Episode 22

2.4K 190 122
                                    

"بس کرو اقراء بچے کیوں ان لوگوں کے لیے رو رہی ہو جنہیں تمہارا احساس نہیں ہے۔۔"
سلمہ بیگم اسے خاموش کرواتے ہوئے بولیں۔۔ آج انہوں نے اقراء کے بھائی کو فون کیا تھا اور اس کہ بعد اس نے اقراء کو فون کر کہ جو باتیں سنائی تھیں تب سے اقراء کے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔۔ سلمہ بیگم اسے اپنے ساتھ ہی ہوٹل لے آئی تھیں جہاں پر وہ رہائش پذیر تھیں۔۔۔
"منع کیا تھا مت کریں اس انسان کو فون مگر آپ لوگ میری سنیں تو تب نا۔۔"
اسامہ غصے سے بولا۔۔ اسے غصے میں دیکھ کر اقراء نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
"تم باہر جاؤ اسامہ۔۔ مجھے اقراء سے بات کرنے دو۔۔"
سلمہ بیگم سختی سے بولیں تو وہ غصے سے باہر نکل گیا۔۔۔ اسے زیادہ غصہ اقراء پر بھی تھا کیونکہ کل صبح وہ جیسے ہی ہسپتال پہنچا تھا اسے اقراء کی کال آئی۔۔
"آپ نے کیا سوچ کر رشتا بھیجا ہے ہاں۔۔؟ ہماری مدد کی ہم پر احسان کیا تو اب اس کا بدلہ اس طرح سے لیں گے مجھے۔۔؟ میں بے سہارا ہوں تو کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں بہت احسان کر رہے ہیں مجھ سے شادی کر کہ۔۔؟ زیادہ عظیم انسان بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔"
وہ نجانے اپنے اندازے سے کیا کیا کہے جا رہی تھی۔۔ اسامہ کی رگیں تن گئیں۔۔
"آپ کہ ساتھ مسئلہ کیا ہے مس اقراء۔۔؟ آپ خود کو کوئی بہت مس ورلڈ سمجھتی ہیں جو سب آپ لہ پیچھے پڑے رہیں گے۔۔۔ آپ کی اطلاع کے لیے میں نے اپنی پسند سے یہ رشتہ نہیں بھیجا صرف ماما کی مرضی شامل تھی اس میں۔۔ میں ان کہ کہنے پر ہی انہیں یہاں لایا ہوں اس لیے فضول کی سوچیں اپنے دماغ سے نکال دیں۔۔۔ "
وہ بھی غصے سے بولا تھا۔۔۔
"آپ بھی اپنے دماغ سے یہ بات نکال دیں کہ میں آپ سے شادی کروں گی۔۔ میں کبھی ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔"
وہ تلخی سے بولی۔۔
"بے شک نا کریں۔۔ مرا نہیں جا رہا آپ کے عشق میں میں۔۔ اچھا ہے میری بھی جان چھوٹے گی۔۔"
اسامہ نے بھی اسی کہ انداز میں کہہ کر فون بند کر دیا۔۔
"بیٹا بتائیں اب کیا مرضی ہے آپ کی۔۔؟"
سلمہ بیگم کی آواز پر وہ خیالوں سے چونکی۔۔
"ٹھیک ہے آنٹی۔۔ میں آپ کہ ساتھ چلنے کو تیار ہوں ۔۔"
وہ آہستہ سے بولی تھی۔۔ اپنے بھائی کی بے رخی نے اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔ اسے کبھی نا کبھی کسی نا کسی کا سہارا ضرور چاہیے تھا۔۔ بغیر سہارے کے وہ زندگی نہیں گزار سکتی تھی۔۔ آج نہیں تو کل اسے شادی کرنی ہی تھی اور جب اللہ نے اس کہ لیے وسیلہ بنا ہی دیا تھا تو وہ کیوں خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارتی۔۔ خود غرضی ہی سہی مگر اب اسے اپنے مفاد کے لیے یہ رشتہ جوڑنا تھا۔۔ اپنی حفاظت کے لیے یہ رشتہ جوڑنا تھا۔۔۔ انکار کا جواز تو تب بنتا جب اس کہ پاس کوئی اور آپشن ہوتا لیکن اب جب اس کا بھائی بھی اس سے منہ موڑ گیا تھا تو اب اسے کسی غیر کا ہی سہارا لینا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلمہ بیگم اقراء کو اپنے ساتھ لے آئی تھیں۔۔۔اسامہ اس کہ اقرار پر بے حد حیران ہوا تھا لیکن فل وقت خاموش تھا۔۔ اسامہ کی ہاؤس جاب ختم ہو چکی تھی اور اب وہ ایک مہینے بعد اپنے گھر واپس جا رہا تھا اور اس پورے مہینے میں اس کی اقراء سے ایک بار بھی بات نہ ہوئی تھی۔۔  یہاں اقراء کی سب سے کافی انڈرسٹینڈنگ ہوچکی تھی۔۔ ہانیہ اس کی کافی اچھی دوست بن چکی تھی جبکہ سلمہ بیگم اور محمود صاحب نے اسے اپنی بیٹیوں کی طرح رکھا تھا۔۔ جنید اس کا بڑے بھائیوں کی طرح دھیان کرتا تھا جبکہ عمیر سے بھی اس کی بے حد دوستی ہوگئی تھی۔۔
اقراء اور اسامہ دونوں کی رضامندی پر ان کی شادی کی تاریخ تب ہی رکھی جا چکی تھی جب اقراء یہاں آئی تھی۔۔ اسامہ کے آنے کے ایک ہفتے بعد کی تاریخ رکھی گئی تھی اور آج وہ واپس آ رہا تھا تو اسی طرح ان کی شادی میں فقط ایک ہفتہ رہ گیا تھا۔۔۔
"کدھر دولہے میاں۔؟"
وہ گیسٹ روم کی طرف جا رہا تھا جب ہانیہ اس کہ راستے میں آئی۔۔
"وہ مجھے اقراء سے کچھ بات کرنی تھی۔۔"
اسامہ سر کھجاتے ہوئے بولا۔۔۔
"کوئی بات نہیں کرنی اب۔۔۔ اب آپ دونوں کا پردہ ہے۔۔۔ چپ کر کہ اپنے کمرے میں چلے جائیں۔۔"
وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر بولی۔۔
"کیوں بھئی۔۔ یہ کیا پابندی ہوئی۔۔؟"
اسامہ بھی لڑنے والے انداز میں بولا۔۔
"شادی سے پہلے دلہن کا دلہے سے پردہ ہوتا ہے۔۔"
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔۔۔
"واہ بھائی واہ۔۔۔ خود شادی سے پہلے آدھی آدھی رات تک باتیں کرتی رہتی تھی ڈاکٹر صاحب سے اور میری باری پردہ۔۔؟ واہ رے مولا۔۔۔"
اسامہ کے کہنے پر ہانیہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
"ہا۔۔۔ میں نے تو کبھی بات نہیں کی تھی ان سے۔۔۔ آپ نے ہی ایک بار کال کروائی تھی بس۔۔"
وہ حیرانی سے بولی۔۔
"کیا ہوگیا بھئی۔۔ کیوں دونوں راستہ روکے کھڑے ہو۔۔؟"
جنید ان دونوں کو راستے میں کھڑا دیکھ کر بولا۔۔
"ہانیہ بھابھی کو بہت شکایات ہیں آپ سے۔۔۔"
اسامہ شرارت سے بولا۔۔ ہانیہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
"کیا ہوا بھئی ایسی کونسی شکایت ہے۔۔؟"
جنید ہانیہ کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔۔
"یہی کہ آپ شادی سے پہلے بھابھی کو فون نہیں کرتے تھے۔۔ نہ کبھی ملنے آئے نہ کبھی کوئی تحفہ دیا۔۔ ایسے تھوڑی نا ہوتا ہے۔۔"
اسامہ افسوس سے بولا تو جنید نے ہانیہ کی طرف دیکھا۔۔۔
"ایسی بات ہے ہانی۔۔؟ "
جنید پر سوچ انداز میں کہہ رہا تھا۔۔
"ایسی ہی بات ہے۔۔۔"
ہانیہ کے بولنے سے پہلے ہی اسامہ بول پڑا۔۔
