Episode17

2.4K 186 104
                                    

صبح ہانیہ کی آنکھ کھلی تو اپنا سر بھاری محسوس ہو رہا تھا۔۔ اس کی نظر سامنے پڑی تو جنید صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔۔ بلیک ٹراؤزر شرٹ میں وہ کافی فریش لگ رہا تھا شاید کافی دیر سے جاگا ہوا تھا۔۔ ہانیہ کو سمجھ نا آئی وہ کیا کرے۔۔ عجیب سی سچویشن ہوگئی تھی کہ وہ نروس ہو رہی تھی۔۔
"نماز کے لیے اٹھایا تھا میں نے تمہیں تم اٹھی ہی نہیں۔۔ کافی گہری نیند سو رہی تھی۔۔ "
جنید نے اسے خود ہی مخاطب کیا۔۔ وہ خاموش رہی۔۔
"چلو فریش ہو جاؤ۔۔ باہر سب ویٹ کر رہے ہوں گے۔۔
جنید کے کہنے پر ہانیہ کا دھیان اپنے حلیے کی طرف گیا تو وہ اب بھی اپنے عروسی جوڑے میں ملبوس تھی۔۔ اسے یاد آیا کہ رات کو اس کی طبعیت کی وجہ سے جنید نے اسے دوا دی تھی اور وہ ایسے ہی سو گئی تھی۔۔  وہ آہستگی سے اٹھی۔۔ الماری کھولی تو اس میں اس کے لیے ہر طرح کے کپڑے ٹنگے ہوئے تھے۔۔ اس نے کھدر کا ایک سادہ سا سوٹ نکالا اور پلٹنے لگی جب اپنے پیچھے کھڑے جنید کو دیکھ کر رکی۔۔ جنید نے اس کہ ہاتھ سے وہ سوٹ لیا اور واپس الماری میں ہینگ کر دیا۔۔ اس کہ بدلے پرپل کلر کا ایک کام والا سوٹ نکال کر ہانیہ کی طرف بڑھایا۔۔
"یہ پہن لو۔۔"
"یہ۔۔ یہ بہت ہیوی ہے۔۔"
ہانیہ پہلی بار بولی۔۔ جنید اسے ہی دیکھ رہا تھا جبکہ وہ اس کے علاوہ ہر جگہ دیکھ رہی تھی۔۔
"میرے لیے پہن لو۔۔
جنید کہ کہنے پر اس کی پلکیں لرزیں اور وہ اس ہہ ہاتھ سے سوٹ پکڑتی جلدی سے وہاں سے چلی گئی۔۔ جنید اس کی جلدی پر ہنس دیا۔۔
وہ کپڑے تبدیل کر کہ باہر آئی تو جنید وہیں کھڑا تھا۔  وہ اسے نظر انداز کرتی ڈریسنگ کی طرف بڑھی۔۔
"مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے ہانیہ۔۔"
جنید اس کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے بولا تو ہانیہ کا ہاتھ رکا اور وہ اس کی طرف پلٹی۔۔
"دیکھو ہانی۔۔ میں جانتا ہوں تمہارے لیے اس رشتے کو نبھانا بہت مشکل ہے۔۔ میرے لیے بھی یہ سب بہت عجیب ہے لیکن ہم کوشش تو کر سکتے ہیں نا۔۔ ہم ایک دوسرے کے دوست بن کر رہ سکتے ہیں۔۔ جیسے پہلے تم اپنی باتیں مجھ سے شئیر کرتی تھی اب بھی کر لیا کرو۔۔ ضروری تو نہیں کہ اس نئے رشتے سے ہم باقی کے رشتے بھی کھو دیں۔۔ "
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔۔
"یہ نیا رشتہ نبھانا میرے لیے بہت مشکل ہے۔۔ "
وہ نم لہجے میں بولی۔۔
