Episode 14

2.3K 182 126
                                    

"کس سے باتیں کر رہی تھیں امی۔۔؟ بھائی کا فون ہے۔۔؟ "
آج اتوار تھا۔ وہ سو کر اٹھی تو آمنہ بیگم کو کسی سے فون پر بات کرتا دیکھ کر بولی۔۔
"ڈاکٹر اسامہ کا فون تھا۔۔ بہت اچھا بچہ ہے۔۔ روز میری طبیعت پوچھنے کے لیے فون کرتا ہے۔۔"
وہ مسکرا کر بتا رہی تھیں جبکہ اقراء نے حیرت سے انہیں دیکھا۔۔
"آپ نے اسے اپنا نمبر کب دیا۔۔؟ "
اس نے حیرت سے پوچھا۔۔
"اسی دن جب چیک کروانے گئے تھے۔۔ تب اس نے مانگا تو میں نے دے دیا۔۔ "
"کیا کرتی ہیں آپ بھی امی۔۔ کیا ضرورت تھی کسی غیر کو اتنا فری کرنے کی۔۔۔"
وہ غصے سے بولی۔۔
"اتنا اچھا بچہ ہے وہ۔۔ جتنے بھی ٹیسٹ ہوئے جتنا بھی خرچہ ہوا ایک روپیا نہیں لیا اس نے ہم سے۔۔ اور وہ تو بس میری طبیعت ہی پوچھتا ہے۔۔ اتنے ادب سے بات کرتا ہے۔۔"
وہ بہت محبت سے بولیں۔۔
"پھر بھی امی۔۔ یوں کسی پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔۔"
اسے اب بھی اعتراض تھا۔۔
"یوں ہر ایک کو بے اعتبار بھی نہیں ٹہرا دین چاہیے۔۔ میرا بہت تجربہ ہے زندگی میں بہت لوگوں سے واسطہ پڑا ہے میرا۔۔ اس بچے کی آنکھوں میں عزت و احترام دیکھ کر ہی پہچان سکتی ہوں وہ کسی اعلی نسل کا ہے۔۔"
"لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اب ہم اس کا احسان لیتے رہیں۔۔؟ "
"تو پھر اور کیا کریں۔۔؟ بتاؤ مجھے کوئی راستہ ہے تمہارے پاس ۔؟ ہیں پیسے تمہارے پاس۔۔؟ کوئی اپنا ہے جو تمہاری مدد کر سکے۔۔؟ "
انہوں نے سوال کیا تو وہ ایک لمحے کو خاموش ہوئی۔۔
"وہی تو میں آپ کو سمجھانا چاہ رہی ہوں۔۔ جب کوئی اپنا ہماری مدد نہیں کر سکتا تو کوئی پرایا کیوں کرے گا۔۔؟ وہ بھی بغیر کسی مفاد کے۔۔؟ "
اس نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد سوال کیا۔۔
"ساری دنیا مطلب پرست نہیں ہے اقراء۔۔ ساری دنیا بری نہیں ہے۔۔ ابھی بھی دنیا میں چند ایک لوگ ایسے ہیں جو دوسروں کے لیے بھی جیتے ہیں جو دوسروں کا بھی احساس کرتے ہیں۔۔ اور اسامہ کو تو تم نے اپنے سامنے دیکھنا ہے۔۔ جو سب تم نے دوسروں سے سنا اسامہ کے بارے میں اور خود دیکھا سکول میں وہ سب جھوٹ تو نہیں ہوسکتا نا۔۔"
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں۔۔
"آپ ٹھیک ہی کہہ رہی ہوں گی مگر۔۔ مجھے پھر بھی اچھا نہیں لگ رہا کسی کا احسان لینا۔۔ "
اسے اب بھی اعتراض تھا۔۔