"آپ کس کی باتوں میں آ رہے ہیں جنید۔۔ یہ تو ویسے ہی فضول بولتے رہتے ہیں۔۔"
اسامہ فوراََ سے بولی۔۔
"لو بھلا۔۔ جنید بھائی مجھے اب پتا تھوڑی نا تھا کہ آپ نے بھابھی کو کبھی کال نہیں کی نا کبھی گفٹ دیا۔۔ ظاہر ہے انہوں نے شکایت کی تھی تب ہی پتا لگا ہے۔۔"
اسامہ کندھے اچکا کر بولا تبھی سلمہ بیگم نے اسامہ کو پکارا۔۔
"میرا بلاوا آ گیا ہے میں چلتا ہوں۔۔ آپ دونوں continue کریں۔۔۔"
وہ فورا وہاں سے نکل گیا تو جنید ہانیہ کی طرف مڑا۔۔
"تمہیں واقعے مجھ سے ایسی کوئی شکایت تھی تو تم مجھ سے کہہ دیتی ہانیہ۔۔ "
"آپ کس کی باتوں میں آ رہے ہیں جنید۔۔ مجھے ایسی کوئی شکایت نہیں ہے آپ سے اسامہ بھائی بس بلاوجہ ہی بولتے رہتے ہیں۔۔"
وہ عجلت سے کہتی وہاں سے نکل گئی۔۔ وہ اقراء کے پاس ہی جا رہی تھی جب اسامہ کی وجہ سے کافی لیٹ ہوگئی مگر اب وہ مزید لیٹ نہیں ہونا چاہتی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اسامہ بھائی آ گئے ہیں اور اب تم دیکھنا گھر کی رونق۔۔۔"
ہانیہ اقراء کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔۔
"وہ کب آئے۔۔؟
"آج صبح ہی آئے ہیں۔۔ ابھی تمہارے کمرے میں آ
رہے تھے تم سے ملنے۔۔ وہ تو میں نے دیکھ لیا تو رک گئے۔۔"
ہانیہ شرارت سے بولی۔۔۔
"مجھے بہت ڈر لگتا ہے ہانی۔۔"
اقراء آہستگی سے بولی۔۔
"کس سے۔۔؟ اسامہ بھائی سے۔۔؟"
ہانیہ حیرت سے بولی۔۔ اقراء نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ ہنس دی۔۔۔
"یار اسامہ بھائی سے بھی بھلا کوئی ڈر سکتا ہے۔۔؟ وہ اتنے اچھے ہیں کسی کو بھی کچھ نہیں کہتے۔۔ تم بالکل پریشان مت ہو۔۔ انہیں بالکل غصہ نہیں آتا۔۔"
ہانیہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔۔
"مجھے پھر بھی ڈر لگتا ہے۔۔"
وہ نظریں جھکا کر بولی۔۔
"تمہارا یہ ڈر اب اسامہ بھائی ہی اتاریں گے۔۔ خیر میں چلتی ہوں رات کافی ہوگئی ہے اور جنید کو کافی بھی دینی ہے۔۔ تم بھی آرام کرو۔۔"
ہانیہ کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی تو اقراء نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
ہانیہ کافی بنا کر کمرے میں داخل ہوئی تو جنید ٹی وی دیکھ رہا تھا۔۔ وہ اس کہ سائیڈ پر کافی رکھتی بیڈ کی دوسری طرف آ کر بیٹھ گئی۔۔
"اقراء کیسی ہے۔۔؟"
جنید نے ٹی وی پر نظریں جمائے پوچھا۔۔
"ٹھیک ہے۔۔ ڈر رہی تھی جب میں نے بتایا کہ اسامہ بھائی آ گئے ہیں۔۔ اکیلے سب فیس کرنا مشکل ہے اس کے لیے۔۔۔"
"ہم۔۔"
جنید پرسوچ انداز میں بولا۔۔
"کیا ہوا کوئی پریشانی ہے آپ کو۔۔؟"
ہانیہ اس کی خاموشی محسوس کرتی ہوئی بولی۔۔
"ہاں۔۔ نہیں وہ بس ویسے ہی۔۔"
جنید کہ کہنے پر وہ کندھے اچکا کر اپنا موبائل یوز کرنے لگ گئی۔۔ ابھی اسے بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی جب اس کہ سامنے آ کر بیٹھ گیا اور اس کی طرف ایک ڈبہ بڑھایا۔۔
