Episode 15

2.4K 198 97
                                    

"آ گیا وہ شاہکار ۔۔ جس کا تھا سب کو بے صبری سے انتظار۔۔۔"
اسامہ ایک ہاتھ میں ہینڈ کیری پکڑے دوسرے میں گاڑی کی چابی گھماتا اونچی آواز میں بولتا اندر داخل ہوا۔۔
"لو جی۔۔ آ گئی ٹینشن۔۔"
جنید منہ بنا کر بولا۔۔
"ٹینشن نہیں ٹینشن فری پیکج کہیں۔۔ نہ ٹینشن لیتا ہے نا دیتا ہے نہ لینے دیتا ہے۔۔"
اسامہ ایک ادا سے بولا اور جنید کے بغل گیر ہوا۔۔
"شکر ہے اسامہ بھائی آپ آ گئے۔۔ آپ کہ بغیر تو یہ گھر مجھے جیل لگتا ہے۔۔"
عمیر بھی اس سے بغل گیر ہوتا ہوا بولا۔۔۔
"ہائے شکر ہے مجھ سے بھی کسی نے اظہار محت کیا۔۔"
اسامہ جوش سے بولا۔۔
"ماما یہ ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر بڑا نور آیا ہوا ہے۔۔ خیر تو ہے۔۔؟ "
اسامہ شرارت سے بولا۔۔
"اسامہ بیٹھ کر سکون کا سانس لے لو پہلے بعد میں شرارتیں کر لینا۔۔"
سلمی بیگم کہ کہنے پر وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر خاموش ہوگیا۔۔
"اماں جان یا مجھے کھانا دے دیں یا پھر بیوی لا دیں جو ٹائم پر کھانا بنا دیا کرے میرے لیے۔۔۔"
کافی دیر باتیں کرنے کے بعد اسے بھوک ستائی تو بولا۔۔
"پہلے ایک بہو تو لے آؤں گھر خیر سے۔۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔۔۔
"میری بھی ساتھ ہی لے آئیں نا ماما۔۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے ۔۔۔"
وہ پرجوش سا ان کہ پاس بیٹھتا ہوا بولا۔۔
"پہلے اسی کی کر دیں ماما۔۔ میں ایک دو مہینے مزید انتظار کر سکتا ہوں۔۔ "
جنید مسکراہٹ دبا کر بولا۔۔
"گڈ آئیڈیا۔۔ پہلے میری ہی کر دیتے ہیں ۔۔۔"
اسامہ پر جوش سا بولا۔۔
"چپ کر کہ بیٹھو تم۔۔ اتنی مشکل سے تو راضی ہوا ہے یہ لڑکا۔۔مجھے تو اس پر زرا اعتبار نہیں ہے فوراََ اس کی شادی کر دوں اب بس۔۔"
سلمی بیگم بولیں۔۔
"واہ بھائی۔۔ جو مشکل سے راضی ہوا ہے اس کی شادی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور جو دل و جان سے راضی ہے اس کی فکر ہی کوئی نہیں۔۔؟ کیا زمانہ آ گیا ہے بھائی۔۔ "
اسامہ آہ بھرتے ہوئے بولا۔۔
"انسان بن جاؤ اسامہ۔۔"
انہوں نے اس کہ سر پر چپت لگائی۔۔
"پھر آپ میری شادی کروا دیں گی۔۔؟ بلکہ ایسا کیوں نہیں کرتیں کہ جنید بھائی کی شادی پر ہی میرے لیے بھی کوئی ڈھونڈ لیں۔۔؟ یا ایک اور اوپشن بھی ہے۔۔ میں خود ہی کوئی ڈھونڈ لیتا ہوں۔۔ "
وہ شرارت سے بولا۔۔
"تم خود ہی ڈھونڈ لو کوئی۔۔ جس طرح کا تمہارا مزاج ہے ایسی مسخری ہم تو نہیں ڈھونڈ سکیں گے۔۔ "
جنید کے کہنے پر وہ ہنس دیا۔۔
"بس آپ مجھے لڑکی ڈھونڈ دیں۔۔۔ اس کو اپنے جیسا خوش مزاج میں خود ہی بنا لوں گا۔۔ "
"تمہیں سب سے سڑیل لڑکی ملے گی اسامہ دیکھ لینا۔۔۔ "
