Episode 16

2.2K 199 153
                                    

آج جنید اور ہانیہ کا نکاح تھا اور رات میں ان کی بارات تھی۔۔ جنید کا نکاح مسجد میں ہونا تھا جبکہ ہانیہ کا نکاح صبح گھر میں ہوچکا تھا۔۔
'دیکھو میرے بھائی۔۔ ابھی بھی وقت ہے۔۔ گاڑی موڑ لیتا ہوں واپس گھر کی طرف ۔۔۔ "
اسامہ گاڑی چلاتے ہوئے بولا۔۔
"چپ کر جاؤ اسامہ۔۔۔"
جنید غصے سے بولا۔۔
"لو جی بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے۔۔ میں تو بس اتنا کہہ رہا ہوں کہ سوچ لیں۔۔۔ بعد میں نا کہیے گا کہ بتایا نہیں بھائی نے مجھے۔۔"
اسامہ کندھے اچکا کر بولا۔۔
"تم تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے تمہارا بڑا ایکسپیرینس ہے۔۔ تین چار شادیاں کروا چکے ہو۔۔"
"میں نے دوسروں سے ہی بڑا سیکھ لیا ہے۔۔ ہاپٹل میں جتنے بھی شوہر حضرات آتے ہیں سب گنجے ہوتے ہیں اور دل کے مریض بھی۔۔۔ آپ بھی خیال رکھئے گا۔۔ بھابھی ماں آپ کو مریضِ دل پلس گنجا نہ بنا دیں۔۔"
اسامہ کے اتنا خوبصورت نقشا کھینچنے پر جنید ہنس دیا۔۔
"اب تم مجھے واقعے ڈرا رہے ہو ۔۔"
"ڈرا نہیں رہا برو۔۔حقیقت دکھا رہا ہوں۔۔ واپس وڑ لوں کیا گاڑی۔۔؟ "
"بس کریں اسامہ بھائی۔۔ آپ کی اپنی شادی نہیں ہو رہی تو اب دوسروں کی شادی میں کیوں پھڈے کروا رہے ہیں۔۔؟ "
عمیر جو کب سے خاموش بیٹھا تھا اکتا کر بولا۔۔
"تم دیکھنا بیٹا جی۔۔ ڈاکٹر صاحب کی شادی کہ فوراََ بعد میں نے اپنی شادی نہ کروائی نا تو میرا نام بدل دینا۔۔"
اسامہ اسے چیلنج کرتا ہوا بولا۔۔
"ہاں عمیر۔۔ اس کا نام بدل کر چاچا کنوارہ رکھ دیں گے کیونکہ اسے تو کوئی اپنی بیٹی دینے نہیں والا۔۔
جنید مسکراہٹ دبا کر بولا تو عمیر ہنس دیا جبکہ اسامہ نے گھور کر ان دونوں کو دیکھا۔۔
کچھ ہی دیر میں وہ لوگ مسجد پہنچ چکے تھے۔۔ باقی سب بھی وہاں موجود تھے۔۔ نکاح ہوچکا تھا۔۔ جنید نے ہانیہ کو تا عمر کے لیے قبول کر لیا تھا۔۔ ان دونوں کے درمیان اب وہ رشتہ بن چکا تھا جو سب سے پہلے اس زمین پر اتارا گیا تھا۔۔ وہ رشتہ تو اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے۔۔ اب ان کہ درمیان محبت و چاہت کا رشتہ بن چکا تھا۔۔ احساس کا رشتہ بن چکا تھا۔۔ اب وہ دونوں نکاح کے بندھن میں بندھ گئے تھے۔۔ اپنی زندگیاں ایک دوسرے کے نام کر دی تھیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارات کے فنشکن کا انتظام ہال میں کیا گیا تھا۔۔ گھر کے سب بڑے ہال پہنچ چکے تھے جبکہ حسن کے ذمے کامران صاحب نے یہ کام لگایا تھا کہ اسے پہلے گھر سے خدیجہ کو لینا تھا پھر پارلر سے ہانیہ کو لینا تھا۔۔۔ حسن گرے چیک والا پینٹ کوٹ پہن کر کب سے باہر بیٹھا خدیجہ کا انتظار کر رہا تھا مگر اس کی تیاری تھی کہ ختم ہی نہیں ہو رہی تھی۔۔ حسن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو وہ خدیجہ کے کمرے میں چلا آیا۔۔
