو رشتہ ہی ایسا ہوتا ہے۔۔ ایم دوسرے کی تکلیف محسوس کرنا۔۔ ایک دوسرے کے غم بانٹنا ۔۔ ایک دوسرے کا ساتھ دینا۔۔ ایک دوسرے کا احساس کرنا۔۔ تبھی تو یہ رشتہ اس قدر خوبصورت ہے۔۔ تبھی تو اس رشتے میں اللہ نے سکون رکھا ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ ناشتہ جنید بھائی کو دے دیجیے گا اور یہ کپڑے بھی ہیں ان کہ۔۔ ہانی کے لیے سوپ بنا دیا ہے وہ لیتے جائیے گا اور دوپہر کا کھانا بھی بنا دوں آپ آ کر لیجائیے گا باہر سے کھا۔۔۔ "
اقراء مسلسل بول رہی تھی جبکہ اسامہ بغیر اس کی کسی بھی بات کا رد عمل دیے خاموشی سے اسے سنے جا رہا تھا۔۔
"میں آپ سے کچھ کہہ رہی ہوں آپ سن بھی رہے ہیں یا نہیں۔۔؟ "
اسامہ کو خاموش دیکھ کر وہ غصے سے بولی۔۔
"میں نے ناشتہ نہیں کیا۔۔"
اسامہ سنجیدگی سے بولا۔۔
"تو ۔۔؟ "
وہ نا سمجھی سے بولی۔۔
"تو یہ کہ سارے خاندان کی فکر ہے تمہیں ایک بس اپنے شوہر کی ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے تمہیں یہ خاندان ملا ہے سارا۔۔۔۔ "
اسامہ اسے شرمندہ کرتے ہوئے بولا۔۔
"میرے پاس اس وقت آپ کی فضول باتیں سننے کا ٹائم نہیں ہے۔۔ مجھے اور بھی بہت کام کرنے ہیں۔۔۔"
وہ کمرے سے باہر نکلتے ہوئے بولی مگر اس سے پہلے کہ وہ باہر نکلتی اسامہ نے اس کی کلائی پکڑ لی۔۔
"تمہارے پاس کب ٹائم ہوتا ہے میرے لیے بتا دو میں اس وقت آ جایا کروں۔۔"
"اسامہ پلیز چھوڑیں باہر ماما ویٹ کر رہی ہوں گی۔۔۔"
وہ اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوئے بولی۔۔
"اور یہاں جو ماما کا بیٹا روز ویٹ کرتا ہے۔۔؟ اس کا حساب کون دے گا۔۔"
اسامہ کہ کہنے پر اقراء نے غصے سے اسے دیکھا اور اپنا ہاتھ چھڑوایا۔۔
"میں مجبوری میں آپ کہ ساتھ رہ رہی ہوں اور خاموش ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں نے واقعی اس رشتے کو قبول کر لیا ہے۔۔ میرے لیے یہ رشتہ اب بھی اتنا ہی نا پسند ہے جیسے پہلے دن تھا۔۔ "
وہ جتاتے ہوئے بولی تو اسامہ نے دکھ سے اسے دیکھا اور بغیر کچھ کہے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔ وہ بھی سر جھٹکتی اس کہ پیچھے باہر آ گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے ہوش آیا تو اتنی روشنی دیکھ کر اس کی آنکھیں چندیا گئیں۔۔ اس نے اپنے اطراف میں دیکھنے کی کوشش کی تو وہ ہسپتال کے کمرے میں موجود تھی۔۔ کئی لمحے تو اسے یہی یقین کرنے میں لگ گئے کہ وہ ٹھیک ہے زندہ ہے۔۔ وہ تو یہی سمجھی تھی کہ اب وہ نہیں بچ پائے گی۔۔ اپنی زندگی اسے ختم ہوتی محسوس ہوتی تھی لیکن کیا وہ واقعی ٹھیک ہوگئی تھی۔۔؟ کیا واقعی اسے نئی زندگی ملی تھی۔۔ وہ بے یقین سی آنکھیں کھولے اپنے اطراف میں دیکھ رہی تھی جب کسی نے پکارا۔۔
"ہانی۔۔ کیسی ہو۔۔؟ "
یہ آواز وہ شاید اس وقت سب سے زیادہ سننا چاہتی تھی۔۔ یہ اس کہ مسیحے کی آواز تھی۔۔ اس شخص کی آواز تھی جس کی وجہ سے اسے دوبارہ زندگی کی چاہ ہوئی تھی ورنہ وہ تو کب کی مر چکی ہوتی۔۔ اگر وہ شخص اس کا ہاتھ نا تھامتا تو آج وہ زندہ نا ہوتی۔۔
"ج۔۔جنید۔۔ م۔۔ میں ٹھیک۔۔ ہوں۔۔ مجھے کچھ نہیں ہوا۔۔"
وہ بے یقینی سے کہہ رہی تھی۔۔
