Episode 9

2.2K 196 71
                                    

"السلام علیکم امی۔۔۔"
اقراء گھر میں داخل ہوتی اونچی آواز میں بولی۔۔
"امی کدھر ہیں آپ۔۔؟ "
جواب نا ملنے پر اس نے پریشانی سے دوبارہ آواز دی لیکن جواب پھر ندارد۔۔ وہ بھاگتی ہوئی کچن میں آئی وہ وہاں بھی موجود نہیں تھیں وہ کمرے میں گئی تو وہ بیڈ کے پاس زمین پر گری پڑی تھیں۔۔ وہ فورا ان کی طرف بھاگی۔۔
"امی۔۔ امی کیا ہوا ہے آپ کو۔۔؟
اٹھیں امی آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں۔۔۔؟ "
ان کی ایسی حالت دیکھ کر وہ حواس باختہ سی ہوئی پھر فورا ہی اٹھ کر ایمبولینس کو فون کیا۔۔ آنکھوں سے آنسو متواتر بہہ رہے تھے۔۔ کسی اپنے کو تکالیف میں دیکھنا بہت اذیت ناک لمحہ ہوتا ہے۔۔
کچھ ہی دیر میں ایمبولینس آ چکی تھی۔۔ اسے کچھ ہوش نہیں تھا کس طرح سے ان لوگوں نے انہیں اٹھا کر ایمبولینس میں ڈالا کس طرح سے وہ انہیں لے کر ہسپتال پہنچے اور انہیں ایمرجنسی میں ایڈمیٹ کر دیا گیا۔۔
وہ باہر بینچ پر دونوں ہاتھوں میں اپنا سر گرائے بیٹھی تھی۔۔ اس کی ماں ہی اس کا کل سرمایہ تھی۔۔ ان کے علاوہ اس کے پاس کوئی رشتہ نہیں تھا فقط ایک نام نہاد بھائی تھا جو کہ ضرورت کے وقت ان کے کبھی کام نہیں آیا تھا۔۔ اس کی ہر سانس ان کے لیے دعا گو تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ڈاکٹر اسامہ ایک ایمرجنسی کیس ہے۔۔ اس وقت کوئی بھح سینیئر ڈاکٹر موجود نہیں ہے اس لیے پلیز آپ دیکھ لیں۔۔۔"
اس نے نائٹ ڈیوٹی بھی کی تھی اور صبح تک اپنی شفٹ پوری کر کہ اب وہ گھر کے لیے نکل ہی رہا تھا جب نرس ایک بری خبر لیے اس کہ سامنے کھڑی تھی۔۔
"کیا مصیبت ہے بئی۔۔؟ میرے علاوہ اور کوئی بھی موجود نہیں ہے کیا۔۔؟ "
وہ چڑتے ہوئے بولا۔۔
"نہیں سر سب لنچ بریک پر گئے ہیں ۔۔۔"
"عجیب ٹینشن ہے بھئی دنیا جہان کے لوگوں کو آج ہی بیمار ہونا تھا اور اسی ہسپتال آنا تھا۔۔۔ "
وہ غصے سے کہتا اسی کمرے کی طرف بڑھا جس کا نرس نے بتایا تھا۔۔ ساری رات جاگنے کی وجہ سے اور مریضوں کو دیکھ دیکھ کر اس کی بس ہو چکی تھی اور اب ایک نئے کیس کا سن کر اس کا دماغ مزید گھوم گیا تھا مگر وہ منہ پر پانی کے چھینٹے مارتا روم میں چلا گیا۔۔
"مائنر سا انجائنہ اٹیک ہے یار اویں اتنا رولا ڈال دیتی ہیں عورتیں ۔۔۔ "
انہیں چیک کرنے کے بعد وہ منہ بنا کر بولا اور دوائیاں وغیرہ دے کر وہ اپنے کیبن میں چلا گیا۔۔ اب وہ گھر نہیں جا سکتا تھا کیونکہ ان کہ ہوش میں آنے کے بعد انہیں دوبارہ چیک کرنا تھا تو اس لیے وہ دوبارہ کیبن میں ہی آ کر بیٹھ گیا تھا۔۔
"کیسی طبیعت ہے میری مدر کی۔۔ کیا ہوا ہے ان کو۔۔؟ "
اسامہ کے باہر نکلنے کے بعد نرس باہر آئی تو اقراء فوراََ اس کی طرف بڑھی۔۔
