Episode 3

2.5K 197 47
                                    


"ہانیہ بچے دروازہ کھولو۔۔۔"
وہ کب سے اس کے کمرے کے باہر کھڑے تھے لیکن ہانیہ دروازہ نہیں کھول رہی تھی۔۔ شور کی آواز سن کر سب ہی وہاں آ گئے تھے۔۔
"ہانیہ کو کیا ہوا ہے بابا۔۔؟"
حسن نے پریشانی سے سوال کیا۔۔۔
"اس کی طبیعت نہیں ٹھیک ۔۔۔"
وہ نظریں چراتے ہوئے بولے۔۔ وہاں پر خدیجہ ارسلان تایا جان تائی جان سب موجود تھے۔۔ وہ ان کے سامنے اصل وجہ بتانے سے کترا رہے تھے۔۔
"ہانی دروازہ کھولو۔۔۔ مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے۔۔۔"
اب کی بار حسن بولا ۔۔ تو ہانیہ نے دروازہ کھول دیا۔۔۔ سب بے چینی سے اس کی طرف بڑھے۔۔
"کیا ہوا ہے ہانیہ بچے۔۔؟ "
حسن اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولا۔۔
"بھائی۔۔۔ مجھے برین ٹیومر ہے۔۔"
وہ روتے ہوئے بولی تو کامران صاحب اور ان کی مسز کے علاوہ سب حیران پریشان کھڑے رہ گئے۔۔
"کیا کہہ رہی ہو ہانی یہ تم سے کس نے کہا ہے۔۔۔"
تایا جان حیرت سے ہانیہ کی طرف بڑھے۔۔
"میں نے سنا تھا۔۔۔ بابا ماما کو بتا رہے تھے۔۔ "
وہ روتے ہوئے بولی۔۔
"چلو بیٹا چپ کرو۔۔۔ اللہ خیر کرے گا تم بالکل ٹھیک ہوجاؤ گی۔۔"
تائی جان نے آگے بڑھ کر ہانیہ کو سنبھالا۔۔۔
"میں ٹھیک نہیں ہوں گی تائی جان۔۔ میں مر جاؤں گی۔۔ میں بہت تکلیف میں ہوں۔۔۔ "
وہ ان کے گلے لگتے ہوئے بولی تو سب نے درد سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔ ارسلان ایک نظر ہانیہ کو دیکھتا وہاں سے چلا گیا جبکہ خدیجہ وہیں حیرت سے کھڑی سب دیکھ رہی تھی۔۔ حسن اور تایا جان کامران صاحب کو سنبھال رہے تھے جبکہ فرزانہ بیگم اور تائی جان ہانیہ کو خاموش کروانے میں لگی تھیں۔۔
"پتا نہیں یہ سب کیسے ہوگیا میری بچی کے ساتھ۔۔۔ اس عمر میں اتنی بڑی بیماری۔۔۔"
وہ جیسے ڈھے سے گئے تھے۔۔
"وہ ٹھیک ہو جائے گی بابا آپ پریشان مت ہوں۔۔۔"
حسن انہیں تسلی دیتا ہوا بولا۔۔
"جنید کہہ رہا تھا کچھ عرصے اس کی تھیراپی ہوگی پھر سرجری کروانی پڑے گی۔۔"
وہ آہستہ سے بولے۔۔
"تم پریشان مت ہو۔۔۔ ان شا اللہ سب بہتر ہو جائے گا۔۔۔"
تایا جان انہیں تسلی دیتے ہوئے بولے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ماما میرے لیے اتنی بڑی آزمائش کیوں۔۔؟ میرا کیا قصور ہے جو میرے مقدر میں اتنی بڑی پریشانی لکھ دی گئی۔۔۔"
سب اپنے کمروں میں واپس جا چکے تھے۔۔ ہانیہ فرزانہ بیگم کی گود میں سر رکھے کہہ رہی تھی۔۔
"اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کو ہی آزمائش کے لیے چنتا ہے بیٹا۔۔ تم دیکھنا یہ وقت کیسے گزر جائے گا اور سب پھر سے بہتر ہو جائے گا۔۔ "
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں۔۔