"کچھ بھی مشکل نہیں ہے ہانیہ۔۔۔ میں وہی جنید ہوں جس سے تم پہلے باتیں کرتی تھی۔۔ زیادہ مت سوچو۔۔ تم بس مجھ پر یقین رکھو اس رشتے پر یقین رکھو۔۔ ہم دونوں نے مل کر اس رشتے کو نبھانا ہے۔۔ "
جنید کے کہنے پر اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔ جنید نے ڈریسنگ سے سرخ رنگ کی ایک ڈبی اٹھائی اور اس میں سے ایک بریسلیٹ نکال کر ہانیہ کی کلائی میں پہنا دی۔۔
"رشتوں کے بہت سے تقاضے ہوتے ہیں۔۔ شادی دو لوگوں کے نہیں بلکہ دو خاندانوں کے ساتھ ہوتی ہے۔۔ ہم دونوں کے ساتھ بھی بہت رشتے جڑے ہیں اور ان سب نے بہت مان سے یہ رشتہ جوڑا ہے۔۔ ہمیں ان کا مان نہیں توڑنا چاہیے۔۔ اپنوں کے لیے اس رشتے کو قبول کرو ہانیہ اور خوش رہو۔۔ سب تمہیں خوش دیکھنا چاہتے ہیں اور میں تمہیں خوش رکھنا چاہتا ہوں۔۔ میری اس کوشش میں تم نے میرا ساتھ دینا ہے۔۔ "
جنید مسکرا کر بولا۔۔
"میں بہت بری ہوں۔۔ مجھے پتا نہیں کیا ہوجاتا ہے میں سب کو پریشان کر دیتی ہوں۔۔ میری وجہ سے سب دکھی ہو جاتے ہیں۔۔"
وہ سر جھکا کر بولی۔۔ وہ اپنے آنسو چھپانا چاہ رہی تھی لیکن بہت کوشش کے بعد بھی وہ بہہ ہی گئے تھے۔۔
"تم بالکل بری نہیں ہو۔۔ تم بہت اچھی ہو بہت حوصلے والی ہو۔۔ تمہیں بس خود پر یقین رکھنا ہے کہ تم یہ کرسکتی ہو۔۔۔ تم اس بیماری سے لڑ سکتی ہو۔۔ تم خوش رہ سکتی ہو۔۔ تم سب کو خوش رکھ سکتی ہو۔۔ "
جنید نے اسے حوصلہ دیا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
"زندگی کے ہر موڑ پر جب بھی تم مڑ کر دیکھو گی تم مجھے اپنا ساتھی پاؤ گی ہانیہ۔۔ میں ہر طرح کے حالات میں تمہارا ساتھ دوں گا۔۔ "
وہ اسے یقین دلاتے ہوئے بولا تو وہ مسکرائی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کھا لیں کھا لیں بھابھی ماں۔۔ مجھے پتا ہے یہ ڈاکٹر صاحب آپ کو منع کر کہ لائے ہوں گے کہ تھوڑا کھانا ہے۔۔"
وہ سب ناشتے کی میز پر موجود تھے جب اسامہ کی زبان پر کھجلی ہوئی۔۔ ہانیہ جو کھا کم رہی تھی اور بس پلیٹ کو گھور رہی تھی اسامہ کی بات پر روہانسی ہو کر سلمی بیگم کو دیکھا۔۔ وہ ہزار بار اسامہ کو منع کر چکی تھی کہ وہ اسے بھابھی ماں مت کہے لیکن وہ باز نہیں آتا تھا۔۔
"اسامہ چپ کر کہ ناشتہ کرو۔۔ تنگ نہیں کرو ہانی کو۔۔"
ان کہ کہنے پر وہ منہ پر انگلی رکھ کر خاموش ہوگیا لیکن کچھ دیر بعد اس کی زبان میں پھر کھجلی ہوئی۔۔
"بابا جان میں ایک بات سوچ رہا ہوں۔۔"
وہ اپنا لہجہ سنجیدہ بناتے ہوئے بولا۔۔ سب اس کی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔
"ہاں بولو کیا بات ہے۔۔؟ "
محمود صاحب بولے۔۔
