Episode 20

2.5K 191 78
                                    

وہ ابھی سونے ہی والا تھا جب اس کا موبائل رنگ کیا۔۔۔ اس نے نام دیکھا تو اوپر اقراء دیکھ کر اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔۔۔ تقریبا ڈھیڈ ماہ ہوگیا تھا آمنہ بیگم کی وفات کو اور اس کہ بعد کو باتیں اس دن زبیر نے اس سے کہیں تھیں دوبارہ اسامہ وہاں نہیں گیا تھا۔۔ اب اس کا وہاں جانا بنتا بھی نہیں تھا۔۔۔ ایک دو بار اس نے اقراء کو کال کرنے کا سوچا مگر پھر اپنا خیال جھٹک کر اس نے اپنا ارادی مسترد کر دیا۔۔ وہ کس حق سے اسے کال کرتا۔۔ نہ تو ان کی کوئی ایسی دوستی تھی اور اب نہ کوئی اور وجہ بنتی تھی مگر اب اس وقت اس کی کال پر وہ حیران ہونے کے ساتھ پریشان بھی ہوا۔۔
"السلام علیکم۔۔ مس اقراء خیریت۔۔؟ "
اسامہ کال اٹھاتے ہوئے بولا۔۔
"وعلیکم السلام ڈاکٹر اسامہ۔۔۔ مجھے آپ سے کچھ مدد چاہیے تھی۔۔۔"
وہ آہستہ سے بولی۔۔۔ نجانے کس دل سے اس نے یہ بات کہی تھی یہ وہی جانتی تھی۔۔ پہلے جب وی شخص اس کی مدد کرتا تو وہ بار بار ٹھکرا دیتی اور آج زندگی نے اسے ایسے مقام پر لا کھڑا کیا تھا کہ اب وہ خود اس کی مدد کی طلب گار تھی۔۔
"کیسی مدد۔۔؟ "
اسامہ نے کچھ چونک کر پوچھا۔۔ وہ اقراء سے کبھی بھی توقع نہیں کرسکتا تھا کہ وہ اس سے مدد مانگے گی۔۔
"زبیر بھائی گھر بیچ چکے ہیں اور اپنے حصے کی رقم لے کر واپس چلے گئے ہیں۔۔ میں کچھ دن سے گھر پر اکیلی ہوں اور جنہوں نے گھر خریدا ہے وہ مجھے گھر خالی کرنے کو کہہ رہے ہیں۔۔۔"
وہ آہستہ سے بولی تھی۔۔۔ اسامہ اس کے لہجے میں چھپی شرمندگی کو اچھے سے محسوس کر سکتا تھا۔۔
"اس میں میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔۔؟ "
وہ سنجیدگی سے بولا۔۔
"کیا آپ مجھے کسی یتیم خانے کا پتا کر کہ دے سکتے ہیں جس کا ماحول اچھا ہو۔۔ جہاں میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکوں۔۔"
اقراء کے کہنے پر اسامہ کے ماتھے کی رگیں تن گئیں۔۔
"برا مت منائیے گا مس اقراء مجھ پر طنز کرنے کے لیے تو آپ کی زبان کینچی کی طرح چلتی ہے تو اپنے بھائی کے سامنے اپنا حق مانگتے ہوئے کیوں گونگی ہو جاتی ہیں آپ۔۔؟ "
اسامہ غصے سے بولا۔۔ وہ زیادہ دیر اپنا غصہ دبا کر نہیں رکھ سکتا تھا۔۔
"اپنوں کے آگے انسان ہمیشہ بے بس ہوجاتا ہے مگر آپ یہ دکھ نہیں سمجھیں گے۔۔ آپ کو ہمیشہ اپنوں سے محبت ہی ملی ہے۔۔ کبھی اپنوں نے دھوکا دیا تو سارے الفاظ اندر ہی دم توڑ جائیں گے۔۔۔"
اقراء کے سنجیدگی سے کہنے پر اسامہ خاموش ہوگیا۔۔
"کیا آپ مجھے پتا کر کہ بتا سکتے ہیں۔۔؟ "
اسامہ کی خاموشی پر وہ دوبارہ بولی۔۔
