Episode 8

2.2K 180 68
                                    


"یہ میں کیا سن رہا ہوں حسن۔۔؟ کیسا رویہ رکھا ہوا ہے تم نے خدیجہ کے ساتھ۔۔؟ "
کامران صاحب کو جب بات پتا چلی تو وہ حسن پر بگڑے۔۔
"وہ ایسے ہی رویے کی مستحق ہے بابا۔۔"
وہ لب بھینچ کر بولا۔۔
"وہ کیوں مستحق ہے ایسے رویے کی۔۔؟ اس کی کیا غلطی ہے بتاؤ مجھے۔۔؟ "
وہ غصے سے بولے۔۔
"اس کی غلطی یہی ہے کہ وہ اس شخص کی بہن ہے۔۔۔"
وہ غصے سے بولا۔۔
"تم کہیں گاڑی مار آؤ۔۔ کوئی بندہ مر جائے اس سے تو تمہیں جیل ہوگی یا تم ہانیہ کو آگے کر دو گے ۔۔؟ بتاؤ۔۔؟ جس کی غلطی ہے حسن سزا اسے ملنی چاہئے اور خدیجہ بالکل بے قصور ہے۔۔ وہ ابھی چھوٹی ہے اور گھر کے حالات سے پریشان ہے تم بجائے اس کا ساتھ دینے کے اسے مزید پریشان کر رہے ہو۔۔"
وہ اسے جھڑکتے ہوئے بولے۔۔
"مجھے نہیں پتا بابا۔۔ جب تک میری بہن ٹھیک نہیں ہو جاتی میں اس شخص کی بہن کو بھی خوش نہیں رہنے دوں گا۔۔"
وہ ضدی لہجے میں بولا۔۔
"وہ صرف اس شخص کی ہی بہن نہیں ہے۔۔ میری بھانجی بھی ہے تمہاری منگیتر بھی ہے اور اس گھر کی ہونے والی بہو بھی۔۔ اس لیے اس سے بات کرنے سے پہلے باقی تمام رشتے بھی اپنے ذہن میں رکھا کرو۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولے۔۔
"فلحال تو مجھے بس اتنا پتا ہے کہ وہ اس شخص کی بہن ہے اور ایسے ہی رویے کی مستحق ہے جیسا میں اس کہ ساتھ رکھے ہوئے ہوں۔۔۔ "
"تم جتنی جلدی ہو سکے اس گھٹیا سوچ کو اپنے ذہن سے نکال دو حسن کیونکہ میں نے اب سوچ لیا ہے کچھ عرصے تک تمہارا اور خدیجہ کا نکاح کر دوں۔۔ اللہ میری ہانیہ کے کہیں اچھے اسباب بنا دے تو ساتھ ہی میں تمہارے فرض سے بھی فارغ ہو جانا چاہتا ہوں۔۔"
کامران صاحب کے کہنے پر اس نے حیرت سے انہیں دیکھا۔۔
"آپ اپنی بھتیجی کو خود جہنم میں دھکیل رہے ہیں۔۔ ابھی بھی وقت ہے سوچ لیں بعد میں مجھے کچھ مت کہیے گا۔۔ "
وہ انہیں وارن کرتا ہوا بولا۔۔
"میرے ہوتے ہوئے میری بھتیجی سے کوئی اونچی آواز میں بھی بات نہیں کر سکتا اس لئے تم اپنی دھمکیاں اپنے پاس رکھو اور اپنا رویہ اس کے ساتھ درست کر لو ورنہ میں مجبور ہو جاؤں گا کچھ انتہائی کرنے پر ۔۔"
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولے۔۔
"آپ صرف نکاح ہی نا کروائیں بلکہ رخصتی کروا کر اسے گھر بھی لے آئیں لیکن رکھئے گا اپنے پاس ہی کیونکہ میں تو اسے قبول کرنے نہیں والا۔۔۔"
غصے سے کہتا وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ کامران صاحب اور حسن کے درمیان ہونے والی ساری بات سن چکی تھی اس لیے حسن جب وہاں سے نکل کر اپنے کمرے میں آیا تو وہ اس سے بات کرنے پہنچ گئی۔۔