"انجائینہ اٹیک ہوا تھا ان کو۔۔ اب وہ ٹھیک ہے کچھ دیر بعد ہوش میں آئیں گی تو آپ مل لیجیے گا۔۔ "
نرس کے بتانے پر اس نے سکھ کا سانس لیا مگر پریشانی مزید بڑھ گئی کیونکہ اب ان کی طبیعت دن بہ دن بگڑتی چلی جا رہی تھی۔۔
"یہ کچھ ٹیسٹ کروانے ہیں ان کہ۔۔ آپ ریسیپشن پر بل جمع کروا لیں تاکہ میں سیمپل آگے پروسیڈ کر دوں۔۔ "
نرس نے اسے ایک پرچا تھمایا جسے اقراء نے کانپتے ہاتھوں سے تھام لیا۔۔
"کتنے تک کہ ہوں گے یہ ٹیسٹ۔۔؟ "
وہ بمشکل بولی۔۔
"مجھے اندازہ نہیں ہے آپ ریسیپشن سے پوچھ لیں اور ادھر ڈاکٹر کا کیبن ہے۔۔ آپ ان سے اپنے پیشنٹ کی کنڈیشن کے بارے میں بریفنگ لے لیں۔۔ "
نرس یہ کہتی وہاں سے چلی گئی جبکہ وہ بمشکل اپنا آپ سنبھالتی پہلے ریسپشن کی طرف بڑھی۔۔
"یہ تین ٹیسٹ ہیں ہر ٹیسٹ 5 ہزار کا ہے تو تینوں کا پندرہ ہزار ہو جائے گا۔۔ "
ریسپشنسٹ کی بات سن کر اس کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوا۔۔ اس کی تو کل تنخواہ ہی آٹھ ہزار تھی جس میں گھر کا خرچ بھی چلانا ہوتا تھا وہ کیسے پندرہ ہزار کے ٹیسٹ کروا سکتی تھی۔۔ مرے قدموں کے ساتھ وہ ڈاکٹر کے کیبن کی طرف بڑھی۔۔
وہ ناک کر کہ اندر داخل ہوئی تو اسامہ جو کہ ٹیبل پر سر رکھ کر بیٹھا ہوا تھا کھٹکے کی آواز پر سر اٹھایا اور اقراء کو اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔ اسامہ کی آنکھیں اس بات کی گواہی دے رہی تھیں کہ وہ دو راتوں سے سویا نہیں۔۔
"ڈاکٹر صاحب میری مدر کی کیسی کنڈیشن ہے اب۔۔؟ "
اقراء نم لہجے میں بولی۔۔ کب سے صبر کر کر کہ اب اس کی برداشت کی حد جواب دے رہی تھی۔۔
"اب وہ کافی سٹیبل ہیں۔۔ ان کی وینز کافی کمزور ہوتی جا رہی ہیں اور اللہ نا کرے لیکن اگر اب انہیں دوبارہ اٹیک ہوا تو وہ سروائو نہیں کر پائیں گی۔۔
انہیں سٹریس سے دور رکھیں۔۔ ہارٹ پیشنٹ کے لیے ٹینشن بالکل اچھی نہیں ہے۔۔ میں نے کچھ ٹیسٹ لکھ کر دیے ہیں  آپ وہ کروا لیں اس کہ بعد میں میڈیسن لکھ دوں گا جو انہیں اب ریگولر بیسس پر دینی ہے۔۔ "
وہ تفصیل بتاتے ہوئے بولا۔۔
"ڈاکٹر صاحب میں نے ریسپشن سے پتا کیا ہے۔۔ جو ٹیسٹ آپ نے لکھ کر دیے ہیں وہ بہت مہنگے ہیں۔۔ اگر آپ میری کوئی مدد کردیں پلیز۔۔ میرے اتنے وسائل نہیں ہیں کہ میں اپنی مدر کا علاج کروا سکوں۔۔ "
وہ عاجزی سے بولی۔۔ آج اسے اپنی عزت نفس مرتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔۔ کتنی بے بسی ہوتی ہے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا ۔۔ دل چاہتا ہے وہیں دفن ہو جائیں مگر مجبوری بھی آخر انسان سے کیسے کیسے کام لے لیتی ہے جس کا وہ کبھی تصور بھی نا کرے۔۔۔
