Episode 19

2.4K 200 60
                                    

سب ڈنر کر رہے تھے جب باہر ہونے والی بیل کی آواز پر چونکے۔۔
"اس وقت کون آ گیا۔۔"
محمود صاحب بولے۔۔
"میں دیکھتا ہوں۔
جنید کہتا اپنی جگہ سے اٹھا۔۔ دروازہ کھولنے پر اسامہ کو دیکھ کر وہ حیران ہوا۔۔
"السلام علیکم۔۔
اسامہ زبردستی مسکراتے ہوۓ بولا۔۔ وہ اپنے دل کا حال کسی کو شو نہیں کروانا چاہتا تھا۔۔
"وعلیکم السلام۔۔ تم کہاں سے آ گئے۔۔؟ "
جنید نے حیرانی سے پوچھا۔۔
"آ تو میں دنیا میں چوبیس سال پہلے ہی گیا تھا مگر یہاں سیدھا ہاسٹل سے آیا ہوں۔۔"
اسامہ شرارت سے بولا۔۔
"ابھی ایک ہفتہ ہوا ہے تمہیں گئے تم پھر واپس آ گئے ہو۔۔۔"
جنید اسے جھڑکتے ہوئے بولا۔۔
"اندر آنے دیں گیں یا درس سننے یہیں زمین پر بیٹھ جاؤں۔۔؟ "
اسامہ کڑھتے ہوئے بولا تو جنید نے اسے راستہ دیا۔۔
اندر سب اسامہ کو دیکھ کر حیران تھے۔۔۔
"تم کہاں سے آگئے۔۔۔؟ "
سب نے حیرانی سے پوچھا۔۔
"ارے بھئی اب آ گیا ہوں تو سانس تو لینے دو مجھے۔۔ سوال پر سوال۔۔۔"
وہ منہ بناتے ہوئے بولا۔۔ پھر وہیں سب کہ ساتھ ڈنر کرنے بیٹھ گیا۔۔ کھانے کے بعد سلمہ بیگم لیونگ میں بیٹھ کر کوئی کتاب پڑھ رہی تھیں جب وہ ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔۔
"کیا ہوا ہے اسامہ۔۔؟ پریشان ہو۔۔؟ "
انہوں نے اس کہ سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔۔ وہ لاکھ خود کو کمپوز کر لیتا لیکن پھر بھی وہ اس کا بجھا بجھا سا چہرہ دیکھ کر پریشان ہوگئی تھیں۔۔
"آمنہ آنٹی کا انتقال ہوگیا ہے۔۔"
وہ آہستہ سے بولا۔۔ کرب سے آنکھیں میچ لیں۔۔
"اوہ کب۔۔؟ "
وہ حیران ہوئیں۔۔
"آج۔۔۔ میں ان سے ملنے گیا تھا۔۔ جب وہاں پہنچا تو گھر سے ان کا جنازہ نکل رہا تھا۔۔"
وہ دکھ سے بولا۔۔
"بہت دکھ ہوا۔۔ اللہ صبر دے ان کی بیٹی کو۔۔؟ اب وہاں اکیلی رہے گی وہ۔۔"
"مجھے نہیں پتا۔۔ مجھ سے تو اس کی حالت دیکھی ہی نہیں گئی۔۔ میں وہاں سے سیدھا یہاں آ گیا ہوں۔۔"
وہ آہستہ سے بولا۔۔
"تمہیں پوچھنا چاہیے تھا اس کو جا کر۔۔ پتا نہیں بچی بیچاری کا کیا بنے گا۔۔ "
وہ پریشانی سے کہہ رہی تھی۔۔
"اس وقت میں اتنا بے یقین تھا ماما۔۔ مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ایک ہنسا بستا انسان۔۔ کیسے اچانک دنیا چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔۔ اپنے پیچھے کسی کی زندگی ویران کر جاتا ہے۔۔ "
"یہ تو قدرت کا دستور ہے۔۔ ہر انسان کو یہاں سے چلے جانا ہے۔۔"
"لیکن پھر بھی ماما۔۔ جانے والا تو چلا جاتا ہے لیکن اس کے پیچھے رہ جانے والے کے لیے کتنی اذیت ہوتی ہے نا۔۔ اس پر پہلے ہی زندگی اتنی تنگ تھی اور اب۔۔۔ اب اس کی آخری امید بھی دم توڑ گئی۔۔۔"
