Episode 10

2.3K 193 47
                                    

"اللہ تعالیٰ پلیز مجھے ایک موقع دے دیں اپنی غلطی سدھارنے کا۔۔"
وہ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد جائے نماز پر بیٹھا دعا گو تھا۔۔
"میرا مقصد کسی کا دل دکھانا نہیں تھا۔۔ پتا نہیں کیسے مجھ سے اتنی بڑی غلطی ہوگئی میری وجہ سے کوئی جتنا دکھی ہوگیا ہوگا۔۔ پلیز مجھے معاف کر دیں اور میری غلطی سدھارنے کا ایک موقع دے دیں مجھے۔۔"
وہ عاجزی سے کہہ رہا تھا۔۔ اپنے کہے الفاظ پر اب وہ بے حد پشیمان تھا۔۔۔ دعا مانگنے کے بعد اس کا دل کچھ پرسکون ہوا تو وہ اٹھ کر واپس ہاسٹل آیا اور اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔۔
"بس کرو یار اسامہ ایک ہفتہ ہوگیا ہے اس بات کو اور تم اب تک دل سے لگا کر بیٹھے ہو۔۔"
رضا اس کہ پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔۔
"یار مجھے بہت گلٹ فیل ہو رہا ہے رضا۔۔ مجھے کسی کے لیے اتنے تلخ الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہیے تھے۔۔ وہ پریشان تھی مجھے اس کی مدد کرنی چاہیے تھی اگر مدد نہیں کرسکتا تھا تو کم از کم خاموش رہنا چاہیے تھا لیکن میں نے اپنا سارا غصہ اس بیچاری پر اتار دیا۔۔ "
وہ افسوس سے کہہ رہا تھا۔۔
"چلو یار۔۔ اب تو کچھ نہیں ہوسکتا نا۔۔ تم بس اس کہ لیے دعا کر دو اللہ اس کی مشکل آسان کرے۔۔"
"ہاں بس اب تو دعا ہی کر سکتا ہوں۔۔ "
وہ آہستہ سے بولا۔۔
"چلو اب اٹھو اور تیار ہو جاؤ آج جلدی فارغ ہونا ہے اور شاپنگ پر بھی جانا ہے۔۔"
رضا اسے اٹھاتے ہوئے بولا۔۔
"کیوں بھئی شاپنگ کیوں کرنی ہے۔۔؟ "
اسامہ نا سمجھی سے بولا۔۔
"او پاگل دو دن بعد تمہاری برتھ ڈے ہے اور یاد نہیں ہمیں سکول جانا ہے بچوں کے ساتھ سیلیبریٹ کرنے۔۔ تو ان کے لیے چیزیں تو چاہیے ہوں گی نا۔"
رضا کہ بتانے پر اسامہ نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا۔۔
"اوہ میرے ذہن سے بالکل نکل گئی تھی یہ بات۔۔ چلو میں نہا کر آتا ہوں پھر ہاسپٹل چلتے ہیں اس کہ بعد مال چلیں گے۔۔"
اسامہ جلدی سے کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔ رضا اور اسامہ دونوں ہی چیرٹی کہ بہت کام کرتے تھے۔۔ رضا بھی اسامہ کا بھرپور ساتھ دیتا تھا۔۔ وہ اپنی ہر خوشی ہر تہوار انہی بچوں کے ساتھ منایا کرتے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ماما مجھے بات کرنی ہے آپ سے۔۔ "
آج جنید جلد ہی فارغ ہوگیا تھا اس لیے گھر آکر سلمی بیگم سے بولا۔۔
"خیریت آج تم جلدی گھر کیسے آ گئے۔۔؟ "
وہ اسے گھر دیکھ کر حیران ہوئیں۔۔