"دیکھیں محترمہ۔۔ یہ ہسپتال ہے کوئی خیراتی ارادہ نہیں ہے۔۔ اور نہ ہی میں اس ہسپتال کا مالک ہوں جو آپ کی مدد کر سکوں میں خود یہاں نوکری کرتا ہوں۔۔ برائے مہربانی آپ ریسپشن پر جا کر بات کریں یا کسی خیراتی ہسپتال چلی جائیں کیونکہ میں ڈاکٹر ہوں میرا کام علاج کرنا ہے مریضوں کے اخراجات پورے کرنا نہیں۔۔"
وہ پہلے ہی تپا ہوا تھا۔۔ پھر پچھلے دو دنوں سے نیند نا مکمل ہوئی تھی اور اب اوپر سے اقراء کی باتوں نے اسے مزید غصہ دلا دیا تھا حالانکہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔۔ پہلے بھی بہت سے مریض اس ست مدد مانگتے تھے اور وہ ان کی مدد کر بھی دیا کرتا تھا مگر آج اپنی ہی بے آرامی کی وجہ سے وہ اتنا چڑچڑا ہوگیا تھا کہ اسے پتا ہی نا چلا کہ وہ کرنے تلخ الفاظ استعمال کر گیا تھا۔۔
"آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔۔ مجھے کسی خیراتی ہسپتال جانا چاہیے تھا۔۔ یہاں آنے کی اوقات نہیں تھی میری۔۔۔ "
اتنی ہتک۔۔ اتنی بے عزتی۔۔ اقراء کا دل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ وہیں اس میں دب جائے۔۔ اس نے کتنی آس سے اس سے مدد مانگی تھی لیکن وہ اس کہ لیے کتنے تلخ الفاظ استعمال کر رہا تھا۔۔ وہ سنجیدگی سے کہہ کر اپنے آنسو پونچھتی اٹھی اور اسامہ پر ایک ملامتی نگاہ ڈال کر کمرے سے باہر نکل گئی۔۔
"اوہ شٹ اسامہ۔۔ یہ کیا کر دیا۔۔۔ "
اس کہ جانے کی کچھ دیر بعد اسامہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا۔۔ پھر وہ فوراََ ہی باہر کی طرف بھاگا۔۔ وہ روم چیک کیا جہاں اس کی مدر تھیں مگر اب وہ وہاں موجود نہیں تھیں۔۔ ظاہر سی بات ہے وہ چلی ہی گئی ہوں گی ااب اتنی ذلت کے بعد کون وہاں رکتا۔۔
وہاں سے مایوس ہو کر وہ ریسیپن پر گیا۔۔
"ابھی جو پیشنٹ تھیں یہاں جنہیں اٹیک ہوا تھا انجائنہ کا ان کی کوئی ڈٹیل ہے آپ کہ پاس۔۔۔؟"
"نہیں ڈاکٹر صاحب۔۔ ان کو تھوڑی دیر پہلے ہوش آیا تھا تو وہ ڈسچارج کروا کر چلی گئیں۔۔ "
ریسپشنسٹ کے بتانے پر اسے بے پناہ شرمندگی ہوئی۔۔
"ان کا کوئی کانٹیکٹ وغیرہ۔۔؟ "
"سر وہ ایمرجنسی میں آئی تھیں ان کی کوئی اپائٹمنٹ نہیں تھی تو اسی لیے کوئی کانٹیکٹ بھی نہیں ہے ان کا۔۔ "
وہ مایوسی سے وہاں سے پلٹ گیا۔۔
وہ اپنے کیبن کی طرف ہی جا رہا تھا جب اس کا ٹاکرا ڈاکٹر رضا سے ہوا۔۔ رضا اس کے ساتھ ہی ہوسٹل رہتا تھا اور اسامہ کا بہت گہرا دوست بھی تھا۔۔۔
"تم ابھی تک گھر نہیں گئے اسامہ۔۔؟ "
"ایمرجنسی کیس آ گیا تھا ایک۔۔"
وہ آہستہ سے بولا۔۔
"کیا بات ہے اسامہ پریشان لگ رہے ہو۔۔؟ "
رضا اس کہ کندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔۔
"مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے رضا۔۔ ایک ہی جھٹکے میں کسی کا بہت دل دکھا دیا ہے میں نے۔۔ "
اسامہ ملال سے بولا۔۔
"ایسا کیا کر دیا ہے تم نے۔۔؟"