"اسامہ اللہ اپنے بندے سے بے حد محبت کرتا ہے۔۔ وہ اسے اتنی ہی تکلیف اتنی ہی پریشانی دیتا ہے جتنی کہ بندہ سہہ سکے۔۔ اور ہر تکلیف کے ساتھ آسانی ہے۔۔ اگر اللہ انسان پر ایک دروازہ بند کرتا ہے تو اس کے لیے اس سے پہلے ہی دو اور دروازے کھول کر رکھتا ہے۔۔ اللہ بڑا بے نیاز ہے۔۔ وہ اپنے بندوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا ۔۔۔ "
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں۔۔۔
"بے شک۔۔"
وہ آہستگی سے کہہ کر ان کی گود میں کچھ دیر لیٹا رہا۔۔ پھر اٹھ کر ان کہ گلے لگ گیا۔۔
"مجھ سے کسی اپنے کا غم نہیں دیکھا جاتا۔۔ کسی جی تکلیف نہیں دیکھی جاتی ماما۔۔ میں کیا کروں۔۔؟ مجھے ہر وقت اپنوں کے کھونے کا خوف رہتا ہے۔۔ خدانخواستہ اگر مجھ سے کوئی میرا چھن گیا تو میں تو مر جاؤں گا جیتے جی۔۔ میں تو کبھی یہ برداشت نہیں کر پاؤں گا۔۔"
وہ ان کہ گلے لگ کر روتے ہوئے بولا۔۔ وہ جوان شخص۔۔ جو ہر وقت ہنستا مسکراتا تھا۔۔ ہر وقت دوسروں کے چہرے پر مسکان لانے کی کوشش کرتا تھا۔۔ ہر لمحہ ہر ایک کی مدد کرنے کے بہانے ڈھونڈتا تھا جو زندگی کو بھر پور طریقے سے جیتا آج فقط اپنوں کو کھونے کے ڈر سے رو رہا تھا۔۔
"فضول باتیں مت کرو اسامہ۔۔ جاؤ جا کر آرام کرو۔۔ صبح واپس بھی نکلنا ہے تمہیں۔۔"
وہ اسے جھڑکتے ہوئے بولیں تو وہ اپنے اوپر قابو کرتا وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اگلی صبح وہ واپسی کے لیے نکل گیا تھا۔۔ پہنچتے پہنچتے اسے شام ہوگئی تھی۔۔ وہ بہت ہمت کرتا آمنہ بیگم کے گھر کی طرف بڑھا۔۔  آج کل کی طرح رش نہیں تھا ۔۔۔ آج بہت ویرانی بہت خاموشی تھی۔  اس  نے ہمت کر کہ دروازے پر دستک دی تو کسی آدمی نے دروازہ کھولا۔۔  نین نقوش سے وہ اسے اقراء کا بھائی معلوم ہوتا تھا۔۔
"آپ کون۔۔۔؟ "
اس نے تیوری چڑھا کر پوچھا ۔۔
"مجھے مس اقراء سے ملنا ہے۔۔"
اسامہ سنجیدگی سے بولا۔۔
"کس سلسلے میں ملنا ہے اور آپ ہیں کون۔۔۔؟ "
"میں ان کا دوست ہوں اور تعذیت کرنے آیا ہوں ۔۔ "
"اوہ۔  تو میرے پیچھے یہاں دوستیاں بھی شروع کر دی ہیں اب اس لڑکی نے۔۔۔۔ نکلو یہاں سے تم  ۔۔ "
زبیر نے غصے سے اسامہ کو دکھا دیا۔۔۔
"اوہ مسٹر۔۔ تمیز کے دائرے میں وہ کر بات کرو اور اپنی گندی سوچ کو اپنے تک ہی رکھو۔۔ "
اسامہ بھی غصے سے بولا۔۔
"میرے گھر میں رہ کر میری بہن سے ملنے کی خواہش کر کہ تم مجھ سے تمیز سے بات کرنے کی توقع کر رہے ہو۔۔؟ "
