Episode 2

2.9K 192 24
                                    

رائل بلو پیپلم پہنے بال کھلے چھوڑ کر ہلکے ہلکے میک اپ میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی لیکن آج بھی اس کہ سر میں شدید درد ہورہا تھا۔۔ آج تو اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کا سر پھٹ جائے گا۔۔ وہ سب سے ملنے کے بعد کونے میں آکر بیٹھ گئی۔ اس میں اتنی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ کھڑی رہتی۔ اپنے گرد ہر چیز چکراتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔
"کیا ہوا آپی آپ یہاں کیوں بیٹھی ہیں؟ ادھر آئیں میرے ساتھ کھڑی ہوں۔۔  "
اسے بیٹھے ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی جب عمیر اس کی طرف آیا۔
"کچھ نہیں بس ایسے ہی بیٹھی تھی چلو آؤ۔ "
وہ مسکراتے ہوئے اس کہ ساتھ چل پڑی۔
ابھی وہ تھوڑی دیر اس کہ ساتھ کھڑی ہوئی تھی کہ وہ اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا۔۔
وہ دوبارہ بیٹھنے کے لیے مڑی تو اسے ایک زور دار چکر آیا۔۔
اس سے پہلے کے وہ گرتی سامنے سے آتے جنید نے اسے فوراََ سے تھام لیا اور کرسی پر بیٹھایا۔
"کیا ہوا ہے ہانیہ؟ طبیعت ٹھیک ہے؟ "
اس نے پریشانی سے پوچھا
"پتا نہیں بس سر میں بہت درد ہے۔ "
وہ کنپٹی مسلتے ہوئے بولی
"تم بیٹھو ریسٹ کرو میں میڈیسن لا کر دیتا ہوں تمہیں۔ "
وہ اٹھتے ہوئے بولا
"نہیں میڈیسن رہنے دیں تھوڑی دیر میں خود ہی ٹھیک ہوجائے گا۔ "
وہ انکار کرتی ہوئی بولی
"دیکھ لو مجھے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔ "
"طبیعت بالکل ٹھیک ہے جنید بھائی بس رات دیر تک جاگتی رہی ہوں شاید اسی وجہ سے ایسا ہورہا"
وہ بات کو کور کرتے ہوئے بولی تو وہ بھی خاموشی سے وہاں سے چلا گیا۔۔
تھوڑی دیر بعد عمیر کیک کاٹ رہا تھا جبکہ سب اس کہ اردگرد جمع تھے۔۔ اچانک سے کچھ گرنے کی آواز پر سب نے دیکھا تو ہانیہ زمین پر گری ہوئی تھی اور اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔
"یا اللہ یہ کیا ہوا ہانیہ؟ جنید ۔۔۔ جلدی آؤ یہ دیکھو کیا ہوا ہے ہانیہ کو۔۔۔ "
ہانیہ کے یوں اس طرح سے گرنے پر سب حواس باختہ ہوگئے۔۔
جنید جو کہ باہر کال سننے گیا تھا اندر سے آوازیں سن کر فوراً اندر کی طرف دوڑا۔
"کیا ہوا ہے ہانیہ کو جنید ؟ "
سب جنید سے سوال کر رہے تھے جبکہ وہ خود بھی ہانیہ کو اس حالت میں دیکھ کر پریشان تھا۔
"گاڑی نکالو اسامہ ہمیں ہاسپٹل جانا چاہیے۔ "
وہ اسامہ سے بولا اور ہانیہ کو اٹھا کر بھاگتا ہوا گاڑی کی طرف پہنچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاسٹل پہنچتے ہی ہانیہ کو ایمرجنسی میں لے جایا گیا تھا۔ جنید بھی اندر ہی تھا بلکہ جنید ہی ہانیہ کا ٹریٹمنٹ کر رہا تھا۔ سب وہاں پر موجود تھے اور ہانیہ کہ لیے دعا گو تھے۔ فرزانہ بیگم کا رو رو کر برا حال تھا جبکہ کامران صاحب بھی پریشان سے کھڑے تھے۔۔ ارسلان بھی ہانیہ کی حالت پر گھبرا گیا تھا جبکہ حسن بھی کب سے ادھر ادھر بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔ اسامہ ، عمیر ، سروت بیگم اور محمود صاحب بھی وہیں موجود تھے۔  خدیجہ بھی ایک کونے میں بیٹھی رو رہی تھی۔ سب ہی اس اچانک پریشانی پر حیران تھے۔