"تم بالکل ٹھیک ہو ہانی۔۔ تہمیں کچھ نہیں ہوا۔۔ اللہ نے تمہیں نئی زندگی دی ہے ۔۔۔"
جنید نے اس کے دونوں ہاتھ تھام کر کہا تو وہ اس کہ گلے لگ کر شدت سے رو دی۔۔ آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔ آنکھیں تھیں کہ بھیگے ہی چلی جا رہی تھیں۔۔ اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ اس کی تکلیف ختم ہو چکی ہے۔۔ وہ دردناک آزمائش گزر چکی ہے۔۔
بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔۔
جب مشکلات آتی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شاید کبھی گزر ہی نا پائیں گی انسان ہمیشہ انہی میں مبتلا رہے گا لیکن اللہ انسان کے لیے ایسی ایسی جگہ سے آسانی پیدا کرتا ہے جہاں سے انسان کا گمان بھی نہیں ہوتا۔۔۔
"م۔۔ مجھے یقین نہیں آ رہا جنید۔۔۔ "
وہ اب تک بے یقین تھی۔۔ آنسو اب بھی نہیں تھم رہے تھے۔۔
"یقین کرلو میری جان۔۔ اللہ نے تمہیں ایک نئی زندگی دی ہے۔۔ تمہیں اس بیماری سے نجات مل گئی ہے۔۔ تم بالکل ٹھیک ہوگئی ہو اب ہانی۔۔ "
جنید نے اس کہ آنسو صاف کیے اور اسے یقین دلایا۔۔
"آپ کا بہت شکریہ جنید۔۔ آپ نا ہوتے تو میں کب کی مر چکی ہوتی۔۔ مجھے کبھی جینے کی چاہ نا رہتی۔۔۔ "
وہ روتے ہوئے بولی۔۔
"پاگل شوہر کو کون شکریہ کہتا ہے۔۔ میں خود بہت خوش ہوں کہ تم بالکل ٹھیک ہو۔۔ اب میں تمہارے تک کوئی پریشانی کوئی تکلیف نہیں آنے دوں گا ہانی۔۔ اب ہم دونوں مل کر ایک خوشحال زندگی گزاریں گے۔۔۔"
جنید پر یقین سا بولا تو وہ بھی مطمئن انداز میں مسکرائی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ارسلان بھائی آپ۔۔ حسن نے دیکھ لیا تو۔۔۔"
ُخدیجہ اپنے کمرے میں تھی جب کمرے کا دروازہ کھلا اور ارسلان اندر داخل ہوا۔۔ خدیجہ اسے دیکھ کر بے حد حیران ہوئی اور دوسری طرف اسے حسن کا بھی ڈر تھا۔۔
"میں ہی لایا ہوں ارسلان کو یہاں۔۔ "
حسن بھی اندر داخل ہوا تو خدیجہ کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔۔
"ارسلان اپنی غلطی پر شرمندہ تھا اور اتنی سزا کافی تھی اس کہ لیے۔۔ تایا جان تائی جان دونوں اب خود کو بہت اکیلا محسوس کر رہے تھے اس لیے میں نے ارسلان کو واپس بلوایا ہے۔۔۔"
حسن نے وضاحت کی تو خدیجہ نے تشکر سے اسے دیکھا۔۔ کافی دیر وہ ارسلان سے باتیں کرتی رہی۔۔ آخر اتنے عرصے کی دوری برداشت کی تھی۔۔ اب بہت سی باتیں تھیں جو اسے ارسلان سے کرنی تھیں۔۔
"میں بابا اور ماما سے مل کر آتا ہوں خدیجہ۔۔ بابا مجھ سے بہت ناراض ہیں۔۔ ابھی ان کو بھی منانا ہے۔۔۔"
ارسلان پریشانی سے بولا۔۔
"وہ آپ سے ناراض نہیں ہیں بھائی۔۔ بس وقتی غصہ تھا ان کو آپ پر جو اب ختم ہو چکا ہے۔۔ آپ ان سے ایک بار دل سے معافی مانگیں وہ آپ کو اسی وقت معاف کر دیں گے۔۔"
خدیجہ اسے یقین دلاتی ہوئی بولی اور اس کہ ساتھ اپنے ماما بابا کہ کمرے میں آ گئی۔۔
"یہ۔۔ یہ شخص یہاں کیا کر رہا ہے خدیجہ۔۔ اس سے کہو یہاں سے چلا جائے۔۔۔ "
ارسلان کو دیکھ کر وہ غصے سے بولے جبکہ تائی جان فوراََ سے اس کی طرف بڑھی اور اسے گلے لگا لیا۔۔ وہ ماں تھیں اور اپنی اولاد کے لیے تڑپ رہی تھیں ۔ اب انہیں اپنے سامنے پا کر وہ بکھر گئی تھی ۔۔
