Episode 5

2.4K 186 72
                                    

وقت کی ایک اچھی بات ہے جیسا بھی ہو گزر ضرور جاتا ہے کبھی اچھی یادیں لے کر کبھی برے لمحات چھوڑ کر۔۔۔ ان کا وقت بھی گزر ہی رہا تھا آج پندرہ دن ہو چکے تھے اس واقعے کو۔۔ ان پندرہ دنوں میں نا ارسلان گھر آیا تھا نا کسی نے اس ست رابطے کی کوشش کی تھی۔۔ ہانیہ کا علاج بھی جاری تھا زندگی واپس اپنی روٹین پر آ گئی تھی مگر بہت سی تبدیلیاں۔۔۔ رشتوں میں رنجشیں اور اپنوں میں کھنچاؤ بہت بڑھ گیا تھا ۔۔
اس سب واقعے میں اگر کوئی سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا تو وہ خدیجہ تھی۔۔۔ سب کو اپنی اپنی زندگی کی فکر تھی جبکہ اس کو اپنے ساتھ باقی سب کی بھی فکر تھی۔۔ سب نے فقط اپنے آپ کو سنبھالنا تھا جبکہ اس نے اپنے ساتھ ساتھ باقی سب کو بھی سنبھالنا تھا۔۔ ان پندرہ دنوں میں حسن نے تو اسے ایک بار بھی مخاطب نہیں کیا تھا۔۔ مخاطب کرنا تو دور کی بات وہ تو اسے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔ شروع شروع جب وہ ہانیہ کے پاس جاتی تو اس کا رویہ بھی کچھ اسی طرح ہوتا لیکن پھر وہ کچھ ہی دن میں نارمل ہوگئی تھی۔۔۔ اسے احساس ہوگیا تھا کہ جتنی بے قصور وہ ہے اتنی ہی بے قصور خدیجہ بھی ہے۔۔۔
خدیجہ ابھی بھی ہانیہ کے پاس بیٹھی تھی۔۔۔ وہ اپنا زیادہ وقت اس کا خیال کرنے میں گزارا کرتی تھی۔۔۔
"آپ کی کلاسز کب سے سٹارٹ ہونی ہیں ہانی۔۔؟ "
"پچھلے ہفتے سے شروع ہوچکی ہیں۔۔۔"
ہانیہ کے بتانے پر وہ حیران ہوئی۔۔۔
"تو آپ جا کیوں نہیں رہیں۔۔؟ "
"اب میرا دل نہیں کرتا جانے کو ۔۔۔ بس جتنا پڑھنا تھا پڑھ لیا۔۔"
وہ بے زاری سے بولی۔۔۔
"یہ کیا بات ہوئی۔۔ اس طرح بیچ میں پڑھائی کیوں چھوڑ رہی ہیں آپ۔۔؟ "
"میرے ساتھ جو کچھ ہوچکا ہے نا خدیجہ۔۔ اس کے بعد میرا سب کچھ چھوڑنے کو دل کرتا ہے۔۔ حتاکہ دنیا بھی۔۔۔"
وہ افسردگی سے بولی۔۔
"یہ تو بزدلوں والی بات ہوئی نا۔۔ زندگی ایک جھٹکا لگنے سے ختم تھوڑی نا ہو جاتی ہے۔۔ ایک بار گرنے سے انسان مفلوج تو نہیں ہو جاتا۔۔۔ دوبارہ سے اٹھ کھڑے ہونے کو ہمت کہتے ہیں۔۔ اور آپ ایک با ہمت لڑکی ہیں۔۔ آپ نے پھر سے اٹھ کھڑا ہونا ہے ہمت کرنی ہے۔۔۔ ایک جھٹکے کو اپنی پوری زندگی پر حاوی نہیں ہونے دینا۔۔"
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔۔۔
"میری زندگی میں اب کچھ نہیں بچا خدیجہ۔۔۔"
وہ اداسی سے بولی۔۔