"یہ کیا ہے۔۔؟"
ہانیہ نے نا سمجھی سے پوچھا۔۔
"وہ۔۔ کھول کے دیکھ لو۔۔"
جنید کے کہنے پر اس نے ڈبہ کھولا تو اس میں ایک انگوٹھی تھی۔۔ ہانیہ نے حیرت سے پہلے انگوٹھی کو پھر جنید کو دیکھا۔۔
"یہ کس لئے۔۔"
"وہ ۔۔ تمہیں کوئی گفٹ نہیں دیا میں نے کبھی شادی کے بعد تو ۔۔"
جنید سر کھجاتے ہوئے بولا تو ہانیہ ہنس دی۔۔
"آپ واقعے اسامہ بھائی کی بات کو سیریس لے گئے ہیں۔۔ وہ بس آپ کو تنگ کر رہے تھے اور کچھ نہیں۔۔ "
وہ ہنستے ہوئے بولی۔۔
"نہیں اسامہ کی وجہ سے نہیں۔۔ مجھے خود ہی احساس ہوا کہ مجھے تمہیں گفٹ دینا چاہیے تھا۔۔"
جنید سنجیدگی سے بولا تو ہانیہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کا ہاتھ تھامہ۔۔
"آپ نے مجھے سہارا دیا۔۔ مجھے عزت دی۔۔ محبت دی۔۔ میری قدر کی۔۔ یقین کریں یہ سب چیزیں اتنی قیمتی ہیں کہ انہوں نے کبھی مجھے کسی تحفے کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔۔"
ہانیہ مسکراتے ہوئے بولی تو جنید بھی مسکرایا۔۔
"چلو یہ تحفہ تم میری محبت کی نشانی سمجھ کر رکھ لو۔۔ "
جنید اس کہ ہاتھ میں انگوٹھی پہناتے ہوئے بولا تو وہ مسکرائی۔۔
"بہت پیاری ہے۔۔۔"
ہانیہ انگوٹھی دیکھتے ہوئے بولی۔۔
"تم بھی بہت پیاری ہو۔۔"
جنید شرارت سے بولا۔۔
"سو جائیں ڈاکٹر صاحب۔۔ صبح کام پر بھی جانا ہے۔۔۔"
ہانیہ نے اس کہ بال بگاڑے تو جنید نے منہ بنایا۔۔
"ہائے یہ نوکری۔۔"
جنید کہ انداز پر وہ ہنس دی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے دن میں تو نا اسے اقراء نظر آئی تھی اور نہ ہی کسی نے اسے اس کہ کمرے میں جانے دیا تھا۔۔ نا وہ اس کی کال اٹینڈ کر رہی تھی اور اس سب میں اسامہ اچھا خاصہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوگیا تھا۔۔ رات مین وہ گھر سے باہر اپنے دوستوں سے ملنے چلا گیا۔۔ جب وہ گھر واپس پہنچا تو سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا تھا بس کچن کی لائٹ چل رہی تھی۔۔ کچن کی لائٹ جلتی دیکھ کر وہ اسی کی طرف بڑھ گیا۔۔  اقراء جو فریج سے پانی کی بوتل نکال کر پلٹی ہی تھی کہ اسامہ کو اپنے پیچھے کھڑا دیکھ کر چونکی۔۔
"آپ۔۔ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔؟"
وہ گھبراتے ہوئے بولی۔۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو۔؟"
اسامہ نے اس کا سوال نظر انداز کر کہ وہی سوال اس سے کیا۔۔
"میں۔۔ پ۔۔پانی لینے آئی تھی۔۔"
"میری کال اٹینڈ کیوں نہیں کر رہی تھی صبح سے۔۔؟"
اسامہ نے زرا سختی سے پوچھا۔۔ اس وقت وہ کچھ سہمی سی لگ رہی تھی ورنہ تو ہر وقت اس کا جواب دینے کو تیار رہتی تھی۔۔
"م۔۔ مجھے پتا نہیں لگا شاید۔۔"
وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔۔
"پتا تو تمہیں سب کچھ ہے بس جان کر نظ انداز کر رہی تھی۔۔۔"
