Episode 23

2.7K 211 168
                                    

"حیرت ہے اسامہ بھائی۔۔۔ سب کی شادیوں پر آپ نے اتنا شور مچایا ہوتا ہے آج آپ کی اپنی شادی ہے تو اتنے سکون سے کیسے بیٹھے ہیں۔۔ "
عمیر اسامہ کو خاموش بیٹھے دیکھ کر بولا۔
"ہاں اسامہ۔۔ بولتی کیوں بند ہو گئی ہے ہماری۔۔؟ "
جنید نے بھی اس سے پوچھا۔۔ آج اسامہ اور اقراء کی مہندی تھی۔۔ ہانیہ اقراء کو لے کر پارلر گئی تھی جبکہ وہ دونوں اسامہ کہ کمرے میں اس کی تیاری دیکھنے آئے تھے مگر اسے خاموشی سے صوفے پر بیٹھا دیکھ کر حیران ہوتے ہوئے۔۔
"اٹھو بھی اسامہ اب تیار ہو جاؤ۔۔ دیر ہو رہی ہے ۔۔"
اسامہ کو ہنوز خاموش دیکھ کر جنید بولا۔۔۔
"کوئی پریشانی ہے اسامہ۔۔؟"
عمیر باہر گیا تو جنید نے اسامہ سے پوچھا۔۔ وہ آج کافی خاموش لگ رہا تھا اور یہ بات سب کے لیے خلاف معمول تھی۔۔۔
"نہیں کوئی پریشانی نہیں ہے بھائی۔۔۔"
اسامہ زبردستی مسکرا کر بولا۔۔
"تو پھر اتنے خاموش کیوں ہو۔۔؟ "
"اب دولہا بولتا ہوا اچھے لگے گا۔۔؟ "
اسامہ منہ بنا کر بولا۔۔
"تم بولتے ہوئے ہی اچھے لگتے ہو۔۔ "
"ایسی ڈائیلاگ بازی بھابھی کے ساتھ لیا کریں۔۔"
اسامہ شرارت سے بولا۔۔
"بس ہوجاؤ شروع اب۔۔۔ چلو جلدی تیار ہو۔۔"
جنید کہتا ہوا باہر نکل گیا تو اسامہ بے دلی سے تیار ہونے لگا۔۔۔۔ ایک عجیب سی گھبراہٹ تھی جو اسے محسوس ہو رہی تھی۔۔ اقراء فقط اسے ایک ضرورت کے تحت استعمال کر رہی تھی اور یہ خیال بار بار اسامہ کو تکلیف دے رہا تھا۔۔ وہ ایسی لڑکی کو اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا تھا جسے اس کی ضرورت ہو مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ اس رشتے میں کوئی جذبہ کوئی چاہت ہی نا ہو۔۔ وہ اپنے رشتے کی بنیاد محبت پر رکھنا چاہتا تھا مگر وہ پہلے ہی اسے باور کروا چکی تھی کہ یہ رشتہ اس کے لیے کیا معنی رکھتا ہے۔۔۔ وہ کبھی اس سے شادی کرنے کو راضی نا ہوتا خاص کر اس کہ خیالات جاننے کے بعد اگر وہ اسے آمنہ بیگم کی قسم نا دیتی۔۔ وہ اسے بہت عزیز تھیں۔۔ ان کہ لیے وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔۔ نا چاہتے ہوئے بھی اسے اس رشتے پر راضی ہونا پڑا تھا۔۔
"چلو اسامہ آ جاؤ۔۔ "