"میں آپ سے معافی مانگتا ہوں بابا۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں لیکن میں کیا کرتا۔۔۔ میں واقعی ایک کمزور مرد ہوں جس میں اتنا ظرف نہیں تھا کہ وہ ہانیہ کو سہارا دیتا۔۔ میں نے اسی لیے وقت پر ہی ایسے رشتے کو ختم کر دیا تھا جس کی کوئی منزل نہیں تھی۔۔ میں جانتا ہوں میرے اس قدم سے سب بہت دکھی ہوں گے لیکن میں مجبور تھا بابا۔۔"
وہ سر جھکائے شرمندگی سے کہہ رہا تھا۔۔
"حسن اس کو لے جاؤ یہاں سے۔۔"
وہ حسن کی طرف متوجہ ہوئے۔۔
"تایا جان اسے معاف کردیں۔۔ وہ واقعی اپنے کیے پر شرمندہ ہے اور سہی کہہ رہا ہے۔۔ بعد میں اگر کچھ ہوتا اس سے بہتر یہی تھا کہ وہ رشتہ پہلے ہی ختم ہو گیا۔۔ اور جب ماما بابا میں ہم سب اس کو معاف کر چکے ہیں تو آپ بھی اسے معاف کر دیں۔۔ "
حسن نے انہیں سمجھایا اور ارسلان کو اشارہ کیا۔۔ وہ اس کہ اشارے پر ان کی طرف بڑھا اور ان کہ قدموں میں بیٹھ گیا۔۔
"مجھ سے ناراض مت ہوں بابا۔۔ میں جانتا ہوں میں نے آپ کا مان توڑا ہے اور میں اس پر بہت شرمندہ ہوں۔۔ آپ سب سے دور رہ کر میں نے اپنے کیے کی سزا بھی بھگت لی ہے اب مجھے معاف کر دیں۔۔ اب میں مزید آپ لوگوں سے دور نہیں رہ سکتا۔۔ "
وہ سر جھکا کر بولا تو انہوں نے اس کہ سر پر ہاتھ رکھا۔۔ وہ بھی زیادہ عرصہ اس سے ناراض نہیں رہ سکتے تھے کہ وہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔۔ ان کا سہارا تھا۔۔ اس سے غلطی ہوئی تھی مگر وہ اس پر شرمندہ بھی تھا اور سب سے معافی بھی مانگ چکا تھا تو اب اس سے ناراضگی کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔۔ اس لیے انہوں نے بھی اسے معاف کر دیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کپڑے چینج کر کہ ابھی باہر نکلا ہی تھا جب خدیجہ اس کہ کمرے میں داخل ہوئی۔۔
"اب کیا شکایت ہے بیگم صاحبہ جو آپ خود چلی آئیں۔۔؟ "
حسن مسکراہٹ دبا کر بولا۔۔
"اس بار ساری شکائیتیں دور کرنے آئی ہوں میاں صاحب۔۔ "
وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔
"اچھا۔۔۔ "
وہ معنی خیزی سے بولا۔۔
"آپ کا بہت شکریہ۔۔ آپ نے میری خواہش کا مان رکھا۔۔۔ آپ نہیں جانتے آج میں کتنی خوش ہوں۔۔۔"
وہ خوشی سے کہہ رہی تھی۔۔
"مجھے یہ قدم کچھ عرصہ پہلے ہی اٹھا لینا چاہیے تھا دیا۔۔ مجھے ارسلان کو معاف کر دینا چاہیے تھا لیکن میں کیا کرتا۔ میں اپنی بہن کی محبت میں مجبور تھا۔۔ میں معذرت خواہ ہوں کہ میں نے تمہیں اتنی تکلیف دی۔۔ اپنے ساتھ ساتھ تمہیں بھی پریشان کیے رکھا۔۔۔ ارسلان سے میرے اختلافات اپنی جگہ مگر مجھے تم سے ایسا رویہ نہیں رکھنا چاہیے تھا۔۔ میں اس کہ لیے بہت شرمندہ ہوں۔۔"
حسن شرمندگی سے کہہ رہا تھا۔۔
"دکھ تو آپ نے مجھے بہت دیا ہے لیکن بدلا میں نے بھی آپ سے کم نہیں لیا اس لیے آپ کو شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔ آپ نے اپنی غلطی کا ازالہ کیا۔۔ سب ٹھیک کر دیا میرے لیے یہی بہت ہے۔۔ "
وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔
"چلو یہ بھی اچھا ہے۔۔ تمہیں بھی احساس ہوا بیچارے شوہر کا۔۔۔"
وہ معصومیت سے بولا۔۔