دو تین گھنٹے بعد جنید باہر آیا تو سب ہی اسے گھیر کر کھڑے تھے۔ 
"کیا ہوا ہے جنید؟ کیسی ہے ہانی اب؟ "
سب نے اس کہ باہر آتے ہی سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔
"وہ ٹھیک ہے اب۔۔ میگرین کی وجہ سے بے ہوش ہوگئی تھی۔ "
وہ سب کو مطمئن کرنے کو بولا
"ہم مل سکتے ہیں اسے؟ ہوش آگیا ؟ "
"ایک گھنٹے تک ہوش آ جائے گا اسے پھر مل لیجیے گا آپ سب۔ "
وہ یہ کہہ کر اپنا کوٹ بازو پر ڈالتا ہوا اپنے کیبن کی طرف چلا گیا جبکہ باقی سب اس کہ ہوش میں آنے کا انتظار کرنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیبن میں آتے ہی اس نے سب سے پہلے محمود صاحب کو میسج کیا۔
اس کا میسج پڑھتے ہی وہ بھی اس کہ کیبن میں آگئے۔
"کیا بات ہے جنید ؟ "
انہوں نے پریشانی سے سوال کیا
"بابا وہ۔۔۔۔ ہانیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ "
"کیا ہوا ہے ہانیہ کو جنید؟ باہر تو تم کہہ رہے تھے صرف میگرین کی وجہ سے بے ہوش ہوئی ہے وہ۔۔ "
وہ نہایت پریشان تھے۔
"ہانیہ کو برین ٹیومر ہے بابا۔ "
وہ آہستگی سے بولا تو وہ شاکڈ رہ گئے۔
"یہ۔۔۔ یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟"
انہوں نے حیرانی سے سوال کیا
"میں اس کہ سارے ٹیسٹ کرچکا ہوں بابا اسے برین ٹیومر ہے۔۔ ابھی یہ اتنا سوویر نہیں ہے لیکن پھر بھی کچھ عرصے میں اس کی سرجری کرنی پڑے گی ورنہ یہ ساری باڈی میں پھیل سکتا ہے۔ "
وہ انہیں تفصیل سے بتاتے ہوئے بولا تو وہ وہیں کرسی پر ڈھے گئے۔
"یہ کیا ہو گیا ہے میری بچی کو۔۔ اتنی سی عمر میں اتنی بڑی آزمائش۔۔ "
وہ نہایت دکھ سے بولے تو جنید نے ان کہ کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہیں تسلی دی۔
"آپ پریشان نہ ہوں بابا۔۔ وہ ٹھیک ہو جائے گی۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہوش میں آئی تو سب ہی اس کہ اردگرد جمع تھے۔
"میرے بچے نے تو سب کو پریشان ہی کردیا۔ "
فرزانہ بیگم اس کا سر دباتے ہوئے بولیں
"مجھے خود نہیں پتا امی میرے ساتھ ہوا کیا تھا۔۔ کچھ دنوں سے سر میں شدید درد تھا اور آج اچانک بے ہوش ہی ہو گئی۔ "
وہ خود بھی اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کے بارے میں پریشان تھی۔
"چلو اب زیادہ مت سوچو اس بارے میں اور گھر جانے کی تیاری کرو۔۔۔ جنید نے کہا ہے کوئی پرابلم نہیں ہے اب تم گھر جاسکتی ہو۔ "