کچھ دیر بعد جنید کی آواز آئی تو وہ آخری بار اپنے بالوں میں کنگھی پھیر کر باہر نکل آیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سٹیج پر بیٹھا تھا جب ہانیہ کے ساتھ چلتی اقراء اندر داخل ہوئی۔۔ اس نے سبز رنگ کا گھیر دار فراک پہن رکھا تھا۔۔ بالوں کی چٹیا کی گئی تھی جبکہ اس پر سارے پھول لگے ہوئے تھے۔۔ وہ آہستہ سے چلتی سٹیج تک آئی اور اسے اسامہ کے ساتھ بٹھا دیا گیا۔۔ اسامہ نے ایک اچٹی نگاہ سے اسے دیکھا پھر دوبارہ ارد گرد دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔۔ وہ خود سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔۔ کچھ ہی دیر میں رسمیں شروع ہوئیں۔۔ اقراء کی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھی۔۔ اپنوں کی کمی اس موقع پر اس کو شدید محسوس ہو رہی تھی۔۔
"اندر جا کر رونے کا شوق پورا کر لینا۔۔ یہاں لوگ سمجھیں گے میں نے تم سے کہا ہے کچھ۔۔"
اسامہ لاتعلق بیٹھا تھا مگر اس سے بے خبر نہیں تھا۔۔
"چپ نہیں کروا سکتے تو خاموش رہیں۔۔"
وہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بولی تو اسامہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
"تمہیں ضرورت ہے میری ہمدردی کی۔۔؟ جہاں تک میرا خیال ہے تمہیں تو میری مدد کی بھی ضرورت نہیں تھی۔۔"
اسامہ سنجیدگی سے بولا تو اقراء نے ملامتی نظروں سے اسے دیکھا۔۔
"اب ایسے مت دیکھو۔۔ مانا کافی ہنیڈسم ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم گھور گھور کر نظر ہی لگا دو۔۔ "
اسامہ کے کہنے پر وہ اس کہ چہرے سے نظر چرا گئی۔۔ اب وہ آہستہ آہستہ اپنی فارم میں واپس آ چکا تھا۔۔۔
"یہ بدمزہ مٹھائی اٹھا لو میرے آگے سے۔۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور تم لوگ اس بد مزہ مٹھائی سے رسمیں کر رہے ہو اب تک۔۔ کوئی پیزا کوئی پاستا۔۔۔ یہ چیزیں نہیں رکھ سکتے تھے۔۔؟"
جب ہانیہ اور جنید رسم کرنے آئے تو اسامہ منہ بنا کر بولا۔۔
"تمہیں عزت راس نہیں آ رہی لگتا ہے اسامہ۔۔"
جنید اسے آنکھیں دکھا کر بولا۔۔۔
"بھابھی اپنے ڈاکٹر صاحب کو سمجھا لیں۔۔ آج میری بے عزتی نہیں کر سکتے یہ۔۔"
وہ ہانیہ کی طرف متوجہ ہوا۔۔
"کیوں بھئی آج کیا ہے۔۔؟"
"دولہا بن گیا ہوں آج میں۔۔ اب میری بھی عزت ہوگئی ہے معاشرے میں۔۔ مقام بڑھ گیا ہے میرا۔۔"
اسامہ کے کہنے پر سب ہنس دیے۔۔
"اقراء تم اس معاملے میں بہت خوش قسمت ہو۔۔ اسامہ بھائی تمہیں کبھی بور نہیں ہونے دیں گے۔۔"
ہانیہ ہنستے ہوئے بولی۔۔
"پہلے سے ہی بور شدہ لوگوں کو میں مزید کیا بور کروں گا۔۔"
اسامہ آہستہ آواز میں بڑبڑایا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہانی۔۔ سنو۔۔"
ہانیہ ہاتھ میں جوڑا اٹھائے کمرے سے باہر جا رہی تھی جب جنید نے اسے پکارا۔۔
