Episode 21

2.3K 204 76
                                    

"اقراء کیسی ہے۔۔؟ "
وہ لان میں سلمہ بیگم کے پاس بیٹھا تھا جب انہوں نے پوچھا۔۔
"ٹھیک ہے۔۔۔"
وہ آہستہ سے بولا۔۔ اس کے ٹھیک ہونے نا ہونے کا تو اسے بھی نہیں پتا تھا۔۔ اقراء کے کہنے پر وہ اسے ایک فلاحی ادارے میں چھوڑ آیا تھا جہاں پر اس کی ریہائش بھی تھی اور وہ وہیں بچوں کو پڑھاتی بھی تھی ۔۔ اس کہ بعد ایک دو بار سے زیادہ اسامہ کی اس سے بات نہیں ہوئی تھی۔۔
"اکیلی رہتی ہے اب۔۔؟ "
انہوں نے پھر پوچھا۔۔
"نہیں اس کہ کہنے پر میں اسے چھوڑ آیا تھا ایک فلاحی ادارے میں۔۔ وہیں رہتی ہے۔۔"
"تو اپنے گھر کیوں نہیں رہتی۔۔؟ وہاں رہنے کی بھلا کیا ضرورت ۔۔"
"گھر اس کہ بھائی نے بیچ دیا تھا اور اپنا حصہ لے کر چلا گیا تھا۔۔ پیچھے سے اسے ہی گھر خالی کرنا تھا اس لیے اس نے ایسا فیصلہ کیا۔۔"
اس نے انہیں تفصیل بتائی ۔۔
"اللہ رحم کرے۔۔ پتا نہیں خونی رشتوں کو بھی اب کیا ہوتا جا رہا ہے۔۔"
وہ افسوس سے بولیں تو اسامہ خاموش ہوگیا۔۔
"اسامہ تم مجھے اس سے ملوانے لے جاؤ گے۔۔؟ "
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ بولیں۔۔
"پہلے آپ مجھے اس لڑکی سے ملوائیں جو میرے لیے پسند کی ہے۔۔"
وہ شرارت سے بولا۔۔
"وہ لڑکی تو میں نے ابھی خود بھی نہیں دیکھی۔۔"
انہوں نے مسکراہٹ دبائی۔۔
"کیا مطلب۔۔؟ "
اسامہ نے نا سمجھی سے انہیں دیکھا۔۔
"مطلب یہ کہ تم مجھے اس لڑکی سے ملوانے لے کر جاؤ گے۔۔"
"مجھے کیا پتا وہ کون ہے۔۔؟ "
"لیکن تم تو اقراء کو جانتے ہو۔۔"
"اس سب میں اقراء کہاں سے آ گئی۔۔؟ "
اسے ان کی کوئی بھی بات سمجھ میں نہیں آ رہی تھی اس لیے الجھن سے بولا۔۔
"کیونکہ اقراء ہی وہ لڑکی ہے جس سے میں تمہاری شادی کرنا چاہتی ہوں۔۔"
ان کہ کہنے پر اسامہ نے حیرت سے انہیں دیکھا پھر قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔۔
"نائس جوک مام۔۔۔"
"میں مزاق نہیں کر رہی اسامہ۔۔۔"
"تو پھر آپ کیا میرا مذاق بنا رہی ہیں۔۔؟ وہی لڑکی ملی تھی ساری دنیا میں آپ کو میرے لیے۔۔ آپ اس سے ملی نہیں ہیں۔۔ اتنی وہ سڑی ہوئی ہے کہ بس کیا بتاؤں۔۔"
اسامہ منہ بنا کر بولا۔۔
"اس لیے تو میں کہہ رہی ہوں مجھے اس سے ملوا لاؤ۔۔"
"توبہ کریں۔۔ میں تو اس سے کبھی شادی نہیں کروں گا۔۔ کوئی اور لڑکی ڈھونڈ لیں میرے لیے ورنہ اس بہتر میں کنوارہ ہی سہی۔۔"
وہ ان کہ سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔۔
"جنید کو تو تم بڑا سمجھاتے تھے کہ کسی کو سہارا دینا نیکی ہے۔۔ کسی کو زندگی کی طرف واپس لانا ثواب کا کام ہے۔۔ اس کو تو کہتے تھے کہ میں کسی ایسی لڑکی سے شادی کروں گا جسے میرے سہارے کی ضرورت ہوگی۔۔ اب اپنی باری کہاں گئیں تمہاری یہ فلسفیانہ باتیں۔۔ اب جب تمہیں موقع مل ہی رہا ہے کسی بے سہارا کو سہارا دینے کا تو دو اب۔۔ کرو اس سے شادی۔۔ بنو اس کہ لیے سہارا۔۔ واپس لاؤ اسے زندگی کی طرف مدوا کرو اس کہ دکھوں کا۔۔"