"تم اس بارے میں مت سوچو۔۔ اس کو میں نے اپنا بیٹا مانا ہے تو وہ میرا مسئلہ ہے۔۔ تم اس بارے میں پریشان مت ہو۔۔"
وہ اس کہ سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولیں تو وہ مسکرائی۔۔
"زبیر سے کوئی بات ہوئی۔۔؟ "
انہوں نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد پوچھا۔۔
"تین چار دن پہلے ہوئی تھی۔۔ بتایا تھا آپ کی طبیعت کا۔۔"
"مصروف ہوگا اب بھی۔۔ ماں سے بات کرنے کا وقت تو ہو گا نہیں۔۔"
وہ تلخی سے بولیں۔۔
"چھوڑیں امی۔۔ آپ کے لیے میں کافی نہیں ہوں کیا۔۔؟ "
اس نے لاڈ سے پوچھا۔۔
"تم تو میری جان ہو۔۔ سوچتی ہوں تمہاری شادی ہو جائے گی تو میں کیا کروں گی۔۔"
وہ پیار سے بولیں۔۔
"میں شادی کر کہ آپ کو اپنے ساتھ ہی لے جاؤں گی۔۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولی تو وہ بھی مسکرائی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی سونے کے لیے لیٹی ہی تھی کہ اس کا سیل رنگ گیا۔۔ اس نے سکرین پر دیکھا تو اسامہ بھائی لکھا تھا۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے کال ریسیو کی۔۔
"السلام علیکم بھابھی ماں۔۔"
کال اٹھاتے ہی اسے اسامہ کی چہکتی ہوئی آواز سنائی دی۔۔
"وعلیکم السلام۔۔ کیا ہے اسامہ بھائی۔۔ شرم کریں میں آپ سے چار پانچ سال چھوٹی ہوں۔۔"
وہ منہ بنا کر بولی۔۔
"عمر میں چھوٹی ہیں بھابھی ماں۔۔ رطبے میں تو بہت بڑی ہیں ہم کیسے آپ کی عزت نہ کریں۔۔ "
اس کی شرارت ہنوز جاری تھی۔۔
"اچھا جی۔۔۔ "
"اور سنائیں بھابھی ماں کیا حال چال ہیں۔۔؟ "
"میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں۔۔؟ "
"میں نے دل کا حال پوچھا ہے بھابھی ماں۔۔"
وہ پھر شرارت سے بولا۔۔
"میرے دل کو کیا ہونا ہے۔۔ اللہ کا شکر ہے بالکل ٹھیک ہے۔۔"
وہ حیران ہوئی۔۔
"حیرت ہے۔۔ اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی آپ کا دل معمول پر چل رہا ہے۔۔ میں تو سمجھا تھا ڈاکٹر صاحب سے رشتے کے بعد آپ نے بھی اپنے دل کے گرد سیمنٹ کی باؤنڈری کروا لی ہوگی۔۔ "
اسامہ کا انداز ایسا تھا کہ وہ ہنس پڑی۔۔
"آپ کہاں سے سوچ لیتے ہیں ایسی باتیں۔۔"
اس نے ہنستے ہوئے پوچھا۔۔
"بس جی ٹیلنٹ ہے بھابھی ماں۔۔ آپ بتائیں نا کوئی ملاقات وغیرہ کوئی گفت و شنید۔۔؟ "
اس نے پھر شرارت سے پوچھا ۔۔۔
"اسامہ بھائی۔۔ اگر اب آپ نے ایسا کچھ کہا تو میں کال بند کر دوں گی۔۔۔"
وہ چڑتے ہوئے بولی۔۔