"بس میں نے سوچا آج آپ کہ ساتھ ٹائم سپینڈ کر لوں۔۔"
وہ شرارت سے بولا۔۔
"ہاں جی پتا ہے مجھے تمہارا۔۔ چلو بتاؤ کیا بات ہے۔۔
ان کہ کہنے پر وہ ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔۔ ایک سکون کی لہر اس کہ اندر دوڑ گئی تھی۔۔ اولاد چاہے جتنی بھی بڑی ہوجائے جو سکون ماں کی گود میں ملتا ہے وہ دنیا کی کسی آسائش سے نہیں ملتا۔۔
"آپ بڑی اکیلی ہو جاتی ہیں نا آج کل۔۔ "
جنید نے بات شروع کی۔۔
"سو تو ہے۔۔ "
"اور پھر اب آپ سے کھانا بھی نہیں بنتا۔۔"
وہ اس کی بات سمجھ گئی تھیں اس لیے مسکراہٹ دبائی۔۔
"ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔۔ "
"اور آپ چاہتی ہیں میں شادی بھی کر لوں اب۔۔"
"ہاں بالکل یہی چاہتی ہوں میں۔۔"
"اب جب آپ سب کی اتنی ہی خواہش ہے تو ٹھیک ہے کر دیں مسکراہٹ دبا کر بولا تو سلمی بیگم نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
"واقعی۔۔؟ تم شادی کے لیے تیار ہو۔۔؟ "
وہ خوشی سے بولیں۔۔
"ہاں جی۔۔ اس سے پہلے کوئی مجھ سے شادی کے لیے تیار نا ہو میں ہی شادی کے لیے تیار ہو جاتا ہوں۔۔ "
وہ مسکرا کر بولا۔۔
"ایسے ہی۔۔ میرا چاند سا بیٹا ہے کوئی کیوں اس سے شادی نہیں کرے گا۔۔ "
وہ پیار سے بولیں۔۔
"ماؤں کو تو اپنے بیٹے چاند جیسے ہی لگتے ہیں۔۔ چاہے بیچ میں بڑا سا گرہن بھی لگا ہوا ہو۔۔ "
وہ شرارت سے بولا۔۔
"چلو شکر ہے تم راضی تو ہوئے شادی کے لیے۔۔ "
وہ خوشی سے بولیں۔۔
"آپ پھپھو سے بات کرلیں۔۔ لے جائیں رشتہ ان کہ گھر۔۔ "
"کیا۔۔۔؟ تم ہانیہ سے شادی کرنے کے لیے راضی ہو۔۔؟
وہ حیرت سے بولیں۔۔۔
"اب جب لڑکی گھر میں موجود ہے تو آپ کیا باہر ڈھونڈتی پھریں۔۔ میں تو بس آپ کی آسانی کے لیے ہی کہہ رہا ہوں۔۔ "
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔
"بہت خوشی کی بات ہے جنید۔۔ مجھے بہت خوشی ہوئی ہے تمہارے اس فیصلے سے۔۔ "
وہ خوشی سے بولیں۔۔
"ماما آپ بس دعا کریں میرے حق میں بہتر ہو یہ فیصلہ۔۔"
وہ ان کہ ہاتھ تھام کر بولا۔۔
"مجھے پورا یقین ہے تمہارے حق میں بہترین ہوگا یہ فیصلہ۔۔ میں آج ہی تمہاری پھپھو سے بات کرتی ہوں بلکہ پہلے تو اسامہ کو یہ خبر سناتی ہوں اسے سب سے زیادہ انتظار تھا۔۔ "
وہ خوشی سے کہہ رہی تھیں۔۔
"میری پیاری اماں تھوڑا تو صبر کریں اتنی کیا جلدی ہے۔۔ "
"مجھے بہت جلدی ہے بھئی۔۔ پہلے ہی تم اتنی لیٹ کر چکے ہو۔۔"
وہ دورا اٹھ کر اپنا موبائل لینے چلی گئیں تو جنید بس مسکرا کر رہ گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بڑی کوئی فلم ہیں آپ ویسے۔۔ میری اتنی بے عزتی کی اور اب خود رشتے سے ہاں کر کہ بیٹھ گئے ہیں۔۔۔؟ "