"خدیجہ اگر اب تم نہیں نکلی باہر تو یہیں بیٹھی۔۔۔
خدیجہ پر نظر پڑتے ہی اس کی آدھی بات منہ میں ہی رہ گئی کیونکہ وہ لگ ہی اتنی حسین رہی تھی۔۔۔ پرپل کلر کی کرتی کے ساتھ کیپری پہنے ہم رنگ دوپٹہ ایک کندھے پر پھیلائے اس نے اپنے لمبے بالوں کو کھول رکھا تھا۔۔ کرتی پر سارا کام ہوا تھا۔۔ ساتھ جیولری پہنے اچھے سے میک اپ کیے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔ پیاری تو وہ پہلے بھی تھی مگر آج حسن کو وہ بہت اپنی اپنی سی بھی لگ رہی تھی۔۔ شاید یہ نکاح کا اثر تھا کہ وہ اب اسے اپنی ملکیت سمجھ رہا تھا۔۔ حسن اسے یک ٹک دیکھے جا رہا تھا جبکہ حسن کی پکار پر اس نے اپنا سر اٹھایا اسے ایک نظر غصے سے دیکھ کر وہ دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی جبکہ اس کا ایک نظر دیکھنا ہی حسن کے دل کی دنیا ہلا گیا۔۔ وہ اپنے گجرے سے الجھ رہی تھی۔۔ گجرے کا ہق کھول کر اس نے اپنی کلائی میں تو ڈال لیا تھا مگر اب وہ بند نا ہورہا تھا اور ساتھ ہی اس کہ بال بار بار اس کہ چہرے پر آ رہے تھے۔۔ وہ کبھی انہیں کان کے پیچھے اڑستی تو کبھی گجرا بند کرنے کی کوشش کرتی۔۔ وہ بہت الجھی ہوئی سی لگ رہی تھی۔۔ حسن بے اختیار سا اس کی طرف بڑھا۔۔ اس کہ قریب پہنچ کر اس کہ بال کان کہ پیچھے کیے۔۔۔ پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر گجرا بند کرنا چاہا جب خدیجہ نے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔۔
"جب آپ کی زندگی میں میری کوئی جگہ نہیں ہے نا ہی اس رشتے کی کوئی حیثیت ہے تو پھر مجھے یہ احساس بھی مت دلایا کریں کہ میں آپ کے لیے کچھ معنی رکھتی ہوں۔۔ اپنے الفاظ اور اپنے اعمال میں توازن رکھیں۔۔ "
غصے سے کہتی وہ گجرا وہیں ڈریسنگ پر پٹختی کمرے سے باہر نکل گئی جبکہ حسن اس کہ غصے پر مسکرا کر رہ گیا۔۔ وہ یقینا کل رات والی بات کا غصہ کر گئی تھی۔۔ وہ بات تو حسن نے بس اسے دکھ دینے کے لیے کہی تھی ورنہ اگر وہ جان جاتی کہ حسن کے دل میں اس کی زندگی میں اس کی کیا حیثیت ہے تو وہ خود کو بہت خوش نصیب تصور کرتی۔۔
حسن ٹیبل سے گجرا اٹھاتا باہر کی طرف بڑھا جہاں وہ پہلے ہی جاکر گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔ حسن کہ گاڑی پر بیٹھنے پر وہ کھڑکی کی طرف رخ موڑ کر بیٹھ گئی۔۔ حسن نے گجرا ڈیش بورڈ پر رکھا اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔ آدھے راستے میں جب گاڑی سگنل پر رکی تو حسن نے گجرا اٹھایا اور خدیجہ کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی پہنا دیا۔۔ خدیجہ نے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ اپنا کام کر کہ ہی پیچھے ہٹا۔۔ اس کہ ہاتھ اٹھاتے ہی خدیجہ نے گجرا اتارنا چاہا لیکن حسن نے پھر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔
"اب اگر یہ اترا تو میں تمہیں گاڑی سے اتار دوں گا۔۔"
اس کہ سختی سے کہنے پر اس نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور پھر رخ موڑ کر بیٹھ گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے خدیجہ۔۔"
ہانیہ اور وہ برائڈل روم میں بیٹھی تھیں جب ہانیہ بولی۔۔
"یار ہانی ڈرنے والی کیا بات ہے۔۔  جنید بھائی تو اتنے سویٹ سے ہیں۔۔ "
خدیجہ اس کہ پاس بیٹھتی ہوئی بولی۔۔
"میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔۔ "
وہ روہانسی ہوئی۔۔
"جنید بھائی آپ کا بہت خیال رکھیں گے ہانی مجھے پورا یقین ہے۔۔ وہ بہت اچھے ہیں اپ ان کے ساتھ خوش رہیں گی۔۔"
وہ مسکرا کر بولی ہانیہ نے بھی مسکرانے کی کوشش کی مگر اس کے دل کو اطمینان نہیں ہو رہا تھا۔ 
"ویسے ڈرنا تو مجھے چاہیے۔۔ اب آپ کے جانے کے بعد نجانے آپ کا جلاد بھائی میرے ساتھ کیا کیا کرے۔۔۔ "
خدیجہ منہ بنا کر بولی۔۔
"تم بس میرے بھائی کے پیچھے پڑی رہا کرو۔۔ "
ہانیہ نے اسے گھورا۔۔
"بس دل جو آ گیا ہے آپ کہ بھائی پر۔۔ کیا کروں۔۔ ان سے تو بے عزتی کروا کر بھی مجھے ایسے لگتا ہے جیسے انہوں نے اظہار محبت کر دیا ہو۔۔۔"
خدیجہ شرمانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولی تو ہانیہ ہنس دی۔ 
"بہت بڑی فلم ہو تم خدیجہ۔۔ "
"اور آپ کہ بھائی اس فلم کو فلاپ کروانے کے چکروں میں ہیں۔۔"
خدیجہ ہنستے ہوئے بولی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنید سٹیج پر۔ بیٹھا تھا جب اس کی نظر حسن اور کامران صاحب کے ساتھ اندر آتی ہانیہ پر پڑی۔۔ ہانیہ نے مہرون کام والے لہنگے کے ساتھ گولڈن دوپٹہ لیا ہوا تھا ۔۔ بال جوڑے میں قید تھے جس کی چند لٹیں آگے کو رول کی گئی تھیں ۔ خوبصورتی سے کیے گئے میک اپ میں خوبصورت جیولری پہنے وہ جنید کے دل کی دھڑکن تیز کر رہی تھی ۔۔۔
اسے سٹیج سے قریب آتا دیکھ کر جنید اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا۔۔
"بیٹھ جائیں بھائی جان بیٹھ جائیں۔۔ زیادہ اوور ہورہے ہیں آپ۔۔۔"
اسامہ نے اس کہ کان میں سرگوشی کی تو جنید نے اس کہ پیٹ میں کہنی ماری۔۔ وہ کراہتے ہوئے پیچھے ہوگیا۔۔۔
ہانیہ سٹیج کے قریب آئی تو جنید نے آگے بڑھ کر اپنا ہاتھ آگے کیا جسے جھجکتے ہوئے ہانیہ نے تھام لیا۔۔ وہ دونوں ایک ساتھ بیٹھے بہت مکمل لگ رہے تھے۔۔