کامران صاحب اس کا دھیان بٹاتے ہوئے بولے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر آتے ہی وہ سو گئی جب شام میں اٹھی تو نیچے لیونگ میں سب جمع تھے۔ وہ بھی وہیں ان کہ ساتھ آکر بیٹھ گئی۔۔ سب اس کی طبیعت کا پوچھنے کے بعد اپنی باتوں میں مصروف ہوگئے تو وہ خدیجہ کی طرف متوجہ ہوئی۔۔
جس کی آنکھیں لال ہوئی پڑی تھیں اور اب بھی وہ یوں سر جھکائے بیٹھی تھی جیسے اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کر رہی ہو۔ ہانیہ نے افسوس سے اسے دیکھا پھر حسن کی طرف دیکھا اس نے بھی افسوس سے سر ہلا دیا پھر اس نے ارسلان کی طرف دیکھا تو وہ بھی خدیجہ کی حالت دیکھ کر سر پر ہاتھ مار کر رہ گیا۔
"خدیجہ کیا ہوا ہے ایسے کیوں بیٹھی ہو۔۔؟ "
ہانیہ کے پوچھنے کی دیر تھی کہ اس کی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہنا شروع ہوچکے تھے جنہیں چھپانے کے لیے وہ فوراََ کچن کی طرف بھاگی۔
ہانیہ اور ارسلان اس کہ پیچھے جانے لگے لیکن حسن نے ہاتھ کے اشارے سے ان دونوں کو منع کیا اور خود اس کہ پیچھے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کچن میں داخل ہوا تو وہ حسب توقع ایک کونے میں کھڑی رونے میں مصروف تھی۔
"کیا ہوا ہے خدیجہ اس طرح سے کیوں رو رہی ہو؟
وہ اس کہ قریب آتے آہستگی سے بولا
"وہ۔۔ ہانی۔۔۔۔"
وہ ہچکیوں کے درمیان بولی تو اس نے خدیجہ کو اپنے حصار میں لیا۔
"کچھ نہیں ہوا ہانی کو خدیجہ تم رونا بند کرو۔۔ "
وہ اسے چپ کرواتے ہوئے بولا
"لیکن ان کی ناک سے خون۔۔۔ "
وہ خوفزدہ سی بولی
"وہ معمولی سی بات تھی خدیجہ ایسا ہوجاتا ہے۔۔ تمہیں چاہیے تم ہانی کا خیال کرو لیکن رو رو کر تم اپنی طبیعت خراب کر رہی ہو۔۔ "
"زندگی میں ایسے بہت سے معاملات آتے ہیں بلکہ اس سے بہت بڑی بڑی آزمائشیں بھی آتی ہے لیکن ان میں یو اس طرح سے ہمت ہار کر رونے نہیں بیٹھ جاتے۔۔ بلکہ خود کو بھی مضبوط بناتے ہیں اور دوسروں کو بھی حوصلہ دیتے ہیں۔۔
چلو اب رونا بند کرو شاباش۔۔"
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا تو وہ خاموش ہوگئی۔۔۔ جب اسے احساس ہوا کہ وہ حسن کے حصار میں کھڑی ہے تو اس کا چہرہ شرمندگی کے مارے سرخ ہوگیا۔ وہ فوراََ اس سے دور ہو کر کھڑی ہوئی اسی لمحے ہانیہ اندر داخل ہوئی۔
"کیا کہہ دیا بھائی میری بھابھی پلس نند کو کہ وہ اتنا رو رہی ہے؟ "
وہ خدیجہ کا سرخ چہرہ دیکھ کر بولی
"میں نے تو کچھ نہیں کہا یہ خود ہی اپنی نند کی فکر میں گھل رہی ہے۔۔ "
وہ مسکراتے ہوئے بولا
"وہ میری بھابھی بھی ہیں۔۔ "
حسن کی بات پر وہ فوراََ ناک سکوڑتے ہوئے بولی تو وہ دونوں قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔
"ہانیہ جنید بھائی تمہیں بلا رہے ہیں۔۔ "
اسی لمحے ارسلان بھی اندر آگیا اور ہانیہ سے بولا
"یہ تمہیں کیا ہوا ہے خدیجہ؟ "
وہ خدیجہ کو دیکھتے ہوئے بولا جب وہ کچھ نہ بولی تو اس نے حسن کو دیکھا
"میں نے کچھ نہیں کہا اسے بھئی۔۔ خود ہی روئے جا رہی ہے۔ "
وہ لاپرواہی سے بولا
"تو کچھ کہہ کہ تو دکھا پھر میں تیرا حشر کرتا۔۔ "