"اس وقت تمہاری یہ غیرت کہاں تھی جب تمہاری بہن تمہاری بیمار ماں کو لیے ہسپتالوں میں دکھے کھا رہی تھی۔۔ اس وقت کہاں تھی غیرت تمہاری جب تمہاری ماں بستر مرگ پر پڑی تھی اور تمہیں ان کا حال پوچھنے کی بھی توفیق نہیں تھی۔۔؟ "
اسے غصے سے چلایا۔۔ اپنے کمرے کے دروازے سے لگی اقراء روتے ہوئے کانپ رہی تھی۔ 
"تمہیں ہمارے گھریلو معاملے میں بولنے کا کوئی حق نہیں ہے۔۔"
زبیر نے یہ کہہ کر دروازہ بند کرنا چاہا لیکن اسامہ نے اپنے ہاتھ سے اسے دروازہ بند کرنے سے روکا ۔۔۔
"مجھے حق ہے بولنے کا کیوں کہ میں وہ شخص ہوں جس نے تمہاری ماں کا علاج کروایا۔۔ میں وہ شخص ہوں جس نے تمہاری غیر موجودگی میں تمہاری ماں کا بیٹا بن کر دکھایا۔۔۔ "
اسامہ نے اسے بہت کچھ جتا دیا تھا۔۔
"تو اب تم کیا چاہتے ہو ہاں۔۔؟ میری بہن سے ہی ملنے کے بہانے آتے ہو گے۔۔۔؟ اب بتاؤ کیا چاہیے تمہیں۔۔۔ اگر صرف میری ماں کے لیے آتے تھے تو وہ تو مر گئی اب ۔۔۔ اب کیوں آئے ہو۔۔۔ کس سے ملنے آئے ہو۔۔۔؟ "
زبیر کے بہتان پر اسامہ گنگ سا اسے دیکھے گیا۔۔ آج کل کے زمانے میں کسی کے ساتھ نیکی کرنا بھی کس قدر مشکل ہے ۔۔۔ لوگ نفرت کرنے والوں کو سچا سمجھتے ہیں اور محبت بانٹنے والوں کو مدد کرنے والوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔۔
اسامہ کے پاس کہنے کو تو بہت کچھ تھا۔۔ اپنی صفائی میں اپنی وضاحت میں۔۔ مگر آج اس کا دل دکھا تھا۔۔ وہ خاموشی سے وہیں سے پلٹ گیا۔۔
"کیا تماشہ ہے یہ ۔؟ کون تھا یہ شخص ۔۔؟"
اسامہ کے جانے کے بعد زبیر اندر آیا اور اقراء کو اس کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا۔۔
"امی۔  امی کا علاج کرتے تھے یہ۔۔ ڈاکٹر اسامہ ہیں یہ  ۔۔۔"
وہ تکلیف سے کراہتے ہوئے بولی۔۔۔
"اقراء تمہارے جو بھی لچھن ہیں مجھے ان سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔۔۔ ایک ہفتے تک میں یہ گھر بیچ کر واپس چلا جاؤں گا ۔۔۔ اپنا حصہ لے کر تم جہاں مرضی جاؤ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔۔۔"
وہ سفاکی سے بولا تو اقراء نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔ 
"میں۔۔ میں کہاں جاؤں گی بھائی۔۔؟ میں اکیلی کیسے رہوں گی۔ ؟"
وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔
"تمہاری اتنی جو دوستیاں ہیں۔۔۔ رہ لینا ی کے ساتھ بھی لیکن اب میں مزید یہاں نہیں رہ سکتا۔۔ میری بیوی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ اور مجھے اس بار اپنا حصہ لے کر جانا ہے۔۔ پہلے میں بس امی کی وجہ سے خاموش تھا۔۔ اب میری ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے ۔۔ مجھے اپنا حصہ چاہیے۔۔ تم اپنے رہنے کا جہاں مرضی انتظام کرو ۔"