"مجھے ابھی بہت ضروری کام ہے۔۔ میں آتی ہوں۔۔"
وہ عجلت سے کہتی باہر نکلنے لگی جب جنید نے اس کی کلائی پکڑ کر اسے روکا اور اپنی طرف کیا۔۔
"سارے کام تمہارے مجھ سے زیادہ ضروری ہیں۔۔؟ دو دن ہوگئے ہیں تمہیں فرصت ہی نہیں مل رہی۔۔"
جنید ناراضگی سے بولا۔۔
"تو گھر میں شادی ہے۔۔ اتنے سارے کام ہیں۔۔ مجھے کہاں سے فرصت ملے گی۔۔۔۔"
وہ کندھے اچکا کر بولی۔۔۔
"کام مجھ سے زیادہ ضروری ہیں۔۔؟ "
جنید ناراضگی سے بولا تو ہانیہ ہنس دی۔۔
"آپ کو کیا ہوگیا ہے جنید۔۔ بچوں جیسی باتیں کیوں کر رہے ہیں۔۔؟ "
ہانیہ ہنستے ہوئے بولی۔۔
"کیوں کہ تم مجھے ٹائم نہیں دے رہی۔۔ "
وہ منہ بنا کر بولا۔۔
"اچھا جی۔۔ اور جب خود مجھے ٹائم نہیں دیتے آپ تب۔۔؟ آدھی آدھی رات کو گھر آتے ہیں۔۔ کبھی لیپ ٹاپ لے کر ایسا بیٹھتے ہیں کہ بھول ہی جاتے ہیں ساتھ بی وی بھی بیٹھی ہے۔۔"
ہانیہ جتاتے ہوئے بولی۔۔
"میں پھر معذرت بھی کرتا ہوں اپنے کیے کی۔۔۔"
"اب میں آپ سے سوری کروں۔۔؟ "
ہانیہ اسے آنکھیں دکھاتے ہوئے بولی۔۔
"پہلے مجھے منا تو لو۔۔
"آپ مجھ سے کس بات پر ناراض ہیں۔؟"
"تم مجھے نظر انداز کر رہی ہو۔۔"
"نیند میں لگتا ہے آپ۔۔ سو جائیں جا کر۔۔"
ہانیہ ہنستے ہوئے بولی۔۔
"تم سے ناراض ہوکر سویا تو تمہیں گناہ ملے گا۔۔"
"میں کیا کروں جس سے آپ مان جائیں۔۔؟"
"چپ کر کہ کمرے میں آ جاؤ اور جیسے پہلے مجھ سے روز باتیں کرتی ہو آج بھی کرو۔۔۔۔"
"اور یہ سوٹ۔۔؟ یہ کون پریس کر کہ دے کر آئے گا اقراء کو۔۔۔؟"
جنید کہ کہنے پر اس نے ڈبہ اس کے آگے کیا۔۔
"لوگوں کی خدمتیں کرو بس۔۔"
جنید خفگی سے بولا۔۔
"میرا ہاتھ چھوڑیں گے تو کروں گی نا خدمت سب کی۔۔"
ہانیہ شرارت سے بولی تو جنید نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور جا کر بیڈ پر لیٹ گیا۔۔ وہ کندھے اچکار کر کمرے سے باہر آگئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آپ ویسے بہت بے شرم ہیں۔۔"
خدیجہ منہ بناتے ہوئے بولی۔۔ کامران صاحب اور فرزانہ بیگم پہلے ہی ہال پہنچ چکے تھے۔۔ حسن خدیجہ کو لے کر جا رہا تھا جب وہ بولی۔۔
"اب میں نے کیا کر دیا۔۔؟"
حسین نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔۔
"لوگوں کی باراتیں دیکھ کر آپ کو شرم نہیں آتی۔۔؟
وہ اسے گھورتے ہوئے بولی۔۔
"مجھے کیوں شرم آئے گی۔۔؟ جن کی بارات ہے ان کو آنی چاہیے نا۔۔"
وہ نا سمجھی سے بولا۔۔
"بس سب شادی شدہ ہوجائیں گے آپ بیٹھے رہیے گا کنوارے ہی۔۔"