کافی ساری رسموں کے بعد رخصتی کا وقت آیا تو سب کی آنکھیں بھیگ گئیں۔۔
"میری بیٹی کا خیال رکھنا جنید۔۔ میں نے بہت لاڈ پیار سے اسے پالا ہے۔۔ اسے کوئی تکلیف نہ آنے دینا۔۔"
کامران صاحب نے جنید سے بولے۔۔ کتنا مشکل لمحہ ہوتا ہے ایک باپ کے لیے اپنی بیٹی اپنے جگر کا ٹکڑا کسی کے والے کرنا۔۔۔ وہ بیٹی جس کی جھلک باپ دفتر سے آ کر سب سے پہلے دیکھنا چاہتا ہے اسے کسی اور کے حوالے کرنا کتنا مشکل ہے۔۔ وہ بیٹی جسے باپ خود انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے اسے اپنے ہاتھوں سے خود سے دور کرنا کتنا مشکل ہے۔۔ 
ہانیہ کی آنکھوں میں بہت آنسو آئے۔۔ کامران صاحب کے گلے لگتی وہ رو دی۔۔ جنید نے ہانیہ کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی۔۔ وہ اسے احساس دلانا چاہتا تھا کہ وہ اس کہ ساتھ ہے۔۔ وہ اسے اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتا تھا۔۔
پھر ہانیہ حسن فرزانہ بیگم تایا جان تائی جان سب سے ملی۔۔ خدیجہ وہاں کہیں بھی موجود نہیں تھی۔۔
"خدیجہ کہاں ہے۔۔؟ "
ہانیہ نے پوچھا۔۔
"وہ یہیں کہیں کونے میں بیٹھی رو رہی ہوگی۔۔"
حسن سر جھٹکتے ہوئے بولا تو سب مسکرا دیے۔۔ خدیجہ کی بات بہ بات رونے والی عادت سے تو سب پی واقف تھے۔۔
سب سے مل ملا کر ہانیہ جنید کے ہمراہ اپنے نئے گھر رخصت ہوگئی۔۔
"پیارا بھیا گھر میں لے کر آ گیا پریوں کی رانی۔۔۔ شادمانی ہو۔۔ شادمانی۔۔"
وہ دونوں گھر میں داخل ہوئے تو سب کزنز ان کہ استقبال کے لیے پھول لیے کھڑے تھے اور سب سے اونچی آواز میں اسامہ گانا گا رہا تھا۔۔
"اسامہ مجھے آج میرے بھائی کم بہن زیادہ لگ رہے ہو۔۔۔"
جنید مسکراہٹ دبا کر بولا۔۔
"اچھا ہے نا۔۔ ملٹی ٹیلینٹڈ ہوں۔۔ آپ کو بہن کی کمی محسوس نہیں ہونے دے رہا۔۔"
اسامہ فخر سے بولا۔۔
"ویسے بھابی ماں آپ بھی پریشان مت ہوں۔۔ میں آپ کو بھی نند کی کمی محسوس نہیں ہونے دوں گا۔۔ میں بڑی اچھی چائے بنا لیتا ہوں۔۔ ضرورت پڑنے پر روٹی بھی بنا لیتا ہوں اور اگر ماسی نا آئے تو جھاڑو پوچھا اور برتن بھی مانجھ لیتا ہوں۔۔ اور پارٹ ٹائم انٹرٹین بھی کر لیتا ہوں۔۔ "
اسامہ ہانیہ کو اپنی خوبیاں گنواتے ہوئے بولا تو سب ہنس دیے۔۔
"اور باتیں بنانے میں تو ہمارے بھائی نے ویسے ہی پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔۔۔"
عمیر نے اس کی ایک کوالٹی میں اضافہ کیا۔۔
"اور میں ان ڈاکٹر صاحب کی کِٹ بھی بڑی اچھی لگا لیتا ہوں۔۔ کبھی لڑائی وغیرہ ہو تو میرے سے ہی رابطہ کریے گا۔۔ "
وہ رازداری سے بولا۔۔
"ہاں جی ان سے ضرور رابطہ کریے گا۔۔ یہ اپنی پھپے کٹنی نیچر کے ساتھ آپ کی نا ہونے والی لڑائی بھی کروا دیں گے۔۔ "