"اچھا بھئی معاف کردو۔۔ تم دونوں نے تو خیر کوئی بات چیت کی نہیں ہو گی۔۔ تم تو ویسے ہی ما شا اللہ ہو اور جنید صاحب۔۔؟ انہوں نے تو ویسے ہی زندگی میں کبھی کوئی ڈھنگ کا کام کیا ہی نہیں۔۔ میں ہی کچھ کروں تو کروں۔۔ رکو زرا تم میں انہیں بھی کال کرلوں۔۔"
"نہیں نہیں اسامہ بھائی۔۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو میں کال بند کر دوں گی۔۔"
وہ دھمکی دیتے ہوئے بولی۔۔
"ایسے کرو گی اب بھائی کے ساتھ۔۔؟ میں وہاں موجود تو ہوں نہیں کہ تم لوگوں کو practically بیٹھ کر تنگ کروں۔۔ اب مجھے telecommunication کہ ذریعے تو اپنا رول ادا کرنے دو۔۔ "
وہ منہ بسور کر بولا۔۔ ساتھ ہی جنید کو بھی کانفرنس کال ملا دی۔۔
"آپ بہت برے ہیں اسامہ بھائی۔۔"
وہ بے بسی سے بولی۔۔
"اینی تھنگ ایلس بھابھی ماں۔۔؟ "
وہ ایک ادا سے بولا۔۔ تبھی دوسری طرف سے جنید نے کال ریسیو کرلی۔۔ ہانیہ کو دیکھ کر ہنسی آئی کہ اب بھی اس کہ فون میں جنید کا نمبر جنید بھائی کے نام سے سیو تھا۔۔
"آئیے آئیے ڈاکٹر صاحب۔۔ آپ کی نیند تو ڈسٹرب نہیں کر دی میں نے۔۔؟ "
"میں ہمیشہ ایسے ٹائم پر ہی کیوں کال کرتے ہو جب میں سو رہا ہوتا ہوں۔۔"
جنید بولا۔۔
"آپ امیر لوگ ہیں بھائی۔۔ آرام سکون سے اپنی نیندیں پوری کرتے ہیں۔۔ میں بیچارا غریب انسان۔۔ دن بھر محنت کر کہ روزی روٹی کماتا ہوں بس رات کو ہی وقت ملتا ہے مجھے۔۔ "
اسامہ آہ بھرتے ہوئے بولا۔۔
"اتنے تم معصوم۔۔"
جنید بولا۔۔ ہانیہ بالکل خاموش تھی اس نے اب تک ایک بار بھی گفتگو میں حصہ نہیں لیا تھا۔۔
"کوئی اور بھی کال پر ہے کیا اسامہ۔۔؟ "
جنید نے جان کر مسکراہٹ دبا کر پوچھا۔۔
"مجھے بھی لگ رہا ہے شاید کوئی چھپ چھپ کر ہماری باتیں سن رہا ہے۔۔ آپ کو آواز آ رہی ہے کوئی۔۔؟ "
اسامہ بھی شرارت سے بولا۔۔
"آواز تو نہیں آ رہی بس کسی کی موجودگی کا احساس ہو رہا ہے۔۔ "
جنید نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
"میں سونے لگی ہوں اسامہ بھائی۔۔"
ہانیہ فوراََ گھبراتے ہوئے بولی۔۔
"آئے ہائے ایسے کیسے کسی کی نیندیں چرا کر تم سونے چلی۔۔۔ چپ کر کہ کال پر بیٹھی رہو۔۔"
اسامہ اسے جھڑکتے ہوئے بولا تو وہ روہانسی ہوئی۔۔
"ویسے آپ دونوں کو میرا شکریہ کرنا چاہیے۔۔ میں نے آپ لوگوں کی بات کروانے کے لیے اتنا کچھ کیا۔۔۔"
اسامہ منہ بسور کر بولا۔۔
"کونسا مہان کام کیا ہے تم نے۔۔؟ ہم تو ویسے بھی بات کر لیتے۔۔"
جنید بولا۔۔
"ہائے اللہ۔۔ ایک تو میں نے آپ دونوں کے لیے بات کا بہانہ بنایا اور آپ لوگ ایسا کر رہے ہیں میرے ساتھ۔۔؟ چلیں یار کر لیں نا تھوڑی سی بات۔۔۔ قسم سے میں کان بند کر لوں گا کچھ بھی نہیں سنوں گا۔۔