"کتاب کا ایک ورق خراب ہے تو آپ کیسے اندازہ لگا سکتی ہیں کہ پوری کتاب ہی ایسی ہوگی۔۔؟ صفحہ پلٹ کر تو دیکھیں۔۔ کیا پتا وہ پچھلے والے سے بالکل مختلف ہو۔۔۔ ایک بار کوشش تو کریں۔۔۔ "
"میرا دل ہی نہیں کرتا جینے کو۔۔ زندگی سے رشتوں سے سب سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔۔۔ "
وہ تلخی سے بولی۔۔
"مرنے مرانے کی باتیں بزدلوں کو اچھی لگتی ہیں۔۔ با ہمت لوگ تو زندگی کا سامنا کرتے ہیں۔۔۔ مشکلات سے چھپ کر بیٹھنا کوئی عقل مندی نہیں ہے بلکہ حالات کا ڈٹ کر سامنا کرنا بہادری ہے۔۔ "
"اور اگر کوشش کے بعد بھی ہمیں منزل نا ملے۔۔؟ "
"ہار کے ڈر سے مقابلے میں حصہ ہی نا لیں۔۔؟ کوشش ہی نا کریں۔۔؟ کوشش کرتے رہنا چاہیے۔۔ منزل ملے نا ملے کم سے کم دل کو یہ تسلی تو ہوگی نا کہ ہم نے تو کوشش کی تھی۔۔ ہم نے تو جان ماری تھی۔۔ اپنے آپ پر تو یقین رہے گا ۔۔ خود پر تو بھروسہ ہوگا کہ ہاں میں باہمت ہوں۔۔ میں دامن چرا کر بھاگنے کی بجائے مقابلہ کر آیا ہوں چاہے مقدر میں ہار ہی سہی۔۔۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔
"پھر بھی خدیجہ۔۔ یہ سب بہت مشکل ہے۔۔۔ طوفان تو گزر جاتا ہے لیکن اس کے آثار سے باہر نکلنا اس سے زیادہ مشکل ہے۔۔"
وہ مایوسی سے بولی۔۔۔
"آپ کوشش تو کریں نا۔۔ ایک بار ہمت کریں۔۔ خود کو زندگی کی طرف واپس گھسیٹیں۔۔ آگے جو ہوگا اچھا ہی ہوگا۔۔ ایک ہی روگ کو ساری زندگی سینے سے لگائے انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔۔۔ آگے بڑھنا پڑتا ہے۔۔۔ "
"تم کتنی بڑی بڑی باتیں کرنے لگ گئی ہو۔۔"
ہانیہ اس کی باتوں پر مسکرائی۔۔
"آپ مجھے چھوڑیں۔۔ آپ بس مجھ سے وعدہ کریں کل سے یونیورسٹی جائیں گی آپ۔۔۔"
"میں وعدہ نہیں کرتی لیکن میں کوشش ضرور کروں گی۔۔"
ہانیہ کے کہنے پر خدیجہ مسکرائی لیکن تبھی پیچھے سے آنے والی آواز پر اس کی مسکراہٹ سکڑی اور دل زور سے دھڑکنا شروع ہوگیا۔۔
"ہانی میرے لیے ایک کپ چائے بنا دو۔۔"
حسن ابھی آفس سے آیا تھا اور اپنے کمرے کی طرف جانے سے پہلے رک کر ہانیہ سے مخاطب ہوا۔۔ خدیجہ کو اس نے ایسے ہی نظر انداز کیا جیسے وہ وہاں موجود ہی نا ہوں۔۔
"جی بھائی۔۔۔"
ہانیہ کا جواب سن کر وہ ویسے ہی پلٹ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔
"بھائی ابھی غصے میں ہیں۔۔ آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائیں گے۔۔"
خدیجہ کے چہرے پر چھائی تاریکی ہانیہ کی نظروں سے چھپی نہیں رہی تھی اس لیے وہ اسے تسلی دینے کو بولی۔۔