"یہ ڈاکٹری والے کام میں نا بڑی تھوڑی کمائی ہے۔۔ بندے کے خرچے ہی پورے نہیں ہوتے۔۔"
وہ منہ بنا کر بولا۔۔
"تمہیں پیسے چاہئیے اسامہ۔؟ "
وہ یہی سمجھے تھے۔۔
"ارے نہیں نہیں میں سوچ رہا تھا۔۔ اگر آپ اجازت دیں۔۔ صرف اگر آپ اجازت دیں تو میں فلموں میں کام شروع کر دوں۔۔؟ اچھا خاصہ ہنیڈسم ہوں ایکٹنگ تو کلاس کی کر لیتا ہوں مجھے تو فلموں میں ہنس کر لے لیں گے۔۔۔"
وہ مزے سے بولا تو سب نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
"آپ کو فلموں میں سب ہنس کر نہیں ہنستے ہوئے لیں گے جیسی آپ کی شکل ہے۔۔"
عمیر نے لقمہ دیا تو ہانیہ ہنس دی۔۔
"تم بالکل ہی پاگل ہو اسامہ۔۔ "
محمود صاحب بولے۔۔
"یار بھابھی ماں۔۔؟ آپ بتائیں کیا مجھے فلم مل جائے گی۔۔۔؟ زرا غور سے دیکھیں سلمان خان لگتا ہوں نا۔۔؟"
وہ ہانیہ کی طرف متوجہ ہوا۔۔
"ہاں بالکل لگتے ہو۔۔ تیرے نام والے سلمان خان۔۔"
جنید نے کہا تو سب ہی قہقہہ لگا کر ہنس پڑے جبکہ اسامہ نے منہ بسورا۔۔
"اچھا پھر بابا میری شادی ہی کروا دیں۔۔ اتنا بور ہوتا ہوں میں۔۔"
وہ منہ بناتے ہوئے بولا۔۔
"ہم نے تمہاری شادی کون سا کسی جوکر سے کرنی ہے جو تمہیں انٹرٹین کرے گی۔۔؟ "
سلمی بیگم بولیں۔۔
"نہیں نہیں۔۔ انٹرٹین تو اسے میں کروں گا وہ تو بس بیٹھ کر مجھے دیکھے گی۔۔"
وہ شرماتے ہوئے بولا۔۔
"کوئی ضرورت نہیں ہے ابھی شادی کا سوچنے کی تھی۔۔ ہاؤس جاب پوری کرو۔۔ اسپیشلائزیشن کرو۔۔ اس کہ بعد سوچیں گے۔۔"
محمود صاحب بولے۔۔
"صاف صاف کہیں جنید بھائی کی طرح بڈھا ہو کر شادی کروں۔۔"
وہ منہ بنا کر بولا۔۔
"یہی سمجھ لو۔۔"
محمود صاحب اپنا ناشتہ مکمل کر کے وہاں سے اٹھ گئے۔۔
"اتنا گندہ کھانا ہوتا ہے ماما میس کا۔۔ گندہ تیل ڈالتے ہیں بیچ میں اور مرچیں تو انتہا کی ہوتی ہیں۔۔ اتنی یاد آتی ہے گھر کے کھانے کی۔۔ اگر میری بھی کوئی گھر والی ہوتی۔۔ مجھے گھر کہ کھانے پکا پکا کر دیتی۔۔"
وہ آہ بھرتے ہوئے بولا۔۔
"باز آ جاؤ اسامہ۔۔ بابا سے جوتیاں پڑیں گی۔۔"
جنید نے اسے دھمکایا۔۔
"یہ اس کے بغیر ٹھیک بھی نہیں ہونے والے۔۔"
عمیر بولا۔۔
"آپ لوگ تو چپ ہی کریں۔۔ خود تو گھر میں رہتے ہیں میں بیچارا گھر سے دور۔۔ دو دو دن روٹی بھی نہیں کھاتا۔۔۔"
وہ ایموشنل ہوتے ہوئے بولا عمیر اور جنید اس کہ ڈرامے پر سر جھٹک کر رہ گئے جبکہ سلمی بیگم فوراََ جذباتی ہوئیں۔۔
"ہائے میرا بچا۔۔ جلدی سے ختم ہو یہ ہاؤس جاب تمہاری اور تم بھی واپس آ جاؤ بس اب گھر۔۔"