"لیکن پھر بھی ماما۔۔۔ میں کیسے پورا اتروں گی اس آزمائش پر۔۔۔ میں کیسے سب برداشت کروں گی۔۔۔۔"
وہ روتے ہوئے بولی۔۔
"اللہ جب پریشانی دیتا ہے تو اس کے ساتھ حوصلہ صبر بھی دے ہی دیتا ہے۔۔۔ تم نے بس مایوس نہیں ہونا۔۔ اللہ کی رحمت سے ان شا اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔ اب تم آرام کرو۔۔ صبح بات کرتے ہیں۔۔"
وہ اس کا سر تھپکتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں جبکہ اس کی ساری رات آنکھوں میں ہی گزر گئی۔۔ یہ کیسی آزمائش کی گھڑی تھی۔۔۔ پتا نہیں آگے کیا ہونے والا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہانیہ کی کیا کنڈیشن ہے جنید۔۔۔؟ "
آج اتوار تھا اس لیے وہ فارغ ہی بیٹھا تھا جب سلمی بیگم نے اس سے پوچھا ۔۔۔
"زیادہ سیویر کنڈیشن نہیں ہے اس کی۔۔۔ بس کچھ عرصے کی میڈیسنز سے ٹھیک ہوجائے گی۔۔۔ "
"اور سرجری۔۔؟"
"پہلے میڈیسن دے کر دیکھیں گے۔۔۔ اس کہ بعد سرجری کی طرف جائیں گے۔۔۔ "
"اللہ رحم کرے اس بچی پر۔۔۔ چھوٹی سی ہے اور کتنی پیاری ہے لیکن اتنی بڑی آزمائش آ گئی ہے اس پر۔۔۔ "
وہ افسردگی سے بولیں۔۔
"یہ سب تو اب اللہ کے ہاتھ میں ہے نا ماما۔۔ آپ لوگ بس دعا کریں مجھے پورا یقین ہے وہ ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔"
وہ عزم سے بولا۔۔
"ان شا اللہ۔۔۔"
وہ بھی دل سے بولیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لان میں سر جھکا کر بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔ چہرے پر پریشانی کے آثار بے حد واضح تھے۔۔ ہانیہ اس کی اکلوتی بہن تھی۔۔ اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھی۔۔۔ اس کی یہ پریشانی سن کر وہ خود بہت پریشان ہوگیا تھا۔۔ اسے تکلیف میں دیکھ کر اس کا اپنا دل کٹ کر رہ گیا تھا۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کچھ بھی کرتا لیکن اپنی بہن سے اس بیماری کو دور کر دیتا۔۔۔
وہ اپنی سوچوں میں گم تھا جب تھوڑی دیر بعد اسے ساتھ کسی کے بیٹھنے کا احساس ہوا۔۔ اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو خدیجہ وہاں بیٹھی تھی۔۔۔
"آپ۔۔ آپ پریشان مت ہوں۔۔ اللہ سب بہتر کرے گا۔۔ آپ بس دعا کریں۔۔۔ بندہ جب دل سے اللہ کو پکارتا ہے تو اللہ ضرور اس کی فریاد سنتا ہے۔۔۔ "
وہ اسے تسلی دینے کو کہہ رہی تھی۔۔ حسن کی پریشانی وہ دیکھ نہیں پا رہی تھی۔۔ وہ اس مشکل وقت میں اس کا ساتھ دینا چاہتی تھی۔۔
"ہم ان شا اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ "
وہ اپنے آپ کو کمپوز کرتا ہوا بولا۔۔
"آپ حوصلہ کریں۔۔۔ ہانی کو بھی سنبھالنا ہے آپ نے۔۔۔ چاچو چاچی کو بھی۔۔ آپ ہی ہمت ہار کر بیٹھ جائیں گے تو ان سب کو کون سنبھالے گا۔۔۔"
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔۔
"میں کیا کروں خدیجہ۔۔؟ مجھ سے ہانی کی ایسی حالت نہیں دیکھی جا رہی۔۔۔ "
"آپ بس حوصلہ کریں۔۔۔ وہ بالکل ٹھیک ہو جائیں گی۔۔۔ اور آپ خود کو اکیلا محسوس نا کریں۔۔ میں آپ کے ساتھ ہوں۔۔۔"
وہ بالآخر ہمت کر کہ وہ بات بول ہی گئی جو وہ کہنے آئی تھی۔۔
"تم میرے ساتھ ہو تو مجھے یقین ہے سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ "
وہ مسکراتے ہوئے بولا تو وہ بھی مسکرائی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ارسلان تم کہاں ہوتے ہو آج کل۔۔۔"
وہ گھر میں داخل ہوا تو تائی جان بولیں۔۔
"میں نے کہاں جانا ہے ماما۔۔ یہیں ہوتا ہوں۔۔"
وہ آہستہ سے بولا۔۔
"بیٹا جب سے ہانیہ کی بیماری کا پتا لگا ہے تم ایک بار بھی اس کی عیادت کو نہیں گئے۔۔۔ اسے اس وقت تمہارے ساتھ کی ضرورت ہے اور تم ہو کہ یوں چھپتے پھر رہے ہو اس سے۔۔۔ وہ کیا سوچے گی تمہارے بارے میں۔۔ وہ اب صرف تمہاری کزن ہی نہیں تمہاری منگیتر بھی ہے اور تمہاری بہن کی نند بھی۔۔ رشتوں کا تقدس رکھنا سیکھو۔۔"
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں۔۔۔
"شاید اب میں یہ رشتہ قائم نا رکھ سکوں ۔۔۔"
وہ ان سے نظریں چراتے ہوئے بولا۔۔
"کیا فضول بول رہے ہو۔۔؟"
انہوں نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
"میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔۔۔ میرے میں اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ میں اس سب کے بعد بھی اس رشتے کو برقرار رکھ پاؤں۔۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولا۔۔۔
"تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے اور بس کچھ نہیں۔۔۔ خبردار جو تم نے دوبارہ ایسی کوئی بات منہ سے نکالی۔۔۔"
وہ بے حد غصے سے بولیں۔۔
"فلحال تو میں خود کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہا۔۔۔ ابھی مجھے کچھ عرصہ میرے حال پر چھوڑ دیں۔۔۔ "
سنجیدگی سے کہتا وہ وہاں سے چلا گیا جبکہ وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کہاں جا رہے ہیں آپ۔۔؟"
وہ ابھی ہسپتال سے آیا تھا اور کھانا کھانے کے بعد اسے پھر کہیں جانے کی تیاری کرتا دیکھ کر اسامہ نے پوچھا۔۔
"پھپھو کے گھر جا رہا ہوں۔۔۔ ہانیہ کی طبیعت کا ہتا کرنے۔۔ حسن بتا رہا تھا کافی اپ سیٹ ہے آج کل۔۔۔ "
وہ اپنی گھڑی پہنتے ہوئے بولا ۔۔
"میں بھی چلوں آپ کے ساتھ۔۔۔"
"ہاں چلو۔۔۔ "
جنید کے کہنے پر وہ بھی اس کہ ساتھ ہو لیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی۔۔۔ جب سے اسے اپنی بیماری کا پتا لگا تھا وہ جیسے بالکل چپ سی ہو گئی تھی ۔۔۔ اداسی اسے ہر وقت گھیرے رکھتی تھی۔۔۔ اس کا دل جیسے مرجھا گیا تھا۔۔
