Episode 12

2.2K 195 102
                                    

"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔ "
وہ لان میں پہنچی تو حسن بینچ پر بیٹھا تھا۔۔ وہ اسی طرف چلی آئی۔۔
"اور مجھے تمہیں ہر بار یہ احساس کیوں دلانا پڑتا ہے کہ مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔؟ "
وہ سنجیدگی سے بولا۔۔
"اب بس بھی کر دیں حسن۔۔ چھوڑ دیں اس بات کا پیچھا۔۔ جو ہونا تھا ہوچکا۔۔ اب کیا کیا جا سکتا ہے۔۔
وہ غصے سے بولی۔۔ اپنا بار بار دھتکارا جانا اسے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔۔
"جو ہونا تھا وہ ہو تو چکا ہے لیکن اس کہ ساتھ بہت کچھ بدل بھی چکا ہے۔۔ "
"ہمارے درمیان جو بھی بدلا ہے فقط آپ کی وجہ سے۔۔ آپ ہی ہیں جو دوسروں کے درمیان ہونے والی باتوں کو ہمارے درمیان لا کر ہمارا رشتہ خراب کر رہے ہیں ۔ "
وہ غصے سے بول
"وہ دوسرے ہمارے اپنے ہیں۔۔ "
حسن جتاتے ہوئے بولا۔۔
"مجھے آپ سے بحث نہیں کرنی حسن کیونکہ میں جانتی ہوں آپ کچھ نہیں سمجھیں گے اور میری تو کوئی بھی بات نہیں۔۔ مجھے صرف آپ سے اتنا کہنا ہے کہ ہمارے نکاح سے پہلے آپ ارسلان بھائی سے رابطہ کریں اور انہیں واپس بلائیں۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولی۔۔
"تمہارا دماغ سیٹ ہے۔۔؟ میں اس شخص کو یہاں بلاؤں۔؟ میں اپنے سامنے اس کا زکر برداشت نہیں کرسکتا کجا کہ میں اسے خود بلاؤں۔۔۔ "
خدیجہ کی بات سن کر اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔۔
"میں ارسلان بھائی کی موجودگی کے بغیر نکاح نہیں کروں گی۔۔ وہ میرے اکلوتے بھائی ہیں۔۔ کیا ہر بہن کی چاہت نہیں ہوتی اس کا بھائی اس کہ ساتھ ہو۔۔؟ "
وہ دکھ سے بولی۔۔
"تمہارا بھائی اس قابل نہیں ہے۔۔ میں نا تو اسے نکاح میں شامل ہونے کی اجازت دوں گا اور نا ہی تمہارا اس سے کوئی رابطہ برداشت کروں گا۔۔ اور اگر ایسا کچھ ہوا نا خدیجہ تو قسم خدا کی میں وہیں سے نکاح چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔۔ "
وہ نہایت غصے سے بولا۔۔ آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں۔۔۔ اس کہ تیز لہجے پر خدیجہ کی آنکھیں بھیگیں۔۔۔
"آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔۔؟ وہ میرے بھائی ہیں آپ مجھ پر پابندیاں نہیں لگا سکتے۔۔۔ "
وہ غم و غصے کے ملے جلے تاثرات سے بولی۔۔
"میں کر سکتا ہوں یہ بھی۔۔ اور اس بار کر بھی دکھاؤں گا۔۔ تم اس شخص سے کوئی تعلق نہیں رکھو گی اگر تمہیں مجھ سے کوئی تعلق رکھنا ہے تو۔۔"
حسن اسے وارن کرتا ہوا بولا۔۔
"ٹھیک ہے پھر۔۔ اگر میرا بھائی میری شادی میں نہیں آئے گا تو آپ بھی اپنی بہن کی شادی میں نہیں جائیں گے۔۔ اگر میں ہر معاملے میں آپ کی پابند ہوں تو آپ بھی میرے پابند ہیں۔۔ "
اپنے آنسو پونچھ کر وہ سنجیدگی سے بولی۔۔