اسامہ کے کہنے پر وہ خاموشی سے وہاں سے نکلنے لگی جب اسامہ نے اس کی کوہنی تھام کر اسے روکا۔۔
"یہ سوٹ کیوں پہنا ہے۔۔؟"
اقراء نے مایوں کا پیلا جوڑا پہن رکھا تھا اور اسامہ نے اسی پر سوال کیا تھا۔۔ وہ جب شادی کے لیے راضی نہیں تھی تو تیاری پوری پوری کیوں کر رہی تھی۔۔
"آنٹی نے کہا تھا۔۔"
وہ آہستہ سے بولی۔۔
"آنٹی نے کہا یہ جوڑا پہن لو تم نے پہن لیا۔۔ آنٹی نے کہا میرے بیٹے سے شادی کرلو تم مان گئی۔۔ تم اتنی فرماں بردار کب سے ہوگئی۔۔؟"
اسامہ اسے گھور کر بولا۔۔ کچن میں چلتی چھوٹی سی لائٹ میں پیلے جوڑے میں ملبوس اس کا رنگ بھی پیلا پڑ رہا تھا۔۔ اسامہ کہ سختی سے کہنے پر وہ خاموش رہی۔۔
"تم نے شادی کے لیے رضامندی کیوں دی اقراء۔۔؟ جبکہ تمہارے بقول تم مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی تو اب کیوں مان گئی۔۔؟"
وہ ہنوز خاموش رہی۔۔
"اگر تم یہ رشتہ نہیں چاہتی تو اب بھی وقت ہے انکار کر دو۔۔ اگر تم نہیں کر سکتی تو مجھے بتاؤ لیکن اگر یہ رشتہ بنانا ہے تو اسے دل سے نبھانا بھی پھر۔۔ میں مجبوری کے رشتوں کا قائل نہیں ہوں۔۔"
اسامہ سنجیدگی سے بولا مگر اقراء کو خاموش دیکھ کر اسے غصہ آیا۔۔۔
"میں تم سے کچھ کہہ رہا ہوں اقراء۔۔؟ کیا تم دل سے رضا مند ہو اس رشتے کے لیے۔۔؟"
اسامہ کے سختی سے پوچھنے پر اس کی آنکھوں میں نمی آئی۔۔
"مجھے سہارا چاہیے۔۔ اور آپ سے بہتر سہارا مجھے نہیں مل سکتا۔۔۔"
وہ خود کو کمپوز کرتی سنجیدگی سے بولی۔۔
"کبھی تمہیں مدد چاہیے۔۔ کبھی نہیں چاہیے۔۔ کبھی سہارا چاہیے کبھی نہیں چاہئے۔۔ اپنی ذات سے نکل کر بھی کبھی سوچا ہے کچھ تم نے۔۔؟"
اسامہ غصے سے کہہ رہا تھا۔۔
"میں نے ساری زندگی کبھی اپنی ذات کے بارے میں سوچا ہی نہیں ہے۔۔ ہمیشہ دوسرے کے لیے زندگی گزاری ہے۔۔ اب پہلی بار اپنے لیے اپنے تحفظ کے لیے سوچ رہی ہوں۔۔"
وہ بھی غصے سے بولی۔۔
"ہر رشتے کو ضرورت کی بنیاد پر شروع کرنا چھوڑ دو۔۔ کبھی محبت سے بھی رشتے نبھا کر دیکھو۔۔"
"میری زندگی میں ان الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔۔"
وہ تلخی سے بولی۔۔
"چند افراد کی وجہ سے تم ساری دنیا کو بے اعتبار قرار نہیں دے سکتی۔۔ تمہارے بھائی نے تمہارے ساتھ غلط کیا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ساری دنیا ہی غلط ہے۔۔ ساری دنیا ہی مفاد پرست ہے۔۔ لوگوں پر یقین رکھنا بھی سیکھو۔۔۔"
"میں نے بچپن سے اپنے گرد اتنی نفرت دیکھی ہے کہ اب محبت پر اعتبار ہی نہیں آتا۔۔"
وہ دکھ سے بولی۔۔
"تم کیا چاہتی ہو اقراء۔۔؟"
اسامہ نے تنگ آ کر پوچھا۔۔
"میں آپ کا سہارا چاہتی ہوں۔۔ آپ کہتے ہیں آپ کو لوگوں کی مدد کرنے سے سکون ملتا ہے تو آج میں آپ سے مدد مانگتی ہوں۔۔ میں چاہتی جو ہو رہا ہے اسے ہونے دیں ۔۔۔ اس رشتے سے میری رضا جڑی ہے یا نہیں یہ معنی نہیں رکھتی ۔۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولی۔۔۔۔
