Episode 11

2.3K 188 67
                                    

فرزانہ بیگم نے اسے بہت سمجھایا تھا۔۔ اس نے بہت اعتراض کیا تھا اس رشتے پر لیکن وہ اس کی کوئی بات سننے پر راضی نا تھیں۔۔ وہ اسے ہر طرح کے دلائل سے راضی کرنے کی کوشش کر چکی تھیں۔۔ وہ ان کے سامنے تو خاموش ہوگئی تھی مگر اس رشتے پر ہر گز راضی نا ہوئی تھی۔۔ وہ کیسے جنید سے شادی کر لیتی۔۔؟ وہ ان حالات میں کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ وہ نا مکمل ہو کر کسی کی زندگی میں شامل نہیں ہونا چاہتی تھی۔۔ اور جنید۔؟ وہ تو اس کے بارے میں سب جانتا تھا وہ اس کہ اور ارسلان کے بارے میں بھی سب جانتا تھا۔۔ وہ جانتا تھا کہ وہ ابھی تک ارسلان کو نہیں بھلا پائی تو وہ کیوں یہ رشتہ کرنا چاہ رہا تھا۔۔؟ کیا اس پر بھی زبردستی کی گئی تھی۔۔ یا وہ کسی ہمدردی کے زیر اثر یہ فیصلہ کر رہا تھا۔۔ وہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر جنید کس طرح سے اس رشتے کے لیے راضی ہوگیا۔۔ وہ جیسے بھی راضی ہوا تھا لیکن وہ کسی صورت راضی نہیں ہونا چاہتی تھی۔۔ وہ فورا انکار کر دینا چاہتی تھی۔۔
اس نے اپنے موبائل اٹھایا اور ہمت کر کہ جنید کا نمبر ڈائل کیا ساتھ ہی اس نے گھڑی پر وقت دیکھا جو بارہ بجا رہی تھی پہلے اس نے سوچا کال بند کر دے لیکن پھر بالآخر ہمت کر کہ وہ دوسری طرف سے جواب آنے کا انتظار کرتی رہی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سوچوں میں گم تھا۔۔ اس وقت اس کے ذہن پر فقط ہانیہ پہ چھائی ہوئی تھی۔۔ اس نے کیسے ریکٹ کیا ہوگا وہ کیا سوچ رہی ہوگی اس رشتے کے بارے میں وہ کب سے بس یہی سوچے جا رہا تھا۔۔ وہ اپنی سوچوں میں گم تھا جب اس کہ موبائل پر رنگ ہوئی۔۔ وہ حیران ہوتا ہوا اٹھا اور ہانیہ کا نام دیکھ کر اسے مزید حیرت ہوئی۔۔ پھر اس نے فون اٹھا لیا۔۔
"خیریت ہے ہانیہ اس وقت۔۔ "
جنید کال اٹھاتے ہی بولا۔۔ ایک طرف سے اسے ہانیہ کی طبیعت کا بھی خدشہ تھا۔۔
"مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے جنید بھائی۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولی۔۔۔
"ہاں بولو۔۔۔"
"مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی۔۔"
وہ دو ٹوک انداز میں بولی۔۔۔
"اور کیوں نہیں کرنی شادی۔۔؟ "
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولا۔۔
"مجھے پتا ہے آپ کہ ساتھ زبردستی ہو رہی ہے۔۔ آپ ماموں مامی کہ دباؤ میں آ کر یہ فیصلہ کر رہے ہیں لیکن آپ کو اس کی ضرورت نہیں ہے آپ شادی سے انکار کر دیں۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولی۔۔
"میں کسی کہ دباؤ میں آکر یہ فیصلہ نہیں کر رہا ہانیہ۔۔ مجھ پر کسی نے زبردستی نہیں کی۔۔ "
وہ بھی سنجیدگی سے بولا۔۔ ایک لمحے کو ہانیہ خاموش ہوئی۔۔