"ویسے مجھے آپ سے ایک بات کرنی تھی۔۔۔"
خدیجہ سنجیدہ لہجہ اپناتے ہوئے بولی۔۔
"ہاں کہو۔۔"
وہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔۔
"مجھے لگتا ہے۔۔ مجھے آپ سے۔۔ پہلے سے بھی زیادہ محبت ہوگئی ہے۔۔۔ حالانکہ آپ کافی بڈھے ہیں اور بد زوق بھی ہیں اور پیارے بھی نہیں ہیں اور سڑیل بھی بہت ہیں مگر پھر بھی مجھے آپ سے بہت محبت ہے۔۔۔"
شرارتی لہجے میں کہتی وہ کمرے سے باہر بھاگ گئی جبکہ اس کہ اس اظہار پر حسن مسکرا کر اس کہ پیچھے آیا اور اس کی کلائی پکڑ کر اسے دیوار کے ساتھ لگایا۔۔
"جواب تو سنتی جاؤ اپنے اظہار کا۔۔ "
وہ مسکراہٹ دبا کر بولا۔۔ خدیجہ نے فوراََ آنکھیں جھکائیں۔۔۔
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
سو رہروانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں اِدھر کے بھی جلوے اُدھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
کچھ غلط فہمیاں تھیں جو ان کی محبت کے درمیان آ گئی تھیں۔۔ کچھ باتیں تھیں جن سے وہ دونوں دور ہونے لگے تھے لیکن ان کی محبت کمزور نہیں تھی۔۔ محرم محبیتں بھلا کہاں کمزور ہوا کرتی ہیں۔۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کی محبت کا احترام کیا تھا۔۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔۔ وہ دونوں اپنی اپنی غلطی کی معافی مانگ چکے تھے اور بالآخر ان کی محبت امر ہوگئی تھی۔۔ خدیجہ کی وہ محبت جس کا اظہار وہ اپنے ہر لفظ اپنے ہر عمل سے کرتی تھی اور حسن کی وہ محبت جس کا وہ کبھی اظہار تو نہیں کرتا تھا مگر وہ پھر بھی اس کی آنکھوں سے جھلکتی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اسامہ بھائی آئے نہیں ابھی تک۔۔۔؟ "
ہانیہ کچن میں داخل ہوتی ہوئی اقراء سے بولی۔۔
"نہیں پتا نہیں کدھر رہ گئے ہیں۔۔۔"
وہ پریشانی سے بولی۔۔
"تم انہیں کال کر لو اقراء۔۔ کافی دیر سے گئے ہوئے ہیں ابھی تک واپس نہیں پہنچے۔۔۔"
ہانیہ بھی پریشان ہوئی تو اقراء نے جھجکتے ہوئے اسامہ کا نمبر ملایا۔۔۔ ان کی شادی کو چار ماہ ہوچکے تھے مگر اب تک ایک تکلف کی دیوار ان کہ درمیان حائل تھی۔۔۔ اسامہ ہر طرح سے اس کا خیال رکھتا تھا۔۔۔ اس کی ہر ضرورت کا خیال کرتا تھا اسے ہر طرح سے تحفظ کا احساس فراہم کرتا تھا مگر اب وہ اس سے خود سے مخاطب نہیں ہوتا تھا۔۔۔ اقراء نے جب جب اسے یہ احساس دلایا تھا کہ یہ رشتہ اس کے لیے نا پسند ہے وہ تب تب اس سے دور ہوتا چلا گیا تھا۔۔۔ اسامہ نے اسے اس رشتے کا احساس دلانا ہی چھوڑ دیا تھا مگر اقراء کو نا چاہتے ہوئے بھی اب احساس ہونے لگا تھا۔۔ جب وہ بن کہے اس کی بات سمجھ جاتا۔۔۔ زبان پر آنے سے پہلے ہی اس کی خواہش پوری کر دیتا تو اب اسے بھی اس رشتے کا احساس ہونے لگا تھا۔۔ اب اسامہ کی  خاموشی اسے اچھی نہیں لگتی تھی۔۔ اب اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ اسے خود مخاطب کرے۔۔ اس سے بات کرے لیکن تکلف ایسا پیدا ہو چکا تھا کہ وہ جھجک جایا کرتی تھی۔۔۔
وہ اب کافی دیر سے پریشانی میں اسامہ کا نمبر ڈائل کر رہی تھی مگر اس کا نمبر بند جا رہا تھا۔۔۔
"وہ کال نہیں اٹھا رہے ہانی۔۔"