"تم اگر اس رشتے کو ضرورت کی بجائے محبت کی یا چاہت کی بنیاد پر شروع کرتی تو میں بھی اس رشتے کو اور تمہیں دل و جان سے قبول کرتا۔۔ لیکن جب تک تم اپنے دل سے خود ترسی کا جذبہ نہیں نکالو گی میں تمہیں قبول نہیں کر سکتا۔۔۔"
اسامہ سنجیدگی سے کہتا ہوا وہاں سے باہر جانے لگا جب اقراء کی آواز پر رکا۔۔
"آپ کو قسم ہے اسامہ میری ماں کی۔۔ ان کی محبت کی۔۔ آپ اس رشتے کو ختم نہیں کریں گے۔۔۔ "
اسامہ نے اسے مڑ کر دیکھا۔۔ وہ بہت امید سے دیکھ رہی تھی۔۔ وہ بغیر کچھ کہے پلٹا اور وہاں سے باہر نکل گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آپ کو جب بخار تھا تو کیا ضرورت تھی آفس جانے کی۔۔؟"
خدیجہ غصے سے کہہ رہی تھی۔۔
"بابا بھی یہاں نہیں ہیں۔۔ میں نا جاتا تو کام کیسے ہوتا۔۔"
وہ کندھے اچکار کر بولا۔۔
"کھائیں اب اسے۔۔ "
اس کہ ہاتھ میں میڈیسن رکھتی وہ غصے سے بولی۔۔ حسن آفس سے واپس آیا تو اسے شدید بخار ہورہا تھا۔۔ کامران صاحب اور فرزانہ بیگم کسی شادی پر گئے ہوئے تھے جبکہ خدیجہ تائی جان کہ کہنے پر اس سے کھانے کا پوچھنے آئی تو اسے بخار میں تپتا دیکھ کر وہیں رک گئی۔۔
"میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔۔"
خدیجہ کو اٹھتے دیکھ کر حسن بولا۔۔۔
"مڈیسن کھا لی ہے۔۔ اب تھوڑی دیر تک ٹھیک ہوجائے گا۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولی۔۔
"نا ٹھیک ہوا تو۔۔؟"
"تو دوبارہ کھا لیجئے گا۔۔"
"تم سر دبا دو میرا۔۔ "
وہ معصومیت سے بولا تو خدیجہ نے اسے گھورا۔۔
"مجھے اور بھی بہت کام ہیں۔۔"
وہ ناراضگی سے بولی۔۔
"میرے سے زیادہ ضروری کام ہیں۔۔؟"
"ہاں زیادہ ضروری ہیں۔۔"
"شوہر کو منع کر رہی ہو۔۔۔ سیدھا جہنم میں جاؤ گی۔۔"
"اب بحث کر کہ آپ کے سر میں درد نہیں ہو رہا۔۔؟"
خدیجہ نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا۔۔
"ہو رہا ہے بہت زیادہ۔۔ تب ہی تو کہہ رہا ہوں دبا دو۔۔"
حسن کہ کہنے پر وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس کہ سرہانے بیٹھ کر اس کا سر دبانے لگی۔۔
"ناراض ہو۔۔۔؟"
کچھ دیر بعد حسن نے پوچھا۔۔
"نہیں ۔۔"
"پھر۔۔؟"
"پھر کیا۔۔؟"
"خاموش کیوں ہو اتنی۔۔؟
"اب ایسی ہی ہوگئی ہوں۔۔"
"تم مجھے ایسی اچھی نہیں لگتی۔۔"
"میں آپ کو کیسی بھی اچھی نہیں لگتی۔۔"
"یار خدیجہ کیا ہم ساری باتیں ختم نہیں ک سکتے۔۔؟ "
حسن بیٹھتے ہوئے بولا۔۔
"یہ سوال آپ خود سے کریں۔۔"
"میں جانتا ہوں میری غلطی تھی۔۔ مجھے اتنا جذباتی نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن تمہیں بھی مجھے سمجھنا چاہیے تھا خدیجہ۔۔ میں اس وقت بہت دکھی تھا۔۔ اگر میں نے تمہیں ارسلان سے بات کرنے سے منع کیا تھا تو تم رک جاتی۔۔ کچھ عرصے میں خود ہی میرا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا لیکن تمہاری ضد نے مجھے مزید غصہ دلا دیا تھا جس کی وجہ سے بات بگڑ گئی۔۔"