"پھر آپ کو مجھ سے ہمدردی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔ مجھے پتا ہے آپ صرف مجھ سے ہمدردی کر کہ یہ رشتہ جوڑ رہے ہیں کیونکہ آپ کو پتا ہے کہ اب مجھے کوئی قبول نہیں کرے گا۔۔ میں اب کسی کے قابل نہیں رہی اس لیے آپ ہمدردی کے زیر اثر یہ فیصلہ کر رہے ہیں۔۔ "
اب کہ وہ طنز کرتے ہوئے بولی۔۔
"ایسی بات نہیں ہے ہانیہ۔۔ میں بالکل ہمدردی کے زیر اثر یہ فیصلہ نہیں کر رہا۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولا۔۔
"ایسا ہی ہے۔۔ آپ میرے بارے میں سب جانتےہیں۔۔ آپ جانتے ہیں میری بیماری کو آپ جانتے ہیں میرے اور ارسلان کے بارے میں۔۔ آپ سب جانتے ہیں میرے بارے میں۔۔ اور سب جاننے کے بعد میرے لیے ہمدردی کے علاوہ کوئی اور جذبہ نہیں ہوسکتا آپ کہ دل میں۔۔ "
وہ غصے سے بولی۔۔
"جو ہو چکا وہ سب ماضی تھا ہانیہ۔۔ اور جو بھی ہوا اس میں تمہارا قصور نہیں تھا۔۔ نہ مجھ پر کوئی زبردستی کر رہا ہے نہ ہی میں ہمدردی کی وجہ سے ایسا کر رہا ہوں۔۔ مجھے آج نا کل شادی تو کرنی ہی تھی۔۔ ماما نے تمہارا نام لیا تو میں نے ہاں کر دی۔۔ اس کے پیچھے کوئی ایسی وجہ نہیں ہے۔۔ میں نے ویسے ہی ہاں کی ہے جیسے کسی بھی لڑکی کے لیے کرتا۔۔ "
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔۔
"لیکن مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی۔۔ مجھے کسی سے بھی شادی نہیں کرنی میں اپنے نصیب کی سیاہی سے کسی اور کے بخت سیاہ نہیں کرنا چاہتی۔۔ میرے ساتھ رہ کر کوئی بھی خوش نہیں رہے گا۔۔ میں ایک نا مکمل لڑکی ہوں کسی کو بھی خوشی نہیں دے سکتی۔۔ آپ پلیز انکار کر دیں۔۔  اپنے سر اس پریشانی کو مت لیں۔۔ "
وہ اب اپنا ضبط کھو بیٹھی تھی۔۔ بے اختیار ہی کئی آنسو اس کا چہرہ بھگو گئے تھے۔۔
"بے وقوفوں جیسی باتیں مت کرو ہانیہ۔۔ کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہے کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہے۔۔ یہاں ہر انسان میں کوئی نا کوئی خامی ہے۔۔ تم واحد نہیں ہو۔۔ مجھ میں بھی بہت سی خامیاں ہیں بہت سی برائیاں ہیں اس کا مطلب یہ تو نہیں میں خود کو بس خود تک محدود رکھ کر بیٹھ جاؤں۔۔ "
"لیکن میں کسی کے قابل نہیں ہوں۔۔ ہوتی ہوگی ہر انسان میں کوئی نا کوئی خامی مگر میرا نقص بہت بڑا ہے۔۔ میری بیماری بہت بڑی ہے۔۔ میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی۔۔ میں آپ کی زندگی خراب نہیں کرسکتی۔۔ "
وہ نم لہجے میں بولی۔۔
"کیا اس کے علاوہ بھی کوئی وجہ ہے انکار کی۔۔؟ "
جنید نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔
"اس سے بڑی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے۔۔ "
وہ طنز سے بولی۔۔