وہ پریشانی سے بولی۔۔۔
"شاید کہیں بزی ہوں گے تم پریشان مت ہو۔۔"
ہانیہ نے اسے تسلی دی۔۔ تبھی ہانیہ کے موبائل پر کال آئی۔۔ جنید کا نام دیکھ کر اس نے فوراََ کال ریسیو کی۔۔
"ہانی اسامہ کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے۔۔ میں اسے لے کر ہاسپٹل میں ہی ہوں تم گھر میں سب کو سنبھالو۔۔۔"
جنید کے بتانے پر ہانیہ کا دل دھک سے رہ گیا ۔۔
"کیا ہوا ہے اسامہ بھائی کو جنید۔۔؟ کیسے ہیں وہ اب۔۔؟"
اس نے پریشانی سے پوچھا جبکہ اقراء نے اسے بے یقینی سے دیکھا۔۔
"زیادہ بڑا ایکسیڈینٹ نہیں ہے۔۔ بس اس کہ لیفٹ سائیڈ پر زرا زیادہ انجریز آ گئی ہیں اور فلحال وہ بے ہوش ہے۔۔ ہوش میں آنے تک کچھ نہیں کہہ سکتے۔۔۔ "
جنید نے اطلاع دے کر فون بند کر دیا تو ہانیہ نے پریشانی سے اقراء کی طرف دیکھا جو اسی کہ بولنے کی منتظر تھی۔۔
"اسامہ بھائی کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے اقراء۔۔۔"
ہانیہ نے اسے اطلاع دی تو وہ کئی لمحے ساکت ہوگئی۔۔۔
"وہ ٹھیک ہو جائیں گے تم پریشان مت ہو۔۔ بس ان کہ لیے دعا کرو۔۔ اس وقت انہیں سب سے زیادہ ہماری دعاؤں کی ضرورت ہے۔۔۔"
ہانیہ اسے تسلی دیتی باقی سب کو اطلاع کرنے چلی گئی تو اقراء کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔۔۔ وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں آئی وضو کیا اور نفل ادا کرنے کھڑی ہوگئی۔۔ سلام پھیرنے کے بعد جب اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اس کہ لب پھڑپھڑائے مگر زبان سے کوئی لفظ ادا نا ہوا۔۔
"یا اللہ۔۔ تو دلوں کا حال جانتا ہے میرے مالک۔۔ اسامہ کو صحتیاب کردے۔۔ انہیں میرے لیے ٹھیک کر دے مالک کہ میرے پاس ان کہ علاوہ اور کوئی سہارا نہیں ہے۔۔ میں جانتی ہوں میں نے ان کی بہت نا قدری کی ہے۔۔ ان کہ ساتھ بہت غلط کیا ہے۔۔ مجھے معاف کردے یا اللہ۔۔ مجھے میری غلطی کی سزا ایسے مت دے۔۔ انہیں تکلیف میں دیکھ کر مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے۔۔ انہیں صحت دے دیں یا اللہ۔۔ میں ان کہ بغیر نہیں رہ سکتی۔۔ مجھ سے میرا آخری سہارا مت چھین۔۔"
دعا مانگتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔ آج وہ اس شخص کے لیے دعا گو تھی جس کا رشتہ اسے سب سے زیادہ نا پنسدیدہ لگتا تھا۔۔ آج وہ اس شخص کے لیے دعا مانگ رہی تھی اس کے ساتھ کی دعا مانگ رہی تھی جس کا ساتھ اسے ہمیشہ ناگوار لگتا تھا۔۔۔ اس وقت وہ رو رو کر اس شخص کے لیے دعا مانگ رہی تھی جسے وہ کئی بار دھتکار چکی تھی مگر اس نے پھر بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"لو بھئی اسامہ تو چلا۔۔۔"
"میں جب نہیں ہوں گا نا تب سب کو میری قر ہو گی۔۔ "
"مجھے بھی اپنی بہن سمجھ کر ہی پیسے دے دیں جنید بھائی۔۔ "
"یہ زیادتی ہے۔۔ مجھے نہیں جانا واپس۔۔ آپ سب یہاں ساتھ ہوتے ہیں اور میں وہاں اکیلا۔۔"
"مجھے پتا ہے آپ سب نے مجھے بہت مس کیا ہوگا۔۔
"میرے بغیر کہاں کسی کا دل لگتا ہے۔۔۔"
"اتنا تو پیارا ہوں میں۔۔ لڑکیوں کا انٹرویو ہونا چاہیے میرے لیے تو۔۔۔"