"ہانیہ بچے باہر آ کر بیٹھو ہمارے ساتھ۔۔  تمہارے بابا بھی پوچھ رہے ہیں تمہارا۔۔ اسامہ اور جنید بھی ملنے آئے ہیں تم سے۔۔۔"
فرزانہ بیگم اس کہ کمرے میں آ کر بولیں۔۔
"میرا بالکل دل نہیں ہے کسی سے ملنے کا ماما۔۔۔ "
وہ بے زاری سے بولی۔۔
"بری بات ہے بچے۔۔۔ اس طرح سے ہمت ہار کر بیٹھی رہو گی تم۔۔؟"
"میرا اب ہمت کرنے کا دل نہیں کرتا۔۔۔ "
وہ اداسی سے بولی۔۔۔ تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔۔ ان دونوں نے سر اٹھا کر دیکھا تو چوکھٹ پر جنید کھڑا ہوا تھا۔۔
"آپ چلیں پھپھو میں سمجھاتا ہوں اسے۔۔"
اس کے کہنے پر فرزانہ بیگم کمرے سے باہر چلی گئیں جبکہ جنید صوفے پر جا کر بیٹھ گیا۔۔
"میں آ ہی رہی تھی باہر۔۔۔"
ہانیہ شرمندگی سے بولی۔۔
"پتا لگ گیا تھا مجھے۔۔۔"
جنید کے طنزیہ کہنے پر وہ خاموش ہوگئی اور سر جھکا کر بیڈ کے کونے پر ٹک گئی۔۔
"دیکھو ہانی۔۔ تم اپنی پریشانی میں دوسروں کو اذیت کیوں دے رہی ہو۔۔؟ تمہاری وجہ سے سب کتنے پریشان ہیں۔۔ پھپھو۔۔ انکل ۔۔ حسن سب کس طرح سے مرجھا گئے ہیں تمہاری حالت دیکھ کر۔۔۔ یہ کوئی اچھی بات تو نہیں ہے۔۔۔ "
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔۔
"میں پھر کیا کروں جنید بھائی۔۔؟ میں خود اتنی اذیت میں ہوں۔۔؟ اپ کو کیا لگتا ہے کیا میں اپنے لیے پریشان نہیں ۔؟ جس تکلیف سے میں گزر رہی ہوں آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے۔۔۔"
وہ تلخی سے بولی۔۔۔
"میرا سارا دن تمہاری طرح کے لوگوں کے ساتھ ہی رہتا ہوں اور مجھے تمہاری تکلیف کا بخوبی اندازہ ہے۔۔ اس لیے تمہیں سمجھا رہا ہوں ہانی ہمت پکڑو۔۔ اس طرح سے بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔۔ رونے سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔۔ حوصلہ کرنا پڑتا ہے۔۔ کبھی اپنے لیے۔۔ کبھی اپنوں کے لیے۔۔۔"
وہ نرمی سے بولا۔۔
"میرے ساتھ ہی ایسا کیوں جنید بھائی۔۔؟ مجھ پر ہی اتنی بڑی آزمائش کیوں۔۔؟ اللہ نے میرے ساتھ ہی ایسا کیوں کیا۔۔۔۔"
وہ بے اختیار ہی رو پڑی۔۔
"ایسی بات نہیں ہے ہانی۔۔۔ تم سے کئی زیادہ ایسے لوگ ہے جو بہت سی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔۔ تمہیں تو شکر گزار ہونا چاہیے۔۔ تمہاری فکر کرنے والے لوگ موجود ہے۔۔ تمہارے پاس وسائل ہیں جن سے تم علاج کروا سکو۔۔ میں روز کے بہت سے ایسے لوگ دیکھتا ہوں جو اس سے زیادہ بڑی بڑی پریشانیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کے پاس علاج کروانے کے لیے وسائل ہی نہیں ہوتے۔۔ ان کے پاس کوئی اپنا نہیں ہوتا جس سے وہ اپنا غم بانٹ سکیں۔۔۔ نا امیدی مت کرو۔۔ اللہ ناراض ہوتا ہے۔۔ جو چیزیں تمہارے پاس ہیں ان کا شکر ادا کرو۔۔۔ جو نہیں ہے اس کے لیے دعا کرو۔۔ اللہ کبھی اپنے بندے کی دعا رد نہیں کرتا ۔۔۔