"کچھ نہیں۔۔ اب کچھ ہو ہی نہیں سکتا تو بات دہرانے کا کیا فائدہ۔۔"
وہ سنجیدگی سے کہتا وہاں سے چلا گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ فوراََ ہی وہاں سے نکل آئی تھی۔۔ صد شکر آمنہ بیگم کو ہوش آ چکا تھا۔۔ اس نے باہر سے رکشہ کروایا اور انہیں لے کر خیراتی ہسپتال آ گئی۔۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا وہ۔۔ وہ بھلا یہاں کیوں آئی تھی۔۔ اس کی تو اوقات ہی نہیں تھی۔۔ اسے پہلے ہی کسی خیراتی ہسپتال جانا چاہیے تھا۔۔ اب رہ رہ کر اسے اپنے آپ پر افسوس ہو رہا تھا۔۔ یہ ہسپتال تو بڑے لوگوں کے لیے تھے۔۔ یہاں کے صاف ستھرے کمرے۔۔ پڑھے لکھے ڈاکٹر تمیز دار عملہ یہ سب تو امیروں کے لیے تھا۔۔ پیسے والوں کے لیے۔۔ عزت تو آخر انہی کی ہوتی تھی نا۔۔ غریبوں کا کیا ہے۔۔ ان کو بھلا ویسی بیماریاں تھوڑی نا ہوتی ہیں جیسے امیروں کو ہوتی ہیں۔۔ انہیں اچھے علاج کی ضرورت تھوڑی نا ہوتی ہے۔۔ ان کہ لیے تو خیراتی ہسپتال ہی ٹھیک رہتے ہیں جہاں ایک ایک کمرے میں دس لوگوں کا علاج ایک ہی وقت کیا جاتا ہو۔۔ غریبوں کے لیے تو وہی ہسپتال بہتر تھے جہاں حکومت کی طرف سے بھیجے گئے فنڈز میں سے پہلے انتظامہ اپنی کٹوتی کرتی پھر جو بچ جاتا وہ ہسپتال کے حصے میں آتا تھا اور پھر وہی فنڈز کھانے والے لوگ اپنا اور اپنے خاندان والوں کا علاج تو بڑے ہسپتالوں میں کرواتے تھے مگر غریب کا حق مارنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔۔
خیر ہمارے ملک میں یہ کون سا کوئی بری بات تھی۔۔ یہاں تو یہ سب حلال سمجھا جاتا ہے۔۔ کسی کا حق مارنا اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔۔ غریب کی ذلت کرنا فرض سمجھا جاتا ہے۔۔ یہاں بھلا غریبوں جو عزت کیوں ملے۔۔ ؟ ہمارے ملک میں تو عزت کا معیار پیسے پر ہے۔۔ رتبے پر ہے۔۔ پیشے پر ہے۔۔
یہاں انسان انسان کا احترام تھوڑی نا کرتا ہے۔۔ یہاں تو انسان پیسے کو سلام کرتا ہے۔۔
بہت سی تلخ سوچیں اس کہ ذہن میں گردش کر رہی تھیں لیکن وہ کیا کرتی۔۔؟ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔ وہ اپنے حق کے لیے آواز بھی نہیں اٹھا سکتی تھی کہ جو یہاں اپنے لیے آواز اٹھاتا ہے اس کا گلہ ویسے ہی گھونٹ دیا جاتا ہے۔۔
سرکاری ہسپتال میں گھنٹوں دکھے کھا کر اس نے بالآخر آمنہ بیگم کا چیک اپ کروا لیا۔۔ ڈاکٹر نے انہیں اگلے ہفتے پھر آنے کو کہا تھا۔۔ اب وہ انہیں لیے گھر جا رہی تھی۔۔
"میری وجہ سے تمہیں اتنی پریشانی ہوگئی ہے۔۔ بوجھ بن گئی ہوں میں تمہارے لیے۔۔ "
آمنہ بیگم شرمندگی سے بولیں۔۔
"ایسی باتیں نا کریں امی۔۔ آپ میرے لیے بوجھ نہیں ہیں آپ تو میرا سہارہ ہیں میری امید ہیں۔۔ "
وہ ان کہ گلے لگتے ہوئے بولی۔۔
"زبیر کو بتایا تم نے۔۔؟ اتنے پیسے لگ رہے ہیں میرے علاج پر تم کیسے پورے کرو گی۔۔؟ "
"میں نے کال کی تھی امی۔۔ بزی تھا ان کا فون۔۔ فری ہو کر کر لیں گے کال۔۔ اور پیسوں کی وجہ سے آپ پریشان مت ہوں۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ "
وہ انہیں تسلی دیتے ہوئے بولی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تمہارے لیے ایک بڑی زبردست خبر ہے میرے پاس۔۔"
خدیجہ لان میں بیٹھی تھی جب ہانیہ پرجوش انداز میں اس کہ ساتھ آ بیٹھی ۔۔۔
"ایسی کیا بات ہے بھئی۔۔؟ "
وہ بھی تجسس سے اس کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔
"کل میں نے بابا اور بھائی کی باتیں سنی تھیں۔۔۔ وہ کہہ رہے تھے کہ کچھ ہی عرصے میں تمہارا اور بھائی کا نکاح کر دیں گے۔۔ "
اپنی طرف سے ہانیہ نے یہ خبر بہت خوشی سے اسے بتائی تھی مگر خدیجہ نے اس کی بات پر منہ بسورا۔۔
"پتا ہے مجھے۔۔ "
"ہیں۔۔؟ تمہیں کس نے دی یہ خبر ۔؟ "
ہانیہ حیران ہوئی۔۔
"آپ کے بھائی نے۔۔ کل ہی میرے سر پر آ پہنچے تھے۔۔ "
وہ منہ بناتے ہوئے بولی۔۔
"آئے ہائے یہ سیکرٹ ملاقاتیں کب سے ہونا شروع ہوگئی ہیں بھئی۔۔؟ "
ہانیہ اسے چھیڑتے ہوئے بولی۔۔
"سیکرٹ نہیں خرافاتی ملاقاتیں کہیں۔۔ مجھے بار بار دھمکی دے رہے تھے۔۔ کہہ رہے تھے کہ کر دوں گا وہ کر دوں گا بتا دو جا کر اپنے بھائی کو زیادہ باتیں سنائی نا مجھے تو میں بھی ان کا جینا حرام کر دوں گی۔۔ میں بھی خدیجہ ہوں کوئی عام لڑکی نہیں ہوں جو روتے دھوتے ان کی ڈانٹ سنتی رہوں گی۔۔"
خدیجہ ناراضگی سے بولی۔۔
"اللہ ہی خیر کرے میرے بھائی کی۔۔ تمہارے ارادے تو بالکل ٹھیک نہیں ہیں۔۔ "
ہانیہ ڈرتے ہوئے بولی۔۔
"بہت خطرناک ارادے ہیں میرے۔۔ "
خدیجہ غصے سے بولی تو ہانیہ ہنسی۔۔
"ویسے یار تمہیں خوشی نہیں ہوئی۔۔؟ اتنی تو تم دعائیں کرتی تھی شادی کی اب ہو رہی ہے تو تم خوش ہی نہیں ہو۔۔۔"
ہانیہ اس کا مرجھایا ہوا چہرہ دیکھ کر بولی۔۔
"یار یہ بھی کوئی شادی ہوئی بھلا۔۔؟ جب میری پڑھائی سے جان ہی نہیں چھوٹنی تو میں کیا خاک خوشی کروں اس شادی کی۔۔ صرف نکاح ہی تو ہونا ہے رخصتی تو ہونی نہیں پھر کیا فائدہ۔۔ پڑھنا تو مجھے پھر بھی پڑے گا کالج سے تو پھر جان نہیں چھوٹے گی۔۔۔ "
وہ منہ بنا کر کہہ رہی تھی۔۔۔
"اف اللہ خدیجہ۔۔ تم صرف پڑھائی سے جان چھڑانے کے لیے شادی کرنا چاہتی ہو۔۔؟ "
ہانیہ بے یقینی سے بولی۔۔۔
"تو اور کیا۔۔ مجھے آپ کے نک چڑھے بھائی کے ساتھ زندگی گزارنے کا کوئی شوق تو ہے نہیں۔۔ "
وہ منہ بسور کر بولی۔۔
"چلو پھر میں حسن بھائی سے بات کرتی ہوں نکاح کے ساتھ رخصتی بھی کروا لیں میری بھابھی کو بہر شوق ہے۔۔ "
ہانیہ شرارت سے بولی۔۔
"بھئی کیا مسئلہ ہے آپ کہ ساتھ ہانی۔۔ پہلے آپ اپنی شادی کروائیں پھر میں اپنی کرواؤں گی۔۔ "