حسن سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔۔
"اگر آپ یہی بات مجھ سے پیار سے کہتے تو میں ضرور آپ کی بات کا مان رکھتی۔۔ میں کبھی بھی ارسلان بھائی سے رابطہ نا رکھتی لیکن جب پہلے آپ نے رشتہ ختم کرنے کی بات کی اور نکاح والی رات مجھے طلاق دینے کی بات تو حسن مجھے بہت دکھ ہوا تھا۔۔  کیا یہ حیثیت تھی میری آپ کی زندگی میں جو آپ نے ایک لمحے میں رشتہ ختم کرنے کی بات کردی۔۔؟ "
وہ دکھ سے کہہ رہی تھی۔۔
"یار میں اس وقت غصے میں تھا۔۔"
"اور آپ کہ اسی غصے نے مجھے بھی ضد کرنے پر مجبور کیا ہے۔۔"
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولی۔۔
"غلطی ہم دونوں کی تھی۔۔؟ تمہیں مجھے سمجھنا چاہیے تھا اور مجھے بھی تمہاری خوشی کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔۔ لیکن تم نے اپنے بھائی کو مجھ پر فوقیت دی۔۔ مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی۔۔ "
"میں نے کسی کو آپ پر فوقیت نہیں دی حسن۔۔ ارسلان بھائی کا میری زندگی میں الگ مقام ہے اور آپ کا ایک الگ۔۔ میں اب تک آپ سے ارسلان بھائی کی وجہ سے ناراض نہیں ہوں۔۔ مجھے پتا ہے کہ ان کا بھی گھر ہے۔۔ آج نہیں تو کل انہیں واپس آ ہی جانا ہے۔۔۔ مجھے دکھ بس اس بات کا ہے کہ آپ نے اس رشتے کو ختم کرنے کا سوچا بھی کیسے۔۔؟ ایک معمولی سی وجہ پر کیا آپ ہمیشہ ایسے رشتہ توڑنے کی بات کرتے رہیں گے۔۔؟ آج آپ نے کہا آپ کو غصہ آ گیا تھا اس لیے ایسا کہہ دیا کل کہ کہیں غصے میں ایسا کر دیا تو۔۔؟ میرا کیا مقام ہے آپ کی زندگی ہیں۔۔؟"
"خدیجہ میں واقعی شرمندہ ہوں مجھے ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔ بس پریشانی میں ایسا بول گیا میں ورنہ میں یہ رشتہ کبھی ختم نہیں کرنا چاہتا۔۔ تم میرے لیے بہت خاص ہو اور میری زندگی میں تمہارا بہت خاص مقام ہے۔۔ ایک چھوٹی سی غلط فہمی میں ہم دونوں نے اپنا بہت اچھا وقت ناراضگی میں گزار دیا ہے۔۔ کیا اب ہم اس ناراضگی کو ختم نہیں کر سکتے۔۔؟"
حسن اس کا ہاتھ تھام کر بولا۔۔۔
"زیادہ غلطی آپ کی تھی اس لیے آپ کو مجھے منانا چاہیے۔۔ "
وہ نروٹھے پن سے بولی۔۔
"مان جاؤ۔۔۔"
"ایسے نہیں مانوں گی۔۔"
"پھر کیسے مانو گی۔۔؟ "
"ناراض کرتے وقت پوچھا تھا مجھ سے جو اب پوچھ رہے ہیں۔۔"
وہ ناراضگی سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنا ہاتھ چھڑوایا۔۔
"اب جا کہاں رہی ہو مجھے اکیلا چھوڑ کر۔۔؟ "
اسے جاتا دیکھ کر وہ بولا۔۔۔
"دماغ آپ کے سر کو چھڑ گیا ہے پٹیاں لینے جا رہی ہوں ۔۔۔"
اونچی آواز میں کہتی وہ باہر نکل گئی تو وہ مسکرا کر رہ گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Where stories live. Discover now