"آپ وہاں کیوں جانا چاہتی ہیں۔۔ آپ جاب کرتی ہیں کوئی بھی پورشن رینٹ پر لے کر رہ لیں۔۔"
اسامہ نے مشورہ دیا۔۔
"میں اب اکیلے نہیں رہ سکتی۔۔ امی کی یاد جھے کھائے جاتی ہے۔۔ ان کی جدائی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی اور اگر مزید تنہا رہی تو پاگل ہوجاؤں گی۔۔۔"
وہ نم لہجے میں بولی۔۔
"میں کوشش کرتا ہوں کوئی ایسی جگہ ڈھونڈنے کی۔۔"
"شکریہ۔۔۔"
اقراء کہہ کر فون بند کرنے لگی لیکن اسامہ بول پڑا۔۔
"مجھے کچھ پوچھنا تھا آپ سے۔۔"
وہ آہستہ سے بولا۔۔
"جی۔۔"
"آپ۔۔ آپ نے مجھ سے ہی مدد کیوں مانگی۔۔؟ اور بھی کسی سے کہہ سکتی تھیں۔۔"
اسامہ نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔۔
"امی آپ پر سب سے زیادہ اعتبار کرتی تھیں۔۔ بہت تھوڑے عرصے میں آپ ان کے بہت عزیز ہوگئے تھے اس لیے مجھے بھی آپ قابل اعتبار لگے ہیں۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولی۔۔
"کبھی میں سب سے زیادہ بے اعتبار تھا آپ کی نظروں میں۔۔"
اسامہ اسے جتانا نہیں بھولا تھا۔۔
"وقت اور حالات کے ساتھ انسان کے خیالات اور جذبات بدل جاتے ہیں۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولی تو اسامہ نے آنکھیں مٹکائیں وہ اور اس کی سنجیدہ باتیں۔۔۔
"اچھا بھئی۔۔ اتنی فلسفی باتیں نا کریں۔۔ میں کوشش کرتا ہوں پھر بتا دوں گا آپ کو ۔۔۔"
اسامہ کہ کہنے پر اقراء نے سر جھٹکا وہ تھوڑی دیر سے زیادہ سنجیدہ نہیں رہ سکتا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا بے وقوفی کر رہے ہو تم حسن۔۔؟ کیا کہا ہے تم نے خدیجہ سے جو وہ آ ہی نہیں رہی آج کل۔۔"
فرزانہ بیگم سنجیدگی سے بولیں۔۔
"میں نے تو کچھ بھی نہیں کہا اس سے ماما۔۔"
وہ حیرانی سے بولا۔۔۔ محسوس تو وہ خود بھی کر رہا تھا کہ آج کل خدیجہ کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔۔
"پھر ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ یہاں نا آئے۔۔؟ وہ تو روز آتی تھی۔۔"
وہ پریشانی سے بولیں۔۔
"مجھے کیا پتا۔۔"
وہ کندھے اچکا کر بولا۔۔
"تمہیں پتا ہونا چاہیے حسن۔۔ نکاح ہوا ہے تمہارا اس سے۔۔ کوئی خیال ہے تمہیں اس کا۔۔ "
وہ غصے سے بولیں۔۔
"میں اس کا کیا خیال کروں۔۔ مجھے کیا پتا کیا ہوا ہے اس کو۔۔ آنا ہوگا تو آ جائے گی آپ بلاوجہ پریشان مت ہوں۔۔"
وہ لاپرواہی سے بولا۔۔
"حسن ہو سکتا ہے اسے تمہاری کوئی بات بری لگی ہو۔۔ جاؤ جا کر مناؤ اس کو۔۔ کہیں باہر لے جایا کرو گھمانے پھرانے۔۔ ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے تم لوگوں کے نکاح کو اور تمہارے ایسے رویے سے وہ ابھی سے بد ظن ہوجائے گی۔۔"