عمیر نے دوبارہ لقمہ دیا تو اسامہ نے اسے گھورا۔۔۔
"چلو بھئی بچی کو اندر تو آنے دو۔۔ باہر ہی اسے پریشان کر دیا ہے۔۔"
سلمی بیگم بولیں۔۔
"اماں جان آپ کی یہ بچی بڑے حوصلے والی ہے۔۔ جب جنید صاحب سے شادی کر کہ پریشان نہیں ہوئی تو ہماری باتوں سے کیا ہوں گی۔۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ زندگی گزارنا بھی بھلا کسی جہاد سے کم تھوڑی نا ہے۔۔"
اسامہ مسکراہٹ دبا کر بولا تو جنید نے اس کہ سر پر زور سے تھپڑ مارا۔۔ اسامہ ڈھٹائی سے ہنس دیا۔۔
پھر وہ لوگ اندر چلے آئے۔۔ تمام رسموں کے بعد ہانیہ کو جنید کے کمرے میں لے جایا گیا۔۔
کمرہ پورا پھولوں سے سجا ہوا تھا۔۔ ہر طرف گلاب کے پھول بکھرے پڑے تھے۔۔ ہانیہ کو بیڈ پر بٹھا دیا گیا ۔۔ بظاہر تو وہ کمرہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا لیکن ہانیہ کو وہ پھول انگارے لگ رہے تھے۔۔ اسے اس کمرے سے اس کی ساری سجاوٹ سے وحشت ہونے لگی تھی۔۔ اس نے غصے سے اپنا دوپٹہ نوچ کر اتارا اور اپنی جیولری اتار کر ڈریسنگ پر پھینکی۔۔اس پر اس وقت وحشت تاری ہورہی تھی۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کر رہی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہٹو پیچھے یہاں کیوں کھڑے ہو۔۔؟ "
جنید نے اپنے کمرے میں داخل ہونا چاہا مگر وہ عمیر اور اسامہ دونوں اس کا راستہ روکے کھڑے تھے۔۔
"پیسہ نکالیں پیسہ ۔۔۔ "
اسامہ نے اس کہ آگے اپنا ہاتھ پھیلایا۔۔
"یہ کیا عورتوں والی حرکتیں کر رہو تم اسامہ۔۔؟ پیچھے ہٹو۔۔ تم کون سا میری بہن ہو جو۔۔ "
جنید اکتا کر بولا۔۔
"مجھے بھی اپنی بہن سمجھ لیں۔۔ اور اس معصوم کو دیکھیں۔۔ دیکھیں زرا غور سے کہ کہیں سے بھی یہ آپ کو بھائی لگتا ہے۔۔؟ بالکل ہماری بہن لگ رہا ہے۔۔ اس کی شکل دیکھ کر ہی پیسے دے دیں۔۔"
اسامہ عمیر کا منہ پکڑے دونوں طرف گھما گھما کر جنید کو دکھا رہا تھا۔۔
"پیچھے ہٹیں اسامہ بھائی۔۔ پیسوں کے پیچھے تو آپ نے میرا جنیڈر ہی بدل دیا ہے۔۔"
عمیر منہ بنا کر بولا۔۔
"دیکھا ۔۔؟ اس کی تو آواز بھی بہنوں جیسی ہے۔۔ "
اسامہ چہک کر بولا۔ 
"اسامہ اب بس کرو اس وقت میں تھکا ہوا ہوں صبح بات کر لیں گے۔۔"
جنید اکتا کر بولا۔۔
"مجھے تو ابھی پیسے چاہیں بس۔۔ جم کی فیس دینی ہے میں نے۔۔"
اسامہ منہ بنا کر بولا تو جنید نے اپنی پاکٹ سے اپنا والٹ نکال کر اسامہ کے منہ کی طرف مارنا چاہا لیکن اس نے پہلے ہی کیچ کرلیا۔۔
"پکڑو اسے اور اب میری نظروں سے دور ہوجاؤ۔۔"