"پھر میں تو بالکل انکار نہیں کررہا۔۔ ایسی فضول بچکانہ وجوہات پر میں تو یہ رشتہ نہیں ختم کر سکتا۔۔ "
وہ اٹل لہجے میں بولا۔۔
"آپ کے لیے ہوگی یہ فضول وجہ۔۔ میرے لیے بہت اہم ہے اور میں بتا رہی ہوں میں آپ سے کسی صورت شادی نہیں کروں گی جنید بھائی۔۔۔ کسی سے بھی شادی نہیں کروں گی میں۔۔ "
وہ غصے سے بولی۔۔
"تمہارا بس دماغ خراب ہے اور کوئی بات نہیں۔۔ "
"آپ انکار کر دیں بس۔۔ "
"میں نہیں کروں گا۔۔
"مجھے نہیں کرنی آپ سے شادی۔۔ "
"مگر مجھے کرنی ہے۔۔ "
"آپ میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے۔۔ "
وہ رو دینے کو تھی۔۔
"تم اپنے چھوٹے سے دماغ سے اتنا مت سوچو اور شادی کی تیاری کرو۔۔ تمہارے یہ سارے خدشات بس فضولیات ہیں اس کہ علاوہ اور کچھ نہیں۔۔ "
"آپ اچھا نہیں کر رہے میرے ساتھ۔۔ "
وہ شاید رو رہی تھی۔۔
"ہانیہ تم بلاوجہ پریشان مت ہو۔۔ جو ہو رہا ہے ہونے دو۔۔ "
وہ نرمی سے بولا۔۔
"میں اپنے لیے پریشان نہیں ہوں۔۔ میں آپ کے لیے پریشان ہوں۔۔ آپ مجھے ڈیزرو نہیں کرتے۔۔ آپ کو مجھ سے اچھی لڑکی مل جائے گی۔۔ جو آپ کا ساتھ دے سکے گی۔۔ آپ پلیز اپنے بارے میں سوچیں اور اس رشتے سے انکار کر دیں۔۔ "
وہ روتے ہوئے بولی۔۔
"تم میری فکر چھوڑ دو۔۔ جو ہو رہا ہے میں اس کہ ساتھ بہت خوش ہوں اور تم بھی یہ پریشانی چھوڑو اور مطمئن ہوجاؤ۔۔ "
"لیکن جنید بھائی۔۔ "
اس نے کوئی احتجاج کرنا چاہا۔۔
"بس کرو لڑکی اب بھائی کہہ کر دل تو نا خراب کرو۔۔ "
جنید کے شرارت سے کہنے پر اس نے غصے سے فون بند کر دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔ کوئی بھی اس کی بات نہیں سمجھ رہا تھا۔۔ کوئی اس کا اختلاف نہیں سمجھ رہا تھا۔۔ وہ شادی کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔۔ تب تک تو بالکل نہیں جب تک وہ صحتیاب نا ہو جاتی مگر کوئی اس کی بات سننے کو تیار نا تھا۔۔ ایک آخری امید تھی اسے جنید سے جو اب وہ بھی دم توڑ گئی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ناشتہ تو کرتی جاؤ اقراء اتنی بھی کیا جلدی ہے۔۔۔"
آمنہ بیگم اقراء سے بولیں جو سکول کے لیے نکل رہی تھی۔ 
"امی آج فنکشن ہے سکول میں۔۔ کسی نے آنا ہے شاید کہیں سے۔۔ میں تو پہلی دفعہ اٹینڈ کر رہی ہوں ایسا کوئی فنکشن تو میں لیٹ نہیں ہونا چاہتی۔۔ "
وہ جلدی سے بولی۔۔
"چلو خیر سے جاؤ خیر سے آؤ۔۔۔"
وہ اس کہ سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں تو وہ نکل گئی۔۔۔
"یار نائلہ آخر کون آ رہا ہے جو سب بچے اتنے خوش ہیں۔۔؟ "
اقراء کو اس سکول میں نوکری کرتے ابھی تھوڑا ہی وقت ہوا تھا اس لیے اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔۔ وہ سب بچوں کے چہروں پر خوشی کے تاثرات دیکھ کر اپنی کولیگ نائلہ سے پوچھ بیٹھی۔۔