سلمی بیگم پیار سے بولیں۔۔ ہانیہ ان سب کو پرجوش انداز میں دیکھ رہی تھی۔۔ وہ سمجھتی تھی کہ یہاں سب سنجیدہ مزاج کے ہیں لیکن صبح ہی صبح اس گھر میں رونق دیکھ کر اس کا دل خوش ہوا تھا۔۔
کچھ ہی دیر بعد حسن اور رضوانہ بیگم ہانیہ کو لینے آ گئے تھے۔۔ رات میں ان کا ولیمہ تھا۔۔ شام کو اس نے پارلر جانا تھا جبکہ وہاں سے اس کو جنید نے پک کرنا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہاۓ ہانی میں نے آپ کو اتنا مس کیا۔۔ کہ بس کیا بتاؤ ۔۔"
خدیجہ ہانیہ کے گلے لگتے ہوئے بولی۔۔
"چوبیس گھنٹے بھی نہیں ہوئے ابھی اس کی شادی کو۔۔"
حسن نے جتایا تو خدیجہ نے منہ بسورا۔۔ اس کہ بعد خدیجہ سارا وقت ہانیہ کے ساتھ جڑی رہی۔۔ جب شام میں ہانیہ پارلر چلی گئی تو وہ اپنے کمرے میں تیار ہونے آئی۔۔ تیار ہو کر وہ چچی جان کے گھر آئی۔۔
"خدیجہ بچے یہ حسن کو اس کا کوٹ پکڑا آؤ ۔۔۔ میں ذرا تمہارے چچا کو دیکھ لوں۔۔"
فرزانہ بیگم اسے دیکھتے ہی بولیں تو اس نے منہ بسورا۔۔۔ پھر کوٹ اٹھا کر اس کہ کمرے کی طرف بڑھی۔۔ دستک دینے کے بعد اجازت ملنے پر وہ اندر داخل ہوئی۔۔۔ حسن شیشے کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا۔۔۔ نظر خدیجہ پر پڑی تو دل دھڑکا۔۔ لائٹ پنک کلر کی پیروں تک چھوتی میکسی پہنے بالوں کو کرلز کیے لائٹ سے میک اپ میں وہ ہمیشہ کی طرح بہت پیاری لگ رہی تھی البتہ چہرے پر غصے کے تاثرات تھے۔۔۔
"اپنے کام آپ خود کیا کریں۔۔۔ میں آپ کی ملازمہ نہیں ہوں۔۔"
وہ اس کا کوٹ بیڈ پر پٹختی غصے سے بولی۔۔
"بیوی تو ہو نا۔۔"
حسن اس کی طرف پلٹتا ہوا بولا۔۔
"ہاں جی۔۔ وہ بیوی جسے آپ نکاح والے دن ہی باور کروا چکے ہیں کہ وہ آپ کے لیے کچھ معنی نہیں رکھتی۔۔۔"
وہ تلخی سے بولی۔۔
"ہاں معنی تو میرے لیے وہ کچھ بھی نہیں رکھتی مگر اب کیا کروں۔۔۔ بیوی بن تو گئی ہو تو اب کام بھی رو تم سے ہی کروانے ہیں۔۔"
وہ اس کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔۔
"دیکھیں حسن میں مزاق نہیں کر رہی۔۔ میں واقعی سیریس ہوں۔۔۔ میں آئیندہ سے آپ کا کوئی کام نہیں کروں گی ۔۔۔ اس دن آپ نے بہت برا کیا ہے میرے ساتھ۔۔۔ میں اتنی خوش تھی لیکن آپ نے مجھے میری حیثیت یاد دلا دی۔۔"
وہ غصے سے بولی۔۔
"تم ایسے کام مت کیا کروں جن سے میں منع کروں۔۔ مجھے غصہ آتا ہے۔۔۔"
وہ اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے بولا۔۔
"مجھے بھی بہت غصہ آتا ہے لیکن میں نے آپ سے کبھی کوئی ایسی بات کی ہے۔۔؟ اور چھوڑیں مجھے ۔۔۔"
وہ اس کہ حصار سے نکلنے کی کوشش کرتی ہوئی بولی لیکن حسن نے حصار مزید مضبوط کر دیا۔۔