"تمہارا دماغ خراب ہے۔۔؟ میری بہن کا بیچ میں کیا قصور ۔۔۔؟ "
وہ غصے سے بولا۔۔
"تو پھر میرا کیا قصور۔۔؟ "
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولی۔۔
"تمہارا قصور یہی ہے کہ تم اس شخص کی بہن ہو۔۔
وہ سنجیدگی سے بولا۔۔
"میرے علاوہ ان کہ اور بھی بہت سے رشتے ہیں اس گھر میں۔ بابا کی حالت دیکھی ہے آپ نے۔۔ ؟ کتنے خاموش ہوگئے ہیں وہ۔۔؟ اور ماما۔۔ رو رو کر ان کا کتنا برا حال ہے۔۔ آپ ایک بوڑھے والدین کو ان کی اولاد سے دور کر رہے ہیں حسن خدا کے واسطے انتقام کی پٹی اپنی آنکھوں سے اتار کر بھی دنیا دیکھیں رشتے دیکھیں۔۔ آپ کو اپنے اور اپنی بہن کے دکھ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہا تو مجھے بتائیں یہاں کس کو دکھ نہیں ہے۔۔؟ یہاں کون سکھی بیٹھا ہے۔۔؟ ان کہ حال پر رحم کریں۔۔ میرے حال پر نا سہی انہی کے لیے ارسلان بھائی کو واپس بلا لیں۔۔
وہ رندھے ہوئے لہجے میں بولی۔۔
"تم پر تو میں رحم کرنے بھی نہیں والا۔۔ اپنے بھائی کے کیے کا خمیازہ تم ہی بھگتو گی۔۔"
وہ سختی سے بولا۔۔
"اور آپ جو میرے ساتھ کر رہے ہیں اس کا خمیازہ کون بھگتے گا۔۔؟ آپ کی بہن۔۔؟ آپ کی بیٹی۔۔؟ یہ انتقام کی آگ میں ہمیشہ عورت زات ہی کیوں جلے۔۔؟ دنیا تو پھر مکافات عمل ہے نا۔۔ میرے بھائی نے آپ کی بہن کے ساتھ برا کیا آپ اس کی بہن کے ساتھ کر رہے ہیں کل کو کوئی آپ کی بیٹی سے کسی اور کا بدلہ لے رہا ہو گا ۔۔۔ یہ سلسلہ تو چلتا رہے گا۔۔ برداشت ہمیشہ عورت کو ہی کرنا پڑے گا۔۔ "
وہ غصے سے کہہ رہی تھی ساتھ ہی آنسو بھی اس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔۔
"بحر حال میں آپ کو بتا دوں حسن صاحب۔۔ اگر میرا بھائی میری شادی پر نا آیا تو میں آپ کو آپ کی بہن کی شادی میں بھی شرکت نہیں کرنے دوں گی۔۔ "
وہ بے دردی سے اپنے آنسو رگڑتی ہوئی بولی۔۔
"تم مجھ پر اپنا حکم نہیں چلا سکتی۔۔ میں تمہارا پابند نہیں ہوں۔۔ "
وہ غصے سے بولا۔۔
"میں بھی آپ کی پابند نہیں ہوں۔۔ اگر آپ ضد لگا سکتے ہیں تو میں بھی لگا سکتی ہوں۔۔ "
غصے سے کہتی وہ وہاں سے چلی گئی جبکہ وہ اس کی پشت کو تکتا رہ گیا۔۔
آج کل وہ خدیجہ کی باتیں سن کر حیرانی تھا۔۔ اب بھی وہ اس کی جرت پر حیران رہ گیا تھا وہ اسے کیا کچھ بول گئی تھی۔۔ خدیجہ وہ لڑکی تھی جو کبھی اس کی طرف آنکھ اٹھا دیکھتی بھی نہیں تھی اور اب۔۔؟ اب وہ کیسے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بات کر جاتی تھی کہ وہ حیران رہ جاتا تھا۔۔۔ کبھی کبھی خدیجہ کو دیکھ کر اسے بہت شدت سے احساس ہوتا تھا کہ وہ اس کہ ساتھ زیادتی کر رہا ہے۔۔ خدیجہ اس کی پسند تھی۔۔۔ ان کا اتنے عرصے کا ساتھ تھا۔۔ وہ اس کہ ڈرنے جھجکنے پر ہی تو اپنا دل ہار گیا تھا۔۔ اب بھی جب وہ اس سے نظر ملا کر بات کرتی تو وہ ڈرتا تھا کہیں ان آنکھوں میں ڈوب نا جائے۔۔ اسے ڈر لگتا تھا کہیں وہ اس کی باتوں میں کھو نا جائے۔۔ وہ اسے لڑ جھگڑ کر اپنے خیالات جھٹکنے کی کوشش کرتا تھا اور کافی حد تک کامیاب بھی تھا مگر دل میں کہیں پھر بھی۔۔ ایک کونہ ایسا بھی تھا جو اب بھی خدیجہ کے کیے دھڑکتا تھا۔۔ صرف خدیجہ کے لیے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج پھر سکول آیا تھا۔۔ لیکن اس بار اکیلا آیا تھا۔۔ اقراء کی باتیں بار بار اس کہ ذہن میں گردش کر رہی تھیں اور وہ لڑکی اسے بہت قابل رحم لگ رہی تھی۔۔ وہ اس کی مدد کرنا چاہتا تھا۔۔ وہ اس کی ماں کی مدد کرنا چاہتا تھ لیکن اقراء کی کہی بات سے اس کا دل بہت برا ہوا تھا۔۔
"آپ کی مدد سے بہتر میں خیرات لینا پسند کروں گی۔۔ "
وہ جب جب یہ بات سوچتا اس کا دماغ پھٹنے لگتا تھا۔۔ اس کی غلطی تھی۔۔ اس کی وجہ سے کسی کا اتنا دل دکھا تھا۔۔ اور وہ تو قسمت پر حیران تھا۔۔ کیسے اسے ایک اور موقع ملا تھا اپنی غلطی سدھارنے کا۔۔ آخر کیوں نا ملتا۔۔ اس نے اتنی شدت سے تو دعا کی تھی اور اب وہ اس موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔۔ وہ ہر حال میں اپنی غلطی سدھارنا چاہتا تھا۔۔ جو زخم اس کی وجہ سے کسی کو ملا تھا وہ اس پر مرہم بھی خود ہی رکھنا چاہتا تھا۔۔
اب وہ سکول آ تو گیا تھا مگر اس کی سمجھ سے باہر تھا کہ اب وہ اقراء سے ملاقات کیسے کرے۔۔؟ اگر وہ یہاں کسی سے کہتا یا یہاں اقراء سے بات کرتا تو شاید اقراء کا کردار یہاں سب کی نظروں میں مشکوک ہو جاتا اور وہ بس اس کی مدد کرنا چاہتا تھا اس کی عزت پر کوئی آنچ نہیں آنے دینا چاہتا تھا۔۔ وہ کچھ سوچتا ہوا پرنسپل کے آفس کی طرف بڑھا۔۔ پرنسپل صاحب اس کہ بہت اچھے دوست تھے ۔۔ چونکہ وہ سکول کے اخراجات میں ان کی کافی مدد کرتا تھا اس لیے وہ اسامہ کا بہت احترام کرتے تھے۔۔
"السلام علیکم شمس صاحب۔۔ "
وہ ان کہ آگے جھکتا ہوا بولا۔۔
"وعلیکم السلام اسامہ بچے۔۔ اس بار تو بڑی جلدی چکر لگا لیا۔۔ "
وہ اسے دیکھ کر حیران ہوئے آگے وہ کسی موقعے پر ہی آیا کرتا تھا۔۔
"کچھ کام تھا سر آپ سے۔۔ اصل میں ہم چاہتے ہیں کہ باقی سب کہ ساتھ ساتھ اس سکول کی ٹیچنگ بھی بہترین ہو اس لیے ہم ایک گروپ شروع کر رہے ہیں جہاں سب ٹیچرز کو گائیڈ کیا جائے گا۔۔ تو اگر آپ کی اجازت ہو تو ہمیں آپ کے ٹیچنگ سٹاف کے ہر ممبر کا نمبر چاہیے ہوگا۔۔ "
اسامہ نے بڑے فخر سے جھوٹ بولا تھا۔۔ ایسی کوئی بات نہیں تھی نا ہی کوئی ایسا گروپ بننے والا تھا یہ بہانہ تو بس اس نے اقراء کا نمبر لینے کے لیے کیا تھا کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں تھا جس سے وہ اس سے بات کر سکتا تھا۔۔
"یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے۔۔ میں ابھی آپ کو لسٹ نکلوا دیتا ہوں۔۔ "