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں۔۔
"میں کہیں نہیں جا رہا اسے لے کر۔۔ آنا ہوگا تو آ جائے گی ۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولا۔۔
"میں نے تم سے مشورہ نہیں مانگا حکم دیا ہے۔۔"
وہ غصے سے بولیں۔۔
"لیکن ماما۔۔"
اس نے احتجاج کرنا چاہا۔۔
"لیکن ویکن کچھ نہیں۔۔ جاؤ ابھی اور اسے لے کر کہیں گھوم پھر آئے۔۔"
ان کہ غصے سے کہنے پر وہ نا چاہتے ہوئے بھی اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔
"خدیجہ کہاں ہے تائی امی ۔۔۔؟ "
ان کہ گھر جا کر اس نے سلام دعا کے بعد پوچھا۔۔
"اپنے کمرے میں ہے۔۔ دو دن سے بخار چڑا ہوا تھا تو نکلی ہی نہیں کمرے سے۔۔ "
وہ اسے بتاتے ہوئے بولیں تو وہ وہیں بیٹھ گیا۔۔ اب وہ سیدھا اس کہ کمرے میں تو جا نہیں سکتا تھا۔۔
"تم چلے جاؤ کمرے میں اس کہ۔۔ مل لو اس سے میں تمہارے لیے چائے بناتی ہوں ۔۔۔"
وہ سمجھتے ہوئے بولیں تو وہ اٹھ کر خدیجہ کے کمرے کی طرف آگیا۔۔
"کیسی ہو۔۔؟ "
وہ ناک کر کہ کمرے میں داخل ہوا۔۔
"ٹھیک ہوں۔۔"
وہ جو لیٹی ہوئی تھی سیدھی ہو کر بیٹھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں بولی۔۔
"تائی امی بتا رہی تھیں بخار تھا تمہیں۔۔
اس نے بات شروع کی۔۔
"بخار ہی تھا۔۔ مری نہیں ہوں ابھی۔۔"
وہ تلخی سے بولی۔۔
"مر بھی جاتی۔۔ ایک ہی دفعہ کام ختم ہوتا۔۔"
حسن شرارت سے بولا۔۔
"آپ تو یہی چاہتے ہیں کہ میں مر جاؤں۔۔"
وہ ہنوز سنجیدہ تھی۔۔
"چلو فضول کی باتیں مت کرو۔۔ اٹھ کر تیار ہو۔۔ ماما سے ملو جا کر وہ پریشان ہو رہی تھیں تمہارے بارے میں۔۔"
وہ رعب سے بولا تو خدیجہ نے اسے غصے سے دیکھا۔۔
"تو آپ ماما کہ کہنے پر آئے ہیں۔؟ "
اس نے غصے سے پوچھا۔۔
"ظاہر ہے۔۔ مجھے ایسی کونسی آفت آئی تھی جو میں تم سے ملنے چلا آتا۔۔"
وہ کندھے اچکا کر بولا۔۔
"جائیں پھر اب۔۔ دے دیا ماما کا پیغام سن لیامیں نے۔۔ طبیعت ٹھیک ہوجائے گی تو آجاؤں گی۔۔ "
وہ سنجیدگی سے کہتی رخ موڑ کر لیٹ گئی۔۔
"اچھی بھلی تو ہو۔۔ کیا ہے طبیعت کو۔۔؟ "
حسن نے اس کا رخ اپنی طرف کیا۔۔
"آپ کو اپنے علاوہ سب ہی سہی لگتے ہیں چاہے وہ اندر سے کتنی ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں نا ہوں۔۔
وہ اپنے آنسو روکتی ہوئی بولی۔۔
"تمہارے ساتھ آخر کیا مسئلہ ہے خدیجہ۔۔؟ اس دن بھی تم فضول بات کہہ کر چلی گئی تھی لیکن میں نے تمہیں کچھ نہیں کہا اور آج پھر تم بات کو اسی طرف لے جا رہی ہو۔۔"
حسن غصے سے بولا۔۔