"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے بھائی۔۔ "
"ہاں آؤ بیٹھو۔۔"
ہانیہ کے سامنے وہ خود کو بالکل کمپوز کر چکا تھا۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ہانیہ کسی بات کی ٹینشن لے۔۔
"مجھے آپ سے خدیجہ کے بارے میں بات کرنی ہے۔۔
ہانیہ کے کہنے پر حسن کا حلق تک کڑوا ہوگیا۔۔ وہ جس کے زکر سے جتنا بچنا چاہ رہا تھا ہر کوئی آج اسی کا قصہ کھولے بیٹھا تھا۔۔۔
"اس نے کیا تم سب کے میرے خلاف کان بھرے ہوئے ہیں جو آج سب کو یہی بات کرنی ہے۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولا۔۔
"اس نے کسی سے کچھ نہیں کہا بھائی۔۔ آپ کا وریہ سب کو ہی نظر آ رہا ہے۔۔
"ایسا کیا کر دیا ہے میں نے اس کہ ساتھ جو سب کو اتنا چب رہا ہے۔۔؟ "
وہ غصے سے بولا۔۔
"بھائی وہ ابھی چھوٹی ہے آپ اس کے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔۔؟ اس کا کوئی قصور نہیں ہے اس سب میں۔۔"
"اب تم مت شروع ہو جانا اس کی معصومیت کے قصیدے پڑھنے۔۔ وہ اتنی بھولی ہے نہیں جتنی تم سب کو نظر آتی ہے۔۔ کینچی کی طرح زبان چلتی ہے اس کی۔۔ "
وہ لب بھینچتے ہوئے بولا تو وہ بے اختیار ہنسی۔۔
"ایسے تو نا کہیں بھائی۔۔ آپ کے سامنے تو اس کی زبان کو تالا لگ جاتا ہے۔۔"
"سوچ ہے تمہاری۔۔۔"
حسن کو یاد آیا کہ وہ ابھی کچھ دن پہلے ہی کیسے اسے اتنی باتیں سنا گئی تھی اور بڑے غصے سے اسے بزدل کا لقب بھی دے کر گئی تھی۔۔
"دیکھیں بھائی۔۔ میرے ساتھ جو ہوا وہ میری قسمت تھی۔۔ اگر ارسلان نے مجھے چھوڑا تو وہ اس کی کم ظرفی تھی اور کچھ نہیں۔۔ وہ ایک بزدل انسان ہے جو حالات کا سامنہ ہی نہیں کرسکتا۔۔ پہلے مجھے دکھ تھا اس بات کا لیکن یقین کریں اب مجھے کوئی دکھ نہیں ہے بلکہ اب تو میں شکر کرتی ہوں کہ اس بزدل انسان سے میری جان چھوٹ گئی۔۔
آپ صرف میری وجہ سے خدیجہ کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں نا تو جب مجھے ہی اس سب سے کوئی فرق  نہیں پڑتا تو آپ بھی بھول جائیں اب پرانی باتوں کو۔۔"
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔۔
"پرانی باتیں اتنی آسانی سے دل سے نہیں نکلتیں۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولا۔۔
"اگر آپ ایسی ہی حرکتیں کریں گے تو بتائیں آپ میں اور ارسلان میں کیا فرق رہ گیا۔۔؟ اگر ارسلان نے ضرورت پڑنے پر مجھے چھوڑا تو آپ بھی تو خدیجہ کے ساتھ یہی کر رہے ہیں۔۔۔ اسے جب آپ کی ضرورت ہے تو آپ اس کہ ساتھ ایسا رویہ رکھ کر کیا باور کروا رہے ہیں کہ آپ بھی ارسلان کی طرح بزدل ہیں۔۔؟ "
ہانیہ غصے سے بولی تو حسن نے اسے گھورا۔۔
"ہانیہ تم اس معاملے سے دور رہو۔۔ "
وہ اپنا غصہ ضبط کرتا ہوا بولا۔۔