"آپ تو چپ ہی کریں ڈاکٹر صاحب۔۔ مجھے تو پھر سڑیل لڑکی ملے گی آپ کو تو سرے سے لڑکی ہی نہیں ملنی تھی۔۔ یہ تو بس میری پھپھو بیچاری نے آپ کی محبت میں اپنی بیٹی قربان کر دی ورنہ۔۔۔ "
اسامہ شرارت سے بولا تو جنید نے اسے کوشن مارا۔۔
"چلو بس کرو اب تم لوگ۔۔ آ کر کھانا کھا لو۔۔ "
سلمی بیگم کے کہنے پر وہ سب وہاں سے اٹھ گئے۔۔ اسامہ جب بھی آتا تھا ان کہ گھر میں ایسے ہی رونق ہوجایا کرتی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کھانا کھا کر کمرے میں آیا تو اسے آمنہ بیگم کا خیال آیا۔۔ یہاں آنے سے دو دن پہلے وہ ان سے مل کر آیا تھا اور اس دن اس چھپکلی نے اس کا موڈ اتنا خراب کر دیا تھا کہ اس نے دو دن انہیں کال ہی نہیں کی تھی۔۔ اب اسے ان کی طبیعت کا احساس ہوا تو اس نے ان کا نمبر ڈائل کیا۔۔ پہلی دو دفع تو کال نہیں اٹھائی گئی مگر تیسری دفعہ اٹھا لی گئی۔۔ 
"السلام علیکم۔۔"
اسامہ نے سلام کیا۔۔
"علیکم السلام۔۔ آپ کہ ساتھ مسئلہ کیا ہے ڈاکٹر اسامہ۔۔؟ وہاں جا کر بھی آپ کو سکون نہیں ہے نہ ہمیں لینے دے رہے ہیں۔۔؟ "
دوسری طرف آمنہ بیگم کی بجائے اقراء تھی جو کہ بہت سرد لہجے میں بول رہی تھی۔۔ اسامہ کہ ماتھے کی رگیں تن گئیں۔۔
"مسئلہ میرے ساتھ نہیں مسئلہ آپ کے ساتھ ہے۔۔ نا میں آپ سے بات کرتا ہوں نا میں آپ کی مدد کر رہا ہوں تو آپ کو مجھ سے مسئلہ کیا ہے آخر۔۔؟ "
اسامہ غصے سے بولا۔۔
"میری ماں مجھ سے الگ نہیں ہے۔۔ آپ ان کی مدد کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ مجھ پر احسان کر رہے ہیں اور میں کسی کا احسان لینا نہیں چاہتی۔۔"
اس کا لہجہ ہنوز ویسا ہی تھا۔۔
"مجھے مجبور مت کریں مس کچھ بھی غلط بولنے پر کہ بعد میں مجھے پچھتاوا ہو۔۔ میں آنٹی کی وجہ سے آپ کی عزت کر رہا ہوں تو اس عزت کو قائم رہنے دیں۔۔ "
اسامہ سختی سے بولا۔۔
"تو مت کریں عزت۔۔ مدد بھی مت کریں۔۔ اللہ ہمارے لیے کوئی اور وسیلہ بنا دے گا۔۔ آپ کو ہماری زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔"
وہ تلخی سے بولی۔۔
"اللہ انہی کہ لیے وسیلے بناتا ہے جو اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور آپ مسلسل نا شکری کر رہی ہیں۔۔ اگر کوئی آپ کی مدد کر ہی رہا ہے تو بجائے اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس کو کوئی دعا دینے کے آپ مسلسل بدتمیزی ہی کیے جا رہی ہیں۔۔"
اسامہ کی برداشت بھی ختم ہو رہی تھی اس لیے اس نے بھی اسے اچھی خاصی سنا دیں۔۔ "
"تو پھر آپ نہ کریں ہماری مدد۔۔ میں جو کر رہی ہوں مجھے بہتر پتا ہے کیا کر رہی ہوں۔۔ آپ اپنا لیکچر اپنے پاس رکھیں۔۔"
وک غصے سے بولی۔۔