"میرا مسئلہ یہ ہے کہ جو باتیں آپ کو فضول لگتی ہیں وہ میرے لیے بہت اہم ہیں۔۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ آپ ہمیشہ اپنی خوشی کو میری خوشی پر ترجیح دیتے ہیں۔۔ آپ ہمشیہ یہی چاہتے ہیں کہ میں کومپرومائز کروں ہمیشہ آپ نہ کریں۔۔ تو حسن صاحب میں آپ کو بتا دوں کہ زندگی ایسے نہیں گزرتی۔۔ ایک شخص کے بل بوتے پر رہ کر زندگیاں نہیں گزاری جا سکتیں دونوں فریقین کو اپنی اپنی جگہ صبر کرنا پڑتا ہے۔۔"
وہ جتاتے ہوئے بولی۔۔
"کون سے ایسے ظلم کر لیے ہیں میں نے خدیہ تمہارے ساتھ۔۔ کون سی باتوں پر اتنا صبر کرنا پڑ گیا ہے تمہیں کہ تم بار بار مجھے جتا رہی ہو۔۔جب سے نکاح ہوا ہے تمہاری روز کی ایک ہی بحث ہوتی ہے۔۔ آپ ایسا کرتے ہیں ویسا کرتے ہیں۔۔ مجھے آج بتا ہی دو میں نے کیا کیا ہے جو تم اس طرح کر رہی ہو۔۔؟ "
اب اس کی برداشت بھی ختم ہو چکی تھی اس لیے وہ غصے سے بولا۔۔
"آپ میرے بھائی کو اس گھر میں واپس لے کر آئیں بس۔۔"
وہ اٹل لہجے میں بولی۔۔
"تمہارا بھائی تمہیں مجھ سے زیادہ عزیز ہے۔۔؟ "
حسن نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔
"آپ کو آپ کی انا مجھ سے زیادہ عزیز ہے۔۔؟ "
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولی۔۔
"میں اس شخص کو اس گھر میں نہیں آنے دوں گا نا تمہیں اس سے کوئی تعلق رکھنے کی اجازت دوں گا۔۔ "
حسن غصے سے بولا۔۔
"آپ کیا چاہتے ہیں آخر۔۔؟ آپ کی بہن اپنی زندگی میں خوش ہے اب ۔۔۔ کیا یہ چیز آپ کے لیے سب سے زیادہ اہم نہیں ہے۔۔؟ ارسلان بھائی نے جو کیا اسے اب بہت وقت ہوچکا ہے۔۔ ہانی اپنی زندگی میں جب خوش ہیں تو ان سے کس بات کا اختلاف۔۔؟ "
خدیجہ نے تنگ آ کر پوچھا۔۔ وہ بھی اب روز روز کی اس بحث سے تنگ آ چکی تھی۔۔
"خدیجہ تم فضول کی بحث کر کہ ہمارا رشتہ بھی خراب کر رہی ہو۔۔۔"
"کیسا رشتہ۔۔؟زبردستی کا۔۔؟ مجبوری کا۔۔؟ وہ رشتہ جس میں محبت ہی نہیں ہے۔۔ وہ رشتہ جس میں چاہت ہی نہیں ہے ایک دوسرے کی خوشی کا خیال ہی نہیں ہے۔۔؟  یہ رشتے نہیں ہوتے حسن صاحب یہ مجبوری ہوتی ہے۔۔ اور میں رشتہ نبھانا چاہتی ہوں مجبوری نہیں۔۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولی۔۔
"بے وقوفی مت کرو خدیجہ۔۔ میری بات سمجھو۔۔"
حسن نے کچھ کہنا چاہا لیکن وہ اس کی بات کاٹ کر بولی۔۔
"میں نے جو سمجھنا تھا سمجھ لیا۔۔ اب آپ کی باری ہے۔۔ جس دن آپ میری خوشی سمجھ جائیں گے میری خواہش کا مان رکھیں گے میں اس دن یہ رشتہ نبھانے کو تیار ہو جاؤں گی۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولی۔۔
"تمہارا بس دماغ خراب ہوچکا ہے اور کچھ نہیں۔۔"
وہ غصے سے کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔ اور کمرے سے باہر جانے لگا جب تائی امی اندر داخل ہوئیں۔۔
"کہاں جا رہے ہو حسن۔۔۔؟ چائے تو پی لو۔۔"