"ٹھیک ہے کچھ نہیں کہتی میں لیکن اگر اب آپ نے خدیجہ کے ساتھ کچھ برا کیا تو میں کبھی آپ سے بات نہیں کروں گی۔۔"
وہ غصے سے کہتی اس کہ کمرے سے باہر چلی گئی جبکہ حسن کچھ دیر تو وہیں کھڑا سوچ میں پڑا رہا پھر غصے سے تایا جان کی طرف چلا گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کھانا لگا دیں ماما۔۔۔"
وہ تھکا ہارا گھر آیا تھا اور شدید بھوک لگنے کی وجہ سے ڈائننگ ہال میں ہی آ کر بیٹھ گیا تھا۔۔
"کچھ بھی نہیں بنا کھانے میں آج۔۔"
سلمی بیگم سنجیدگی سے بولیں
"ہیں کیوں۔۔؟"
وہ حیران ہوا۔۔
"مجھ سے نہیں ہوتے اب یہ کام۔۔ سارا دن گھر بھی سنبھالوں پھر تم لوگوں کے لیے کھانا بھی بناؤ وہ بھی نت نئی فرمائشوں والا۔۔ مجھ سے نہیں ہوتا اب یہ سب۔۔"
وہ غصے سے بولیں۔۔
"آپ نہیں کریں گی تو کون کرے گا اب یہ کام۔۔۔"
جنید مسکراہٹ دبا کر بولا۔۔
"تم آج مجھے صاف صاف بتا دو تم نے شادی کرنی ہے یا نہیں۔۔ نہیں کرنی تو بتا دو میں اسامہ کی شادی کر دوں پھر کیونکہ اب مجھ سے تو گھر کی یہ بے رونقی برداشت نہیں ہوتی۔۔ تم اپنا مصروف ہوتے ہو تمہارے بابا اپنے کام میں بزی۔۔ اسامہ ویسے ہی باہر ہوتا ہے اور عمیر بھی پہلے پڑھائی میں مصروف بعد میں دوستوں کے ساتھ۔۔ تم سب کو میری پرواہ نہیں ہے تو میں کیوں تم لوگوں کے لیے کھانے بناتی پھروں۔۔۔"
وہ غصے سے بول رہی تھیں جبکہ جنید کے لیے اپنی مسکراہٹ ضبط کرنا بہت مشکل ہوگیا تھا۔۔
"کھانا کیا بنایا ہے بیگم۔۔؟ "
تبھی محمود صاحب بھی اندر داخل ہوئے اور انہوں نے بھی پہلا سوال یہی کیا تو سلمی بیگم نے انہیں خونخوار نظروں سے دیکھا۔۔ جنید کے لیے اپنی ہنسی ضبط کرنا اب بہت مشکل ہوگیا تھا۔۔
"میں آپ لوگوں کی ملازمہ ہوں کیا۔؟ یا پاورچن۔۔؟ جو آتا ہے یہی سوال کرتا ہے۔۔ کچھ نہیں بنایا آج میں نے کھانے میں۔۔ جسے زیادہ بھوک لگی ہے وہ خود بنا لے۔۔۔"
وہ غصے سے بولیں تو محمود صاحب جنید کی طرف پلٹے۔۔۔
"اتنا بی پی کیوں ہائی ہوا ہے ان کا۔۔؟ "
وہ آہستہ سے بولے۔۔
"مجھے نہیں پتا میں گھر آیا تو گولہ باری شروع ہوچکی تھی۔۔ "
وہ کندھے اچکا کر لاپرواہی سے بولا۔۔
"چلو تم کچھ آرڈر کرو کچھ۔۔۔"
ان کہ کہنے پر جنید کھانا آرڈر کرنے چلا گیا۔۔
"آپ پوچھ لیں اپنے لاڈلے سے اس نے شادی کرنی ہے یا نہیں۔۔۔ مجھ سے اب یہ اکیلا پن برداشت نہیں ہوتا۔۔ آپ لوگ سب مصروف رہتے ہیں میں اکیلی سارا دن گھر میں کیا کروں۔۔؟ "
جنید آرڈر کر کہ واپس آیا تو سلمی بیگم بولیں۔۔
"ہاں بھئ جنید۔۔ بتاؤ کیا پلین ہے تمہارا شادی کا۔۔؟"
وہ جنید کی طرف متوجہ ہوتے مصنوعی غصے سے بولے۔۔
"بابا ابھی ایک دو سال تو رک جائیں۔۔۔"
وہ منمناتے ہوئے بولا۔۔۔