"میں آل ان ون پیکج ہوں بھابھی ماں۔۔۔ کھانا بھی بنا لیتا ہوں انٹرٹین بھی کر لیتا ہوں جھاڑو پوچھا برتن مانجھنا سب آتا ہے مجھے۔۔۔"
"ایک سکون ہے جو مجھے یہاں محسوس ہوتا ہے۔۔ ان بچوں کے ساتھ وقت گزار کر ان کہ ساتھ اپنی خوشیاں بانٹ کر مجھے لگتا ہے میری خوشیاں دگنی ہوگئی ہیں۔۔"
"کرائے پر بیوی ملتی ہے تو بتا دو۔۔"
"میں رشتے ضرورت کی بنیاد پر گزارنے کا روادار نہیں ہوں۔۔۔ "
"مل جو گیا ہے اتنا اچھا بھائی تم لوگوں کو۔۔ نا شکری تو مت کرو اب۔۔۔"
"سوچ رہا ہوں ایکٹنگ شروع کر دوں۔۔ لوگ ہنس کر لیں گے مجھے فلموں میں۔۔۔ "
"میری شادی کروا دیں بھئی میں بہت بور ہوتا ہوں۔۔۔ "
"ہائے ہماری بھی کوئی بیوی ہوتی۔۔ ہم بھی کسی سے ہنس ہنس کر باتیں کرتے۔۔۔"
سب کہ زہنوں میں اس وقت اسامہ کی باتیں اس کہ جملے اس کی مسکراہٹیں چل رہی تھیں۔۔۔ وہ زندگی سے پھر پور لڑکا آج خود زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا۔۔۔ ہر شخص اس کے لیے دعا گو تھا۔۔ ہر لب پر اس کہ لیے دعا تھی آخر کیوں نا ہوتی۔۔ وہ سب کا خیال رکھتا تھا۔۔ وہ سب سے محبت کرتا تھا۔۔ وہ تو تھا ہی محبتوں سے گندھا ہوا لڑکا۔۔ کوئی کیسے نا اس سے محبت کرتا۔۔۔ ہر بندہ اس کے لیے دعا گو تھا کہ ہر بندے کہ دل میں اسامہ کے لیے ایک الگ مقام تھا۔۔۔
"آپ کہ پیشنٹ کو ہوش آ گیا ہے۔۔ اب وہ ڈینجر سے باہر ہیں بس ان کی لیفٹ بازو کافی ڈیمیج ہوئی ہے فلحال وہ کچھ عرصہ وہ اسے موو نہیں کر سکیں گے۔۔۔"
ڈاکٹر نے باہر آ کر اطلاع دی تو سب نے شکر کا کلمہ پڑھا۔۔
"جان نکال دی تھی تم نے اسامہ۔۔ کیا ضرورت تھی اتنی تیز گاڑی چلانے کی۔۔۔"
جنید نے اسے سب سے پہلے ڈانٹا۔۔
"ہزار دفعہ کہاں ہے سفر کی دعا پڑھ کر گھر سے نکلا کرو اور آیت الکرسی پھونک لیا کرو۔۔۔"
سلمہ بیگم نے بھی اسے ڈپٹا۔۔
"تمہارا باہر نکلنا تو میں بند کرواتا ہوں۔۔ جنید اس کی گاڑی لے لو اس سے۔۔"
محمود صاحب غصے سے بولے۔۔
"اسامہ بھائی کتنا پریشان کیا ہے آپ نے سب کو۔۔ جان نکل گئی تھی ہم سب کی۔۔۔"
ہانیہ نم لہجے میں بولی ۔۔۔ سب اسے باری باری ڈانٹ رہے تھے جبکہ وہ بس لبوں پر مسکراہٹ لیے سب کی ڈانٹ سن رہا تھا۔۔۔ سب کی ڈانٹ میں پیار کا احساس تھا محبت کا احساس تھا۔۔۔
"تم دونوں بھی اپنا اپنا حصہ ڈال لو اس راہ خیر میں۔۔۔ خاموش کیوں کھڑے ہو۔۔۔"
وہ عمیر اور اقراء کو ایک طرف خاموش کھڑا دیکھ کر بولا۔۔۔
اس کہ کہنے پر عمیر فوراََ اس کی طرف آیا اور اس کہ گلے لگ کر اپنے آنسو بہنے دیے۔۔۔
"آپ بہت برے ہیں بھائی۔۔ جان نکال دی تھی آپ نے ہماری۔۔۔ خدمت ہی کروانی تھی تو منہ سے کہہ دیتے۔۔ ایسے کیوں کیا۔۔۔۔"
اسامہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔ اس کی محبت پر سب مسکرائے۔۔ 
"او پیچھے ہٹ درد ہو رہا ہے مجھے اور میں جان بوجھ کر ٹرک والے کو بولا تھا نا کہ آ بھائی مجھے مار۔۔۔"
اسامہ چڑ کر بولا تو سب ہنس دیے جبکہ اسامہ کی بے چین نظروں نے کسی کو تلاشنا چاہا جو کہ اب کمرے سے باہر جا چکی تھی اور وہ یقین سے کہہ سکتا تھا کہ وہ باہر جا کر آنسو بہا رہی ہوگی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہانیہ۔۔۔"
جنید نے اسے پکارا۔۔
"جی۔۔"
وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔۔
"ارسلان تم سے ملنے آیا ہے۔۔"
جنید کے بتانے پر اس کہ چہرے کا رنگ بدلہ۔۔۔
"وہ کیوں آیا ہے۔۔ مجھے کسی سے نہیں ملنا۔۔"
وہ غصے سے بولی۔۔
"وہ تم سے معافی مانگنا چاہتا ہے۔۔۔"
"لیکن مجھے اس کی کوئی بات نہیں سننی۔۔"
"ایک بار اس کی بات سن لو ہانی۔۔ میرے لیے۔۔۔"
جنید کہ کہنے پر وہ نا چاہتے ہوئے بھی ڈرائنگ روم میں آ گئی۔۔ ارسلان اسے دیکھ کر کھڑا ہوا۔۔
"میں تمہارا زیادہ وقت نہیں لوں گا ہانیہ مجھے بس تم سے معافی مانگنی ہے۔۔ میں اپنے کیے پر شرمندہ ہوں۔۔ میں نے اس وقت تمہارا ساتھ چھوڑا جب تمہیں سب سے زیادہ میری ضرورت تھی لیکن میں مجبور تھا۔۔۔ مجھے خود پر بھروسہ نہیں تھا کہ میں تمہارے قابل ہوں بھی یا نہیں اس لیے میں نے خود کو تمہارے راستے سے نکال لیا اور اس سے جو تمہیں تکلیف ہوئی میں اس کہ لیے معذرت خواہ ہوں۔۔"
وہ سر جھکائے کہہ رہا تھا۔۔
"تم نے اس وقت مجھے چھوڑ کر اچھا فیصلہ ہی کیا تھا ارسلان۔۔ اگر تم ایسا نا کرتے تو مجھے جنید کا ساتھ نصیب نہیں ہوتا۔۔ میں تو تمہاری شکر گزار ہوں کہ تم نے مجھے اس وقت چھوڑ دیا ۔۔۔ اور جنید نے مجھے اپنا لیا۔۔ ہماری قسمتوں میں شاید یہی لکھا تھا۔۔ میرے نصیب میں جنید کا ساتھ تھا اور میں بہت خوش ہوں ان کہ ساتھ۔۔۔ اب ماضی مجھے یاد نہیں آتا۔۔ تم بھی بھول جاؤ سب۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولی۔۔
"میں تمہارے لیے بہت دعا کرتا ہوں ہانیہ۔۔ اللہ تمہیں جنید کے ساتھ ہمیشہ خوش رکھے۔۔۔"
وہ مسکرا کر کہتا وہاں سے چلا گیا۔۔ ایک دل کا بوجھ تھا جو ہلکا ہوا تھا۔۔ سب سے معافی مانگنے کے بعد بھی ایک کسک تھی جو اس کہ دل میں رہ گئی تھی مگر آج وہ بھی دور ہوگئ تھی۔۔۔
"کیا ہوگیا ہے۔۔ "
وہ کمرے میں واپس آئی تو جنید اپنا کوئی کام کر رہا تھا۔۔ وہ خاموشی سے بیٹھ کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔ جب جنید اس کی نظریں خود پر محسوس کرتا ہوا بولا۔۔
"کچھ نہیں ۔۔۔"
اس نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔۔
"پھر ایسے کیوں دیکھ رہی ہو۔۔"
"پیار آ رہا ہے آپ پر۔۔۔"
وہ مسکراہٹ دبا کر بولی۔۔
"یہ تو میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔۔"
وہ مسکرا کر بولا۔۔
"شکریہ۔۔۔"
"تم ہر بار مجھے شکریہ کیوں کہتی رہتی ہو۔۔؟"
"بس مجھے اچھا لگتا ہے۔۔۔"
وہ کندھے اچکا کر بولی۔۔
"اور میں۔۔؟"
"آپ بھی بہت اچھے ہیں۔۔۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولی تو جنید بھی مسکرایا۔۔۔ دکھ تکلیف بیماری غم ہر طرح کے حالات میں ان دونوں نے ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا تھا اور اب جب زندگی میں خوشیاں نصیب ہوئی تھیں تو وہ دونوں تب بھی ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے تھے۔۔ یہی محبت ہوتی ہے۔۔ یہی چاہت ہوتی ہے۔۔ یہی محرم رشتوں کی خوبصورتی ہوتی ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جنید بھائی یا عمیر کو بلا دو۔۔۔"
اقراء نے اس کہ سامنے ٹرے رکھا تو وہ سنجیدگی سے بولا۔۔۔ ایک ہفتہ ہوچکا تھا اسے ڈسچارج ہوئے وہ چل پھر لیتا تھا مگر بازو بالکل کام نہیں کر رہا تھا اس لیے زیادہ وقت جنید یا عمیر ہی اس کہ پاس ہوتے تھے۔۔۔
"جنید بھائی کلینک پر ہیں اور عمیر پڑھ رہا ہے۔۔"
"ماما کو بلا دو پھر۔۔۔"
"آپ نے کیا کہنا ہے۔۔۔"
وہ نا سمجھی سے بولی۔۔
"کھانا خود نہیں کھا سکتا میں ۔۔ بازو کام نہیں کرتا میرا۔۔۔"
وہ چڑتے ہوئے بولا۔۔
"میں کھلا دوں۔۔؟"
اقراء جھجکتے ہوئے بولی۔۔
"اگر آپ کی شان میں گستاخی نا ہو۔۔۔"
وہ ہنوز چڑا ہوا تھا۔۔۔ اقراء جھجکتے ہوئے اس کہ سامنے بیٹھ گئی اور نوالہ بنا کر اس کی طرف بڑھا۔۔۔ اسامہ نے ایک لمحے کو اس کی سوجی سوجی سی آنکھوں میں دیکھا پھر نوالہ کھا لیا۔۔۔
کھانے کے بعد اقراء نے اسے دوا دی اور وہیں اس کہ پاس بیٹھ گئی۔۔ اسامہ بس خاموشی سے اس کہ چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہا تھا ۔۔ ابھی کچھ دیر گزری تھی کہ وہ روتے ہوئے اس کہ گلے لگ گئی۔۔۔
"میں بہت پریشان ہوگئی تھی آپ کے لیے۔۔۔ آپ کو تکلیف میں دیکھا نہیں جا رہا تھا۔۔۔ میں نے بہت برا کیا ہے آپ کہ ساتھ بہت دکھ دیے ہیں آپ کو آپ پلیز مجھے معاف کردیں اور جلدی سے ٹھیک ہو جائیں میں اس حالت میں نہیں دیکھ سکتی آپ کو۔۔۔"
وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔ اسامہ اس کہ ردعمل پر حیران ہوا۔۔
"میرے لیے یہ رشتہ نا پسند نہیں تھا بس میں اسے قبول نہیں کر پا رہی تھی اور میں نے اپ کو بہت پریشان کیا ہے آپ پلیز مجھے معاف کر دیں۔۔۔"
اس کہ آنسو اسامہ کا کندھا بھگو رہے تھے۔۔ وہ بھی اس شخص کے سامنے آنسو بہانے بیٹھ گئی تھی جو کبھی کسی کی اداس صورت نہیں دیکھ سکتا تھا بھلا اس کہ آنسو کیسے برداشت کرتا۔۔۔
"پریشان تو تم نے مجھے بہت کیا ہے اور دیکھو اب بھی تکلیف دے رہی ہو۔۔"
اسامہ کا اشارہ اپنے کندھے کی طرف تھا جس پر اقراء نے سر رکھا تھا۔۔
"سوری۔۔"
وہ شرمندگی سے کہتی پیچھے ہوئی۔۔
"اب کس کس بات کی سوری کرو گی۔۔ اتنا پریشان کیا ہے تم نے ۔ اتنا دکھ دیا ہے۔۔۔"
وہ افسوس سے بولا۔۔
"میں واقعی بہت شرمندہ ہوں۔۔ بجائے آپ کا احسان مند ہونے کے میں آپ کو دکھ دیتی رہی ہوں آپ پلیز مجھے معاف کر دیں۔۔۔"
"ایک شرط پر معاف کروں گا۔۔۔"
وہ سوچتے ہوئے بولا۔۔۔ تو اقراء نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔۔۔
"تم پرانی ساری باتیں بھول کر میرے ساتھ ایک نئے رشتے کی شروعات کرو گی اور وہ ایسا رشتہ ہوگا جو کسی سمجھوتے کسی ضرورت کی بنیاد پر نہیں ہوگا بلکہ محبت کی بنیاد پر ہوگا۔۔ تم مجھے دل و جان سے قبول کرو گی اور میں بھی پورے دل سے اس رشتے کو نبھاوں گا۔۔۔ بتاؤ کیا تمہیں میرا ساتھ منظور ہے۔۔؟ "
اسامہ کہ پوچھنے پر اس نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔
"قبول ہے۔۔۔"
وہ ہلکا سا مسکراتے ہوئے بولی تو اسامہ بھی مسکرایا۔۔
"ہنستے ہوئے ہی اچھی لگتی ہو۔۔ روتے ہوئے تو پوری کرنانی چڑیل لگتی ہو۔۔۔"
اسامہ کہ شرارت سے کہنے پر وہ مسکرائی اور نظریں جھکا لیں۔۔۔

نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا❤

ختم شد۔۔💕

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Where stories live. Discover now