وہ اسے جاتا دیکھ کر بولیں۔۔
"مجھے کسی کام سے جانا ہے تائی امی۔۔"
وہ سنجیدگی سے کہتا چلا گیا۔۔
"اس کو کیا ہوا خدیجہ۔۔ تم تو پی لو چائے۔۔"
وہ خدیجہ سے مخاطب ہوئیں جو منہ تک کمبل تان کر لیٹ چکی تھی۔۔
"مجھے نہیں پینی۔۔"
وہ نم لہجے میں بولی تو انہوں نے پریشانی سے اسے دیکھا مگر پھر خاموشی سے باہر چلی گئیں۔۔۔
خدیجہ نے ان کہ جانے کے بعد اپنے چہرے سے کمبل ہٹایا اور رو دی۔۔ وہ جس شخص سے سب سے زیادہ محبت کرتی تھی۔۔ جس پر اسے سب سے زیادہ مان تھا۔۔ وہی اسی کی خواہش کا احترام نہیں کر رہا تھا۔۔۔
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا ہوا کیا سوچ رہی ہو۔۔؟ "
جنید ہانیہ کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا جو نجانے کب سے اسی پوزیشن میں بیٹھی تھی۔۔
"نہیں بس کچھ بھی نہیں۔۔"
وہ چونکتی ہوئی بولی۔۔
"کوئی پریشانی ہے۔۔؟ "
جنید نے پوچھا۔۔
"ن۔۔نہیں۔۔"
اس نے نفی میں سر ہلایا۔۔
"تم مجھ سے کوئی بھی بات شئیر کر سکتی ہو ہانی۔۔ میں تمہارا شوہر ہونے سے پہلے تمہارا دوست ہوں۔۔ تم مجھ سے اپنی ہر تکلیف ہر پریشانی بانٹ سکتی ہو۔۔۔ میاں بیوی تو دکھ سکھ کے ساتھی ہوتے ہیں۔۔ ان سے اپنے دل کی باتیں شئیر کرنی چاہئیں نہ کہ چھپانی چاہئیں ۔۔"
وہ نرمی سے بولا تو ہانیہ نے اس کی طرف دیکھا پھر نظریں چرا گئی۔۔
"اگر مجھے کچھ ہوگیا جنید۔۔۔؟ اگر میری سرجری کامیاب نہ ہو پائی تو کیا میں مر جاؤں گی۔۔؟ "
وہ خوف جے زیر اثر بولی۔۔
"ہزار دفعہ سمجھایا ہے مرنے مرانے کی باتیں مت کیا کرو۔۔۔"
جنید اسے ٹوکتے ہوئے بولا۔۔
"فرض کریں اگر میں ٹھیک نہ ہوئی۔۔ ساری زندگی ایسے ہی بیمار رہی تو پھر۔۔۔۔"
اس نے اپنی نم پلکیں اٹھا کر جنید کو دیکھا۔۔
"اگر تم ساری زندگی بھی اس بیماری میں مبتلا رہی تو میں بھی اپنی ساری زندگی تمہاری تیمار داری میں گزار دوں گا۔۔۔ تم کبھی اپنے دل میں یہ خیال مت آنے دینا کہ اگر تم ٹھیک نہ ہوئی تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔۔ ایسا بالکل نہیں ہوگا۔۔ میں نے تمہارا ہاتھ تھاما ہے تو ہر طرح کے حالات میں تمہارا ساتھ بھی دوں گا اور مجھے پورا یقین ہے تم بالکل صحتیاب ہوجاؤں گی۔۔"
وہ اسے یقین دلاتے ہوئے بولا۔۔
"آپ نے مجھ سے شادی کیوں کہ جنید۔۔؟ آپ کو کیا ملا مجھ سے شادی کر کہ۔۔؟ میری بیماری کی وجہ سے آپ بھی ہمیشہ پریشان رہتے ہیں۔۔"
وہ شرمندگی سے بولی۔۔
"شادی تو میں نے اس لیے کی تھی کیونکہ یہ ماما بابا کی خواہش تھی۔۔ اور مجھے ہر حال میں ان کی خواہش کا احترام کرنا تھا۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولا۔۔
