34~Azhar

163 14 4
                                    

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

Some friends meet you in your hard times, and they last forever.

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

پیرس میں وہ رات بہت گہری تھی۔ آسمان پر تارے نہ ہونے کے برابر تھے کیونکہ فضا میں دھند کا راج تھا اور دھند ہر چیز کو اپنے اندر سما لیتی ہے اسے دوسروں کی نظروں سے ہٹا دیتی ہے۔

ایسے ہی اندھیری رات میں وہ سنسان سڑک پر چلتا جا رہا تھا۔ مکمل سیاہ لباس میں ہڈ میں چہرہ چھپائے وہ ایک بنگلے کے سامنے رکا جو بنگلہ تو کم کسی محل کی مشاہبت رکھتا تھا۔

اسنے جیب سے فون نکالا اور کچھ کیز دباکر واپس اس بنگلے کی طرف نظر اٹھائی تو دوبارہ کچھ نمبر ملاتے اسنے کان سے لگایا لیکن کچھ کہے بغیر کال کاٹ دی۔

وہ وہاں سے ہٹا اور وہیں ایک درخت کی اوٹ میں جا چھپا۔ وہیں درخت کے ساتھ کمر لگائے سینے پر بازو باندھے ہینڈفری لگا کر کھڑا ہوگیا جب ایک گاڑی اس بنگلے کے گیٹ کے آگے آکر رکی تھی۔ اس گاڑی سے تین آدمی نکلے تھے اور گیٹ کی طرف بڑھے لیکن کچھ بھی کرنے سے پہلے گیٹ انکے لیے کھول دیا گیا تھا۔ انہوں نے ایک نظر یہاں وہاں دیکھا اور اندر داخل ہوگئے۔

اندر سے وہ ایک عالیشان مقام تھا جو کسی رئیس کے مقام کا صاف پتا دیتا تھا۔ ہر ایک جگہ روشن تھی۔ روشنی بھی اس قدر تیز کے آنکھیں چندھیا جائیں۔ ہر چیز ایسے چمک رہی تھی جیسے سونے کی بنی ہو۔ لیکن ان آدمیوں کو ان سب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس عالیشان بنگلے میں وہ صرف ایک مقصد کے تحت آئے تھے۔

انہوں نے گیٹ کھولنے والے اس آدمی کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ انہیں ایک طرف لے گیا۔ سیڑھیاں چڑھتے کچھ فاصلہ عبور کرتے وہ ایک کمرے کے سامنے رکے۔ اس شخص نے ان آدمیوں کو اس کمرے کی طرف اشارہ کیا تو انہوں نے سر ہلایا اور وہ شخص وہاں سے چلا گیا۔

وہ آدمی کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہ ایک سٹڈی روم تھا اور بہت وسیع تھا۔ ہر طرف بک شیلف نظر آتے تھے جو کتابوں سے بھرے ہوئے تھے اور ایک طرف ٹیبل کے دوسری طرف کوئی کرسی پر بیٹھا تھا اور وہاں سیگریٹ کے دھواں پھیلا ہوا تھا۔

"کافی لے آئے تم؟" کرسی پر بیٹھے اس شخص نے پوچھا جو کھڑکی کی طرف چہرہ کیے بیٹھا شاید مطالعہ میں مصروف تھا۔

"مسٹر شاہین اعظم اب تو ہمیشہ سادہ پانی پر گزر بسر کرنا ہوگا۔" ان تین میں سے ایک آدمی بولا تو اس شخص کا ہاتھ ایک لمحے کے لیے تو ہوا میں معلق رہ گیا۔ اسنے کتاب سے نظریں اٹھائیں اور کرسی موڑ کر دیکھا تو وہاں وہ تین آدمی کھڑے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔

"کون ہو تم لوگ؟ اور اندر کیسے آئے؟" اس مضبوط بھاری جسامت والے شاہین اعظم نے پوچھا۔ جس کی آواز بھی کافی بھاری تھی رعب دار۔ سگریٹ اسنے ایش ٹرے میں گرا دی تھی۔ لیکن دھواں ابھی بھی وہاں پھیلا ہوا تھا۔

دوستی اور محبت | ✔Where stories live. Discover now