شمس صاحب خوشی سے بولے تو اسامہ اپنے جھوٹ کی کامیابی پر تھوڑا خجل بھی ہوا لیکن خیر۔۔ اتنا ایک تو کرنا ہی پڑتا ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سٹاف روم سے نکلی تو اسامہ کو پرنسپل کے آفس سے نکلتا دیکھ کر ٹھٹکی۔۔ اسامہ نے اسے نہیں دیکھا تھا۔۔ اسے دیکھ کر اقراء کو اس دن والی ملاقات یاد آئی۔۔ قسمت نے انہیں کیسے ملا دیا تھا لیکن اسامہ کی کسی بھی بات کسی بھی معذرت کا اس کہ دل پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی وہ بس اس سے مروتاً معافی مانگ رہا تھا وہ بھی اس لیے کیونکہ ان کی ملاقات ہوگئی تھی ۔۔۔ اگر ایسا نا ہوتا تو شاید وہ کبھی اسامہ کو یاد بھی نا رہتی۔۔ 
وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب پیچھے سے مس نائلہ نے اسے پکارا اس کا موبائل اس کے ہاتھ میں تھمایا۔۔
"تمہارا فون کب سے بج رہا ہے اقراء۔۔ چیک کر لو شاید کوئی ضروری کال ہو۔۔ "
اس نے ان کے ہاتھ سے موبائل پکڑا تو کوئی انجان نمبر تھا۔۔۔ پہلے تو اس نے سوچا اگنور کر دے مگر پھر مسلسل بجنے والی بیل نے اسے پریشان کیا تو اس نے کال اٹھا لی ۔۔ 
"السلام علیکم۔۔ "
دوسری طرف سے سلام کیا گیا۔۔ انجانی مردانہ آواز کو وہ بالکل نا پہچان پائی تھی۔۔
"وعلیکم السلام۔۔ "
اس نے جھجکتے ہوئے جواب دیا۔۔
"کیسی ہیں آپ۔۔۔؟ "
دوسری طرف سے پوچھا گیا۔۔
"آپ کون۔۔؟ "
اب کی بار اقراء نے اپنے لہجے میں سختی سموئی۔۔کسی انجان شخص سے وہ نرمی برتنے کی غلطی نہیں کر سکتی تھی۔۔
"دیکھیں مس اقراء آپ پلیز کال مت بند کریے گا۔۔ میں ڈاکٹر اسامہ بات کر رہا ہوں اور میں بس آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ "
اسامہ نرمی سے بولا۔۔
"مجھے آپ کی کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے ڈاکٹر اسامہ ۔۔ آپ برائے مہربانی میرا پیچھا چھوڑ دیں۔۔ "
وہ بے حد حیران ہوئی تھی۔۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس حد تک سنجیدہ ہوگا اس معاملے کو لے کر۔۔
"دیکھیں مس میں جسٹ آپ کی ہیلپ کرنا چاہتا ہوں میں جانتا ہوں مجھ سے ایک غلطی ہوئی ہے۔۔ آپ بے شک مجھے ایسے ہی معاف کر دیں مگر میرے دل کو تب تک تسلی نہیں ہوگی جب تک میں آپ کی مدد نا کر دوں۔۔ میں آپ کے لیے آپ کی مدد نہیں کر رہا بلکہ اپنے اطمینان کے لیے کر رہا ہوں۔۔ "
اب کی بار وہ سنجیدگی سے بولا۔۔
"آپ اپنا یہ اطمینان کسی اور کے سہارے سے حاصل کریں مجھے آپ کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔۔ اور دوبارہ میرے راستے میں آنے کی کوشش مت کریے گا۔۔ "
اقراء نے سختی سے کہہ کر اپنا فون بند کر دیا جبکہ اسامہ فقط فون کو گھور کر رہ گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہانیہ اٹھو بچے تمہاری ماموں لوگ آنے والے ہیں۔۔ "
فرزانہ بیگم ہانیہ کو پکارتے ہوئے بولیں جو بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔۔۔