"وہ ٹھیک نہیں ہوں گے۔۔ ان کہ سر پر جو انتقام کا بھوت چڑا ہے وہ نہیں اترے گا۔۔ وہ مجھے ایسے نظر انداز کر رہے ہیں جیسے میں موجود ہی نا ہوں۔۔ میں میرا وجود ان کے لیے کچھ بھی معنی نہیں رکھتا۔۔"
وہ اداسی سے بولی۔۔
"ایسی بات نہیں ہے خدیجہ۔۔ تم ان سے بات کرنے کی کوشش کرو ان کا غصہ خود ہی اتر جائے گا۔۔۔"
"وہ میری طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے میں کیسے ان سے بات کروں۔؟"
وہ نا سمجھی سے بولی۔۔
"ابھی میرے سر میں درد ہو رہی ہے۔۔ اس لیے تم چائے بناؤ اور بھائی کو دے کر آؤ۔۔ موقع ملے تو ان سے بات بھی کر لینا۔۔۔"
"لیکن میں کیا بات کروں۔۔؟ "
وہ پریشانی سے بولی۔۔
"بس طبعیت وغیرہ پوچھ لینا۔۔۔ اور انہیں احساس دلانا کہ تم ان کے ساتھ ہو۔۔"
"اور اگر وہ غصہ ہوگئے تو۔؟"
وہ ہنوز پریشان تھی۔۔
"اوفو خدیجہ۔۔ تم جاؤ تو سہی۔۔۔ "
ہانیہ کہ اکتا کر کہنے پر ہمت کرتی کچن میں چلی آئی۔۔۔ چائے بنا کر ڈرتے ڈرتے وہ اوپر گئی اور حسن کے کمرے کا دروازہ ناک کیا۔۔
"آ جاؤ۔۔ "
حسن کی سنجیدہ سی آواز آئی۔۔ خدیجہ کمرے میں داخل ہوئی۔۔ حسن شاید ابھی نہا کر نکلا تھا اور اب بلیک ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس تھا۔۔
"آپ۔۔ آپ کی طبیعت ٹھیک ہے۔۔؟ "
خدیجہ آہستہ سے بولی۔۔ اس کی آواز پر حسن حیران ہوا۔۔
"رکھو یہ چائے اور جاؤ۔۔"
خدیجہ کو دیکھ کر حسن کے تاثرات یکلخت ہی سرد ہوئے۔۔
"آپ پریشان مت ہوں حسن۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ میں آپ کہ ساتھ ہوں ہمیشہ۔۔۔ "
وہ ہمت کر کہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔ حسن نے اس کی بات پر سر جھٹکا اور سرد لہجے میں بولا۔۔
"مجھے نا تمہاری ضرورت ہے نا تمہارے ساتھ کی۔۔۔ "
"آپ۔۔ آپ ایسے مت کہیں۔۔ میرا کیا قصور ہے۔۔؟ "
وہ افسردگی سے بولی۔۔
"چپ کر جاؤ۔۔ اور جاؤ یہاں سے۔۔ تمہارا وجود میں اب کہیں بھی برداشت نہیں کرسکتا۔۔ اور اپنے دماغ میں یہ بات بٹھا لو کہ تمہاری میری زندگی میں اب کوئی جگہ نہیں ہے۔۔ ایک زبردستی کے رشتے کے سوا میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ "
وہ نے حد تلخی سے بولا تو خدیجہ نے اپنے آنسو صاف کیے۔۔
"آپ بہت زیادتی کر رہے ہیں حسن۔۔ "
"مجھے پتا ہے جو میں کر رہا ہوں۔۔ تم جاؤ یہاں سے اور آئیندہ مجھے اپنی شکل مت دکھانا۔۔ نفرت ہے مجھے تم سے اور تمہارے اس بھائی سے۔۔"
وہ غصے سے بولا۔۔
"آپ بزدل ہیں۔۔ بہت بزدل ہیں ایک کمزور عورت سے بدلا لے رہے ہیں۔۔ اگر اتنی ہی انتقام کی آگ ہے آپ کے اندر تو جائیں جا کر ارسلان بھائی سے بدلا لیں۔۔ ان سے لڑیں۔۔ اپنی اس انتقام کی آگ میں مجھے کیوں جلا رہے ہیں آپ۔۔؟ ایک کمزور لڑکی کو استعمال کر رہے ہیں۔۔"