دو ٹوک لہجے میں کہتا وہ وہاں سے چلا گیا جبکہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔ ابھی اپنی ماں کے مرنے کا دکھ کم نا ہوا تھا کہ اب بھائی نے بھی اتنی بڑی اذیت دے دی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کھانا لگا دو بہت بھوک رہی ہے۔۔"
جنید کمرے میں داخل ہوتا ہوا بولا۔۔۔ ہانیہ خاموشی سے اٹھی اور کچن میں چلی گئی۔ جنید نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔۔ نہ کوئی سلام دعا نہ کوئی حال چال ۔۔ آگے تو وہ ایسا نہیں کرتی تھی۔۔ لیکن پھر وہ اپنا سر جھٹکتے ہوئے کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا۔۔۔ وہ کپڑے تبدیل کر کہ واپس آیا تو ہانیہ کھانا لگا چکی تھی۔۔ کھانا ٹیبل پر رکھ کر وہ بیڈ پر جاکر خاموشی سے بیٹھ گئی۔۔۔
"تم نے کھانا کھا لیا۔۔۔؟ "
جنید نے اسے خاموش دیکھ کر پوچھا مگر وہ خاموش رہی۔۔
"آج بہت دیر ہوگئی مجھے۔۔ ایمرجنسی کیس آ گیا تھا۔۔ بہت مصروف دن گزرا ہے آج کا ۔"
وہ خود ہی بات شروع کر رہا تھا مگر وہ ہنوز خاموش بیٹھی رہی۔۔۔ جنید نے نا سمجھی سے اسے دیکھا پھر کھانا کھانے میں مصروف ہوگیا۔۔۔ کھانا کھا کر وہ بستر پر آ کر لیٹا تو ہانیہ ہنوز ویسے ہی بیٹھی تھی۔۔
"کیا بات ہے ہانیہ ۔۔؟ کچھ ہوا ہے۔۔؟ "
جنید اٹھ کر اس کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا۔۔
"آپ کو کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔"
وہ نم لہجے میں بولی۔۔۔ غور سے اس کا چہرہ دیکھنے پر جنید کو معلوم ہوا کہ وہ بے آواز رو رہی تھی۔ 
"کیا ہوا ہے ہانیہ۔۔؟ رو کیوں رہی ہو۔۔۔؟ "
جنید نے پریشانی سے پوچھا لیکن وہ خاموش رہی۔
"طبیعیت خراب ہے۔۔؟ سر میں درد ہے۔۔؟ "
اس نے انداز لگایا۔۔۔
"آپ مجھ سے تنگ آ گئے ہیں نا اب۔۔ مجھ سے جان چھڑاتے ہیں آپ اس لیے روز دیر سے گھر آتے ہیں تاکہ میرے ساتھ وقت نا گزارنا پڑے۔۔"
وہ روتے ہوئے بلاآخر بول ہی پڑی جو وہ کب سے سوچ رہی تھی۔۔
"میں ایسا کیوں کروں گا ہانی۔۔؟ "
وہ حیرت سے بولا۔۔
"کیونکہ آپ مجھے نا پسند کرتے ہیں۔۔ مجھے زندگی میں شامل کر کہ آپ پچھتا رہے ہیں۔۔ میں بیمار ہوں۔۔ میں کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتی اس لیے آپ کا دل ہی نہیں کرتا مجھ سے بات کرنے کا۔۔ بس ماموں مامی کی وجہ سے آپ نے مجھ سے شادی کی ہے ورنہ آپ کو میں پسند نہیں تھی۔۔ آپ کے ساتھ زبردستی ہوئی ہے اور اب آپ اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔  "
وہ بے تحاشہ روتے ہوئے بول رہی تھی جبکہ وہ اس کہ اس طرح رونے پر پریشان ہوگیا۔۔