"میں بھی جو کر رہا ہوں بہتر کر رہا ہوں۔ آپ مجھے بھی تلقین کرنا چھوڑ دیں۔۔ میں آنٹی کی مدد کر رہا ہوں آپ کی نہیں۔۔ جب انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے تو آپ کو بھی نہیں ہونا چاہیے اور اگر پھر بھی آپ کو مسئلہ ہے تو پھر یہ آپ کا دماغی خلل ہے اس میں میں کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔ میں آنٹی کی مدد کرتا ہوں مجھے ان سے غرض ہے تو میں انہی کی بات سنوں گا۔۔آپ اپنے کام سے کام رکھیں۔۔۔"
اسامہ نے اچھے سے اس کی طبعیت صاف کی تو اسے چپ لگ گئی۔۔
"آنٹی کہاں ہیں۔۔؟ "
کچھ دیر خاموشی کے بعد اسامہ خود کو نارمل کر کہ بولا۔۔
"سو رہی ہیں ۔"
لٹھ مار انداز میں جواب دیا گیا۔۔
"تو پھر آپ نے فون اٹھایا ہی کیوں ہے۔۔؟مجھے تو ان سے بات کرنی تھی۔۔آپ سے بات کر کہ تو بندہ ویسے ہی بدمزہ ہوجاتا ہے۔۔"
اسامہ نے اکتاہٹ سے کہہ کر کال بند کردی تو وہ بس فون کو گھور کر رہ گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج جنید اور ہانیہ کا مہندی کا فنکشن تھا جبکہ خدیجہ اور حسن کا نکاح تھا آج۔۔ یہ فنکشن بھی گھر کہ لان میں ہی کیا تھا اور ہانیہ کی وجہ سے بہت زیادہ مہمانوں کو مدوع نہیں کیا گیا تھا۔۔ لان میں ہی سٹیج بنایا گیا تھا۔۔ پیلے پھولوں کے ساتھ ساری سجاوٹ کی گئی تھی۔۔۔ مہمان چونکے تھوڑے تھے اس لیے فنکشن کمبائین تھا۔۔ سٹیج بڑا تھا جس کی ایک طرف جھولا رکھا تھا جبکہ دوسری طرف ٹو سیٹر صوفہ پڑا تھا۔۔
"یار۔۔ میرا تو بی پی لو ہو رہا ہے۔۔۔ "
خدیجہ ٹینشن سے کہہ رہی تھی۔۔ پیچ کلر کی میکسی کے ساتھ مہرون دوپٹہ سر پر لیے وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔۔ بالوں کا خوبصورت سا ہئیر سٹائل بنایا گیا تھا جبکہ چہرے پر ہلکا میک اپ تھا جو اسے مزید خوبصورت بنا رہا تھا۔۔ دونوں ہاتھ مہندی سے سجے ہوئے تھے جبکہ کلائیوں میں چوڑیاں سجی ہوئی تھیں۔۔۔
"تھوڑی دیر چپ کر جاؤ تو شادی کچھ افاقہ ہو۔۔"
ہانیہ بولی۔۔ ہانیہ نے مہندی رنگ کا کلیوں والا فروک پہنا ہوا تھا۔۔ بالوں کی کھجروی چٹیا بنی ہوئی تھی جبکہ دوپٹہ سر پر سیٹ تھا۔۔ میک اپ اس کا بھی بہت ہلکا تھا اور پھولوں والی جیولری پہنی ہوئی تھی۔۔
"بھئی میں کیا کروں۔۔ ٹینشن میں تو مجھ سے بالکل خاموش نہیں رہا جاتا۔۔ "
خدیجہ پریشانی سے بولی۔۔
"تم سے کسی حال میں خاموش نہیں رہا جاتا میری بہن ۔۔۔"
ہانیہ مسکراہٹ دبا کر بولی۔۔
"یار ہانی ۔۔۔ پتا نہیں آپ کا بھائی میرے ساتھ کیا کرے گا۔۔۔؟ "
وہ کافی پریشان تھی۔۔۔
"کیا کرے گا کیا مطلب۔۔؟ نکاح ہوگا۔۔ اس کے بعد کوئی رسم وغیرہ ہوگی بس پھر۔۔ "
ہانیہ نا سمجھی سے بولی۔۔
"ارے یار۔۔۔ آپ تو نا بس۔۔"
خدیجہ نے اپنا سر پکڑا۔۔ خدیجہ نے ارسلان سے رابطہ کیا تھا اور وہ آج فنکشن پر آ بھی رہا تھا مگر خدیجہ نے اس سے کہا تھا کہ وہ نکاح کے بعد آئے۔۔ اتنا بڑا قدم تو وہ اٹھا چکی تھی مگر اب انجام سے خوف زدہ ہو رہی تھی۔۔
"بھائی کو تو دیکھو آج کتنے ہینڈسم لگ رہے ہیں۔۔۔"