اسامہ کو جیسے ہی خبر ملی تھی اس نے سب سے پہلے جنید کو کال کر کہ باتیں سنانا اپنا فرض سمجھا تھا۔۔
"یار میں تو بس ماما بابا کی وجہ سے راضی ہوا ہوں۔۔ "
جنید خفیف سا بولا۔۔
"میسنے کہیں کے۔۔ اچھے سے پتا ہے مجھے آپ کیوں راضی ہوئے ہیں۔۔ توبہ ہے بھئی بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے میں اتنی محنت سے آپ کو لڑکی ڈھونڈ کر دی۔۔ اور آپ نے میری اتنی عزت افزائی کردی۔۔ آپ کو تو کسی نے ٹافی بھی نہیں دینی تھی اور میں نے آپ کو گھر بیٹھے لڑکی ڈھونڈ دی۔۔ احسان مانے میرا۔۔ "
وہ مسلسل بولے جا رہا تھا۔۔
"توبہ ہے اسامہ بس بھی کرو۔۔"
"ہاں ہاں اب میری باتیں کیوں سننی آپ نے۔۔ اب تو اور لوگوں کی آواز سننے کے منتظر ہوں گے آپ۔۔ "
وہ شرارت سے بولا۔۔
"ابھی صرف بات ہوئی ہے رشتے کی ۔۔۔ منگنی نہیں ہو گئی۔۔ "
"منگنی بھی ہوجائے گی ڈاکٹر صاحب۔۔ زرا صبر تو کریں۔۔ "
"میں تو صبر سے ہی بیٹھ ہوں میرے سے زیادہ تو تم لوگوں کو جلدی ہے۔۔ "
"ہاں بھئی مجھے تو بہت جلدی ہے۔۔ اب ظاہر سی بات ہے آپ کی شادی ہوگی ایک آدھ چنو منو آئے گا تو میرا نمبر لگے گا۔۔ "
اسامہ شرارت سے بولا تو جنید خفیف ہوا۔۔
"بہت فضول بکواس کرتے ہو تم۔۔ "
"فضول بکواس تھوڑی نا ہے۔۔ مجھے تو اپنی شادی کی فکر ہے بھئی۔۔"
"میری رہنے دیتے ہیں پہلے تمہاری ہی کر دیتے ہیں۔ "
"خیال تو بہت نیک ہے آپ کا لیکن زمانہ کیا کہے گا۔۔؟  چھوٹے والے کو زیادہ آخر آئی ہوئی تھی۔۔"
اسامہ منہ بسور کر بولا تو جنید نے قہقہہ لگایا۔۔
"تم کتنے فارغ ہو اسامہ۔۔؟ کوئی کام نہیں ہے تمہیں فضول باتوں کے علاوہ۔۔ "
جنید تنگ آ کر بولا۔۔
"قسم لے لیں کام تو بہت ہیں مگر کرنے کا کچھ بھی دل نہیں کر رہا۔۔ "
اسامہ منہ بنا کر بولا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سلمی بھابھی کا فون آیا تھا۔۔ "
رات کو کھانے کے بعد وہ چائے لے کر کمرے میں آئیں اور کامران صاحب سے بولیں۔۔
"اچھا کیا کہہ رہی تھیں۔۔؟ "
وہ ان کی طرف متوجہ ہوئے۔۔
"رشتے کی بات کر رہی تھیں۔۔"
"کس کے رشتے کی۔۔؟ "
وہ حیران ہوئے۔۔
"جنید کے لیے ہانیہ کا رشتہ مانگ رہی تھیں۔۔ "
"کیا۔۔؟
وہ بے یقینی سے بولے۔۔
"مجھے بھی بہت حیرت ہوئی تھی ان کی بات سن کر لیکن وہ بہت چاہت سے رشتہ مانگ رہی تھیں۔۔ "
"یہ تو بہت خوشی کی بات ہے فرزانہ ۔۔ جنید بہت اچھا لڑکا ہے۔۔ اللہ نے ہماری بیٹی کے لیے بہت آسانی پیدا کر دی ہے۔۔ "
وہ خوشی سے بولے۔۔
"میں تو خود حیران ہوں قدرت پر۔۔ کتنے پریشان تھے ہم ہانیہ کے لیے اور اللہ نے کیسے آسانی پیدا کر دی۔۔ "
وہ بھی مسکراتے ہوئے بولیں۔۔