"اتنی سی تم ہو۔۔ کیا بگاڑ لو گی میرا۔۔؟ "
حسن اس کہ قد پر چوٹ کرتا ہوا بولا۔۔
"مجھے اتنا ہلکا مت لیں۔۔ آپ نے مجھے زیادہ تنگ کیا نا تو میں آپ کی زندگی عذاب بنا دوں گی۔۔"
وہ اسے انگلی دکھا کر دھمکی دیتے ہوئے بولی تو حسن ہنس دیا۔۔
"میں واقعی بہت ڈر گیا ہوں تم سے۔۔"
کچھ دیر بعد وہ بھاری لہجے میں بولا۔۔
"جب جب تم سامنے آتی ہو لگتا ہے سارا غصہ بھول جاؤں گا۔۔"
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔
"پھر بھی زبان تو کینچی کی طرح چلتی ہے ۔۔ مجھے دیکھتے ہی ماتھے پر سلوٹیں پڑ جاتی ہیں اور جو کوئی سڑی ہوئی بات ذہن میں آ رہی ہو وہ میرے منہ پر مار دیتے ہیں۔۔ "
وہ ناک سکوڑ کر بولی۔۔ حسن کو اس کی آنکھوں میں ڈوبنے ہی والا تھا اور شاید کچھ دیر تک اظہار بھی کر ہی دیتا مگر خدیجہ کی بات سن کر بدمزہ ہوتے ہوئے اسے اپنے حصار سے آزاد کیا۔۔
"تم بس ہو ہی اسی قابل۔۔ "
بیڈ سے اپنا کوٹ اٹھا کر پہنتا وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔
"ہنہ۔۔"
اپنا دوپٹہ سنبھالتی وہ بھی اسی کہ پیچھے چل دی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لان میں بیٹھا چائے پی رہا تھا جب اس کہ ساتھ بیٹھے اسامہ نے اس کہ سامنے اپنا موبائل کیا ۔۔۔
"کیا۔۔؟ "
جنید نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔۔
"بیلنس نہیں ہے تو میری موبائل سے کال کر لیں۔۔"
اسامہ سنجیدگی سے بولا۔۔
"کس کو ۔۔؟ "
جنید نا سمجھی سے بولا۔۔
"بھابھی کو۔۔
"لیکن کیوں۔۔؟ "
جنید کے پوچھنے پر اسامہ نے اپنا سر پکڑا۔۔
"صبح سے جو اداس بلبل بن کر کبھی ادھر گھوم رہے ہیں کبھی ادھر گھوم رہے ہیں تو فون کر لیں بھابھی کو۔۔۔ "
اسامہ سنجیدگی سے بولا تو جنید نے اسے گھورا۔۔
"کوئی بات نہیں آپ کی اپنی بیوی ہیں۔۔ کر لیں فون کوئی پریشانی نہیں۔۔"
اسامہ شرارت سے بولا تو جنید نے ٹیبل پر پڑا کپ اسے مارنے کے لیے اٹھایا۔۔
"جا رہا ہوں جا رہا ہوں۔۔ ایک تو ہر کوئی پتا نہیں کیوں مجھ معصوم کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔۔"
اسامہ دونوں ہاتھ اٹھا کر کہتا وہاں سے چلا گیا تو جنید ہنس دیا۔۔
اپنے موبائل سے اس نے ہانیہ کا نمبر ملایا پھر ملاتے ملاتے رک گیا۔۔ چھہ تو بج ہی چکے تھے۔۔ آٹھ بجے جنید نے اس کو لینے جانا تھا۔۔ اب فون کرنے کا کیا جواز بنتا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"السلام علیکم آنٹی۔۔"
اسامہ نے کمرے میں آ کر آمنہ بیگم کو کال کی۔۔
"علیکم اسلام بیٹا کیسے ہو۔۔؟ "
وہ خوشگواری سے بولیں۔۔