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں تو اسامہ نے منہ بسورا۔۔
"ابھی ایک دو سال آپ میری شادی رہنے ہی دیں۔۔"
"کل تک تو تم مرے جا رہے تھے شادی کے لیے۔۔"
وہ اسے گھورتے ہوئے بولیں۔۔۔
"مجھے کیا پتا تھا آپ میری شادی کس سے کرنے کا سوچ رہی ہیں۔۔ میں نے تو سوچا تھا کوئی خوبصورت سلجھی ہوئی لڑکی ہو گی۔۔"
وہ منہ بناتے ہوئے بولا۔۔
"تو کیا اقراء ایسی نہیں ہے۔۔؟ "
"خیر ہے تو پیاری۔۔ لیکن سلجھی ہوئی کا میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔۔"
وہ کندھے اچکا کر بولا۔۔
"مجھے تم اس بار اقراء سے منوانے لے کر جاؤ گے اسامہ بس۔۔۔"
وہ اٹل لہجے میں بولی۔۔
"اوکے اوکے۔۔ اس کی سڑی ہوئی باتیں سن کر آپ خود ہی انکار کر دیں گی۔۔"
وہ کافی مطمئن تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا ہوا ہے۔۔؟ "
جنید لیپ ٹاپ پر کوئی کام کر رہا تھا جب ہانیہ کی نظریں اپنے چہرے پر مسلسل محسوس کرتے ہوئے بولا۔۔
"کچھ نہیں۔۔۔"
وہ آہستہ سے بولی تو وہ اپنے کام میں متوجہ ہوگیا۔۔ وہ ہنوز اسے ویسے ہی دیکھے جا رہی تھی جب جنید نے لیپ ٹاپ بند کیا اور اس کی طرف متوجہ ہوا۔۔
"کیا ہوا ہے بیگم صاحبہ۔۔؟ نظروں سے گھائل کرنے کا ارادہ ہے۔۔"
وہ شرارت سے بولا تو ہانیہ مسکرائی مگر اسے ویسے ہی دیکھتی رہی۔۔
"آپ سے ایک بات پوچھوں۔۔"
"جی پوچھیں۔۔۔"
وہ اسی کہ طرف رخ کر کہ بیٹھ گیا۔۔
"آپ کو مجھ پر غصہ نہیں آتا یا مجھ سے کبھی ناراض ہونے کا دل نہیں کرتا۔۔؟ "
وہ اسے بڑی محویت سے دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔۔
"مجھے تم پر غصہ کیوں آئے گا۔۔؟ تم اتنی پیاری ہو اب بتاؤ کیا میں تم پر غصہ کر سکتا ہوں۔۔؟ "
جنید مسکراہٹ دبا کر بولا۔۔
"لیکن کبھی تو دل کرتا ہوگا ناراض ہونے کا۔۔ جیسے آپ مجھے مناتے ہیں آپ کا بھی دل کرتا ہوگا کہ میں آپ کو مناؤں۔۔"
"ہاں دل تو کرتا ہے لیکن ناراض ہونا تو بیویوں کا حق ہوتا ہے اور انہیں منانا شوہروں کا فرض ہوتا ہے اس لیے جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو مجھے اچھا لگتا ہے تمہیں منانا۔۔۔"
جنید مسکرا کر بولا۔۔
"آپ کو برا نہیں لگتا یہ سوچ کر میں شادی سے پہلے کسی کے ساتھ منسوب تھی۔۔؟ کسی اور کو پسند کرتی تھی۔۔ کیا یہ بات آپ کا دل نہیں دکھاتی۔۔؟ "
وہ جانے اس سے کیا پوچھنا چاہ رہی تھی۔۔ جنید سنجیدہ ہو کر اٹھ بیٹھا۔۔۔
"وہ سب جو بھی تھا تمہارا ماضی تھا اور میرا تعلق تمہارے حال سے ہے تمہارے مستقبل سے تمہارے ماضی سے میرا کوئی لینا دینا نہیں۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولا۔۔
"لیکن میں کسی کو پسند کرتی تھی۔۔ کیا یہ خیال آپ کو کبھی غصہ نہیں دلاتا۔۔؟"