جنید غصے سے بولا تو اسامہ اور عمیر یاہو کرتے وہاں سے نکل گئے۔۔ جنید سر جھٹکتا ہوا اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اندر کا حشر دیکھ کر وہ اپنا سر پکڑ کر رہ گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بس کرو خدیجہ اب۔۔۔ "
وہ مسلسل رو رہی تھی۔۔ سب اسے کافی دیر سے خاموش کروانے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہ چپ کرنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔ تائی جان اب تنگ آ کر بولیں۔۔
"میں اکیلی کیسے رہوں گی۔۔؟ مجھے بہت یاد آئے گی ہانی کی۔۔۔ "
وہ مسلسل ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھی۔۔
"حسن اسے تم ہی گھر لے کر آؤ۔۔۔"
تائی جان تنگ آکر بولیں اور وہاں سے نکل گئیں۔۔ کامران صاحب اور فرزانہ بیگم تھوڑی دیر پہلے ہی نکلے تھے۔۔
"بس کرو اب یہ ڈرامے اور اٹھو۔۔ "
حسن اکتا کر بولا۔۔ 
"جن کے خود کے کوئی جذبات نہیں ہوتے انہیں لوگوں کے جذبات ڈرامے ہی لگتے ہیں۔۔"
نم لہجے میں کہتی وہ وہاں سے اٹھ کر گئی حسن بھی اس کہ پیچھے آ گیا۔۔
"انسان کو اتنا جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔۔ لوگ بس آپ کہ جذبات کی نا قدری کرتے ہیں۔۔ "
حسن گاڑی میں بیٹھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔۔
"اس بات پر حیرت انگیز طور پر میں آپ سے اتفاق کرتی ہوں۔۔۔ لوگ چاہے آپ کہ کتنے ہی چاہنے والے کیوں نا ہوں۔۔ آپ کہ کتنے ہی اپنے کیوں نا ہوں۔۔ وہ ہمیشہ آپ کے جذبات کی نا قدری کرتے ہیں ۔۔ آپ کہ احساسات آپ کے جذبات ان کہ لیے کچھ معنی نہیں رکھتے۔۔ وہ بس وہی سوچتے ہیں وہی کرتے ہیں جو ان کا دل چاہتا ہے۔۔ ویسا ہی رویہ رکھتے ہیں آپ کہ ساتھ جو وہ رکھنا چاہتے ہیں۔۔ "
وہ بھی سنجیدگی سے بولی اور پھر رخ موڑ کر بیٹھ گئی۔۔
"جب سب پتا ہی ہے تو پھر اپنے دل کو مضبوط کر لینا چاہیے۔۔ خود کو اس سب کا عادی بنا لینا چاہیے۔۔ "
"اپنوں کے آگے انسان ہمیشہ کمزور ہوجاتا ہے حسن صاحب۔۔ خاص طور پر ان لوگوں کے سامنے جن سے آپ محبت کرتے ہوں جن پر آپ کو مان ہو۔۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولی تو حسن نے گردن موڑ کر اسے دیکھا اور پھر لب بھینچ کر خاموش ہوگیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنید کمرے میں داخل ہوا تو ہانیہ کا دوپٹہ اس کہ قدموں میں آیا ۔۔ جولیری ساری ڈریسنگ پر بکھری پڑی تھی جبکہ وہ اپنے سر سے پنیں نوچ رہی تھی۔۔ جنید تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔۔
"کیا کر رہی ہو ہانیہ چبھ جائے گی۔۔۔"
جنید نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا۔۔
"دور رہیں مجھ سے۔۔ ہاتھ مت لگائیں مجھے۔۔ "
وہ غصے سے بولی تو اپنا ہاتھ چھڑوایا۔۔
"کیا ہوگیا ہے ہانی۔۔؟ "