وہ کڑھتے ہوئے بولی تو حسن اس کی بات سمجھتے ہوئے ہنس دیا۔۔
"میں کہاں کنوارہ ہوں۔؟ ایک عدد بیوی ہے میرے پاس۔۔
"ہاں بس آدھی ادھوری شادی کیے رکھیں۔۔۔"
"آدھی ادھوری کیا مطلب۔۔؟ پورا نکاح ہوا تھا آدھا تھوڑی نا ہوا تھا۔۔ "
وہ مسکراہٹ دبا کر بولا۔۔
"سب کی رخصتیاں بھی ہو جاتی ہیں نکاح کے بعد۔۔ ایک ہم ہی ہیں بس لٹک کر ہی بیٹھ گئے ہیں۔۔۔ "
وہ منہ بناتے ہوئے بولی تو حسن کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔۔
"تمہیں اپنی رخصتی نا ہونے کا غم ہے۔۔؟ "
وہ شرارت سے بولا۔۔
"مجھے اپنی پڑھائی نا ختم ہونے کا غم ہے۔۔ سوچا تھا شادی ہوگی تو پڑھائی سے جان چھوٹے گی مگر یہاں تو مزید جان پھنس گئی ہے میری۔۔"
وہ روہانسی لہجے میں بولی۔۔
"تم نے صرف پڑھائی سے جان چھڑانے کے لیے مجھ سے شادی کی ہے۔۔؟ "
حسن نے اسے گھورا۔۔
"ظاہر سی بات ہے اگر پڑھنا ہی ہوتا مجھے تو آپ سے شادی کیوں کرتی۔۔؟"
وہ لاپرواہی سے بولی۔۔
"پھر کس سے کرتی شادی۔۔؟ "
"کسی اچھے پڑھے لکھے انسان سے کرتی۔۔ جو میرا ہم عمر بھی ہوتا اور اتنا سڑا ہوا بھی نا ہوتا اور تھوڑا پیارا بھی ۔۔۔۔"
ابھی اس کی لسٹ بیچ میں ہی تھی جب حسن نے اس کی بات کاٹی۔۔
"تمہاری رخصتی کی بات تو میں آج ہی بابا سے کرتا ہوں۔۔"
حسن چڑتے ہوئے بولا۔۔
"آپ بس باتیں کریں بیٹھ کر۔۔۔ باراتیں لانے والے اپنی دولہنیں لے کر جا بھی چکے ہیں سب۔۔"
خدیجہ کی بات نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔۔۔ حسن نے اسے گھورا تو وہ اس کی طرف دیکھ کر کندھے اچکا گئی۔۔
"آگے دیکھ کر گاڑی چلائیں۔۔ ہال جانا ہے ہمیں جنت میں نہیں جانا ابھی۔۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح شام میں ہوا تھا جبکہ بارات کا فنکشن بھی اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔۔ اقراء کی طرف سے بھی سب رسمیں ہانیہ نے ہی کی تھیں۔۔ آج ہانیہ نے پنک کلر کی میکسی پہن رکھی تھی اور صبح سے وہ کبھی گھر میں تو کبھی ہال میں ادھر ادھر پھرتی نظر آ رہی تھی۔۔
"بس کرو ہانی۔۔۔ بیٹھ جاؤ اب۔۔"
جنید اسے ٹوکتا ہوا بولا۔۔
"میں بیٹھ جاؤں گی تو ان کا استقبال کون کرے گا۔۔۔"
"وہ مریخ سے نہیں آ رہے۔۔ باقی سب بھی ہیں ان کا استقبال کرنے کے لیے تم آرام کرو اب ۔۔ کام کہ چکر میں اپنی طبیعت نا خراب کر لینا۔۔"
جنید اسے جھڑکتا ہوا بولا۔۔۔
"آپ تو مجھ سے ناراض تھے نا۔۔"
ہانیہ نے مسکراہٹ دبائی۔۔
"ناراض ہوں لیکن غافل نہیں ہوں تمہاری طرف سے۔۔ چلو شاباش باہر آؤ اور بیٹھ جاؤ اب۔۔"