"ہانیہ تم اسے صرف پسند ہی کرتی تھی نا۔۔ کیا پتا مجھ سے محبت کرتی ہو۔۔ پسند اور محبت میں بہت فرق ہوتا ہے۔۔ پسند تو کبھی بھی بدل سکتی ہے بلکہ عمر اور حالات کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔۔ لیکن محبت نہیں بدلتی۔۔ انسان جب ایک بار کسی کی محبت میں مبتلا ہو جائے تو وہ اسے بھول نہیں پاتا۔۔ تم ارسلان کو فقط پسند کرتی تھی اس لیے وقت کے ساتھ ساتھ اسے بھول گئی۔۔ وہ تمہاری زندگی کا ایک حصہ تھا بس ہانیہ جبکہ میں تمہاری پوری زندگی ہوں۔۔ تمہیں مجھ سے محبت ہوسکتی ہے۔۔ اور یقین کرو یہ ایسی حلال محبت ہوتی ہے کہ انسان کبھی اس سے مایوس نہیں ہوتا۔۔۔"
وہ نرمی سے بولا تو ہانیہ اس کے قریب ہوئی اور اس کہ کندھے پر سر رکھا۔۔
"آپ بہت اچھے ہیں۔۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے اللہ نے آپ کی صورت میں میری ساری تکلیفوں کا ازالہ کر دیا ہے۔۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔
"میں اتنا بھی اچھا نہیں ہوں۔۔ دوبارہ ایسی باتیں کرو گی تو مجھے غصہ بھی آ سکتا ہے۔۔"
وہ مسکراہٹ دبا کر بولا۔۔
"آپ مجھ پر کبھی غصہ نہیں کر سکتے۔۔"
وہ یقین سے بولی۔۔
"کر بھی سکتا ہوں۔۔"
وہ اسے دھمکی دیتے ہوئے بولا۔۔
"بس پھر میں کبھی آپ سے بات نہیں کروں گی۔۔"
وہ ناراضگی سے بولی۔۔
"بس اسی وجہ سے نہیں کرتا غصہ۔۔۔"
جنید محبت سے بولا تو وہ مسکرائی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کو خبر نہیں ہوتی
ہم نے سب دکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بیکلی اس قدر نہیں ہوتی
نالہ یوں نارسا نہیں رہتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی
چاند ہے کہکشاں ہے تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی
ایک جاں سوز و نامراد خلش
اس طرف ہے ادھر نہیں ہوتی
دوستو عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا درگزر نہیں ہوتی
رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی
بے قراری سہی نہیں جاتی
زندگی مختصر نہیں ہوتی
ایک دن دیکھنے کو آ جاتے
یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی
حسن سب کو خدا نہیں دیتا
ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی
دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی۔۔۔۔
وہ ٹیرس پر کھڑا اسی کہ بارے میں سوچ رہا تھا جب وہ اسے لان کی سیڑھی پر بیٹھی نظر آئی۔۔ کچھ دنوں سے وہ بہت اداس اداس رہنے لگی تھی۔۔ اب نہ اس کی وہ شرارتیں رہی تھیں نا اس کہ انداز میں وہ بے تکفلی رہی تھی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔۔ وہ نا حسن سے مخاطب ہوتی تھی۔۔ نا اس سے زیادہ بات کرتی تھی اور نا ہی اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتی تھی۔۔ وہ اس سے سخت خفا تھی اور ایسا شاید پہلی بار ہوا تھا ورنہ خدیجہ کے ایسے مزاج نہیں تھے کہ وہ کبھی اس سے ناراض ہوتی تھی اور اگر ہوتی بھی تو فوراََ مان جایا کرتی تھی مگر اس بار اس کی ناراضگی سے حسن پریشان ہو رہا تھا۔۔ وہ یہی سمجھا تھا وہ ہمیشہ کی طرح خود ہی مان جائے گی خود ہی سنبھل جائے گی مگر اس بار ایسا نا ہوا تھا۔۔ اس بار ناراضگی کا دورانیہ تویل ہوگیا تھا۔۔۔ البتہ بات اتنی بڑی نا تھی کم از کم حسن کے لیے تو نا تھی لیکن شاید خدیجہ اس بار زیادہ ناراض ہوگئی تھی۔۔
حسن چاہتا تو بات کو ایک لمحے میں ختم کر دیتا اور وہ کرنا بھی چاہتا تھا مگر وہ جب بھی اس شخص کا زکر سنتا نجانے کیوں اسے غصہ آنے لگتا تھا۔۔ اپنے اس غصے میں وہ اس کو کتنی تکلیف دے چکا تھا اس کا اسے اچھے سے احساس تھا مگر پھر بھی نجانے کیوں وہ اس کی تکلیف کا مداوا نہیں کر پا رہا تھا۔۔ وہ کچھ سوچتا ہوا نیچے چلا آیا جہاں وہ بیٹھی ہوئی تھی۔۔ حسن وہیں اس کہ پاس جا کر بیٹھ گیا تو وہ وہاں سے اٹھ گئی۔۔ حسن نے اس کی کلائی تھام کر اسے پھر بٹھا لیا۔۔
"بیٹھ جاؤ کہاں جا رہی ہو۔۔"
"مجھے اپ سے کوئی بات نہیں کرنی میرا ہاتھ چھوڑ دیں۔۔"
وہ سنجیدگی سے بولی۔۔
"پہلے تو ہر وقت بات کرنے کے لیے پیچھے پڑی رہتی تھی۔۔۔"
حسن اسے پرانی بات کا حوالہ دے کر بولا۔۔
"وقت اور حالات انسان کو بدل دیتے ہیں۔۔ ہر چیز اب پہلے جیسی نہیں رہی۔۔ آپ بھی تو بدل گئے ہیں۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولی۔۔
"تم کیا چاہتی ہو خدیجہ۔۔؟ "
"اب تو کچھ نہیں چاہتی۔۔ قسم لے لیں اب واقعے کچھ نہیں چاہتی۔۔ پہلے سوچتی تھی اس مجبوری کے رشتے کو محبت میں بدل لوں گی لیکن اتنی کوشش کے بعد بھی نہیں کر پائی۔۔ آپ نے پہلے دن سے ہی سہی کہا تھا کہ یہ مجبوری کا رشتہ ہے۔۔ اس وقت مجھے اختلاف تھا مگر آج واقعی یقین ہوگیا ہے کہ یہ مجبوری کا رشتہ ہے۔۔ ایک مجبوری کے رشتے سے میں کیا چاہ سکتی ہوں۔۔ جو ہو رہا ہے جو ہونا ہے ہونے دیں اسے۔۔۔ میرا چاہنا نا چاہنا کسی کے لیے کیا معنی رکھتا ہے۔۔"
وہ تلخی سے کہہ رہی تھی۔۔۔۔
"ایسی بات نہیں ہے دیا۔۔۔ "
آج بہت عرصے بعد اس نے خدیجہ کو دیا کہا تھا لیکن آج اس کہ یہ کہنے پر بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔۔
"یہی بات ہے۔۔ پہلے میں سمجھتی تھی مجھے آپ سے محبت ہے تو آپ کو بھی ہوگی۔۔ نہیں ہے تو ہو جائے گی لیکن میں غلط تھی۔۔ ضروری تو نہیں ہم جس سے محبت کریں وہ بھی ہم سے محبت کرے۔۔۔ چھوٹی تھی نا شاید۔۔ پاگل تھی۔۔ اب عقل آ گئی ہے۔۔"
اس کا انداز اب بھی سنجیدہ تھا۔۔
"میں ایسا کیا کروں کہ تمہیں میری محبت پر یقین آئے۔۔؟"
حسن آہستگی سے بولا۔۔
"جہاں محبتیں ہوں وہاں یقین نہیں دلانا پڑتا۔۔ محبت خود اپنا آپ منوا لیتی ہے۔۔"