"میں تو کہتا ہوں کل ہی بھائی جان سے مشورہ کر کہ انہیں مثبت جواب دے دوں۔۔ نیک کام میں کوئی دیری نہیں ہونی چاہیے۔۔ "
"دل تو میرا بھی یہی ہے کہ فورا ہاں کر دوں کیونکہ انکار کا تو کوئی جواز ہی نہیں بنتا مگر مجھے ہانیہ کی طرف سے ڈر ہے۔۔ وہ ابھی پوری طرح سنبھلی نہیں ہے بات بات پر بہت جذباتی ہو جاتی ہے اب نجانے اس بات پر کیسے ریکٹ کرے گی۔۔۔ "
وہ پریشانی سے بولیں۔۔
"اسے پیار سے سمجھائیں گے تو وہ سمجھ جائے گی۔۔ ہانیہ کو اس فیز سے نکالنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے فرزانہ۔۔ اور جنید کی وجہ سے تو وہ بہت جلد بہتر ہو سکتی ہے۔۔ میرے خیال میں تو ہانیہ سے تم کل ہی بات کر لو۔۔ اگر وہ نہیں سمجھے گی تو میں بات کروں گا اس سے۔۔ مجھے یقین ہے میری بات کا کبھی انکار نہیں کرے گی وہ۔۔"
وہ انہیں سمجھاتے ہوئے بولے۔۔
"جی میں کوشش کرتی ہوں ہانیہ سے بات کرنے کی۔۔ اللہ بس میری بچی کہ حق میں سب بہتر کرے۔۔ "
"ان شا اللہ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ماما چلیں نا اب۔۔ "
عمیر کوئی دسویں بار ان سے کہہ چکا تھا۔۔
"صبر تو کرو عمیر مجھے ساری چیزیں تو رکھنے دو۔۔ "
سلمی بیگم بولیں۔۔
"مٹھائی بھی رکھ لیں بیگم۔۔ میں تو آج ہی ہاں کروا کر آؤں گا۔۔ "
محمود صاحب بولے۔۔ جنید صوفے پر بیٹھا ہاتھوں کی مٹھی بنا کر ہونٹوں پر رکھے ان سب کی کاروائیاں دیکھ رہا تھا ۔۔
"اگر ان لوگوں نے انکار کر دیا تو۔۔؟ "
محمود صاحب کی بات پر جنید بولا تو سب نے اسے گھورا۔۔
"آپ تو چپ ہی کر جائیں نا بھائی۔۔ "
عمیر ناراضگی سے بولا۔۔
"تم بیٹھو رہو ایسے ہی۔۔ میں تو شادی کی تاریخ بھی لے کر آؤں گی۔۔ "
سلمی بیگم جوش سے بولیں تو جنید نے سر جھٹکا۔۔
"تم بھی ہمارے ساتھ ہی چلو جنید۔۔ ہم کونسا کسی غیر کے گھر جا رہے ہیں۔  تمہاری پھپھو ہی تو ہیں۔۔
محمود صاحب بولے۔۔۔
"نہیں بھئی آپ لوگ ہی جائیں میں تو آرام کروں گی۔۔ "
وہ صوفے سے اٹھتا ہوا بولا۔۔
"بھائی شرما رہے ہیں۔۔ "
عمیر شرارت سے بولا۔۔
"چپ کر چھوٹے۔۔ اسامہ کی صحبت کا اثر تم پر بھی ہو رہا ہے۔۔ "
جنید اس کہ سر پر چپت لگاتا ہوا بولا۔۔
"اسامہ بھائی کو تو میں بہت مس کر رہا ہوں۔۔ اگر وہ یہاں ہوتے تو سہی شغل لگتا۔۔ "
عمیر اداسی سے بولا۔۔
"شکر کرو وہ یہاں نہیں ہے ورنہ بول بول کر مجھے پاگل کر دیتا۔۔ "
جنید سنجیدگی سے کہتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جنید بھائی کیوں نہیں آئے مامی۔۔؟ "
وہ لوگ ان کہ گھر پہنچ چکے تھے۔۔ سب لوگ ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے جب جنید کی غیر موجودگی کو محسوس کر کہ ہانیہ نے سوال کیا۔۔  ہانیہ کے سوال پر سب کہ چہروں پر معنی خیزی مسکراہٹ آئی جسے اس نے نا سمجھی سے دیکھا۔۔