"رہنے دو۔۔ دو سال بعد بھی کیا ضرورت ہے۔۔ کرو ہی مت شادی ۔۔ میں اسامہ کی شادی کر دیتی ہوں تم سے اچھا تو۔۔ وہ میری بات کا کبھی انکار نہیں کرے گا تم نے تو قسم کھائی ہے ماں کی بات نا ماننے کی۔۔
وہ ناراضگی سے بولیں۔۔
"اچھا ماما۔۔ آپ کا جب دل کرے کر دیں شادی میری۔۔ اب خوش۔۔؟ "
وہ ہتھیار ڈالتے ہوئے بولا۔۔۔
"سچ۔۔؟ "
وہ فورا خوشی سے بولیں۔۔
"اب آپ نے نا فرمان اولاد کا دھبہ جو لگا دیا ہے مجھ پر۔۔ ماننا تو پڑے گا اب۔۔ "
وہ لاپرواہی سے بولا۔۔
"تمہیں کوئی لڑکی پسند ہے تو بتا دو۔۔۔ "
ان کہ کہنے پر وہ خفیف سا ہوا۔۔
"نہیں ماما۔۔ آپ ہی ڈھونڈیں اب لڑکی بھی۔۔ شادی کا شوق بھی تو آپ کو ہی ہے۔۔ "
"لڑکی تو خیر تمہارے بھائی نے تمہارے لیے ڈھونڈی ہی ہوئی ہے۔۔ اگر تم راضی ہوتے ہو تو۔۔ "
"ڈونٹ ٹیل می ماما کہ اسامہ وہ سب فضول باتیں آپ سے بھی کر چکا ہے جو اس نے مجھ سے کی ہیں۔۔۔"
جنید حیرت سے بولا۔۔
"اس میں فضول بات کیا ہے۔۔؟ میں تو حیران ہوں کہ ایسا خیال میرے دل میں کیوں نہیں آیا تھا۔۔ "
"ارے بھئی کون سے خیال کی بات کر رہے ہو تم دونوں۔۔؟ "
محمود صاحب نا سمجھی سے بولے۔۔
"اپنی بیگم سے پوچھ لیں۔۔"
جنید منہ بنا کر بولا۔۔
"بتائیں بھئی بیگم کیا بات ہے۔۔"
وہ ان کی طرف متوجہ ہوئے۔۔
"اسامہ اور میری ہم دونوں کی یہی خواہش ہے کہ ہم جنید کے لیے ہانیہ کا انتخاب کریں۔۔  ہانیہ بہت اچھی بچی ہے بس اس پر کچھ وقتی آزمائش ہے۔۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ہانیہ کے لیے بھی پریشانی کچھ کم ہوجائے گی اور آپ کا یہ نکما بیٹا بھی انسان بن جائے گا۔۔ "
وہ انہیں تفصیل بتاتی ہوئی بولیں۔۔
"یہ تو بہت اچھا خیال ہے۔۔ ویسے بھی فرزانہ اور کامران دونوں بہت پریشان ہیں ہانیہ کی وجہ سے۔۔
وہ بولے۔۔
"میں اس کو چھوٹی بہنوں کی طرح سمجھتا ہوں اور آپ لوگ کیا سوچ رہے ہیں۔۔۔"
وہ چڑتے ہوئے بولا۔۔
"شادی سے پہلے سب ہی بہنیں لگتی ہیں۔۔ دیکھو جنید جو ہانیہ کے ساتھ ہوا ہے یا جس بیماری میں وہ مبتلا ہے یہ ساری باتیں خاندان میں پھیل چکی ہیں اور تم جانتے ہو اب اس کا کسی بھی مناسب جگہ رشتہ ہونا بہت مشکل ہے۔۔ ایسے میں اگر تم اسے اپنا لو گے تو یہ بہت اچھی بات ہو گی بیٹا۔۔ "
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں۔۔
"مجھے کچھ وقت دیں سوچنے کے لیے۔۔۔"
وہ ہتھیار ڈالتے ہوئے بولا۔۔
"جو بھی فیصلہ کرنا ہر چیز کو مد نظر رکھ کر کرنا جنید۔۔ "
محمود صاحب اس کہ کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے تو وہ بس خاموش ہوگیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"السلام علیکم تایا جان۔۔"
حسن اندر داخل ہوتا ہوا بولا۔۔
"وعلیکم السلام۔۔ کیسے ہو بیٹا۔۔؟ "