"ایسی بات نہیں ہے ہانی تم غلط سمجھ رہی ہو۔۔"
اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسے کیسے چپ کرواتا۔۔ آگے بھی وہ روتی تھی لیکن اپنی بیماری کی وجہ سے اور وہ اس میں اس کو ہینڈل کر لیتا تھا مگر آج وہ ان کہ رشتے کو مابین لا رہی تھی جبکہ جنید کو بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب وہ اسے کیسے سنبھالے۔۔۔ کیسے اپنی چاہت کا یقین دلائے۔  
"ایسی ہی بات ہے۔۔ آپ اب جان کر روز دیر سے گھر آتے ہیں۔  نا مجھے فون کرتے ہیں نا میرا حال پوچھتے ہیں۔  آپ مجھ سے تنگ آ گئے ہیں اب اور مجھے پتا ہے اب آپ دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔"
وہ پتا نہیں اپنی سوچوں میں کہاں سے کہاں پہنچی ہوئی تھی۔۔
"ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے ہانی۔۔ میں بس دو تین دن سے بے حد مصروف تھا اس لیے تمہیں وقت نہیں دے پایا۔۔۔ اس کہ لیے ایم ویری سوری۔۔ لیکن اس کا مطلب یہ تھوڑی نا ہے بے وقوف کے میں تم سے تنگ آ گیا ہوں یا تمہیں پسند نہیں کرتا۔۔ میں نا تم سے تنگ آیا ہوں نا تمہاری بیماری سے ۔۔۔ مجھے اچھا لگتا ہے تمہارا خیال رکھنا تمہاری کئیر کرنا۔۔ "
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے یقین دلاتے ہوئے بولا۔۔
"لیکن آپ مجھے نظر انداز کر رہے ہیں۔۔۔ میں بتا رہی ہوں میں اپنے جیتے جی آپ کو دوسری شادی کبھی نہیں کرنے دوں گی چاہے آپ مجھ سے جتنا بھی تنگ آ جائیں۔۔۔"
وہ روتے ہوئے اسے دھمکی دیتے ہوئے بولی تو اس کہ انداز پر جنید ہنس دیا۔۔
"یار تم کتنی پاگل ہو۔۔۔ میرے صرف تھوڑا سا نظر انداز کرنے پر کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہو۔۔ پھر بھی کہتی ہو مجھے پسند نہیں کرتی۔۔۔ مجھے تو یہ فکریں محبت کی علامات لگتی ہیں۔۔ "
جنید مسکراہٹ دبا کر بولا تو وہ روہانسی ہوئی ۔۔ 
"آپ ۔۔ آپ بہت برے ہیں ۔۔  آپ کو میری زرا فکر نہیں ہے ۔۔ "
اسے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اب وہ کیا بولے اس لیے روتے ہوئے یہی بول دیا ۔۔ 
"مجھے تمہارے علاوہ کسی کی فکر نہیں ہے۔۔۔ بس مصروف تھا اس لیے غلطی ہوگئی تمہیں نظر انداز کرنے کی مگر اب معاف کردو ۔۔ آئیندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔ "
وہ کان پکڑتے ہوئے بولا ۔۔
"آئیندہ ایسا کریں گے تو میں آپ سے کبھی بات نہیں کروں گی۔۔"
وہ اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی بولی۔۔
"اچھا اور کوئی حکم۔۔۔؟ "