وہ غصے سے بولی جو حسن نے جبڑے بھینچ کر اسے دیکھا۔۔
"اپنی بکواس بند کرو اور جاؤ یہاں سے۔۔"
حسن بمشکل اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے بولا۔۔
"جا رہی ہوں۔۔مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے ایک بزدل انسان سے بات کرنے کا جو ایک عورت کو سہارا بنا کر اپنا انتقام لینا چاہتا ہے۔۔۔"
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولی۔۔
"بہت زبان چل رہی ہے تمہاری آج۔۔۔ اسے سنبھال کر رکھو خدیجہ بی بی یہ نا ہو کہ بعد میں تمہیں پچھتاوا ہو۔۔"
حسن سنجیدگی سے بولا۔۔
"میں نہیں آپ پچھتائیں گے اپنے کیے پر۔۔۔"
حسن کے لہجے پر وہ ڈر ضرور گئی تھی مگر محسوس نہیں ہونے دیا۔۔
"یہ تو وقت بتائے گا۔۔"
وہ تلخ مسکراہٹ جے ساتھ بولا تو وہ اپنے آنسو روکتی ہوئی اس کہ کمرے سے نکل گئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اس بار تنخواہ ملنے دیں امی۔۔ سب سے پہلے میں آپ کا چیک اپ کرواؤں گی اس بار۔۔۔"
اقرا ابھی سکول سے آئی تھی۔۔  اور آتے ہی اپنی ماں سے بولی تھی جو کہ اپنی بیماری کی وجہ سے اب بہت کمزور ہو چکی تھیں۔۔
"سانس تو لے لو بیٹا۔۔ ابھی گھر آئی ہو اور آتے ہی شروع۔۔۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔۔
"امی آپ کی صحت کوئی مزاق نہیں ہے۔۔۔ میرے پاس آپ کے علاوہ اور کوئی رشتہ نہیں ہے۔۔ آپ بس جلدی سے ٹھیک ہوجائیں۔۔ "
وہ ان کہ گلے لگتے ہوئے بولی۔۔
"میں ٹھیک ہوں میرے بچے۔۔ تم پریشان مت ہو۔۔ "
وہ اس کہ سر پر ہاتھ پھیر کر بولیں۔۔
"بھائی کی کال آئی تھی آج۔۔ پوچھ رہے تھے آپ کی طبیعت کا۔۔۔"
وہ اداسی سے بولی۔۔
"آ گئی اس کو ماں کی یاد۔۔۔"
وہ تلخی سے بولیں۔۔۔
"چھوڑیں امی آپ انہیں۔۔ میں آپ کہ لیے کھانا بنا کر لاتی ہوں۔۔"
اقراء اس کا دھیان بٹاتی اٹھ گئی۔۔
اقراء کے لیے زندگی کبھی آسان نہیں رہی تھی۔۔ وہ دس سال کی تھی جب باپ انتقال کرگیا ۔۔ اس کا ایک ہی بھائی تھا جو اس سے چار سال بڑا تھا۔۔ زبیر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جاب کے لیے دبئی چلا گیا تھا۔۔ پیچھے سے آمنہ بیگم اور اقراء دونوں بالکل اکیلی ہوگئی تھیں مگر وہ ان کے لیے خرچہ پانی بھیجتا رہتا تھا اور فون بھی روز ہی کیا کرتا تھا۔۔ اقراء نے گھر سے قریبی کالج سے ہی گریجویٹ کیا تھا۔۔ وہ اپنے آخری سال میں تھی جب زبیر نے دبئی میں ہی کسی امیر عورت سے شادی کرلی اور وہیں سے ان سب کی زندگیاں تبدیل ہوگئیں۔۔ زبیر شادی کے بعد صرف اپنی بیوی کا ہو کر رہ گیا تھا۔۔ اب وہ ہر ماہ خرچہ نہیں بھیجتا بلکہ کبھی سال میں ایک دو بار بھیج دیا کرتا۔۔ اب وہ روز فون بھی نہیں کرتا تھا بس کبھی ایک دو ماہ میں کر لیا کرتا اور پچھلے تین سالوں سے ہی اس نے پاکستان ایک بار بھی چکر نہیں لگایا تھا ۔۔۔ اس سب میں ان ماں بیٹی کی زندگی برباد ہوکر رہ گئی۔۔ گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک قریبی سکول میں پڑھانا شروع کر دیا تھا۔۔ وہ سکول غریب بچوں کے لیے تھا۔۔ وہ ایک خیراتی سکول تھا اس لیے اسے بہت ہی تھوڑی تنخواہ ملتی تھی مگر ان دونوں کا گزارہ ہوجایا کرتا تھا۔۔ اقراء کی زندگی تب زیادہ مشکل ہوئی جب آمنہ بیگم کو پہلا ہارٹ اٹیک آیا تھا۔۔ اس کے بعد سے وہ بالکل بستر سے لگ کر بیٹھ گئیں تھیں لیکن اقراء نے ہار نہیں مانی تھی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جنید۔۔۔"
وہ ہسپتال سے ابھی آیا تھا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا جب سملی بیگم نے اسے پکارا۔۔
'جی ماما۔۔۔"
وہ ان کی طرف آ گیا۔۔
"بیٹا اپنی پھپھو کے گھر کا چکر تو لگا آؤ آج۔۔ جب سے وہ واقع ہوا ہے ہانیہ بہت ڈپریشن میں رہنے لگی ہے۔۔ تمہاری پھپھو کہہ رہی تھیں تم اسے سمجھاؤ زرا۔۔ بہت پریشان ہیں وہ اس کے لیے۔۔۔"
"آج کل تو میں بہت مصروف ہوں ماما۔۔ کوشش کروں گا اس ویک اینڈ پر چکر لگا لوں۔۔"
"تھوڑا سا وقت نکال لو بیٹا۔۔ تم ایسے پیشنٹس سے ڈیل کرتے رہتے ہو اس لیے اسے سمجھا سکتے ہو۔۔ ہم میں سے تو کسی کی بات نہیں سن رہی وہ۔۔"
وہ پریشانی سے بولیں۔۔
"میں پوری کوشش کروں گا ماما آپ پریشان مت ہوں۔۔"
وہ مسکرا کر بولا تو وہ بھی مسکرائیں۔۔
"عمیر اور اسامہ کہاں ہیں۔۔؟ "
ان دونوں کو غیر موجود دیکھ کر اس نے پوچھا۔۔
"اگلے ہفتے اسامہ کی چھٹیاں ختم ہو رہی ہیں۔۔ واپس جا رہا ہو وہ تو اب وہ دونوں اندر گھس کر مویز دیکھ رہے ہیں اور اب اگلا پورا ہفتہ یہی ہونا ہے۔۔۔"
وہ اطلاع دیتے ہوئے بولیں تو وہ مسکرا کر ان کے کمرے میں چلا گیا۔۔
اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا تو پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔۔ ایل ای ڈی پر کوئی ہارر مووی لگی تھی جبکہ وہ دونوں ہاتھ میں پاپ کارن لیے بیڈ پر الٹے لیٹے تھے۔۔ جنید دبے قدموں سے آگے بڑھا اور بیڈ کے قریب جا کر عمیر کے سر پر تھپڑ لگایا۔۔
"ہائے اللہ ۔۔۔ بھوت۔۔۔ بھاگو اسامہ بھائی بھاگو۔۔۔"