"سر اسامہ اور سر رضا آ رہے ہیں۔۔ وہ دونوں کثر آتے ہیں خاص کر کوئی عید وغیرہ کا موقع ہو یا کوئی بھی تہوار ۔۔ وہ یہاں کے سب بچوں کے لیے کافی چیزیں لے کر آتے ہیں۔۔
"کسی این جی او کے لوگ ہیں۔۔؟ "
اس نے اندزہ لگایا۔۔
"نہیں۔۔ این جی او کے تو نہیں ہیں۔۔ بس دونوں اپنے طور پر چیرٹی کرتے ہیں۔۔ بہت اچھے ہیں دونوں اپنا ہر تہوار ان بچوں کے ساتھ مناتے ہیں۔۔ آج سر اسامہ کی برتھ ڈے ہے تو اسی لیے وہ دونوں یہاں منانے آ رہے ہیں اور سب بچے اسی لیے خوش ہیں۔۔۔"
"یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔ اتنی مطلب پرست دنیا میں اب بھی اچھے لوگ موجود ہیں۔۔ اللہ انہیں اجر دے۔۔ "
اقراء دل سے بولی تھی پھر اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ساری چیزیں رکھ لی نا۔۔۔"
اسامہ باہر نکلتے ہوئے بولا۔۔۔
"ہاں سب رکھ لیا ہے تم فکر مت کرو۔۔ "
رضا بولا۔۔
"رباب کو بھی ساتھ بلا لیتے تم۔۔ "
اسامہ نے رضا کی منگیتر کا نام لیا۔۔
"خدا کا خوف کرو کچھ۔۔ میرے گھر میں کسی کو پتا لگ گیا نا تو مجھے زندہ دفنا دیں گے۔۔۔"
رضا ڈرتے ہوئے بولا تو اسامہ ہنس دیا۔۔
اس کہ بعد وہ لوگ سکول پہنچے تو سب ان سے بہت گرم جوشی سے ملے۔۔ بچے تو جیسے سب ان دونوں کے ہی انتظار میں تھے۔۔ ان کہ جانے پر فوراََ اس کی طرف بڑھے۔۔ وہ دونوں مسکرا کر ان سب بچوں سے مل رہے تھے۔۔ انہیں چیزیں دے رہے تھے۔۔ ان لوگوں نے بھی اسامہ کے لیے کیک کا انتظام کیا تھا۔۔ اب حال میں سب کھڑے تھے۔۔ درمیان میں اسامہ اور رضا کھڑے تھے اور ان کہ آگے ٹیبل پر کیک پڑا تھا۔۔ ایک طرف سارا سٹاف کھڑا تھا جبکہ سامنے سب بچے کھڑے تھے اور تالیاں بجا رہے تھے۔۔ وہ سب کے بیچ کھڑا مسکراتا ہوا کیک کاٹ رہا تھا۔۔ چہرے پر بڑی گہری مسکراہٹ تھی۔۔ بہت پر سکون سی بہت ٹہری ہوئی بہت سے جذبوں میں ڈوبی ہوئی۔۔ کیک کاٹنے کے بعد اب اس نے ایک ٹکرا اٹھایا اور گٹھنے کے بل بیٹھ کر سب بچوں کو کھلانے لگا جب اس کی نظر ہال کے دروازے کی طرف اٹھی اور پھر پلٹنا ہی بھول گئی۔۔ اسے لگا جیسے اس نے کوئی خواب دیکھا ہو۔۔ اپنی آنکھوں پر اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔۔ اس کی خواہش پوری ہو جائے اسے بالکل اندازہ نا تھا۔۔ اسے اتنی جلدی اپنی غلطی سدھارنے کا موقع ملے گا اسے بالکل یقین نہیں آ رہا تھا۔۔ وہ یک ٹک دروازے کی طرف دیکھی جا رہا تھا جبکہ دروازے پر کھڑی وہ ہستی ۔۔ اس کی حالت بھی اسامہ سے مختلف نا تھی۔۔ وہ بھلا اپنی اتنی ذلت کرنے والے شخص کو کیسے بھول سکتی تھی۔۔ اقراء کو اچھے سے یاد تھا یہ اس دن ہاسپٹل والا ڈاکٹر ہی تھا جس نے اسے خیراتی ہسپتال جانے کا مشورہ دیا تھا۔۔ اس شخص کو دیکھ کر بہت سی تلخ یادیں اس کہ ذہن میں آئی تھیں۔۔ اسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ دوبارہ کبھی اس کا اس سے سامنہ ہوجائے گا۔۔