"تو اپ مجھے اب بھی تو چھوڑ سکتے ہیں۔۔ کیوں نبھا رہے ہیں یہ رشتہ۔۔؟ "
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔۔
"کیونکہ اب میں تم سے محبت کرتا ہوں۔۔ "
جنید مسکراتے ہوئے بولا تو ہانیہ کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوئے۔۔ اس کہ چہرے پر الجھن کی جگہ اب حیرت نے لے لی تھی ۔۔
"کیا ہوگیا۔۔ ایسے کیوں دیکھ رہی ہو۔۔ اب کیا بندہ اپنی بیوی سے محبت بھی نہیں کر سکتا۔۔"
جنید اسے حیرت سے خود کو تکتا دیکھ کر بولا۔۔
"مجھ سے کیوں محبت کرتے ہیں آپ۔۔ مجھ سے بھلا کوئی کیسے محبت کر سکتا ہے۔۔"
وہ بے یقینی سے بولی۔۔
"محبت کیوں ہوئی کیسے ہوئی اس کا تو مجھے نہیں معلوم۔۔ یہ تو ایک ایسا جذبہ ہے کہ انجانے میں ہی ہوجاتا ہے اور پتا بھی نہیں لگتا۔۔ جب تم سے منگنی ہوئی تو یہی سوچا کہ ماما بابا کی خواہش کا احترام رکھا ہے۔۔ جب نکاح ہوا تو یہی سوچا کہ پورے دل سے اس رشتے کو نبھانا ہے۔۔ اور شادی کہ بعد آہستہ آہستہ تم سے محبت ہوتی چلی گئی اور مجھے پتا بھی نہیں لگا۔۔ نکاح کا رشتہ ایسا ہوتا ہے ہانیہ کے اللہ خود ہی دو دلوں میں محبت ڈال دیتا ہے۔۔ وہ لوگ جو کبھی ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا تصور نہیں کرسکتے نکاح کے بعد ایک دوسرے کے بغیر رہنا محال لگتا ہے۔۔ بس مجھے بھی تم سے ایسے ہی محبت ہوگئی ہے۔۔"
جنید کے اظہار پر اس کا دل دھڑکا۔۔ وہ پلکیں جھکا گئی۔۔
"میں نے اس لیے تم سے اپنی محبت کا اظہار نہیں کیا کہ اب تم مجھ سے شرمانے ہی لگ جاؤ۔۔ میں نے تو اس لیے اظہار کیا ہے تاکہ تھوڑی بہت محبت تمہیں بھی مجھ سے ہوجائے۔۔ "
جنید شرارت سے بولا۔۔
"مجھے آپ سے محبت کیسے ہوگی۔۔"
وہ نا سمجھی سے بولی۔۔
"جیسے مجھے تم سے ہوئی ہے۔۔"
"آپ کو کیسے ہوئی ہے۔۔؟ "
اس کہ معصومیت سے پوچھنے پر جنید ہنس دیا۔۔
"تم اس بارے میں مت سوچو۔۔ جس دن تمہیں مجھ سے محبت ہوگی اس دن تمہیں پتا لگ جائے گا۔۔ "
اس کہ ہنسنے پر ہانیہ نے منہ بسورا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آپ سب نے میرا بہت بے صبری سے انتظار کیا ہوگا میں جانتا ہوں۔۔"
اسامہ مسکراتے ہوئے بولا۔۔
"تم انتظار کرنے ہی کہاں دیتے ہو۔۔ اس سے پہلے ہی ٹپک جاتے ہو۔۔"
جنید بولا۔۔
"یہ جن تمہارے اب تک قابو نہیں آیا ہانی۔۔ ویری بیڈ۔۔ شام کو میرے پاس آنا میں تمہیں کلاسس دوں گا اس جن کو قابو کرنے کی۔۔۔"
اسامہ افسوس کرتے ہوئے بولا تو ہانیہ مسکرائی۔۔
"اس جن کو قابو کرنے کے طریقے مجھے خوب آتے ہیں اب ہم تو آپ کو قابو کرنے والی کو لانے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔۔"
ہانیہ مسکراہٹ دبا کر بولی تو اسامہ نے حیرت سے اسے دیکھا پھر سلمہ بیگم کی طرف پلٹا۔۔