"وہ تھکا ہوا تھا اس لیے آج جلدی ہی سو گیا۔۔ "
ممانی جان بولیں۔۔
"جاؤ ہانیہ بیٹا چائے لے کر آو۔۔"
فرزانہ بیگم ہانیہ سے بولیں تو وہ کچن میں آگئی البتہ مٹھائیوں کے ڈبے دیکھ کر اسے کچھ کھٹکا محسوس ہوا۔۔ وہ الجھن سے سوچ رہی تھی پھر اپنا سر جھٹک کر چائے بنانے لگی۔۔
"ویسے تو سلمی کی بات ہوگئی تھی فون پر فرزانہ سے مگر ہم چاہتے تھے کہ خود آ کر رشتہ مانگیں۔۔"
محمود صاحب نے بات شروع کی۔۔
"آپ کو تو پتا ہی ہے محمود بھائی کیسی آزمائش آئی ہے میری بیٹی پر۔۔ اب لوگ تو سب جانتے ہی ہیں اس کہ بارے میں ۔۔ "
فرزانہ بیگم بولیں۔۔
"ہانیہ کے ساتھ جو بھی ہوا ہے اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے فرزانہ۔۔ ہم بہت چاہت سے ہانیہ کا ہاتھ مانگنے آئے ہیں۔۔۔ ہمیں امید ہے انکار نہیں ہوگا۔۔۔ "
سلمی بیگم بولیں۔۔
" انکار کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں بنتی بھابی۔۔ آپ نے جنید سے بات کی۔۔؟ اس پر کوئی زبردستی تو نہیں کر رہے آپ لوگ۔۔؟ "
فرزانہ بیگم کو جو خدشہ تھا وہ بالآخر زبان پر آ ہی گیا۔۔
"جنید کی رضامندی سے ہی ہم یہ رشتہ لائے ہیں۔۔"
محمود صاحب بولے۔۔
"بس پھر ہماری طرف سے تو کوئی اعتراض ہے ہی نہیں۔۔ "
کامران صاحب بولے۔۔
"چلیں بھئی پھر تو مبارک ہو بہت بہت کہاں ہے ہماری بیٹی۔۔ "
سلمی بیگم خوشی سے بولیں۔۔ اسی لمحے ہانیہ چائے لیے اندر داخل ہوئی۔۔ سلمی بیگم نے اس کہ ہاتھ سے ٹرے پکڑ کر ٹیبل پر رکھا اور اسے اپنے ساتھ لگا کر صوفے پر بیٹھ گئیں۔۔
"اب سے یہ ہماری امانت ہے فرزانہ۔۔ "
یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنے بیگ سے انگوٹھی نکالی اور ہانیہ کے ہاتھ میں پہنا دی۔۔ ہانیہ منہ کھولے یہ ساری کاروائی دیکھ رہی تھی اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے۔۔ 
"بہت بہت مبارک ہو سب کو۔۔ "
سب ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔۔ ہانیہ نا سمجھی سے سب دیکھ رہی تھی ۔۔۔
"اب ہمیں تاریخ بھی دے دیں ہم کب ہانیہ کو اپنے جنید کی دلہن بنا کر لے جائیں۔۔؟ "
سلمی بیگم کہ کہنے پر ہانیہ نے پہلے حیرت سے انہیں دیکھا اور پھر اپنی ماں کو۔۔ ایک لمحے کو تو اسے اپنی سماعت پر یقین ہی نہیں آیا تھا اور جب اسے یقین آیا تو اس کی آنکھیں فوراََ ہی بھیگیں۔۔ وہ ایک جھٹکے سے وہاں سے اٹھی اور اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیا۔۔
سب اس کی اس حرکت کو اس کی جھجک اور شرم سمجھ رہے تھے۔۔۔