ہانیہ نے خدیجہ کو کہنی ماری اور اسے کھڑکی سے نیچے متوجہ کیا جہاں حسن سارے انتظامات چیک کر رہا تھا۔۔ حسن نے براؤن رنگ کا شلوار قمیض پہن رکھا تھا ساتھ گلے میں پٹکا لپیٹا ہوا تھا۔۔ بال سلیقے سے سیٹ کیے وہ بہت جاذب نظر لگ رہا تھا۔۔
اسے دیکھ کر خدیجہ کا دل دھڑکا۔۔
"اتنا پیارا پندہ ہے۔۔ کیا تھا جو زرا سا دل بھی پیارا ہوتا۔۔۔"
خدیجہ نے منہ بسور کر سوچا پھر خود ہی اپنی بات پر ہنس دی۔۔۔
"پاگل ہو گئی ہو کیا۔۔؟ "
ہانیہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
"دماغ میں خلل آ گیا ہے۔۔"
وہ ہنستے ہوئے بولی تو ہانیہ بھی ہنس دی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اسامہ تمہاری نہیں میری شادی ہے۔۔ بس کر دو اب تیار ہونا۔۔۔ "
جنید اب کی بار اکتا کر بولا۔۔ وہ کب سے تیار بیٹھا تھا عمیر بھی ان کہ ساتھ انتظار کر رہا تھا بیٹھ کر اور اسامہ کی تیاری ہی ختم نہیں ہو رہی تھی۔۔ سفید شلوار قمیض پر بلو ویسکوٹ پہنے وہ کافی دیر سے اپنے بال ہی سنوارنے میں لگا ہوا تھا۔۔
"بھائی آپ کو تو اب مل گئی۔۔ آپ نا بھی تیار ہوں تو کس نے دیکھنا ہے۔۔ میرا تو ابھی ٹائم آیا ہوا ہے۔۔ کیا پتا کوئی پسند ہی کر لے۔۔ بندے کو تیار رہنا چاہیے۔۔ رشتہ اور فرشتہ کبھی بھی آ سکتا ہے۔۔ "
وہ بالوں میں کنگھی پھیرتے ہوئے بولا۔۔
"جس رفتار سے آپ تیار ہو رہے ہیں اسامہ بھائی ساری لڑکیاں فنکشن سے واپس جا چکی ہوں گی۔۔ بیٹھے رہیے گا کنوارے پھر۔۔ "
عمیر اکتاہٹ سے بولا تو اسامہ کے اسے گھورا۔۔
"چپ کر چھوٹے۔۔"
وہ اسے گھور کر بولا۔۔
"تم اب چل رہے ہو اسامہ یا ہم جائیں تمہیں چھوڑ کر۔۔؟ "
جنید نے غصے سے پوچھا۔۔
"بے چینی تو دیکھ ڈاکٹر صاحب کی۔۔ بھابھی ماں کو دیکھنے کے لیے مچل رہے ہیں۔۔"
اسامہ شرارت سے بولا۔۔ جنید ہنس دیا۔۔  باتوں میں وہ اسامہ سے کبھی نہیں جیت سکتا تھا۔۔
"آئے ہائے آج تو دانت بھی بڑے نکل رہے ہیں۔۔ واہ بھئی تبدیلی بھی آ گئی ہے۔۔"
اسامہ شرارت سے بولا۔۔
"عمیر اس کو لے کر باہر آ جاؤ۔۔ اور اگر اب یہ دس منٹ تک باہر نا نکلا تو باہر سے لاک لگا دینا۔۔ بیٹھا رہے گا اندر۔۔"
جنید سنجیدگی سے کہتا باہر چلا گیا۔۔
"جلدی کریں اسامہ بھائی۔۔۔ بھائی کو غصہ آ گیا تو یہیں پکڑ کر آپریشن نا کر دیں آپ کا۔۔۔"
عمیر شرارت سے بولا تو اسامہ نے کانوں کو ہاتھ لگائے اور پھر جلدی سے تیار ہو کر باہر آ گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنید بیچ میں چل رہا تھا جبکہ اسامہ اور عمیر ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا ڈالتے ہوئے اندر داخل ہو رہے تھے۔۔ ان کہ استقبال کے لیے ساری لڑکیاں پھول پکڑے دونوں اطراف میں کھڑی تھیں۔۔ محمود صاحب اور سلمی بیگم مسکراتے ہوئے ان کہ پیچھے آ رہے تھے اور سب سے مل رہے تھے۔۔ جنید نے بلیک شلوار قمیض پہنا ہوا تھا اور گلے میں پٹکا لپیٹ رکھا تھا۔۔