"میں بالکل ٹھیک ہوں آنٹی آپ کی طبیعت کیسی یے۔۔؟ "
اس نے ان کی طبیعت کے بارے میں دریافت کیا۔۔
"میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔ تمہارا فون آتا ہے تو بڑی خوشی ہوتی ہے۔۔ اللہ تمہیں خوش رکھے۔۔"
آمنہ بیگم خوشگواری سے بولیں تو وہ مسکرایا۔۔
"جتنی سلجھی ہوئی ماں ہے اتنی ہی بددماغ بیٹی ہے۔۔ ضرور اپنے باپ پر گئی ہو گی۔۔"
اقراء کے بارے میں سوچ کر اسامہ کا حلق تک کڑوا ہوگیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولیمے کا فنکشن کافی بڑے پیمانے پر کیا گیا تھا۔۔ جنید اور ہانیہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اندر داخل ہورہے تھے۔۔ ہانیہ نے گرے میکسی پہنی ہوئی تھی اور بال کرلز کیے گئے تھے جبکہ جنید نے بلو تھری پیس پہنا ہوا تھا۔۔ وہ دونوں ایک ساتھ بہت مکمل لگ رہے تھے۔۔
ہانیہ بہت گھبرائی ہوئی تھی۔۔ اتنے سارے لوگ دیکھ کر وہ گھبرا گئی تھی۔۔
"کیا ہوا۔۔؟ "
جنید اس کی گھبراہٹ محسوس کرتا ہوا بولا۔۔
"مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔"
وہ آہستہ سے منمنائی۔۔
"کس سے۔۔؟ "
وہ حیران ہوا۔۔
"اتنے سارے لوگ ہیں یہاں اور سب گھور گھور کر ہمیں ہی دیکھ رہے ہیں۔۔"
"ایک کام کرتے ہیں۔۔ ہم کسی ایسی جگہ چلتے ہیں جہاں تمہارے اور میرے علاوہ اور کوئی نہ ہو۔۔۔ بس تمہیں میں دیکھتا رہوں اور کوئی نہ دیکھیں۔۔ میرے دیکھنے سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا نا تمہیں۔۔؟ "
جنید شرارت سے بولا تو ہانیہ نے اسے گھورا۔۔
"جنید بھائی والی باتیں اب آپ بھی کرنے لگ گئے ہیں۔۔"
ہانیہ اسے گھورتے ہوئے بولی تو جنید ہنس دیا۔۔ وہ خود بھی اپنی بات پر ہنس دی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ کھیر لو حسن۔۔ خدیجہ نے بنائی ہے۔۔"
ہانیہ اور جنید کی شادی کو ایک ہفتہ ہوچکا تھا۔۔ تایا جان اور تائی جان آج کامران صاحب کے گھر دعوت پر مدوع تھے۔۔ کھانے کے بعد جب فرزانہ بیگم نے حسن کی طرف کھیر کا باؤل پکڑایا تو حسن نے باؤل پکڑ کر ٹیبل پر رکھ دیا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔
"پتا نہیں اس لڑکے کو کیا ہوتا جا رہا ہے۔۔"
کامران صاحب غصے سے بولے۔۔
"کوئی بات نہیں کامران۔۔ سنبھل جائے گا۔۔"
تایا جان بولے۔۔ خدیجہ اپنی بے عزتی پر بمشکل آنسو روک کر رہ گئی۔۔ آج وہ ارسلان سے بات کر رہی تھی جب حسن نے اس کے موبائل سے ہاتھ چھین کر بند کر دیا تھا۔۔ اور ہمیشہ کی طرح وہی دھمکی دی تھی جو وہ پہلے دیتا تھا۔۔ اسی وجہ سے وہ آج خدیجہ سے پھر وہی رویہ رکھے ہوئے تھا۔۔