"اسامہ کیا ہوگیا۔۔؟ "
اسے ساکت کھڑا دیکھ کر رضا نے اس کا کندھا تھپکایا۔۔ اسامہ چونکا۔۔
"ہاں۔۔ کچھ نہیں تم یہ کیک دو بچوں کو میں ایک کال کر کہ آتا ہوں۔۔"
وہ سنجیدگی سے کہہ کر اسی طرف بڑھ گیا جہاں سے ابھی اقراء اسے دیکھ کر باہر نکلی تھی۔۔
"ٹھیک ہے تم جاؤ۔۔ "
رضا کہ کہنے پر وہ باہر آ گیا۔۔ باہر آتے ہی اسے اقراء نظر آگئی جو سٹاف روم کی طرف جا رہی تھی۔۔
"سنیں۔۔ مس۔۔ "
اسامہ نے اسے آواز دی۔۔ اس کی آواز پر وہ پلٹی۔۔ چہرے پر تاثرات بہت سرد تھے۔۔
"جی سر۔۔ "
اس کہ انداز میں بھی ویسی ہی سردمہری تھی۔۔
"اس دن جو میں نے آپ کہ لیے الفاظ استعمال کیے میں ان پر بہت شرمندہ ہوں۔۔ میرا وہ سب مطلب نہیں تھا جو میں اس دن بول گیا تھا۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں اپنے الفاظ پر اور تقدیر پر حیران بھی ہوں جس نے مجھے اپنی غلطی سدھارنے کا موقع دیا۔۔ میں آپ سے معافی چاہتا ہوں میں نے آپ کا دل دکھایا۔۔ "
اسامہ شرمندگی سے کہہ رہا تھا۔۔
"آپ ٹھیک کہہ رہے تھے اس دن سر۔۔ مجھے وہاں نہیں آنا چاہیے تھا غلطی میری تھی۔۔ آپ کو معذرت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔ البتہ حیرت ہوئی آپ کو یہاں دیکھ کر۔۔ جو شخص موقع ملنے پر بھی کسی کی مدد کرنے سے انکار کردے وہ یہاں نیکیاں کرنے کے مواقعے کیوں ڈھونڈ رہا ہے۔۔ "
سنجیدگی سے کہتی وہ آخر میں تلخ ہوئی۔۔
"اس دن میں کچھ پریشان تھا یا شاید میری اپنی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں اپنی غلطی پر ۔۔ میں آپ کی مدد کرنا چاہتا تھا لیکن نجانے مجھے اس وقت کیا ہوگیا تھا میں پچھلے دو دن سے آن ڈیوٹی تھا تو شاید اپنا غصہ آپ پر نکال دیا۔۔ ایم ویری سوری۔۔ "
وک وضاحت دیتا ہوا بولا۔۔۔
"اٹس اوکے۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولی۔۔
"آپ کی مدر کی طبیعت اب کیسی ہے۔۔؟ "
اسامہ نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔۔۔
"الحمداللہ خیراتی ہسپتال میں بھی ان کا علاج جاری ہے۔۔ "
وہ خیراتی پر زور دیتی ہوئی بولی۔۔
"آپ پلیز اپنی مدر کو لے کر آئیں ہمارے ہاسپٹل ۔۔ میں اپنی غلطی کا مدوا کروں گا۔۔ میں خود ان کا علاج کروں گا۔۔ "
اسامہ شرمندگی سے بولا۔۔
"آپ سے مدد لینے سے بہتر میں خیرات لینا پسند کروں گی۔۔ "
وہ سرد مہری سے بولی تو اسامہ نے دکھ سے اسے دیکھا۔۔
"دیکھیں مس میں آل ریڈی بہت گلٹ ہوں۔۔ پلیز آپ میرا سوری ایکسیپٹ کر لیں۔۔ "
"کر لیا ایکسیپٹ۔۔ اب آپ جا سکتے ہیں۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولی۔۔
"آپ جب تک میری مدد قبول نہیں کریں گی میں یقین نہیں کروں گا کہ آپ نے میری سوری ایکسیپٹ کر لی۔۔ "