"دراصل ہم نے ابھی ہانیہ سے بات نہیں کی۔۔ وہ آجکل اپنی طبیعت کی وجہ سے ہر بات پر جذباتی ہو جاتی ہے اس لیے آپ ہمیں تھوڑا سا وقت دیں شادی کی تاریخ کے لیے۔۔ "
فرزانہ بیگم بولیں۔۔
"کوئی بات نہیں فرزانہ۔۔ بچی ہے ابھی وہ۔۔ بچیاں گھبرا جاتی ہیں ایسی سچویشن سے ۔۔ آپ لوگ تسلی سے اسے سمجھا لیں پھر ہم شادی کی تاریخ طے کر لیں گے۔۔ "
وہ مسکراتے ہوئے بولیں تو سب اپنی باتوں میں لگ گئے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مبارک ہو بہت بہت ۔۔۔"
گھر آ کر سلمی بیگم نے جنید کا ماتھا چوم کر اسے مبارک باد دی۔۔
"اتنی جلدی کر بھی آئے رشتہ۔۔؟ "
وہ حیران ہوا۔۔
"ہاں تو میرے بیٹے کو کسی نے انکار تھوڑی نا کرنا تھا۔  "
وہ فخر سے بولیں تو وہ مسکرایا۔۔ پھر محمود صاحب نے بھی اسے مبارک باد دی۔۔ وہ خوش تھا مگر ایک بات اسے کھٹک رہی تھی کہ جانے ہانیہ بھی خوش تھی یا نہیں۔۔ وہ جاننا چاہتا تھا لیکن ماما بابا سے پوچھنے میں اسے جھجک محسوس ہو رہی تھی اس لیے ان کہ جانے کے بعد وہ عمیر کے کمرے کی طرف بڑھا۔ 
"میرا پیارا بھائی سو تو نہیں گیا۔۔ "
جنید اس کہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔۔۔
"میں کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔۔؟ آپ اور مجھ سے اتنی محبت سے بات کر رہے ہیں۔۔۔؟ "
عمیر اپنی آنکھوں کے آگے ہاتھ ہلاتے ہوئے بولا۔۔
"تم دونوں بھائیوں کو نا عزت راس ہی نہیں آتی۔۔ "
"کبھی ملی جو نہیں اتنی عزت۔۔ "
عمیر کندھے اچکا کر بولا۔۔
"اچھا سنو۔۔ مجھے بتاؤ وہاں کیا کیا باتیں ہوئیں۔۔؟
جنید اس کہ پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔۔
"ہائے اللہ بھائی آپ کیا مشرقی لڑکیوں کی طرح پوچھ رہے ہیں۔۔ "
عمیر ہنستے ہوئے بولا۔۔
"ہنسو مت۔۔ تمیز سے بتاؤ مجھے ہانیہ کا کیا ریکشن تھا۔۔؟ "
جنید اصل بات کی طرف آیا۔۔
"ان کا ریکشن بڑا بلینک سا تھا۔۔ شاید پھپھو نے انہیں بتایا نہیں تھا۔۔۔ ماما نے جیسے ہی انہیں انگھوٹی پہنائی وہ فورا اپنے کمرے میں چلی گئیں تھیں۔۔ "
عمیر نے اسے تفصیل بتائی۔۔
"اچھا۔۔
جنید پر سوچ انداز میں بولا۔۔ اسے اب پتا لگ گیا تھا کہ ہانیہ کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا۔۔ اگر اسے پتا ہوتا تو وہ کبھی راضی نا ہوتی۔۔ ہانیہ کی مرضی کے خلاف وہ یہ رشتہ نہیں جوڑنا چاہتا تھا۔۔ اسے ہانیہ سے بات کرنی تھی۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا وہ کسی دباؤ میں آکر یہ رشتہ قبول کرے۔۔ وہ پوری رضامندی کے ساتھ اس کی زندگی میں شامل ہونا چاہتا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Where stories live. Discover now