جنید سب کے جھرمٹ میں آ کر سٹیج پر بیٹھ گیا۔۔ کچھ ہی دیر بعد ہانیہ کو بھی سٹیج کی طرف لایا گیا۔۔۔ ہانیہ باقی کزنز کے ساتھ سر جھکائے آ رہی تھی۔۔ اسے دیکھ کر جنید کا دل زور سے دھڑکا۔۔ وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔۔ آہستہ سے چلتی ہوئی وہ سٹیج تک آئی اور اسے جنید کے ساتھ جھولے پر بٹھا دیا گیا۔۔
ہانیہ بہت گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔۔ چہرہ جھکا رکھا تھا۔۔ جنید کو محسوس ہوا کہ اس کا ہاتھ کانپ بھی رہا تھا ۔۔۔
بھابھی ماں اتنا خاموش بیٹھی ہیں آپ۔۔؟ ڈاکٹر صاحب نے کہیں ڈرایا دھمکایا تو نہیں۔۔؟ "
اسامہ ہانیہ کو خاموش دیکھ کر بولا تو وہ سر نفی میں ہلا کر مسکرائی۔۔
"ان کو ذرا کھینچ کر رکھیے گا ۔۔  بڑے کھلے ہوئے ہیں۔۔۔"
وہ راز داری سے بولا۔۔
"تم کیوں اس کو میرے خلاف بھڑکا رہے ہو۔۔؟"
جنید بولا۔۔
"میں بھڑکا تھوڑی نا رہا ہوں میں تو آپ کی تعریف کر رہا ہوں۔۔ بڑا اچھا علاج کرتے ہیں ہمارے ڈاکٹر صاحب دل و دماغ دونوں کا۔۔"
اسامہ شرارت سے بولا تو سب ہنس دیے۔۔
پھر سب نے رسم شروع کی ۔۔ باری باری سب انہیں مہندی لگا رہے تھے اور مٹھائی کھلا رہے تھے۔۔
"اب آپ بھابھی کو کھلائیں جنید بھائی۔۔ "
ان کی کزن بولی تو ہانیہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
"کیا ہوگیا بھابھی ماں۔۔؟  مٹھائی کھلانے کو کہا ہے زہر تو نہیں۔۔"
اسامہ شرارت سے بولا۔۔ جنید نے ہانیہ کی طرف مٹھائی بڑھائی تو سب نے ہوٹنگ کی۔۔ ہانیہ تھوڑی سی کھا کر فوراََ پیچھے ہوئی۔۔
"پیاری لگ رہی ہو۔۔۔"
سب کہیں اور متوجہ ہوئے تو جنید نے موقعے کا فائدہ اٹھا کر ہانیہ کے کان میں سرگوشی کی۔۔ ہانیہ فوراََ سرخ ہوئی اور سر جھکا کر بیٹھ گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدیجہ کا نکاح اندر کمرے میں ہی ہوچکا تھااور اب حسن کا نکاح باہر ہورہا تھا۔۔۔
"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔؟ "
مولوی صاحب کے پوچھنے پر اس نے اپنے دل سے بھی پوچھا۔۔ دل اقرار کرتا تھا جبکہ ذہن مسلسل انکاری تھا۔۔ دل تھا کہ خدیجہ کی طرف کھینچا چلا جا رہا تھا جبکہ ذہن تھا کہ بار بار ایک ہی سوچ دیتا کہ وہ اس شخص کی بہن ہے جس کی وجہ سے اس کی بہن کو تکلیف ہوئی تھی۔۔ کامران صاحب نے اسے خاموش دیکھ کر اس کا کندھا ہلایا تو اس نے اقرار کیا۔۔
"قبول ہے۔۔۔"
"قبول ہے۔۔۔"
"قبول ہے۔۔۔
تین بار اقرار کر کہ اس نے یہ رشتہ تا عمر کے لیے قبول کر لیا تھا۔۔ اس کہ دل کی حالت عجیب تھی۔۔ وہ خود خود کو نہیں سمجھ پا رہا تھا۔۔ وہ اپنی سوچوں میں گم تھا جب اس کی نظر سٹیج تک آتی خدیجہ پڑی۔۔ اس پر نظر پڑتے ہی حسن دوبارہ نظر ہٹانا بھول گیا۔۔ وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔۔ آہستہ سے چلتے ہوئے وہ حسن کے برابر میں آ کر بیٹھ گئی۔۔ ان دونوں کے ساتھ بھی پھر رسمیں کی گئیں۔۔ کھانا لگ چکا تھا۔۔ سب وہاں متوجہ ہوگئے۔۔