جنید سر جھکا کر بولا تو ہانیہ ہنس دی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میں نے ارسلان بھائی سے واپس آنے کے لیے کہا ہے مگر وہ آپ کی وجہ سے نہیں آ رہے ۔۔ آپ انہیں کال کریں اور بلائیں واپس انہیں ۔۔"
خدیجہ غصے سے بولی۔۔ اب وہ مزید یہ سب برداشت نہیں کر سکتی تھی۔۔ جب ہانیہ اپنی زندگی میں خوش تھی اور ارسلان اپنے حصے کی سزا بھگت چکا تھا تو پھر اب یہ سارا تماشہ کیا مقصد رکھتا تھا۔۔ اس کی برداشت کی حد اب ختم ہوگئی تھی تو اس نے حسن سے دو ٹوک بات کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔
"میں جوئی فضول بات نہیں کرنا چاہتا خدیجہ۔۔۔ ایک بار جب کہہ دیا ہے کہ اس شخص سے کسی کا کوئی تعلق نہیں ہے تو مطلب نہیں ہے۔۔ بار بار ایک بات کرنے کا کوئی مقصد نہیں بنتا۔۔"
وہ بھی غصے سے بولا۔۔
"آپ کون ہوتے ہیں یہ تعلق ختم کرنے والے ۔۔؟ وہ میرے بھائی ہیں۔۔ میں جانتی ہوں ان سے غلطی ہوئی ہے مگر وہ معافی بھی مانگ چکے ہیں اور اپنے کیے کی سزا بھی بھگت چکے ہیں۔۔۔ "
"معافی مانگنے سے کچھ ٹھیک نہیں ہوتا ۔۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولا۔۔۔
"سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے اگر آپ اپنی ضد چھوڑ دیں۔۔۔ آخر آپ کہ ساتھ مسئلہ کیا ہے۔۔ ہانی اپنی زندگی میں خوش ہیں تو اب باقی سب کو بھی خوش رہنے دیں۔ جب وہ سیٹل ہو چکی ہیں تو آپ کی ضد کا کیا مقصد۔۔۔؟ "
وہ چلاتے ہوئے بولی ۔۔
"میں نے جو کہہ دیا بس کہہ دیا۔۔ اگر تمہیں زیادہ مسئلہ یا زیادہ اختلاف ہے تو میں تمہیں بھی اس رشتے سے آزاد کر دیتا ہوں۔۔ نبھاتی رہنا اپنے بھائی کے ساتھ رشتے ۔۔ مجھ سے جڑا ہر تعلق ختم کر دو اگر تمہیں اس سے کوئی تعلق رکھنا ہے تو۔۔"
حسن کے غصے سے بولنے پر خدیجہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔  اس کا سارا مان سارا بھروسہ کرچی کرچی ہوگیا تھا۔۔ یہاں تک کہ اس کی محبت بھی۔۔
"ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ۔۔ ختم کر دیں ایسے بے معنی تعلق کو۔۔ مجھے بھی کسی ایسے شخص سے تعلق نہیں رکھنا جسے میری خوشی میری چاہت کسی کا بھی احترام نہ ہو۔۔ جسے اپنے علاوہ اور کچھ نظر نا آئے۔۔۔ جسے اس رشتے کا ہی احساس نہ ہو۔۔ جو بار بار اس رشتے کو توڑنے کی دھمکیاں دے اس سے بہتر ہے کہ اس رشتے کو ختم کر دیا جائے۔۔ میں بھی ایسے شخص پر اپنی زندگی ضائع نہیں کرنا چاہتی جو مجھ سے محبت کا روادار تو ہو مگر عزت دینا نا جانتا ہو۔۔ "
نہایت غم اور غصے کے ملے جلے تاثرات سے کہتی وہ وہاں سے چلی گئی جبکہ وہ وہیں سن کھڑا رہ گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Where stories live. Discover now