خدیجہ نے خاموشی سے کھانا کھایا۔۔ سب نے چائے بھی پی لی لیکن حسن اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلا۔۔
رات کے گیارہ بجے تک سب اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔۔ خدیجہ نے تایا حان اور تائی جان کے کمرے میں جھانکا تو وہ دونوں سو رہے تھے۔۔ وہ دبے قدموں سے کچن میں گئی کھیر کا باؤل اٹھایا اور کامران صاحب کے پورشن کی طرف چل دی۔۔  دونوں گھروں کا ڈرائنگ روم ایک ہی تھا۔۔ وہ وہاں سے ان کہ گھر چل دی اور حسن کے کمرے میں دبے قدموں سے داخل ہوئی۔۔ وہ آرام سے اپنے بیڈ پر سو رہا تھا۔۔
"بدتمیز انسان۔۔ یہاں میری نیند حرام کر کہ خود سکون سے سو رہے ہیں۔۔"
اس نے غصے سے سوچا اور اس ہی طرف بڑھی۔۔زور سے حسن کا کندھا ہلایا۔۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور خدیجہ کو اپنے کمرے میں دیکھ کر چونکا۔۔
"کیا بات ہے خدیجہ۔۔؟ خیریت۔۔؟ تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو۔۔؟ "
اس نے پریشانی سے کئی سوال کر ڈالے۔۔
"کھائیں اسے۔۔"
اس نے اس کے سارے سوال نظر انداز کر کہ کھیر کی چمچ بھر کر اس کے منہ کی طرف بڑھائی۔۔ حسن نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔
"کیا کر رہی ہو۔۔؟ "
"میں نے اتنی دیر کچن میں لگا کر کھیر بنائی۔۔ اور آپ۔۔؟ کس طرح منہ اٹھا کر کمرے میں آ گئے ہیں۔۔کھائیں اسے اسی وقت۔۔"
وہ غصے سے کہہ رہی تھی۔۔
"تم بالکل پاگل ہو خدیجہ ۔۔ اس وقت میرے کمرے میں صرف ایک کھیر کی وجہ سے آ گئی ہو۔۔؟ "
حسن حیرت سے بولا۔۔
"پہلے اس کو کھائیں۔۔"
وہ اپنی بات پر اڑی تھی۔۔ حسن نے اس کے ہاتھ سے باؤل لے کر سائیڈ پر رکھا۔۔
"کسی کو پتا لگ گیا کہ اس وقت تم میرے کمرے میں ہو تو سب کیا سوچیں گے۔۔"
حسن اس کی کلائی پکڑتا ہوا بولا۔۔
"کیا کہیں گے کیا مطلب۔۔؟ میرا بھی حق بنتا ہے اس کمرے پر۔۔ بیوی ہوں آپ کی۔۔"
وہ کندھے اچکاتی بولی۔۔
"اچھا۔۔۔ پھر یہیں رہ لو آج۔۔ کیا خیال ہے۔۔؟ "
حسن مسکراہٹ دبا کر بولا۔۔
"چھوڑیں بازو میرا۔۔"
خدیجہ فوراََ گڑبڑائی۔۔
"کیا ہوا ابھی تو کہہ رہی تھیں کہ تمہارا بھی کمرہ ہے یہ۔۔"
حسن نے مسکراہٹ دبائی۔۔ خدیجہ نے اس کے ہاتھ سے اپنی کلائی چھڑوائی اور باہر کو بھاگی۔۔
"کھیر تو لے جاؤ اپنی۔۔ "
خدیجہ نے اپنے پیچھے اس کی آواز سنی مگر رکی نہیں۔۔سیدھا اپنے کمرے میں جا کر ہی سانس لیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Where stories live. Discover now