عمیر فوراََ ہی ہوش میں آیا اور چلانا شروع کر دیا۔۔ اسامہ کے ہاتھ سے بھی پاپ کارن نیچے گرے۔۔
"گدھوں بھوت نہیں میں ہوں۔۔۔"
جنید کمرے کی لائٹ آن کرتا ہوا بولا۔۔۔
"اف بھائی آپ نے تو ڈرا ہی دیا تھا۔۔ "
وہ دونوں پھولی ہوئی سانس کے ساتھ بولے۔۔۔
"تم دونوں کو کوئی کام نہیں ہے مویز دیکھنے کے علاوہ۔۔۔"
وہ ان کی کلاس لیتے ہوئے بولا۔۔
"سارے جہان کی مصروفیات آپ کے حصے میں جو آ گئی ہیں اب ہم نے فارغ ہی رہنا ہے۔۔۔ "
اسامہ منہ بنا کر بولا۔۔
"ہم اتنے بھی فارغ نہیں ہیں جنید بھائی۔۔ کل میں اسامہ بھائی کے ساتھ ایک چیرٹی سکول جا رہا ہوں جہاں پر ہم مستحق بچوں میں بکس ڈسڑیبیوٹ کریں گے۔۔۔"
عمیر مسکراتے ہوئے بولا تو جنید اسامہ کی طرف متوجہ ہوا۔۔
"ایک مہینے کے لیے تم آتے نہیں ہو اور یہاں آ کر بھی یہ کام شروع کر دیتے ہو۔۔۔"
اسامہ کو چیرٹی کا بہت شوق تھا۔۔ وہ اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ یہ کام بھی ضرور جاری رکھتا تھا۔۔ مستحق بچوں کو کتابیں دیتا ان کی پڑھائی کے اخراجات اٹھاتا۔۔۔ اب جب اس کی ہاؤس جاب شروع ہوئی تھی تو وہ تب بھی اپنا سارا خرچہ ایسے ہی بچوں پر لگا دیتا کیونکہ وہ بہت نرم دل تھا۔۔ وہ کسی کو بھی پریشانی میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔
"مجھے سکون ملتا ہے اس کام ست بھائی۔۔ ان بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر مجھے لگتا ہے میں نے انسان ہونے کا حق ادا کردیا۔۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔۔
"چلو اچھی بات ہے۔۔ لگے رہو نیک کاموں میں۔۔"
جنید اس کا کندھا تھپکتا ہوا بولا اور ساتھ ہی اٹھ کر ایل ای ڈی بند کردی۔۔
"اور بند کرو اب یہ۔۔۔ صبح بھی گھوڑے بیچ کر سوتے رہو گے۔۔۔"
اب کہ وہ سختی سے بولا۔۔
"کیا بھائی۔۔ بس اینڈ ہونے والا تھا۔۔"
عمیر منہ بنا کر بولا۔۔۔
"سو جاؤ اب چپ کر کہ ورنہ تمہارا اینڈ کر دوں گا میں۔۔۔"
جنید کے سنجیدگی سے کہنے پر عمیر منہ بنا کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔
"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی بھائی۔۔"
عمیر کے جانے کے بعد اسامہ بولا۔۔
"ہاں بولو۔۔"
جنید اس کی طرف متوجہ ہوا۔۔
"ام۔۔ ابھی دیر ہو رہی ہے۔۔ صبح بات کر لیں گے۔۔۔"
اسامہ کچھ دیر خاموش رہا پھر سوچتے ہوئے بولا تو جنید اوکے کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا جبکہ اسامہ ہنوز سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)حيث تعيش القصص. اكتشف الآن