وہ اسے گھورتے ہوئے بولا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آپ بلا رہے تھے جنید بھائی؟ "
وہ باہر لان میں آ گئی جہاں جنید بیٹھا ہوا تھا۔
"ہاں یہ میڈیسنز ہیں تمہاری۔۔ انہیں پراپر ٹائم پر لینا ہے اور جب بھی کوئی مسئلہ ہو فوراً مجھے بتانا ہے۔۔ "
وہ اسے ہدایت کرتا ہوا بولا
"کیا ہے بھئی۔۔ ایک سر درد کے لیے اتنی احتیاطی تدابیر۔۔ "
وہ چڑتے ہوئے بولی تو جنید اس سے نظریں چرا کر رہ گیا۔۔۔ وہ اسے ہر گز بتانے کی ہمت نہیں رکھتا تھا کہ وہ جسے محض سر درد سمجھ رہی ہے۔۔ وہ اس کہ لیے بہت بڑی بیماری ہے۔۔
"سب دوائیں ٹائم سے لیتی رہنا۔ "
اسے ہدایت کرتا ہوا وہ باہر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنید کے جانے کے بعد وہ بھی اندر جانے والی تھی جب ارسلان وہاں آ گیا۔۔
"تم نے سب سے خدمت کروانے کا اچھا طریقہ ڈھونڈا ہے۔۔ "
وہ اس کہ سامنے بیٹھتا ہوا بولا
"ہاں ایسے تو کسی نے میری قدر کرنی ہی نہیں تھی میں نے سوچا کیوں نہ ایسے ہی سہی۔ "
وہ مسکراتے ہوئے بولی
"قدر تو اپنی آپ ہم سے پوچھیں۔۔۔ چند گھنٹوں کے لیے تو جان ہی نکال دی تھی۔ "
"اچھا جی۔۔۔ بڑی فکر ہے تمہیں میری۔۔ "
"تمہاری نہیں اپنی فکر تھی مجھے۔۔ کہیں شادی سے پہلے ہی رنڈوا نا ہو جاتا۔۔ "
وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا تو ہانیہ نے اس کہ کندھے پر تھپڑ مارا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات گیارہ بجے جب سب اپنے کمروں میں تھے تو اس کہ سر میں ایک بار پھر درد کی ایک شدید لہر اٹھی۔۔ اس نے پاس پڑی اپنی میڈیسن لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن وہاں پانی موجود نہیں تھا۔ وہ سلیپر پہن کر پانی لینے کے لیے کچن کی طرف بڑھی۔۔
وہ جگ پکڑے واپس اپنے کمرے میں جا رہی تھی جب اپنے والدین کے کمرے سے آنے والی آوازوں پر رکی۔۔
"پتا نہیں میری بچی کو کس کی نظر لگ گئی۔۔اتنی سی عمر میں اتنی بڑی آزمائش۔۔ "
اندر سے فرزانہ بیگم کی آواز سن کر وہ سانس ساکن ہوئی۔ 
"جنید نے کہا ہے کچھ عرصے تک اس کی سرجری کروانی پڑے گی۔۔ ورنہ ٹیومر اس کہ سارے جسم میں پھیل سکتا ہے۔۔ "
کامران صاحب دکھ سے بولے
"کیسے برداشت کرے گی میری بچی اتنی بڑی آزمائش۔۔ "
ابھی وہ کہہ ہی رہی تھیں جب ہانیہ کہ ہاتھ سے کانچ کا جگ نیچے گرا۔۔ جگ کرنے کی آواز پر وہ دونوں باہر آگئے جہاں ہانیہ دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے ساکت سی کھڑی۔۔ ٹوٹے ہوئے جگ کا کانچ سارا بکھرا پڑا تھا بالکل ہانیہ کی ذات کی طرح۔۔
"ہانیہ بیٹا۔۔۔  "
کامران صاحب نے آگے بڑھ کر ہانیہ کو پکڑنا چاہا لیکن وہ ان کا ہاتھ جھٹکتی بھاگتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔ آنسو تاواتر اس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Where stories live. Discover now