"اگر کوئی پیارا لگ ہی رہا ہو تو اس کی تعریف کر دینی چاہیے۔۔۔"
حسن خاموش بیٹھا تھا جب خدیجہ بولی۔۔
"تمہیں کس نے کہا ہے تم پیاری لگ رہی ہو۔۔؟ "
"آپ کہ علاوہ سب نے کہا ہے۔۔"
وہ منہ بنا کر بولی۔۔
"مجھے تو لگ بھی نہیں رہی پیاری۔۔۔"
"بڑھتی عمر کی وجہ سے بس آپ کی آنکھیں کمزور ہوگئی ہیں اور کچھ نہیں۔۔ "
وہ منہ بسور کر بولی تو حسن ہنس دیا لیکن اس کی ہنسی تب رکی جب اس نے سامنے کامران صاحب سے ملتے وجود کو دیکھا۔۔ وہ فورا سے سٹیج سے اٹھ کر ان کی طرف بڑھا۔۔ خدیجہ نے حسن کو اٹھتے ہوئے دیکھا تو سامنے دیکھ کر اس کا دل زور سے دھڑکا۔۔ سامنے ارسلان موجود تھا۔۔
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی۔۔؟ "
حسن غصے سے بولا۔۔
"حسن ابھی تماشہ مت لگاؤ بعد میں بات کرتے ہیں۔۔"
کامران صاحب نے حسن کو پکڑا۔۔
"بعد میں کوئی بات کرنے کا جواز ہی نہیں بنتا۔۔جب میں نے منع کیا تھا تو کیوں آیا ہے یہ یہاں۔۔۔؟ "
حسن غصے سے بولا۔۔۔ تایا جان ایک طرف کو خاموش سر جھکائے کھڑے تھے۔۔ باقی سب بھی وہاں جمع ہو گئے تھے۔۔ ہانیہ سٹیج سے اٹھ کر اندر جانے لگی تھی جب جنید نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا۔۔۔
"کبھی نا کبھی تو تم نے ایسے حالات کا سامنہ کرنا ہی ہے۔۔ بھاگنے کا کیا فائدہ۔۔"
جنید کہ کہنے پر وہ شرمندہ ہوتی دوبارہ بیٹھ گئی۔۔ جنید اٹھ کر حسن کی طرف گیا۔۔
"میں یہاں اپنی بہن سے ملنے آیا ہوں حسن۔۔ بس اس سے مل کر چلا جاؤں گا۔۔"
ارسلان آہستگی سے بولا۔۔
"تو لے جاؤ اپنی بہن کو بھی ساتھ۔۔ اتنی محبت جاگ رہی ہے تو پاس ہی رکھو اسے اپنے۔۔ "
حسن غصے سے بولا تو جنید نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔
"حسن تماشہ مت لگاؤ اندر بیٹھ کر بات کی جا سکتی ہے۔۔۔"
جنید نے اسے خاموش کروانا چاہا تو حسن اس کا ہاتھ جھٹک کر وہاں سے چلا گیا۔۔
"ملو خدیجہ سے اور جاؤ یہاں سے۔۔"
اتنی دیر میں تایا جان پہلی بار بولے اور اندر چلے گئے۔۔
"کیسی ہو گڑیا۔۔؟ "
وہ خدیجہ کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔۔۔
"میں ٹھیک ہوں۔۔ آپ کیسے ہیں۔۔؟ "
وہ بہن تھی۔۔ بھائی سے کب تک ناراض رہتی۔۔ فورا اس کے گلے لگتی ہوئی بولی۔۔
"میں بھی ٹھیک ہوں۔۔"
وہ مسکرا کر بولا۔۔
"کھانا ٹھیک سے کھاتے ہیں۔۔؟ پڑھائی کیسی جا رہی ہے ۔؟"
اس نے فکرمندی سے پوچھا۔۔
"کھانا بھی ٹھیک سے کہتا ہوں پڑھائی بھی سہی سے کرتا ہوں میری گڑیا کتنی بڑی ہوگئی ہے۔۔ "
"مجھے بہت یاد آتی ہے بھائی آپ واپس آجائیں۔۔"