جنید اس کہ گرد بازو لپیٹ کر اسے کچن سے باہر نکالتے ہوئے بولا۔۔
"میں ایک شرط باہر جاؤں گی۔۔"
"اب کیسی شرط۔۔؟"
"پہلے آپ مجھ سے ناراضگی ختم کریں۔۔ پھر میں باہر آؤں گی۔۔"
ہانیہ کے معصومیت سے کہنے پر جنید نے اسے گھورا۔۔
"یہ کیا طریقہ ہوا بھلا منانے کا۔۔؟ ایک سو ایک اور طریقے ہوتے ہیں شوہر کو منانے کے تمہیں یہی ملا تھا بس۔۔؟ "
"مجھے تو یہی پتا ہے۔۔ آپ مجھ سے ناراضگی ختم کریں ورنہ میں نہیں آ رہی باہر نا کوئی آرام کروں گی۔۔"
ہانیہ اسے دھمکی دیتے ہوئے بولی۔۔
"اچھا بھئی ختم ناراضگی ۔۔ چلیں اب باہ
۔۔؟"
جنید ہار مانتے ہوئے بولا تبھی باہر اسامہ کے آنے کا شور مچا تو ہانیہ جنید کو اندر چھوڑتی فوراََ باہر بھاگی۔۔ وہ اسے بس تاسف سے دیکھتا رہ گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میں تو نہیں دیتا ایک روپے بھی۔۔ جو کرنا ہے کر لو۔۔"
عمیر اور ہانیہ اسامہ کا راستہ روکے کھڑے تھے جبکہ وہ وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔۔ سب نے اسے حیرت سے دیکھا۔۔
"اسامہ بھائی کہاں لے کر جائیں گے اتنا پیسہ۔۔؟ "
عمیر نے منہ بسورا۔۔
"قبر میں لے جاؤں گا بیٹا لیکن تجھے نہیں دوں گا۔۔"
اسامہ اب چوپڑی مار کر بیٹھ چکا تھا۔۔
"ایسے تو ہم بھی آپ کو کمرے میں نہیں جانے دیں گے۔۔ "
ہانیہ نے دھمکی دی۔۔
"نہ جانے دو۔۔ میں سیدھا یہاں سے ہاسٹل چلا جاؤں گا۔۔"
وہ کندھے اچکا کر بولا۔۔
"اور اقراء۔۔؟"
"اس کو تم لوگ رکھو یہاں پر ہی۔۔"
وہ لاپرواہی سے بولا۔۔
"شرم کریں اسامہ بھائی۔۔ ابھی چند گھنٹے بھی نہیں ہوئے آپ کی شادی کو اور ابھی سے بیوی سے جان چھڑوا رہے ہیں۔۔۔ "
ہانیہ افسوس سے بولی۔۔
"ہاں تو سب آپ کہ ڈاکٹر صاحب کی طرح تھوڑی نا ہوتے ہیں۔۔ ہانیہ یہ کھا لو۔۔ ہانی آرام کر لو۔۔ ہانی میڈیسن کھا لو۔۔ مطلب عجیب جورو کا غلام۔۔"
اسامہ جنید کی نظر اتار کر بولا تو جنید ہنس دیا۔۔
"یہ غلامی نہیں ہوتی کیرئنگ نیچر ہوتی ہے۔۔"
ہانیہ جتاتے ہوئے بولی۔۔
"ہاں تو اپنے کیرئنگ شوہر سے جا کر لے لیں پیسے بھابھی ماں۔۔ میں تو نہایت غریب ہوں۔۔۔"
وہ اپنے ہاتھ اٹھاتا ہوا بولا۔۔
"ہانی تم مجھ سے پیسے لے لینا۔۔ اس سے مغز ماری کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔"
جنید ہانیہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا۔۔
"اور میرا حصہ۔۔؟"
عمیر نے منہ بنایا۔۔
"تم بھی مجھ سے لے لینا بھئی۔۔"
"چلو شکر ہے یہ مسئلہ تو حل ہوا۔۔ اب میں جاؤں۔۔؟"