"مجھے نہیں باہر آنا ماما۔۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں یے۔۔ "
وہ آہستگی سے بولی ۔۔۔
"کیسی بچوں والی باتیں کر رہی ہو ہانی۔۔ اب وہ تمہارا سسرال بھی ہے۔۔ اور طبیعت خراب ہے تو جنید کو دکھا لینا۔۔ "
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں جبکہ اس کی سوئی ایک بات پر اڑی۔۔
"وہ بھی آ رہے ہیں۔۔؟ "
اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔۔
"ظاہر سی بات ہے شادی کی تاریخ طے کرنے آ رہے ہیں تو وہ بھی آئے گا ہی۔۔ چلو اٹھو شاباش اب۔۔ خدیجہ بھی آتی ہوگی۔۔ تم سے اچھی بیٹی تو وہ بنی ہوئی ہے میری۔۔ آدھے سے زیادہ کام تو وہی کر دیتی ہے۔۔ "
وہ اسے جھڑکتے ہوئے بولیں۔۔
"ہاں تو اسی نے آپ کی بیٹی بننا ہے۔۔ مجھے تو آپ خود سے دور کر رہی ہیں۔۔ "
وہ ناراضگی سے بولی۔۔
"ارے پگلی بیٹیاں تو ہوتی ہی امانت ہیں۔۔ ایک نا ایک دن تو انہیں کسی کے حوالے کرنا ہی ہوتا ہے نا۔۔ بس ان شا اللہ آج حسن کے نکاح کی تاریخ بھی رکھ دیں گے۔۔ بھائی صاحب کو بھی بلا لیا ہے تاکہ تمہارے جانے کے بعد مجھے اداسی نا ہو۔۔ ایک کو رخصت کریں گے تو ایک کو کروا لائیں گے۔۔ "
وہ مسکراتے ہوئے بولیں تو وہ بھی مسکرائی۔۔ تبھی کمرے کا دروازہ کھلا۔۔
"ہائے اللہ میرے بغیر ہی ساری محبتیں بانٹی جا رہی ہیں۔۔۔ "
خدیجہ اندر داخل ہوتی ہوئی ناراضگی سے بولی۔۔
"ارے تم بھی آ جاؤ نا۔۔ بلکہ تم اس کو بھی سمجھاؤ زرا۔۔ میں کچن کے انتظامات دیکھ لوں۔۔ "
فرزانہ بیگم مسکرا کر کہتی وہاں سے چلی گئیں۔۔
"کیا حال احوال ہیں آدم بیزار لوگوں۔۔؟"
خدیجہ ہانیہ کے بیڈ پر بیٹھتی ہوئی بولی۔۔
"میں تو ٹھیک ہوں البتہ تم آج ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔ اتنی چمک رہی ہو۔۔"
ہانیہ بولی۔۔
"ہائے مجھ سے تو کچھ نا پوچھو میں تو آج ہواؤں میں ہوں ۔۔۔ آج بطور خاص تیار ہوئی ہوں۔۔ "
خدیجہ ادا سے بولی تو ہانیہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دی۔۔ وہ واقعی میں بہت حسین لگ رہی تھی۔۔ گلابی رنگ کا جوڑا پہنے بالوں کو ایک طرف کیے چہرے پر ہلکے میک اپ نے اس کہ نین نقوش کو مزید ابھارا تھا۔۔ اور چہرے پر سجی ہمہ وقت مسکان تو اسے اور خوبصورت بناتی تھی۔۔
"آج تو تم واقعی بھائی کے ہوش اڑاؤ گی۔۔۔"
ہانیہ شرارت سے بولی۔۔
"وہ ظالم تو مجھے اپنی زندگی سے اڑانے کے چکروں میں ہیں آپ ہوش اڑانے کی بات کر رہی ہیں۔۔ "
وہ آہ بھرتے ہوئے بولی تو ہانیہ ہنس دی۔۔۔
"اب آپ بھی تیار ہو جائیں۔۔ ورنہ جنید بھائی نے آپ کو ایسی حالت میں دیکھ لیا تو بھاگ ہی جائیں گے۔۔ پہلے ہی اتنی مشکل سے شادی کے کیے راضی ہوئے ہیں۔۔ "
اب کی بار خدیجہ شرارت سے بولی تو ہانیہ منہ بناتے ہوئے اٹھ گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Where stories live. Discover now