"اب ہم تمہارے سامنے کیوں بات کریں۔۔؟ "
جنید شرارت سے بولا۔۔
"لو جی۔۔ یہ دن بھی دیکھنا تھا۔۔ بھائی بھائی نہ رہا۔۔۔ دیکھ لیں بھابھی ماں۔۔ آپ ہی میری حمایت میں کچھ بول دیں۔۔"
"اسامہ بھائی میں اب کال بند کرنے لگی ہوں بس۔۔۔"
ہانیہ روہانسی ہوتے ہوئے بولی۔۔
"ارے ابھی رکیں تو سہی۔۔ جنید بھائی آپ ہی کہہ دیں آپ کہ کہنے پر رک جائیں گی۔۔ "
اسامہ شرارت سے بولا۔۔
"تم باز آ جاؤ اسامہ۔۔ تمہارا بھی ٹائم آنا ہے۔۔"
جنید نے اسے لتاڑا۔۔
"میں تو دل و جان سے اپنے اس وقت کے انتظار میں ہوں۔۔"
وہ پرجوش سا بولا۔۔
"تم تو بالکل فارغ ہو اسامہ۔۔ مجھے سونے دو۔۔"
جنید تنگ آ کر بولا۔۔
"واہ بھائی۔۔ منگنی کیا کروا لی بھائی کو تو بھول ہی گئے ہیں۔۔ میں تو اب سیدھی شادی کرواؤں گا۔۔"
"بس کرو اسامہ اب سو جاؤ۔۔ "
"اچھا بھابھی کو تو گڈ نائیٹ کہہ دیں۔۔ "
"اسامہ۔۔۔"
جنید سختی سے بولا۔۔
"اچھا بھئی اللہ حافظ۔۔ پتا ہے مجھے مجھے یہاں سے کلٹی کروا کر دونوں خود گپیں مارتے رہو گے۔۔ چلو جی اللہ دی مرضی ہن کی کریے۔۔"
اسامہ نے آہ بھر کر کہتے ہوئے کل بند کر دی تو جنید اور ہانیہ اس کے انداز پر ایک ساتھ ہی ہنس دیے۔۔
"ایسے ہی ہنستی رہا کرو۔۔"
جنید بے اختیار بولا تو ہانیہ نے فوراََ سے فون بند کر دیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ٹیرس پر کھڑا تھا جب اس کی نظر بے اختیار ہی تایا جان کے لان کی طرف گئی جہاں زینب بلی کے بچے کو گود میں اٹھائے اسے کچھ کھلانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ سیاہ رنگ کے سادے سے سوٹ میں اس کے براؤن بال پشت پر بکھرے ہوئے تھے شاید وہ ابھی نہا کر آئی تھی ۔۔۔ ماتھے پر لاتعداد شکنیں پڑی ہوئی تھیں شاید وہ بچہ اسے تنگ کر رہا تھا۔۔ اس کی سرخ و سفید رنگت کالے جوڑے میں اور دمک رہی تھی۔۔۔ حسن کو اس کہ چہرے سے نظر ہٹانا بہت مشکل لگ رہا تھا۔۔ وہ آج اسے کافی دن بعد دیکھ رہا تھا ۔۔ آگے تو وہ روز ہی وہاں پائی جاتی تھی مگر جب سے شادی کی تاریخ مقرر ہوئی تھی حسن نے اسے اب دیکھا تھا ۔۔۔ وہ کافی دن سے اس سے مخاطب بھی نہیں ہوئی تھی۔۔ حسن کو اسے روز دیکھنے کی روز اس کی باتیں سننے کی اتنی عادت ہوگئی تھی کہ اب وہ نا چاہتے ہوئے بھی اسے یاد کر رہا تھا۔۔