"تو آپ نہ یقین کریں۔۔ لیکن مجھے آپ کی مدد درکار نہیں ہے ۔۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولی۔۔ اس سے پہلے کہ اسامہ اسے کچھ کہتا پیچھے سے کسی کی آواز آئی۔۔
"مس اقراء آپ کو اندر بلایا جا رہا ہے۔۔ "
وہ دوسری ٹیچر اسے اطلاع دیتی وہاں سے نکل گئی۔۔ اقراء بھی فوراََ وہاں سے چلی گئی جبکہ اسامہ کے لیے ایک کام بہتر ہوا تھا کہ اسے کم از کم اس لڑکی کا نام تو پتا لگ گیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بنو رے بنو میری چلی سسرال کو۔۔۔ "
خدیجہ گنگناتے ہوئے ہانیہ کے کمرے میں داخل ہوئی۔۔
"میں اکیلی ہی نہیں تم بھی اپنے سسرال کو چلنے ہی والی ہو اب۔۔ "
ہانیہ بولی۔۔
"ارے بھئی اپنے ایسے نصیب کہاں۔۔ ہمارے نصیب میں تو بس نکاح ہی لکھا ہے۔۔ "
وہ آہ بھرتے ہوئے بولی پھر خود ہی اپنی بات پر ہنس دی۔۔ ہانیہ کی شادی کے ساتھ ہی خدیجہ کا نکاح ہونا طے پایا تھا۔۔ ہانیہ اس شادی کے لیے راضی نہیں تھی مگر اس نے خود کو سب کی خوشی کی خاطر راضی کر لیا تھا۔۔ وہ اب خاموش ہوگئی تھی۔۔ قسمت کے لکھے کو وہ نہیں بدل سکتی تھی۔۔۔ اس کہ بس میں تھا ہی کیا۔۔ اس لیے اس نے خود کو کافی حد تک کمپوز کر لیا تھا۔۔
"شکر کرو نکاح بھی ہو رہا ہے۔۔ "
"ہاں واقعی۔۔ ورنہ جو آپ کے بھائی کے ارادے تھے مجھے تو لگ رہا تھا منگنی بھی برقرار نہیں رہنے والی۔۔ "
خدیجہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔
"ان کا غصہ بس اوپر اوپر سے ہی ہے۔۔ دیکھنا نکاح کے بعد کیسے ٹھیک ہوتے۔۔ "
ہانیہ بھی مسکرا کر بولی۔۔
"یا تو ٹھیک ہوجائیں گے یا تو میں بھی انہی کے جیسی سڑیل سی ہو جاؤں گی۔۔ "
وہ منہ بسور کر بولی۔۔
"شرم کرو۔۔ اپنے ہونے والے شوہر کو کیا کہہ رہی ہو۔۔
ہانیہ نے اسے شرم دلائی ۔۔۔۔
"چھوڑیں شرم کو۔۔ وہ مجھے نہیں آنے والی۔۔ آپ یہ بتائیں وہ آدم بیزار انسان اس وقت ہے کہاں۔۔؟ "
"کیوں بھئی تمہیں ان کی اتنی یاد کیوں ستا رہی ہے۔۔؟ "
ہانیہ شرارت سے بولی۔۔
"یاد نہیں ستا رہی ایک بات ستا رہی ہے جو مجھے ان سے کرنی ہے۔۔ "
وہ منہ بسور کر بولی۔۔
"نکاح کی تاریخ رکھی جا چکی ہے۔۔ اب تمہیں ان سے کونسی باتیں کرنی ہیں۔۔؟ اصولا تو تمہیں ان سے پردہ کرنا چاہئے اب۔۔ "
"آپ بتا رہی ہیں یا میں خود ڈھونڈ لوں۔۔؟ "
خدیجہ منہ بناتے ہوئے بولی۔۔
"اچھا بھئی ناراض کیوں ہو رہی ہو۔۔ لان میں ہوں گے بھائی۔۔ "
ہانیہ کے بتانے پر وہ اٹھی۔۔
"اچھا بھئی۔۔ میں چلی پھر۔۔ "
"تمہیں بھائی سے بے عزتی کروانے کا شوق ہے خدیجہ۔۔ "
ہانیہ ہنستے ہوئے بولی۔۔
"نہیں عادت ڈال رہی ہوں بس۔۔ آگے ساری زندگی تو کروانی ہے نا بے عزتی۔۔ "
وہ شرارت سے کہتی کمرے سے نکل گئی جبکہ ہانیہ اس کی حرکت پر مسکرا کر رہ گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Where stories live. Discover now