وہ جتاتے ہوئے بولی۔۔
"تو کیا تمہیں میری محبت کبھی محسوس نہیں ہوئی۔۔؟"
"جس شخص کو میری خوشی کا خیال نہ ہو وہ مجھ سے کبھی محبت نہیں کر سکتا۔۔۔"
سنجیدگی سے کہتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی جبکہ حسن سوچ میں پڑ گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم میرے ساتھ ہی چلو اندر۔۔
سلمہ بیگم بولیں۔۔ اس بار وہ اسامہ کے ساتھ آئی تھیں اور سب سے پہلے وہ اقراء کے ہاسٹل ہی گئے تھے۔۔۔
"میں نہیں جا رہا۔۔ آپ کی متوقع بہو میرا سر بھی پھاڑ سکتی ہے اس لیے آپ اکیلی جائیں۔۔"
وہ منہ بنا کر بولا۔۔
"میں نے اس کو دیکھا تک نہیں۔۔ میں اسے کیسے پہچانوں گی۔۔؟"
"ریسپشن پر جا کر اس کا نام لے لیں۔۔ مل جائے گی۔۔"
وہ کندھے اچکا کر بولا تو وہ اندر چلی گئیں جبکہ وہ وہیں گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔۔
"کیسی ہو بیٹا۔۔؟ "
اندر جا کر انہوں نے اقراء کا پوچھا تو وہاں پر اقراء کو بلا لیا گیا۔۔
"میں ٹھیک ہوں۔۔ آپ کون۔۔؟ سوری میں نے پہچانا نہیں۔۔۔"
اقراء الجھن سے بولی۔۔
"میں اسامہ کی مدر ہوں۔۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولیں تو اقراء مزید حیران ہوئی۔۔
"خیریت آنٹی آپ یہاں۔۔؟ "
اس نے حیرانی سے پوچھا۔۔
"کیا میں اپ سے کچھ دیر بات کر سکتی ہوں۔۔؟ "
"ج۔۔جی ضرور۔۔۔"
اقراء جھجکتے ہوئے بولی پھر ان کہ ساتھ چل دی۔۔ باہر ہی اسے اسامہ نظر آ گیا۔۔ سلمہ بیگم گاڑی کی طرف بڑھ رہی تھیں وہ بھی ان کہ ساتھ ا گئی۔۔
"السلام علیکم۔۔"
اس نے آہستگی سے اسامہ کو سلام کیا۔۔ اسامہ نے بھی اسی انداز میں جواب دیا اور گاڑی کی طرف متوجہ ہوگیا۔۔
"بہت افسوس ہوا آپ کی مدر کا بیٹا۔۔ اللہ کی ان کی مغفرت کرے۔۔"
سلمہ بیگم بولیں۔۔
"جی آنٹی بس اللہ کو یہی منظور تھا ۔۔"
وہ بھی آہستگی سے بولی۔۔
"تم ہمیں مال چھوڑ دو اسامہ۔۔ تمہیں جو کام ہے کر لو پھر ہمیں پک کر لینا۔۔"
سلمہ بیگم کے کہنے پر اس نے اثبات میں سر ہلایا اور انہیں مال چھوڑ کر ہاسپٹل چلا گیا۔۔
"مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی تھی بیٹا۔۔"
مال میں داخل ہونے کے بعد وہ ایک کیفے میں چلی گئیں وہاں جا کر سلمہ بیگم نے بات شروع کی۔۔
"جی آنٹی کہیں۔۔۔"
وہ حقیقتا کافی پریشان ہوگئی تھی۔۔
"میں دراصل آپ کے لیے اسامہ کا رشتہ لے کر آئی ہوں۔۔ میں چاہتی ہوں آپ کو اپنے اسامہ کی دلہن بنا لوں۔۔۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولیں تو اقراء نے بے حد حیرانی سے انہیں دیکھا۔۔
"میں جانتی ہوں آپ کہ لیے یہ بات عجیب ہے۔۔ آپ کے والدین حیات ہوتے یا کوئی بڑا ہوتا تو یہ بات میں ان سے کرتی مگر اب جب کوئی نہیں ہے اس لیے میں آپ سے بات کرنا چاہ رہی تھی۔۔ "
انہوں نے وضاحت کی۔۔۔
"میں۔۔ میں آنٹی کیا کہہ سکتی ہوں اس بارے میں۔۔۔"