تایا جان اسے یہاں دیکھ کر حیران بھی ہوئے اور خوش بھی کیونکہ اس واقعے کے بعد سے حسن ان کہ گھر نہیں آیا تھا اور اگر وہ کہیں ملتے بھی تو وہ کافی کھچا کھچا سا رہنے لگ گیا تھا۔۔
"میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں۔۔؟ "
وہ ان کہ پاس بیٹھتا ہوا بولا۔۔
"میں بھی ٹھیک ہوں۔۔ تم نے پوچھ لیا اب تو طبیعت کافی بہتر محسوس ہو رہی ہے۔۔ "
وہ مسکرا کر بولے تو حسن کو شرمندگی ہوئی۔۔۔ وہ پچھلے کافی دنوں سے ان کے ساتھ کیسا رویہ رکھے ہوئے تھا۔۔
"کھانا یہیں کھا کر جانا آج حسن۔۔ اتنے عرصے بعد تو آئے ہو۔۔۔ "
تائی جان محبت سے بولیں۔۔
"نہیں تائی جان۔۔ وہ مجھے بس خدیجہ سے بات کرنی تھی کچھ۔۔۔ "
وہ جھجکتے ہوئے بولا۔۔
"خدیجہ اوپر ہے میں اسے بلا لیتی ہوں۔۔"
وہ یہ کہہ کر اٹھنے لگیں لیکن حسن نے انہیں روک دیا۔۔
"میں اوپر ہی چلا جاتا ہوں آپ بیٹھیں۔۔"
وہ جلدی سے بولا۔۔ ان کہ سامنے وہ کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے اوپر چلا آیا۔۔
خدیجہ کمرے میں تو نہیں تھی لیکن ٹیرس پر موجود تھی ۔۔۔ وہ وہیں چلا آیا جہاں وہ دنیا جہان سے بے خبر بیٹھی تھی۔۔
"یہ تم کیا سارے گھر والوں کو میرے خلاف کرنے پر تلی ہوئی ہو۔۔؟ "
وہ اس کہ پیچھے کھڑا ہو کر سختی سے بولا تو وہ ڈر کر اچھلی۔۔
"اف اللہ آپ نے تو ڈرا ہی دیا۔۔ بندہ ناک کر کہ ہی آ جاتا ہے۔۔ "
وہ دل پر ہاتھ رکھ کر بولی۔۔ اچانک سے اچھلنے کی وجہ سے اس کا سانس پھول گیا تھا۔۔
"میں نے جو تم سے پوچھا ہے اس بات کا جواب دو۔۔"
وہ اس کو کوہنی سے پکڑتا ہوا بولا۔۔
"ک۔۔کیا پوچھا ہے آپ نے۔۔؟ "
وہ ڈرتے ڈرتے بولی۔۔
"کیوں سارے گھر والوں کے کان میرے خلاف بھر رہی ہو۔۔؟ کون سے ایسے ظلم کر دیے ہیں میں نے تم پر جس کی داستانیں تم سارے گھر والوں کو سناتی پھر رہی ہو۔۔؟ "
وہ اپنی سرخ آنکھیں اس کہ چہرے پر گاڑتے ہوئے بولا۔۔
"میں نے کسی سے کچھ نہیں کہا۔۔ سب خود سمجھدار ہے سمجھ سکتے ہیں آپ کا رویہ میری جانب۔۔ اور مجھ سے دور رہ کر بات کریں ۔۔ "
وہ غصے سے بولی اور ساتھ ہی اپنی بازو چھڑوانی چاہی لیکن حسن نے اسے مزید قریب کر لیا۔۔
"بابا تایا جان سے ہمارے نکاح کی بات کرنے والے ہیں۔۔ اپنے آپ کو بچا سکتی ہو تو بچا لو خدیجہ کیوں کہ بعد میں ہوسکتا ہے تمہیں بہت پچھتانا پڑے اس رشتے پر۔۔ "
وہ اسے دھمکی دیتا ہوا بولا۔۔
"آپ میری نہیں اپنی فکر کریں کیونکہ مجھے خود کو بچانا اچھے سے آتا ہے البتہ آپ کا دماغ آج کل مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔۔۔"
وہ بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔۔
"اوہ۔۔ تو یعنی تم خود کو پہلے ہی اس مقابلے کے لیے تیار کر چکی ہو۔۔ پھر تو بہت مزا آنے والا ہے۔۔ دونوں طرف ہی آگ برابر کی لگی ہوئی ہے۔۔ "
وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔۔۔
"ہاں تو اگر آپ کے اندر بدلے کی اتنی آگ ہے تو یاد رکھیں میرا خون بھی وہی ہے۔۔ اس آگ کو بھجانا مجھے اچھے سے آتا ہے۔۔ "
وہ بے خوفی سے بولی تو حسن نے اسے ایک جھٹکے کے ساتھ چھوڑ دیا۔۔
"میں تمہارا بھلا چاہ رہا تھا خدیجہ میں اس رشتے کو سرے سے ہی ختم کر دینا چاہتا تھا لیکن تمہیں خود اپنے آپ کو عذاب میں ڈالنے کا شوق ہے تو تمہاری مرضی۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولا۔۔
"آپ اپنی فکر کریں حسن صاحب۔۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔۔ "
وہ بھی سنجیدگی سے بولی تو حسن بغیر کچھ کہے وہاں سے چلا گیا۔۔
"نہہ۔۔ میری زندگی عذاب بنا دیں گے۔۔ دیکھتی ہوں کیسے کچھ کہتے ہیں مجھے ۔۔ میں بھی انہی کی رشتہ دار ہوں۔۔ ایسا جینا حرام کروں گی یاد رکھیں گے۔۔۔ "
حسن کے جانے کے بعد اس نے غصے سے سوچا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم زلیل انسان۔۔ ماما سے اپنے فضول خیالات کا اظہار کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔؟ انہوں نے بابا کے سامنے کھول لیا یہ سارا مسئلہ اب بتاؤ بابا کہ سامنے میں کیسے انکار کروں۔۔؟ "
کمرے میں آتے ہی جنید نے اسامہ کو کال کی اور اس کی اچھی خاصی کلاس لی۔۔
"میں یہی تو چاہتا تھا کہ یہ معاملہ بابا کی عدالت تک پہنچے اور انکار کی کوئی گنجائش ہی نا رہے۔۔ اوہ مائے گاڈ اسامہ یو آر سو جینیس ۔۔۔"
اسامہ خود کو داد دینے والے انداز میں بولا تو جنید کو مزید غصہ آیا۔۔
"جب تمہاری باری آئے گی نا اسامہ۔۔ پھر دیکھنا۔۔ ایک ساتھ اپنے سارے حساب پورے کروں گا۔۔ "
جنید غصے سے بولا۔۔
"مجھے اس دن کا بے صبری سے انتظار ہے بھائی۔۔ "
اسامہ شرمانے کی ایکٹنگ کرتا ہوا بولا۔۔
"پورے الو کے پٹھے ہو تم۔۔۔ "
جنید دانت پیستا ہوا بولا۔۔
"ڈاکٹر جنید یہ کس لینگویج میں بات کر رہے ہیں آپ میرے ساتھ۔۔؟ ایک آن ڈیوٹی ڈاکٹر کے ساتھ۔۔؟
اسامہ مسکراہٹ دبا کر بولا۔۔
"بہت اچھا ہے تمہاری نائٹ ڈیوٹی لگی ہے۔۔ اللہ کرے اگلا پورا مہینہ ڈبل شفٹ لگا دیں تمہاری ۔۔ "
جنید اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہوا بولا ۔۔۔
"تو میں یہ رشتہ پکا سمجھوں۔۔۔ ؟"
اسامہ پر جوش سا بولا۔۔
"بکواس بند کر لو بس تم اب اپنی۔۔ "
جنید چڑتے ہوئے بولا۔۔۔
"لو جی۔۔ کال آپ نے کی ہوئی ہے مجھے اور طعنے مجھے دے رہے ہیں۔۔۔"
"میرا دماغ خراب ہے جو تمہیں کال کر لی۔۔"
غصے سے کہہ کر جنید نے فون بند کر کہ بیڈ پر پٹخا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Where stories live. Discover now