جنید نے حیرانی سے پوچھا۔۔
"بولا تھا میں نے نہں کرنی مجھے شادی۔۔ کہا تھے آپ سے کہ انکار کر دیں۔۔ نہیں کرنی تھی مجھے کسی سے بھی شادی۔۔ نہیں شروع کرنی مجھے نئی زندگی۔۔ رہنے دیں مجھے اس بیماری میں۔۔ مرنے دیں مجھے۔۔"
اس پر جنون سا طاری ہو رہا تھا۔۔ وہ نجانے کیا بول رہی تھی۔۔ آنسو بھی نکل رہے تھے ساتھ۔۔
"نہیں کرنی تھی مجھے شادی۔۔۔ آپ کی بھی زندگی خراب ہوئی ۔۔ میری تو پہلے ہی خراب ہو چکی ہے۔۔ کیوں آپ نے اپنے آپ کو اس عذاب میں داخل کر لیا۔۔؟ کیوں مجھ مصیبت کو اپنے سر لے لیا۔۔۔"
وہ غصے سے چیخ رہی تھی۔۔
"ہانی۔۔ طبیعت خراب ہوجائے گی تمہاری۔۔ "
جنید نے اسے سنبھالنا چاہا لیکن وہ قابو نہیں آ رہی تھی۔۔ اتنے دن کا غبار ایک ساتھ ہی نکل رہا تھا۔۔
"میں کسی کے قابل نہیں ہوں۔۔ میرے ساتھ آپ کی بھی زندگی خراب ہو گی۔۔ آپ مجھے چھوڑ دیں۔۔ اپنی جان چھڑوا لیں۔۔"
اب وہ اس کہ آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔۔ جنید نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے۔۔ جنید کے لیے اس کو سنبھالنا بہت مشکل ہوگیا تھا۔۔ ہانیہ نے اس کہ ہاتھ سے اپنے ہاتھ نکالے اور اپنا سر پکڑ لیا۔۔ اس کہ سر میں درد کی شدید لہر دوڑی تھی۔۔ اب وہ اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھامے صوفے پر ڈھے گئی۔۔ جنید نے فوراََ سے پہلے دراز سے میڈیسن نکالی۔۔ وہ جانتا تھا کہ ہانیہ کو اس وقت کیسی تکلیف ہو رہی تھی۔۔ اس نے فوراََ سے اسے پین کلر نکال کر دی۔۔ ہانیہ نے نڈھال ہوتے ہوئے دوا فوراََ اپنے منہ میں ڈال لی۔۔ دوا لینے کے کچھ دیر بعد ہی ہانیہ کی آنکھیں بند ہوئیں۔۔ وہ نیند کی وادی میں جا چکی تھی۔۔ جنید نے اسے بازووں میں اٹھا کر بیڈ پر لٹایا۔۔ اور اس پر کمبل ڈال کر خود اپنے کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا۔۔
کپڑے تبدیل کر کہ وہ واپس آیا تو ہانیہ ایک طرف کو کروٹ لے کر سو رہی تھی۔۔ اس کہ چہرے پر آنسوؤں کے نشان تھے۔۔ جنید نے زمین سے اس کا کامدار دوپٹہ اٹھایا۔۔ پھر اس کی جیولری سمیٹ کر دراز میں رکھی اور پھر بیڈ پر آ کر بیٹھ گیا۔۔ ہانیہ کے بالوں کو اس نے ساری پنوں سے آزاد کیا کہ اگر وہ کروٹ لیتی تو اسے تکلیف ہوتی۔۔ اس کہ بعد وہ اس کہ سر میں آہستہ سے انگلیاں پھیرتا رہا جب تک کہ اس کی اپنی آنکھ نا لگ گئی۔۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب ہانیہ کو بہت پیار سے بہت احتیاط سے سنبھالنا تھا۔۔ ہانیہ اب اس کی زمہ داری تھی۔۔ اس کی شریک حیات تھی۔۔ جنید کو ہی اب اس کا خیال کرنا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Where stories live. Discover now