وہ جھجکتے ہوئے بولی۔۔ وہ اتنی حیران تھی کہ اس کی سمجھ سے باہر تھا وہ کیا کہے۔۔
"اسامہ اچھا بچا ہے بہت۔۔ دل کا بہت اچھا ہے۔۔ سب کی مدد کرنے کو ہمیشہ تیار رہتا ہے۔۔۔ بس تھوڑا سا جذباتی ہے مگر بہت خیال رکھنے والا ہے۔۔۔۔ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے گا۔۔"
وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔۔
"مجھ۔۔مجھے نہیں پتا آنٹی ۔۔ میں نے کبھی اس بارے میں نہیں سوچا۔۔۔"
وہ جھجکتے ہوئے بولی۔۔
"تو بیٹا اب سوچ لیں۔۔ آج نہیں تو کل تو آپ کو شادی کرنی ہی ہے۔۔۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں آپ کہ بھائی سے بات کر لوں۔۔؟"
"آپ ان سے بات کرلیں۔۔"
وہ آہستہ سے بولی۔۔
"ٹھیک ہے بیٹا میں ان سے بات کر لوں گی لیکن آپ بھی اس بارے میں سوچیے گا۔۔۔ اسامہ آ گیا ہوگا۔۔ چلیں ہم آپ کو چھوڑ دیں۔۔"
وہ اٹھتے ہوئے بولیں۔۔
"نہیں آنٹی مجھے کچھ کام ہے یہاں۔۔ آپ۔۔ آپ جائیں میں خود چلی جاؤں گی۔۔"
اس کہ کہنے پر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
"ٹھیک ہے بیٹا مجھے آپ کہ جواب کا انتظار رہے گا۔۔  میں ابھی دو دن یہیں ہوں۔۔ پھر ملاقات ہوگی آپ سے۔۔"
وہ مسکرا کر اس سے ملتیں چلی گئیں جبکہ وہ وہیں گنگ سی بیٹھی رہ گئی۔۔ اسامہ سے شادی۔۔؟ جس شخص کی مدد کو ہی وہ اتنی بار دھتکار چکی تھی اب اس سے کیسے شادی کرتی۔۔۔ لیکن آخر کب تک۔۔۔ اسامہ نہیں تو کوئی اور۔۔ اسے کسی نا کسی کا تو سہارا لینا ہی تھا اسے۔۔ کب تک اکیلے زندگی گزارتی۔۔ کیا پتا کسی انجان شخص سے شادی کرتی تو وہ قابل اعتبار نہ ہوتا۔۔ اسامہ کم از کم اس اعتبار سے تو اچھا تھا۔۔ لیکن آخر وہ اس سے شادی کرنا کیوں چاہتا تھا۔۔ ایسی کیا وجہ تھی جو اس نے اپنی ماں کو رشتے کے لیے بھیج دیا تھا۔۔۔ وہ بھلا ایسی لڑکی سے کیوں شادی کرنا چاہ رہا تھا جو بار بار اسے دھتکار چکی ہو۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا ہوا۔۔ اپنی متوقع بہو کو وہیں چھوڑ آئیں۔۔؟"
سلمہ بیگم کو اکیلے واپس آتا دیکھ کر وہ بولا۔۔
"نہیں اسے کوئی کام تھا اس لیے وہیں رہ گئی۔۔"
"اچھا۔۔۔ کیا خیالات تھے ویسے ان کہ اس رشتے کے بارے میں۔۔؟"
وہ بظاہر لاپرواہی سے بولا۔۔۔
"وہ بیچاری کیا کہتی۔۔ اتنی پیاری بچی ہے ما شا اللہ۔۔ پتا نہیں قسمت کو کیا منظور کہ اس کہ ساتھ اتنا ظلم ہوگیا۔۔۔ "
وہ اداسی سے بولیں جبکہ وہ لفظ بیچاری پر ہی غش کھا کر رہ گیا۔۔
"پھر اب۔۔۔؟"
"اب کیا۔۔ اس کہ بھائی کا نمبر لے آئی ہوں ا سے بات کروں گی اب۔۔ "
"پھر تو نا ہی سمجھیں۔۔۔"
اس کہ بھائی کے ذکر پر اسامہ اچھا خاصہ بدمزہ ہوا اور کچھ عرصہ پہلے ہونے والی بد کلامی یاد آئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Completed)Where stories live. Discover now