"سچی۔۔؟ شکر ہے میرے گھر والوں کو بھی کوئی ڈھنگ کا خیال آیا۔۔"
اسامہ خوشگواری سے بولا۔۔
"میرا تو دل تھا ابھی دو سال رک نا جاتے ماما۔۔"
جنید مسکراہٹ دبا کر بولا۔۔
"بھائی گھر میں بیٹھا بوڑھا ہو رہا ہے۔۔شادی کی عمر نکل رہی ہے۔۔ آپ مزید دو سال کا انتظار کرنے کی بات کر رہے ہیں۔۔؟ میں تو کہتا ہوں ماما دو مہینے کا بھی انتظار نہ کریں۔۔"
اسامہ فوراََ بولا تو سب ہنس دیے۔۔
"ہاں بس اب ہم انتظار نہیں کریں گے۔۔ اگلے ماہ خیر سے تم گھر واپس آ جاؤ اس کہ بعد پھر کرتے ہیں بات۔۔"
سلمہ بیگم مسکراتے ہوئے بولی۔۔
"تو پھر گھر کے باہر اشتہار لگا دوں۔۔؟ یا پھر شہر میں جگہ جگہ بینرز۔۔؟ "
اسامہ کی آنکھیں چمکیں۔۔
"لڑکی ڈھونڈنی ہے تمہارے لیے لوگوں کو نوکری نہیں دینی۔۔"
جنید بولا۔۔
"اتنے ہینڈسم اور قابل ڈاکٹر کے لیے دلہن ڈھونڈنی ہے۔۔ اس کے لیے تو شہر کی ہر لڑکی کا انٹرویو ہونا چاہیے۔۔  "
اسامہ فخر سے بولا۔۔
"آپ ڈے ڈریمننگ کرتے رہیں اسامہ بھائی۔۔ ماما آپ کہ لیے پہلے ہی لڑکی ڈھونڈ چکی ہیں۔۔"
عمیر بولا۔۔
"یہ کیا کہہ دیا چھوٹے۔۔۔ ماما آپ نے تو سارا چارم ہی ختم کر دیا۔۔"
وہ افسردگی سے بولا۔۔
"اچھا کون ہے وہ خوش نصیب جس کی قسمت میں میں شامل ہونے والا ہوں۔۔"
اسامہ شرمانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا۔۔۔
"یہ میں تمہیں تب بتاؤں گی جب تم سدھر جاؤ گے۔۔"
سلمہ بیگم مسکراہٹ دبا کر بولیں۔۔
"صاف صاف کہیں نہیں بتانا آپ نے۔۔"
اس نے منہ بسورا۔۔
"اچھا تھوڑا سا تو بتا دیں ماما۔۔ ہنٹ ہی دے دیں۔۔"
وہ تجسس سے بولا۔۔
"مجھے تو نیند آرہی ہے۔۔ میں سونے جا رہی ہوں۔۔"
سلمہ بیگم مسکراہٹ دبا کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔
"بھابھی ماں۔۔ میری پیاری بھابھی ماں۔۔"
اسامہ ہانیہ کی طرف متوجہ ہوا۔۔
"میں تو آج بہت تھک گئی ہوں۔۔"
ہانیہ شرارت سے بولتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔
"میرے پیارے بھیا ۔۔ جنید بھیا۔۔"
وہ جنید کی طرف متوجہ ہوا۔۔
"مجھے تو بھئی ان معاملات کا نہیں پتا ہوتا۔۔"
جنید بھی چلا گیا۔۔
"میرے منہ کو تو ماما نے سختی سے بند رہنے کا حکم دیا ہے۔۔"
عمیر پہلے ہی اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔۔
"اللہ پوچھے گا ظالموں۔۔ نام ہی بتا دیتے۔۔ اب میں بے نام خواب کیسے دیکھوں۔۔"
اسامہ خود سے ہی منہ بناتے ہوئے بولا۔۔
"کیسی ہے کون ہے وہ جانے کہاں ہے۔۔ جس کے لیے میرے ہونٹوں پہ ہاں ہے۔۔۔"
اونچی آواز میں گنگناتا وہ بھی اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Where stories live. Discover now