اس کی نظریں خدیجہ پر ہی تھیں جب وہ بلی کا بچہ اس کی گود سے اتر کر بھاگ گیا تو خدیجہ بھی فوراََ سے اسے پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگی مگر لان میں پڑے پانی کے پائپ سے اس کا پاؤں اٹکا اور وہ وہیں گر گئی۔۔ اس کی شکل بہت روہانسی ہوگئی تھی۔۔ بلی کا بچہ بھی وہاں سے بھاگ گیا تھا۔۔ خدیجہ کی شکل دیکھ کر حسن کی بے اختیار ہنسی چھوٹی۔۔
"منہوس مارا۔۔ سارے میرے کپڑے خراب کر دیے۔۔ ابھی نہا کر نکلی تھی اور استری کر کہ پہنے تھے کپڑے۔۔ اس کون کر کہ دے گا استری مجھے۔۔؟ ایک تو میں اس کو کھانا دے رہی تھی اوپر سے نخرے دیکھو زرا اس کہ۔۔ بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔۔"
وہ وہیں بیٹھی اونچی آواز میں بڑبڑا رہی تھی۔۔ حسن اس کی آواز با آسانی سن سکتا تھا۔۔ اپنے اوپر نظروں کا ارتکاز محسوس کر کہ اس نے اوپر کی طرف دیکھا تو حسن کو وہاں موجود پا کر وہ فورا شرمندگی سے سرخ ہوئی اور وہاں سے جلدی سے اٹھی ۔۔۔ اپنے کپڑے جھاڑے اور حسن کو زبان چڑاتی وہاں سے نکل گئی۔۔ اس کہ انداز پر حسن ہنس کر رہ گیا۔۔ وہ بھی واپس ابھی کمرے میں آیا ہی تھا کہ اس کا موبائل بجا۔۔ اوپر خدیجہ کا نام لکھا آ رہا تھا۔۔
"کسی کو چھپ چھپ کر دیکھنا بڑی غلط بات ہے۔۔
اس نے جیسے ہی کال اٹھائی خدیجہ بولی۔۔
"میں چھپ کر تو نہیں دیکھ رہا تھا۔۔"
وہ کندھے اچکا کر بولا۔۔
"دیکھ تو رہے تھے نا۔۔"
اس نے اپنی بات پر زور دیا۔۔
"تو تمہیں دیکھنے پر پابندی ہے کیا۔؟ "
"بالکل ہے۔۔ دو ہفتے رہ گئے ہیں ہمارے نکاح میں اب میرا آپ دے پردہ ہے۔۔ آپ ابھی سے مجھے دیکھ لیں گے تو میرے پر روپ نہیں آئے گا نا دلہنوں والا۔۔"
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔۔
"بس کردو۔۔ بچپن سے تمہاری شکل دیکھتا آ رہا ہوں۔۔ اب دو ہفتے کے لیے کیا پردہ۔۔۔"
"اپنے بچپن سے یا میرے بچپن سے۔۔؟ خیر میرا بچپن ہی ہوگا کیونکہ آپ تو میرے پیدا ہونے پر اچھے خاصے بڑے تھے۔۔"
وہ منہ بسور کر بولی۔۔
"صرف اٹھ سال کا تھا میں۔۔"
"ہاں تو آٹھ سال کا گیپ تھوڑا ہوتا ہے۔۔؟ بابا کو بھی آپ ہی ملے تھے میرے لیے بس۔۔ بڈھے اور بد زوق۔۔ کوئی میرا جیسا خوبصورت خوش مزاج لڑکا نہیں ڈھونڈ سکتے تھے۔۔۔"
"تو نا کرو مجھ سے شادی پھر۔۔ مجھے بھی کوئی تمیز دار لڑکی چاہیے تھی۔۔ تمہاری طرح نہیں جو بس بولتی ہی جائے۔۔"
وہ بھی اکتا کر بولا۔۔
"شکرانے کے نوافل ادا کریں آپ کہ میں مل رہی ہوں آپ کو۔۔ لوگ تو مرتے ہیں مجھے پانے کے لیے۔ "
وہ ادا سے بولی۔۔
"وہ سب واقعے مر گئے ہیں تبھی تو میں پھنس گیا ہوں۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولا تو خدیجہ نے ناک سکوڑی۔۔