وہ نم لہجے میں بولی۔۔۔
"میں واپس آ جاؤں گا۔۔ تم بس پریشان مت ہو۔۔ نئی زندگی کی شروعات ہنسی خوشی کرو۔۔"
وہ اس کا سر تھپک کر بولا۔۔
"آج یہیں رک جائیں بھائی ۔۔۔"
وہ آس سے بولی۔۔۔
"ماما سے مل کر بس نکلنے لگا ہوں۔۔ تمہارا شوہر آ گیا واپس تو میں اپنی ٹانگوں پر چل کر تو بالکل گھر نہیں جا سکوں گا۔۔۔"
ارسلان مسکرا کر بولا تو وہ بھی مسکرائی۔۔
"خوش رہو ہمیشہ پریشان نہیں ہونا۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔"
اسے تسلی دے کر تائی جان سے مل کر وہ باہر جانے کے لیے نکلا جب اس کی نظر ہانیہ پر پڑی۔۔ دل میں کہیں درد ہوا تھا مگر پھر جلدی سے اپنی نظریں پھیر کر وہ وہاں سے نکل گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدیجہ کمرے میں آ کر اپنے جھمکے اتار رہی تھی جب کمرے کا دروازہ کھلا اور حسن اندر داخل ہوا۔۔ اپنے پیچھے دروازہ بند کرتا وہ غصے سے خدیجہ کی طرف بڑھا۔۔
"آپ۔۔۔آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔۔؟ "
خدیجہ ہچکچاتے ہوئے بولی۔۔
"تم باز نہیں آئی اپنی حرکت سے۔۔؟ منع کیا تھا تمہیں ارسلان سے کوئی رابطہ نہیں رکھو گی تم نے پھر اسے بلایا۔۔۔"
وہ اس کا بازو دبوچے اپنی سرخ آنکھیں اس کہ چہرے پر گاڑے کہہ رہا تھا۔۔ اس کہ اتنا قریب آنے پر خدیجہ کی دھڑکن تیز ہوئی ساتھ ہی اس کی سخت گرفت سے اس کی بازو میں درد ہونے کی وجہ سے آنکھوں میں نمی آئی۔۔
"چھوڑیں حسن۔۔ مجھے درد ہو رہا ہے۔۔۔"
وہ اپنا بازو چھڑواتی ہوئی بولی حسن نے اپنی گرفت اور مضبوط کی۔۔
"جس شخص نے میری بہن کی زندگی خراب کی۔۔ تم نے اسے میرے منع کرنے کے باوجود بھی یہاں بلایا۔۔؟ بتاؤ خدیجہ کیوں۔۔؟ "
وہ غصے سے پوچھ رہا تھا۔۔
"آپ کی بہن اب اپنی زندگی میں خوشحال ہے۔۔ بھول جائیں اب آپ اس بات کو۔۔ اور وہ شخص میرا بھائی بھی ہے۔۔ میں آپ کی وجہ سے اپنا بھائی نہیں چھوڑ سکتی۔۔۔"
وہ بھی بے خوفی سے بولی۔۔
"مجھے سختی کرنے پر مجبور مت کرو خدیجہ۔۔ آئیندہ اس شخص سے اگر تم نے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو اسی وقت طلاق دے دوں گا تمہیں۔۔۔"
حسن نہایت غصے سے بولا۔۔ خدیجہ نے دکھ سے اسے دیکھا۔۔
"یہ حیثیت ہے میری آپ کی زندگی میں۔۔؟ یہ حیثیت ہے اس رشتے کی کہ آپ کبھی بھی کسی کی بھی وجہ سے اس کو ختم کر دیں گے۔۔؟ "
اس نے دکھ سے پوچھا۔۔ آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔۔
"ہاں یہی حیثیت ہے تمہاری اور اس رشتے کی میری نظر میں۔۔ اگر اب تم نے زرا سی بھی بے احتیاطی کی تو اس کی زمہ دار تم خود ہوگی خدیجہ۔۔"
وہ سختی سے کہہ کر اسے اپنی گرفت سے آزاد کرتا وہاں سے چلا گیا تو وہ لڑکھڑائی۔۔ آنسو لڑی کی صورت اس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Where stories live. Discover now