اسامہ اٹھتے ہوئے بولا۔۔
"جائیں ۔۔ اب آپ سے یہاں ہم نے کون سا جھاڑو پوچھا کروانا ہے۔۔"
عمیر منہ بناتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسامہ کمرے میں داخل ہوا تو اقراء صوفے پر بیٹھی تھی۔۔ ڈل گولڈ اور ڈیپ ریڈ کومبینیشن کے لہنگے میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔ اسامہ دروازہ بند کر کہ اس کی طرف پلٹا۔۔
"سخت زہر لگ رہی ہو مجھے اس وقت۔۔"
اسامہ کہ کہنے پر اقراء نے حیرت سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
"شکل کی بات نہیں کر رہا یار اپنی حرکتوں سے ذہر لگتی ہو تم مجھے ۔۔ "
"میں نے آپ کو کیا کہا ہے۔۔؟"
اقراء حیرانی سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
"اتنی سڑھی ہوئی باتیں تم شادی سے پہلے ہی سنا چکی ہو اب کہنے کو کیا بچا ہے۔۔؟ "
اسامہ کے پوچھنے پر اقراء نے اسے گھورا۔۔
"آپ کو تو فضول کی باتیں کرنے کی عادت ہے۔۔"
وہ سنجیدگی سے کہتی کپڑے تبدیل کرنے چلی گئی۔۔ اس کہ باہر آنے پر اسامہ بھی کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا اور ٹراؤزر شرٹ پہن کر باہر آیا تو وہ دوبارہ اسی صوفے پر بیٹھی تھی۔۔ اسامہ جا کر بیڈ پر لیٹ گیا۔۔
"اب کیا ساری رات صوفے پر بیٹھ کر مجھے بد دعائیں دینی ہیں۔۔؟"
اسامہ کی آواز پر اس نے بس خاموشی سے اسامہ کو دیکھا۔۔
"تم ہی سو جاؤ بیڈ پر جا کر۔۔ ندیدی نظروں سے مت دیکھو میرے بستر کو۔۔"
اسامہ اپنا تکیہ اٹھاتا صوفے پر آ گیا تو اقراء وہاں سے اٹھ گئی۔۔۔ اقراء نے اسامہ کی طرف ایک لفافہ پکڑایا جسے اسامہ نے نا سمجھی سے کھولا۔۔
"یہ کیا ہے۔۔؟"
"یہ وہ۔۔۔"
اقراء نے کچھ کہنا چاہا مگر اس لفافے میں پیسے دیکھ کر اسامہ نے اس کی بات کاٹی۔۔
"واہ۔۔ اب تم یہاں رہنے کے پیسے دیا کرو گی مجھے۔۔؟ "
اسامہ حیرانی سے بولا۔۔
"نہیں یہ۔۔۔"
اقراء نے پھر کچھ کہنا چاہا۔۔
"ہنی مون کے لیے پیسے۔۔؟ واؤ سسرال والوں کے خرچے پر ہنی مون۔۔؟ مزا آئے گا پھر تو۔۔"
اسامہ پرجوش سا بولا۔۔
"یہ پیسے میں آپ کے چیریٹی سکول کے لیے دینا چاہتی ہوں۔۔۔"
اس سے پہلے وہ مزید کوئی پیشگوئی کرتا اقراء جلدی سے بولی۔۔
"میں کسی کی مدد لینا پسند نہیں کرتا مس اقراء۔۔۔"
اسامہ نے وہ لفافہ سامنے ٹیبل پر پھینکا اور صوفے پر آنکھیں موند کر لیٹ گیا۔۔ اقراء کچھ لمحے اسے دیکھتی رہی پھر بیڈ پر جا کر لیٹ گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Where stories live. Discover now