"اچھا بات سنیں۔۔۔ "
اب وہ سنجیدگی سے بولی۔۔
"بولو۔۔"
"میں نے جو کہا تھا آپ سے آپ نے کیا۔۔؟ "
"خدیجہ کوئی بھی فضول بات کر کہ میرا دماغ مت گھماؤ ۔۔۔ ایک دفع منع کر دیا ہے نا تو اس کا مطلب ہے دوبارہ مجھے ایسی کوئی بات نہیں سننی۔۔"
وہ غصے سے بولا۔۔
"میں نے بھی جب آپ سے کہہ دیا ہے کہ مجھے اپنے بھائی کے بغیر شادی نہیں کرنی تو نہیں کرنی۔۔ "
وہ بھی غصے سے بولی۔۔
"اور اگر تم نے اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو میں تمہارے ساتھ وہ حشر کروں گا کہ تم بہت پچھتاؤ گی۔۔ "
وہ دھمکی دیتے ہوئے بولا۔۔
"پھر آپ بھی اپنی بہن کی شادی میں نہیں جائیں گے۔۔ اگر میرا بھائی نہیں آئے گا تو آپ بھی نہیں جائیں گے۔۔۔ "
وہ چیختے ہوئے بولی تو حسن نے فون بند کر کہ بیڈ پر اچھال دیا۔۔ ان دونوں کے درمیان سب سہی ہوتا تھا مگر جب بھی یہ موضوع آتا ان دونوں کی ہی انا آڑے آ جاتی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھر میں داخل ہونے لگی تو گھر کے باہر کھڑی گاڑی کو دیکھ کر چونکی۔۔ بھلا ان کہ گھر کون آ سکتا تھا۔۔ ان سے تو کبھی کوئی ملنے نہیں آیا تھا۔۔ وہ متجسس سی اندر داخل ہوئی۔۔ اندر صحن سے آوازیں آ رہی تھیں۔۔ وہ اندر داخل ہوئی تو سامنے چارپائی پر بیٹھے اسامہ کو دیکھ کر اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔۔
"السلام علیکم۔۔۔۔"
اس نے آمنہ بیگم کو سلام کیا۔۔ اسی وقت اس نے اسامہ کی طرف دیکھا۔۔ وہ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔ اس کو اپنی طرف دیکھتا پا کر مسکرایا۔۔ اقراء نے فوراََ نظریں پھیر لیں۔۔
"خیریت تھی امی آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے۔۔؟ آپ نے ڈاکٹر اسامہ کو کیوں بلا لیا۔۔؟ "
"میں بالکل ٹھیک ہوں اسامہ بس ایک دو ہفتوں کے لیے اپنے گھر جا رہا تھا تو مجھ سے ملنے آیا تھا۔۔"
وہ مسکرا کر بولیں۔۔
"لیکن آپ کا علاج تو اب ڈاکٹر اسامہ کر نہیں رہے تو پھر۔۔؟"
اس نے ہر لحاظ بلائے طاق رکھتے ہوئے پوچھا۔۔ اسامہ خود آمنہ بیگم کا چیک اپ نہیں کرتا تھا کیونکہ وہ اتنا سینئر ڈاکٹر نہیں تھا مگر جہاں سے ان کا علاج ہورہا تھا اس کہ سارے اخراجات وہی پورے کرتا تھا۔۔
"میں بس آنٹی سے ملنے آیا ہوں مس اقراء۔۔ اب چلا جاتا ہوں۔۔"