چلو اٹھو شاباش۔۔ باہر آؤ۔۔ سب کے ساتھ بیٹھو۔۔۔ جتنی زیادہ ہمت کرو گی اتنی جلدی ٹھیک ہو جاؤ گی۔۔۔"
وہ اسے اچھی طرح سے سمجھاتے ہوئے بولا۔۔
"میں ٹھیک تو ہو جاؤں گی نا جنید بھائی۔۔۔؟"
وہ بہت آس سے بولی تھی۔۔۔
"تم بالکل ٹھیک ہو جاؤں گی اور بہت جلدی ٹھیک ہوجاؤ گی لیکن اس سب میں تم نے ہمت کرنے ہے۔۔۔ ایک بار پھر سے اٹھ کھڑا ہونا ہے۔۔ اب کی بار خود کو گرنے نہیں دینا۔۔ "
وہ اسے یقین دلاتے ہوئے بولا تو وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ اب اسے ہمت کرنی تھی۔۔۔ اپنے لیے لڑنا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج وہ بہت دنوں بعد آئی تھی۔۔ اور سب کے ساتھ ہنستے مسکراتے بات بھی کر رہی تھی۔۔ کامران صاحب اور فرزانہ بیگم اسے نارمل دیکھ کر بہت خوش تھے۔۔ حسن بھی اپنی بہن کو مسکراتا دیکھ کر بہت خوش تھا۔۔
"دیکھو ہانی۔۔ جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ پھر ہم نے جنید بھائی کے لیے لڑکیاں دیکھنے بھی جانا ہے۔۔۔"
کھانے کے بعد وہ سب چائے پی رہے تھے جب اسامہ بولا۔۔۔
"شادی کے لیے مان گئے حنید بھائی۔۔؟"
وہ حیرت سے بولی۔۔
"بکواس کر رہا ہے بلاوجہ۔۔۔"
جنید فوراََ بولا۔۔۔
"بس کردو جنید۔۔۔ اٹھائیس سال کے ہو چکے ہو۔۔ کیا کنوارے رہنے کا ارادہ ہے ساری زندگی۔۔۔"
اب کہ حسن بھی بولا۔۔۔
"یار کیا ہے تم لوگوں کو۔۔۔ سب کہ سب ماما کی طرح شروع ہوگئے ہو۔۔۔"
وہ چڑتے ہوئے بولا۔۔ شادی کے زکر پر وہ ایسے ہی چڑ جایا کرتا تھا۔۔۔
"تو تم بھی تو ہاں کردو نا اب۔۔۔"
"کردوں گا بھئی۔۔ جب ٹائم آئے گا ہو جائے گی میری بھی شادی۔۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولا تو سب منہ بسور کر رہ گئے۔۔ اس بحث میں وہ کبھی اس سے جیت نہیں پائے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمرے میں بیٹھی تھی۔۔۔ جب دروازے پر دستک ہوئی۔۔ اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو سامنے ارسلان کھڑا تھا۔۔ اسے اپنے کمرے میں دیکھ کر وہ بے حد حیران ہوئی۔۔ آج ایک ہفتے کے بعد وہ اسے دکھائی دے رہا تھا۔۔۔
"کیسی ہو۔۔۔؟"
"تمہیں اس سے کیا۔۔ جیسی بھی ہوں۔۔"
وہ ناراضگی سے بولی۔۔ تو وہ اداسی سے مسکرایا۔۔
"مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے ہانی۔۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولا۔۔
"لیکن مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔"
وہ ہنوز ناراضگی سے بولی۔۔
"دیکھو ہانیہ۔۔۔۔ میں یہ رشتہ ختم کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ میرے اندر اتنی ہمت نہیں ہے کہ اب اس رشتے کو برقرار رکھ سکوں۔۔۔ "
وہ سر جھکا کر بولا تو ہانیہ نے بے یقینی سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora