Episode 7

2.3K 187 67
                                    

اندر داخل ہوتے ہی اس کی مسکراہٹ بہت گہری ہوگئی تھی۔۔ یہ ایسی جگہ تھی جہاں اسے بہت سکون ملتا تھا۔۔ وہ ایک سٹریٹ سکول تھا جہاں پر غریب بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔۔ اسامہ کا ادھر والے سکول میں بہت کم چکر لگتا تھا کیونکہ وہ اپنی پڑھائی کی وجہ سے ملتان ہوتا تھا مگر وہاں کے سکولز میں وہ تقریبا جب بھی فارغ ہوتا پہنچ جایا کرتا تھا۔۔ یہاں وہ جب بھی گھر آتا ایک آدھ بار چکر لگا لیتا تھا اور اس بار وہ عمیر کو بھی اپنے ساتھ لایا تھا۔۔
سب بچے اسامہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔۔ وہ ان کہ لیے کافی چیزیں لے کر آیا تھا۔۔ اور اب وہ چہرے پر مسکراہٹ لیے وہ چیزیں ان سب بچوں میں بانٹ رہا تھا اور ساتھ ان کہ چہروں پر مسکراہٹ بھی دیکھ رہا تھا۔۔
دور کھڑے نصیر صاحب چہرے پر مدھم مسکراہٹ لیے اس لڑکے کو دیکھ رہے تھے۔۔ اسامہ میں انہیں اپنی جوانی نظر آتی تھی۔۔ وہ بھی اپنے وقت میں ایسے ہی ہوتے تھے۔۔ کچھ کر دکھانے کا جذبہ۔۔ لوگوں کی خدمت کرنے کا عزم۔۔ بہت سی امیدیں اس کے چہرے کی مسکراہٹ میں چھپی ہوتی تھیں۔۔
"کیا ہوا سر ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں۔۔؟ "
ان کی نظریں خود پر محسوس کر کہ اسامہ ان کی طرف آیا اور پوچھا۔۔۔
"تم میں آج مجھے اپنا آپ نظر آ رہا ہے۔۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولے۔۔۔
"میرے لیے یہ بات باعث فخر ہے۔۔ میں آپ کہ جیسا ہی بننا چاہتا ہوں۔۔۔"
وہ بھی مسکرا کر بولا۔۔
"تم مجھ سے بھی بہتر انسان بنو گے اسامہ۔۔ مجھے یقین ہے تم مجھ سے بھی اچھا کر دکھاؤ گے۔۔۔ "
وہ اس کہ سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔۔
"آپ بس میرے لیے دعا کیا کریں سر۔۔۔"
وہ عاجزی سے بولا۔۔
"میری ساری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں بس بیٹا اتنی بات یاد رکھنا کہ زندگی میں جب بھی نیکی کرنے کا موقع ملے اسے گنوا مت دینا۔۔ اچھائی چاہے چھوٹی ہو یا بڑی تم اپنی کوشش ضرور کرنا۔۔
اپنے اخلاق کو ان چھوٹی بڑی اچھائیوں سے روشن کر لو بیٹا۔۔ تم نوجوان نسل ہمارے ملک کا مستقبل ہو ہماری نسلوں کے ضامن ہو اپنے آپ کو سنوارو بیٹا۔۔ اپنے اخلاق کو ایسا گل بنا لو کہ باقی سب بھی اس کی خوشبو سے تر و تازہ ہو جائیں۔۔"
"میں اپنی پوری کوشش کر رہا ہوں سر۔۔ میں اپنے ساتھ ساتھ ان بچوں کا مستقبل بھی بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔ میں چاہتا ہوں ہمارے ملک میں کوئی بھی بچا تعلیم سے محروم نا رہے۔۔"
وہ ایک عزم سے بولا تھا۔۔
"اللہ تمہیں کامیاب کرے ۔۔۔"
وہ اس کا شانہ تھپک کر آگے بڑھ گئے تو وہ بھی مسکراتا ہوا دوبارہ ان بچوں میں مصروف ہوگیا جو اس کی لائی ہوئی چیزیں پلٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم فری ہو۔۔؟ "
وہ یونیورسٹی سے واپس آ کر ابھی لیٹی ہی تھی کہ اس کے موبائل کی ٹون بجی۔۔ اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو جنید کا میسج تھی۔۔
"جی بھائی کیا ہوا۔۔؟ "
"چلو تم ریڈی ہو جاؤ۔۔ "
"کیوں ۔؟"
"تمہیں کہیں لے کر جانا ہے۔۔ "
جنید کا میسج پڑھ کر وہ حیران ہوئی پھر اسے یاد آیا کہ اس دن جنید نے ہاسپٹل کی بات کی تھی۔۔ یقینا وہ اسے وہیں لیجانے والا تھا۔۔ وہ جلدی سے اٹھ کر تیار ہوئی اور فرزانہ بیگم سے اجازت لی۔۔
"ہاں چلی جاؤ۔۔ تمہارے دماغ کو بھی زرا ہوا لگے۔۔"
ان کہ کہنے پر اس نے منہ بنایا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ہی جنید اسے لینے آ گیا۔۔
"کیسی ہو۔۔؟ "
وہ گاڑی میں بیٹھی جب جنید نے سوال کیا۔۔
"میں ٹھیک ہوں۔۔"
"اور کوشش کیسی جا رہی ہے۔۔؟ "
"لگی ہوئی ہوں۔۔ دعا کریں مکمل طور پر کامیاب ہو جاؤں۔۔ "
"ہو جاؤ گی ان شا اللہ۔۔ آج میری ڈیوٹی جلدی ختم ہوگئی تھی تو سوچا تمہیں ہاسپٹل لے جاؤں اور اپنے کچھ پیشنٹس دکھاؤں ۔۔ "
"بہت شکریہ آپ نے میرے لیے ٹائم نکالا۔۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔
"اپنے پیشنٹس کے لیے میں ٹائم نکال ہی لیتا ہوں۔۔۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولا تو وہ بھی مسکرائی۔۔
کچھ ہی دیر میں وہ لوگ ہاسپٹل پہنچ گئے تھے۔۔ ہانیہ کو یاد تھا جب وہ بے ہوش ہی تھی تو اسے یہاں ہی لے کر آئے تھے۔۔
"آپ یہاں جاب کرتے ہیں ۔؟ "
"ہاں دن میں یہاں ہوتا ہوں رات میں اپنے کلینک پر۔۔
جنید یہ کہتا ہوا آگے بڑھ گیا جبکہ ہانیہ وہیں راہداری میں کھڑی رہی۔۔
"کیا ہوا۔۔؟ "
اسے وہیں رکا دیکھ کر جنید واپس پلٹا اور اس کی طرف آتا ہوا بولا۔۔
"می۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔ "
وہ آہستہ سے بولی۔۔
"کس سے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔؟ "
وہ حیرانی سے بولا۔۔
"اگر میں بھی ایسی ہی ہوگئی۔۔؟ میری بیماری بھی زیادہ بڑھ گئی تو۔۔؟ اگر ان سب کی طرح مجھے بھی یہاں پڑا تو۔۔؟ پتا نہیں میں ٹھیک بھی ہوں گی یا نہیں۔۔"
وہ ڈرتے ہوئے بولی۔۔
"پھر وہی باتیں ہانی۔۔؟ میں نے تم سے کہا ہے نا تم بالکل ٹھیک ہوجاؤ گی۔۔ اور کیا تمہیں اللہ پر بھروسہ نہیں ہے۔۔؟ "
جنید کے کہنے پر ہانیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
"میں تمہیں یہاں صرف اس لیے لے کر آیا ہوں تاکہ تم اپنی قسمت سے بدگمان نا ہو۔۔ تمہیں لگتا ہے تمہاری بیماری سب سے زیادہ ہے لیکن میں اسی لیے تمہیں یہاں لایا ہوں کہ تم ان لوگوں کو دیکھے جو تم سے کئی گنا زیادہ بیماریوں میں مبتلا ہیں۔۔ میں چاہتا ہوں ان لوگوں کو دیکھ کر تم حوصلہ کرو اور صبر سے کام لو کہ تمہاری بیماری تو کچھ بھی نہیں ہے۔۔ یہ جو تمہیں اپنی زندگی بوجھ لگ رہی ہے نا ان لوگوں کو دیکھو جو ایک ایک سانس بھی مصنوعی لے رہے ہیں۔۔ شکر کرو ان لوگوں کو دیکھ کر کہ اللہ نے تمہیں اب بھی کتنا سکھی رکھا ہوا ہے۔۔ آزمائش آئی بھی ہے تو اتنی کہ جتنی برداشت ہو سکے۔۔ تم ان لوگوں کو دیکھو گی تو ہمت پیدا ہوگی تمہارے اندر۔۔  لیکن اگر تم نہیں جانا چاہتی تو ہم واپس چلتے ہیں ۔۔۔ پھر کبھی آ جائیں گے۔۔ "
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا اس کی آخری بات پر ہانیہ نے نفی میں سر ہلایا۔۔
"نہیں۔۔ میں جانا چاہتی ہوں اندر۔۔ دیکھنا چاہتی ہوں سب کو۔۔"
وہ ہمت کرتے ہوئے بولی تو جنید اسے لیے آگے بڑھ گیا۔۔ اور جیسا کہ جنید نے کہا تھا وہاں لوگوں کو ایسی ایسی بیماریاں تھیں کہ جن کا ہانیہ تصور بھی نہیں کر سکتی۔۔ سب سے زیادہ دل اس کا تب دکھا تھا جب ایک بارہ سالہ بچے کو اس نے دیکھا تھا۔۔ وہ بچہ کینسر کی لاسٹ سٹیج پر تھا۔۔ اس کہ سارے بال جھڑ چکے تھے لیکن اس کہ چہرے پر امید تھی۔۔ زندگی کی امید۔۔۔
"کیسے ہو لٹل چیمپ۔۔؟"
جنید اس کہ بیڈ کے پاس پہنچتا ہوا بولا۔۔
"میں بالکل ٹھیک ہوں ڈاکٹر۔۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔۔
"ویری گڈ۔۔ اب تو تم بالکل ٹھیک ہو رہے ہو آہستہ آہستہ۔۔۔"
جنید مسکرا کر بولا۔۔
"میں جب ٹھیک ہو جاؤں گا تو پھر باقی بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلا کروں گا۔۔۔ مجھے ایک بہت بڑا پلئیر بننا ہے۔۔۔"
وہ بچہ بہت عزم سے کہہ رہا تھا جبکہ ہانیہ کی آنکھوں میں آنسو آئے۔۔
"آخری سٹیج پر ہے یہ بچا ہانیہ۔۔ کچھ ہی عرصہ ہے اس کے پاس زندگی کا لیکن دیکھو۔۔ وہ اپنے لیے کتنا پر عزم ہے۔۔ زندگی کی چاہ میں وہ یہ مشکل وقت بھی مسکرا کر گزار رہا ہے۔۔۔"
جنید ہانیہ سے بولا تو ہانیہ کو بے پناہ شرمندگی ہوئی۔۔ کچھ دن پہلے جب اسے اپنی بیماری کا پتا لگا تھا جب ارسلان اسے چھوڑ گیا تھا تو وہ کیسے اپنی موت کی دعائیں کر رہی تھیں وہ کیسے اس زندگی سے جان چھڑانا چاہ رہی تھی جبکہ یہ بچہ زندگی اور موت کی جنگ لڑتے ہوئے بھی کتنا پر عزم تھا۔۔۔
وہ کتنی نا شکری ہو رہی تھی۔۔ زرا سی پریشانی آنے پر وہ اس زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہ رہی تھی جس کہ لیے نجانے کتنے لوگ ہسپتالوں میں پڑے روز دعائیں مانگتے ہیں۔۔ وہ اس زندگی کی ناشکری کر رہی تھی جس کی لوگ چاہ کر رہے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ کو گھر چھوڑ کر وہ گھر واپس آ گیا تھا۔۔ آج وہ کافی سنبھل گئی تھی۔۔ جنید نے اسے کافی سمجھایا تھا اور وہ اس کی کافی باتیں سمجھ بھی گئی تھی۔۔ اسے گھر چھوڑنے کے بعد وہ کلینک چلا آیا تھا اور اب گھر واپس آنے پر اسے شدید نیند آ رہی تھی ۔۔ کچھ سارے دن کی تھکن بھی تھی کہ وہ گھر آتے ہی کمرے میں جا کر لیٹ گیا تھا لیکن ابھی اس کی آنکھ لگنے ہی والی تھی جب اس کہ کمرے کا دروازہ ناک ہوا اور اسامہ اندر داخل ہوا۔۔
"اسامہ میں شدید تھکا ہوا ہوں تم برائے مہربانی چلے جاؤ۔۔"
اسے اپنے بیڈ پر بیٹھتا دیکھ کر جنید فوراََ بولا۔۔
"میں صبح واپس جا رہا ہوں بھائی۔۔ ملنے آیا ہوں آپ سے۔۔۔"
وہ ناراضگی سے بولا۔۔
"مل لیا۔۔؟ چلو شاباش میرا بھائی جاؤ اب اور مجھے سونے دو۔۔ "
جنید منہ پر تکیہ رکھتا ہوا بولا۔۔
"مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے بھائی۔۔"
"صبح کر لینا پلیز۔۔"
"صبح ٹائم نہیں ہوگا مجھے ابھی بات کرنی ہے۔۔۔"
اسامہ کے کہنے پر جنید نا چاہتے ہوئے بھی اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔
"دیکھو اسامہ اگر ماما نے تمہیں بھیجا ہے مجھے شادی پر راضی کرنے کے لیے تو تم واپس چلے جاؤ۔۔ مجھے جب شادی کرنی ہوگی میں خود بتا دوں گا سب کو۔۔۔"
جنید اکتاتے ہوئے بولا۔۔
"مجھے ماما نے نہیں بھیجا۔۔ "
اسامہ سنجیدگی سے بولا۔۔
"پھر کیا بات ہے ۔؟ "
جنید اس کی طرف متوجہ ہوا۔۔
"دیکھیں بات تو آپ کی شادی کی ہے لیکن وعدہ کریں آپ میری بات خاموشی سے سنیں گے۔۔ "
"یار۔۔۔ ایک تو تم لوگ میری شادی کے ہی پیچھے پڑے رہتے ہو۔۔ بولو اب۔۔"
جنید اکتاتے ہوئے بولا۔۔
"دیکھیں بھائی۔۔ میرے سر کہتے ہیں یہ زندگی بہت چھوٹی سی ہے اور یہاں جتنی نیکیاں کرنے کا موقع ملے کر لو۔۔"
اسامہ نے تہمید باندھی۔۔
"بات کیا ہے اسامہ۔۔؟ "
جنید نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا۔۔
"دیکھیں بھائی کسی کا سہارا بننا ۔۔ کسی کو زندگی کی طرف واپس لانا یہ سب بھی نیکیوں میں ہی شمار ہوتا ہے۔۔ کسی کا مسیحا بن کر اس کو زندگی کی طرف واپس لانا بھی ایک نیکی ہے۔۔ "
"تم کہنا کیا چاہتے ہو اسامہ۔۔؟ "
"شادی تو آپ نے کرنی ہے۔۔ آج نہیں تو کل۔۔ کسی نا کسی سے تو کرنی ہے۔۔ پسند تو آپ کوئی آنے نہیں والا جتنے آپ روکھے پیکھے ہیں۔۔ اور آپ کو کوئی پسند کرے گا نہیں اتنی بری تو کسی کی بھی چوائس ہو ہی نہیں سکتی۔۔۔ "
"اسامہ تم اب مجھ سے مار کھا لو گے۔۔"
اپنی اتنی تعریف پر جنید کا خون کھول گیا۔۔
"تو میں کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ شادی کسی ایسے شخص سے کرنی چاہیے جسے آپ کی ضرورت ہو۔۔ ہم سفر ایسا تلاش کریں جسے آپ کا سہارا چاہیے ہو۔۔ اپنے ساتھی کے لیے پرفیکشن تو ہر کوئی ڈھونڈتا ہے لیکن میرے خیال میں کسی نا مکمل انسان کو اپنی زندگی میں شامل کر کہ اسے مکمل کرنا ہی زندگی ہے۔۔ کوئی ایسا شخص تلاش کریں جو ہمارے بغیر ادھورا ہو ہمارے وجود سے اس کی زندگی مکمل ہوتی ہو۔۔۔"
اسامہ بہت سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔۔
"ہوگئی تمہاری فلوسفی۔۔؟ اب بتاؤ کہنا کیا چاہتے ہو۔۔؟ "
جنید اسامہ کی بات کافی حد تک سمجھ گیا تھا مگر اس کہ منہ سے سننا چاہتا تھا۔۔
"میں چاہتا ہوں آپ ہانیہ سے شادی کر لیں۔۔ "
اسامہ آہستگی سے بولا تو جنید نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
"کیا۔۔؟ تمہارا دماغ سیٹ ہے۔؟ "
جنید فورا ہی غصے سے بولا۔۔
"دیکھیں بھائی اسے اس وقت کسی کی مکمل توجہ کی ضرورت ہے۔۔ اور اس کی بیماری ایسی ہے کہ آپ ہی اس سے ٹیکل کر سکتے ہیں۔۔ مجھ سے اس کی ایسی حالت نہیں دیکھی جاتی بھائی۔۔ آپ اس کو زندگی کی طرف لا سکتے ہیں اسے تحفظ کا احساس دلا سکتے۔۔۔ "
"میں اب بھی اسے سمجھاتا ہوں۔۔ اسے ٹھیک کرنے کے لیے اس سے شادی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔"
جنید سختی سے بولا۔۔
"اب کا سمجھانا اور ہے جبکہ اگر کوئی مضبوط رشتہ ہوگا تو بات کچھ اور ہوگی۔۔ آپ اسے مکمل طور پر توجہ دے سکتے ہیں اسے سنبھال سکتے ہیں۔۔ "
"تم بالکل پاگل ہوگئے ہو۔۔ وہ مجھے بھائی کہتی ہے میں اسے بہنوں کی نظر سے دیکھتا ہوں اور تم کیا اول فول بک رہے ہو۔۔"
جنید غصے سے بولا۔۔
"میں صرف آپ کو مشورہ دے رہا ہوں بھائی۔۔ قسمت آپ کو موقع دے رہی ہے۔۔ کسی کا ساتھ دینے کا زندگی کا حق ادا کرنے کا۔۔ اس موقعے کو جانے مت دیں۔۔ وہ بکھری ہوئی ہے اسے سنبھال لیں۔۔ پہلے اپنی بیماری کا غم اور پھر ارسلان کی بے وفائی۔۔ وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔۔ آپ اسے سنبھال سکتے ہیں۔۔ میری درخواست ہے آپ سے آپ ایک بار اس معاملے پر سوچ کر دیکھیں۔۔۔ ٹھنڈے دل سے سوچیں آپ کو میری بات بالکل ٹھیک لگے گی۔۔ "
"جاؤ یار اسامہ۔۔۔ نیند آ رہی ہے مجھے۔۔۔"
جنید بات بدلتے ہوئے بولا۔۔
"میں جا رہا ہوں۔۔ امید ہے آپ میری بات کو سوچیں گے ضرور۔۔"
اسامہ مسکرا کر کہتا اس کہ کمرے سے نکل گیا جبکہ جنید نے اس کی باتوں کو ذہن سے جھٹکا اور سونے کے لیے لیٹ گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا ہوا ہے خدیجہ اداس کیوں بیٹھی ہو۔۔؟ "
وہ چچی جان کہ گھر آئی ہوئی تھی جب اسے خاموش بیٹھا دیکھ کر فرزانہ بیگم نے سوال کیا۔۔
"کچھ نہیں چچی جان بس ویسے ہی۔۔۔"
وہ فوراََ سنبھلتے ہوئے بولی۔۔
"ایک تو یہ لڑکی بھی نا۔۔ کب سے نہانے گھسی ہوئی ہے حسن کافی دیر سے کھانے کا کہہ کر گیا ہوا ہے۔۔ تم جاؤ زرا یہ حسن کو تو دے آؤ کھانا۔۔ یہیں پڑا پڑا ٹھنڈا ہوجائے گا۔۔ "
فرزانہ بیگم کے کہنے پر خدیجہ کا دل دھڑکا۔۔ اس دن کی تلخ کلامی کے بعد سے وہ حسن کو نظر انداز کر رہی تھی۔۔ وہ تو پہلے ہی اسے مخاطب نہیں کرتا تھا اب وہ بھی بالکل خاموش ہوگئی تھی اپنی جگہ پر۔۔ دونوں میں سے کوئی بھی اپنی ضد چھوڑنے پر تیار نہیں تھا۔۔
"میں دے آتی ہوں چچی۔۔"
وہ بمشکل بولی اور ٹرے اٹھا کر حسن کے کمرے کی طرف بڑھی۔۔ ناک کرنے کے بعد اس کا یہی ارادہ تھا کہ ٹرے رکھ کر بغیر کچھ کہے وہ وہاں سے نکل جائے گی۔۔
اندر سے آنے والی آواز پر وہ اندر داخل ہوئی۔۔ ٹرے سینٹر ٹیبل پر رکھا اور باہر جانے لگی جب حسن کی آواز پر رکی۔۔۔
"تمہیں کس نے کہاں تھا کھانا لانے کو۔۔؟ بہت شوق ہے تمہیں بار بار میرے سامنے آنے کا۔۔؟ میری توجہ اپنی طرف کروانا چاہتی ہو۔۔؟ "
اس کی کلائی پکڑے وہ طنزیہ لہجے میں کہہ رہا تھا۔۔
"مجھے ایسا کوئی فضول شوق نہیں ہے۔۔"
وہ غصے سے بولی اور اپنی کلائی چھڑوائی۔۔
"شوق تو خدیجہ بی بی تمہارے سارے مجھے معلوم ہی ہیں لیکن بات کچھ ایسی ہے کہ اگر تم یہ سب پہلے کرتی تو شاید میں تمہاری طرف متوجہ ہوجاتا لیکن اب جو تمہاری بھائی کر چکا ہے اس کہ بعد سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ میں تمہاری طرف متوجہ ہو جاؤں۔۔۔"
وہ سختی سے بولا۔۔
"آپ فضول بات مت کریں۔۔ میں صرف چچی جان کہ کہنے پر آئی ہوں ورنہ مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے آپ سے مخاطب ہونے کا۔۔"
وہ تلخی سے بولی۔۔
"چچی جان کو سارے گھر میں تم ہی ملتی ہو۔۔؟ وہ بھی میرے کام کرنے کے لیے۔۔؟ مجھ سے مخاطب ہونے کے بہانے کرنا چھوڑ دو۔۔"
وہ چہرے پر تلخ مسکراہٹ لیے بولا تو خدیجہ نے آنکھوں میں درد لیے اسے دیکھا۔۔
"آپ بہت غلط کر رہے ہیں۔۔ بہت غلط سمجھ رہے ہیں مجھے۔۔۔ آپ بہت پچھتائیں گے اپنے کیے پر۔۔"
وہ اپنے آنسو روک کر بولی۔۔
"میں نہیں پچھتاؤں گی تم۔۔ اپنے بھائی کا کیا تم بھگتو گی۔۔۔"
حسن اونچی آواز میں دھاڑا۔۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے حسن۔۔؟ کس لہجے میں بات کر رہے ہو تم خدیجہ سے۔۔"
فرزانہ بیگم جو پانی کا جگ لے کر اوپر آ رہی تھیں حسن کی آواز پر ان کہ کمرے میں آئی اور اسے خدیجہ پر چلاتا دیکھ کر غصے سے بولیں۔۔
"اس سے کہیں میری نظروں سے دور رہا کرے۔۔۔ زہر لگتی ہے مجھے یہ اور اس کا بھائی۔۔"
وہ غصے سے کہتا کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ وہ اس کہ رویے پر حیران رہ گئیں۔۔ خدیجہ روتے ہوئے ان کہ گلے لگ گئی۔۔
"بس بیٹا تم چپ کرو۔۔ میں بات کرتی ہوں اس کہ بابا سے۔۔"
وہ اسے تسلی دیتے ہوئے بولیں تو اس نے اپنے آنسو صاف کیے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Where stories live. Discover now