اسامہ بھی سنجیدگی سے کہہ کر اٹھا۔۔۔ اسے اقراء کا انداز بالکل پسند نہیں آیا تھا۔۔ ایک تو وہ ان لوگوں کی مدد کر رہا تھا اور وہ اس کے بارے میں ایسے گمان رکھتی جیسے وہ کوئی لوفر انسان ہو۔۔
"ارے بیٹا بیٹھو کھانا تو کھا کے جاؤ۔۔"
اسے اٹھتا دیکھ کر آمنہ بیگم بولیں۔۔
"نہیں آنٹی میں بس چلتا ہوں۔۔ پھر ملاقات ہوگی آپ سے۔۔"
وہ ان کہ سامنے جھکا تو انہوں نے اس کہ سر پر ہاتھ پھیرا۔۔
"جاؤ اقراء اسامہ کو باہر تک چھوڑ آؤ۔۔"
آمنہ بیگم کے کہنے پر وہ اس کے پیچھے چل دی۔۔ جیسے ہی اسامہ نے دہلیز پار کی اقراء سنجیدگی سے بولی۔۔
"آئیندہ آپ کو اس گھر میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔ آپ ہماری مدد کر رہے ہیں بہت مہربانی آپ کی مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ہمارے گھر تک آ جائیں۔۔ ہم مجبور ہیں بے غیرت نہیں ہیں ۔۔۔ حالات بہتر ہو جائیں تو میں وہ سارے پیسے آپ کو واپس کر دوں گی جو آپ نے امی کہ علاج پر لگائے ہیں۔۔۔"
"او میری بہن۔۔ معاف کر دو مجھے۔۔ تم سے نیکی کر کہ تو میں پھنس ہی گیا ہوں۔۔ اور تمہیں کیا مسئلہ ہے ہاں۔۔؟ میں آنٹی کے لیے آتا ہوں ان کی مدد کرتا ہوں علاج بھی انہی کا ہو رہا ہے۔۔ جب انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پھر تم کیوں ہر معاملے میں گھس جاتی ہو۔۔۔؟ میں جو کر رہا ہوں مجھے کرنے دو اور اپنے کام سے کام رکھو۔۔"
اسامہ بھی غصے سے کہتا وہاں سے چلا گیا۔۔ اتنی برداشت اس میں بھی نہیں تھی کہ اقراء کا سرد رویہ خاموشی سے برداشت کرتا رہتا۔۔
اس کہ جانے کے بعد اقراء نے زور سے دروازہ بند کیا۔۔
"حد کرتی ہیں آپ بھی امی۔۔ پہلے اسے نمبر دے دیا اور اب اس انجان بندے کو گھر میں بھی گھسا لیا۔۔"
اندر آکر چادر اتارتے ہوئے وہ غصے سے بولی۔۔
"انجان تو نہیں ہے وہ۔۔ میرا بیٹا بن گیا ہے۔۔"
وہ۔محبت سے بولیں۔۔
"تو اپنی یہ محبتیں فون تک رکھا کریں۔۔ گھر بلانے کی کیا ضرورت تھی۔۔ محلے والے کیا کہیں گے۔۔؟ آگے کوئی کبھی ہمارے گھر نہیں آیا اور اب اچانک سے آپ کا یہ نیا بیٹا کہاں سے آ گیا۔۔"
وہ غصے سے کہہ رہی تھی۔۔
"یہ محلے والے تب کہاں ہوتے ہیں جب تم مجھ بیمار عورت کو رکشوں میں لیے پھر رہی ہوتی ہو۔۔؟ اب اگر کوئی ہماری مدد کر ہی رہا ہے تو ہونے دو جو اعتراض ہوتا ہے انہیں۔۔۔"
وہ بھی غصے سے بولیں تو اقراء خاموش ہوگئی مگر ایک بات کا اطمینان ضرور تھا اسے کہ اب دو ہفتے تو اس ڈھیٹ انسان سے جان چھٹی رہے گی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Where stories live. Discover now