خدیجہ کے کہنے پر ہانیہ کے چہرے کی مسکراہٹ سکڑی۔۔ بہت سے خیالات اس کے ذہن میں آئے تھے جسے اس نے فوراََ ہی جھٹکا تھا۔۔
"مجھ سے بھلا کون کرے گا شادی۔۔ "
وہ تلخی سے بولی۔۔
"کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ۔۔؟ مجھے پورا یقین ہے آپ کہ کئے کوئی بہترین ہم سفر آئے گا۔۔ جسے آپ کی قدر ہو گی۔۔ آپ سے چاہت ہوگی۔۔ "
وہ یقین سے بولی۔۔
"یہ سب خوابوں خیالوں کی باتیں ہیں خدیجہ۔۔ حقیقی زندگی میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔۔ "
"اگر یہ فقط خیال بھی ہے تو کیا ہوا۔۔ گمان تو اچھا رکھیں۔۔ جو ہوگا آگے دیکھا جائے گا۔۔ "
خدیجہ کے کہنے پر ہانیہ سر جھٹکتے ہوئے خاموش ہوگئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے یاد تھا آج ہانیہ کا چیک اپ تھا۔۔ اس کا چیک اپ وہ اپنے کلینک میں ہی کرتا تھا۔۔ ہانیہ کے ساتھ کامران صاحب اور فرزانہ بیگم بھی آئے تھے۔۔ ہانیہ کو دیکھتے ہی جنید کے دماغ میں اسامہ کی باتیں گونجنے لگیں تو جنید نے ایک نظر غور سے ہانیہ کو دیکھا جو اب پہلے سے کافی کمزور ہو چکی تھی اور اس کی رنگت بھی پیلی ہو رہی تھی۔۔ وہ لاکھ خود کو کمپوز کر لیتی مگر پھر بھی اس کی بیماری اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی ۔۔۔ اسامہ کی باتیں اسے سہی محسوس ہونے لگیں۔۔ ہانیہ کو واقعی ایک سہارے کی ضرورت تھی اور اگر وہ اسے سہارہ دے ہی سکتا تھا تو وہ کیوں دیر کر رہا تھا۔۔ اگر ان کا ساتھ قسمت میں لکھا تھا تو وہ کیوں اسے جھٹلا رہا تھا۔۔۔
"اف اللہ۔۔ اس گدھے نے میرے دماغ میں بھی کیا کیا خرافات بھر دی ہیں۔۔ "
جنید فوراََ ہی اپنی سوچوں کو جھٹکتا ہوا ہانیہ کو چیک کرنے لگا۔۔
"تم کافی تیزی سے ریکوری کر رہی ہو ہانیہ۔۔ مجھے پوری امید ہے تم اس بیماری سے لڑ کر بالکل صحتیاب ہو جاؤ گی۔۔ "
جنید ہانیہ کو تسلی دیتا ہوا بولا۔۔
پھر ہانیہ کامران صاحب کے ساتھ کچھ ٹیسٹ کروانے چلی گئی جبکہ فرزانہ بیگم وہیں جنید کے پاس بیٹھی رہیں۔۔
"جنید ہانیہ ٹھیک تو ہو جائے گی نا۔۔؟ "
انہوں نے آس سے پوچھا۔۔
"مجھے پورا یقین ہے وہ ٹھیک ہوجائے گی پھپھو۔۔ آپ بس دعا کریں۔۔"
وہ انہیں تسلی دیتا ہوا بولا۔۔
"کتنی کمزور ہوگئی ہے میری بچی۔۔ کہتی تو رہتی ہے ٹھیک ہوں لیکن میں ماں ہوں اس کا درد پہچان سکتی ہوں۔۔ "
وہ دکھ سے بولیں۔۔
"اتنی بڑی بیماری ہے پھپھو۔۔ اسے ٹھیک ہونے میں ابھی کچھ وقت تو لگے گا نا۔۔ "
وہ انہیں سمجھاتے ہوئے بولا۔۔
"میری بچی کو ٹھیک کر دو جنید۔۔ وہ بہت تکلیف میں ہے۔۔ "
وہ روتے ہوئے بولیں۔۔
"وہ ٹھیک ہوجائے گی پھپھو آپ حوصلہ کریں۔۔ "
وہ انہیں تسلی تو دے رہا تھا در حقیقت ہانیہ کے لیے وہ خود بھی بہت پریشان تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Where stories live. Discover now