اظہار یار۔۔۔

864 45 6
                                    

درد دل کا سویرا
قسط ٠٧

السلام عليكم۔۔۔سبحان اندر داخل ہوا
اہاں۔۔۔۔دوبارہ ٹپک آے ہو سارے۔۔۔۔
ہاں جی۔۔۔۔کوئی مسلہ۔۔۔۔عفت نے ناک منہ چڑھا کر کہا
نہیں جی۔۔۔ہم پاگل ہیں جو کوئی مسلہ ہو گا۔۔۔۔
بلکل۔۔۔۔
ویسے وکیل صاحب کہاں تھے؟
ارشی نے خشمگیں نگاہوں سے دیکھا
کام تھا کچھ۔۔۔۔کل جانا ہے نا۔۔۔ڈاکٹر وہاج کی طرف۔۔۔ماما نے کہا تھا کہ ہر حال میں جانا ہے۔۔۔۔سبحان خود کو ریلیکس کر کے بیٹھا
پھر یہ لوگ؟ارشی نے پریشانی سے مناہل کی طرف اشارہ کیا
یہ بھی جایئں گے۔۔۔چار ہی تو ہیں۔۔۔سبحان نے جیب سے فون نکالا
ہماری کم جنج ہے۔۔۔آپ،میں،مشی،عثمان بھائی،واجد وہ اوور انسان۔۔۔۔ماما،تائی امی۔۔بابا۔۔اب پھپھو بھی ہیں اور ارصم بھائی بھی۔۔اور یہ چار۔۔ہاۓ اللہ‎۔۔۔پورے پندرہ بن رہے ہیں۔۔۔ارشی نے منہ کھول کر حیران سے کہا
اللہ‎۔۔۔ارشی اپنی زبان منہ میں رکھ لیا کرو کبھی۔۔
منہ میں ہی ہے آپ کو تھوڑی نہ پکڑا دی ہے۔۔وہ بھی ارشیہ ارسلان تھی۔۔۔اپنے نام کی ایک۔۔۔
اپیہ۔۔۔آپ بڑی بدتمیز ہو۔۔طلال نے ہنستے ہوے کہا
بدتمیزی والی کون سی بات ہے بھلا۔۔۔۔ارشی نے ناک منہ چڑھا کر کہا
توبہ ہے پیچھے ہی پر جاتی ہو تم تو۔۔۔سبحان غصے سے کہتا اٹھا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا

********************

آج سب ڈاکٹر وہاج کی طرف مدعو تھے۔۔۔۔جس اسپتال میں مشی جاب کرتی ہے وہ ڈاکٹر وہاج کا ہے۔۔۔۔مشی کی جاب کے بعد ڈاکٹر وہاج اس کی فیملی کے ساتھ کافی کلوز ہو گئے۔۔۔وجہ یہ تھی کہ نہ ڈاکٹر وہاج کا کوئی بہن بھائی تھا اور نہ باپ کا سایہ سر پر تھا۔۔۔بس ایک ماں تھی۔۔ایک اچھی فیملی کے ملنے پر ان کے مراسم بڑھے۔۔۔ڈاکٹر وہاج خاندانی امیر تھے مگر پھر بھی ڈاکٹر وہاج نے بہت سوچ کر اپنا پیشہ منتخب کیا اور اس اسپتال کو خریدا اور اس کو اور وسیع تعمیر کروایا۔۔۔۔۔ان کا بزنس ان کی ماں سنبھالتی تھی جنہوں نے اپنے آپ کو کافی فٹ رکھا ہوا تھا۔۔۔
ارصم اور شہری نے عین ٹائم پر جانے سے انکار کر دیا۔۔۔
ماما پلیز کچھ کام ہے۔۔میں خود وہاج سے بات کر لوں گا۔۔۔
شہری میں لاسٹ ٹائم کہ رہے ہوں کہ تم جاؤ گے۔۔۔جو مرضی کرو۔۔ہر بار کا کام ہے تمہارا۔۔جب کہا تھا کہ سارے کام آج سے پہلے پہلے ہو جایئں تو کیوں نہیں کیے۔۔۔
عابدہ کو بھی بہت غصہ تھا۔۔۔ارصم پاس ہی بیٹھا ساری کروائی دیکھ رہا تھا
ممانی۔۔۔ہم آ جایئں گے مگر تھوڑا لیٹ ہو جایئں گے۔۔۔
بے شک لیٹ ہو جاؤ آنا ضرور ہے۔۔۔۔عابدہ شہری کو دو تین باتیں سنا کر چلی گئی
کیا ہے یار کیسے آئیں گے۔۔۔
اب اتنا بھی ضروری کام نہیں ہے ایک میٹنگ ہی ہے نا۔۔۔۔ارصم شہری کو دلاسہ دینے لگا
شہری آوازاری سے منہ میں بڑبڑ کرنے لگا۔۔۔اتنے میں عابدہ واپس آئ
ارشی اور مشی ادھر ہی ہیں۔۔۔تم دونوں ان کو لے کر آنا اور شہری تمہارے کپڑے نکال دیے ہیں۔۔۔اوپر پڑے ہیں۔۔۔۔اور ارصم تمہارے کپڑے استری ہونے والے ہیں۔۔وہ تمہارے آنے تک ہو جایئں گے۔۔۔۔بس دیکھ لو ایک بار آ کر۔۔۔بعد میں مسلہ کھڑا نہ کرنا۔۔۔۔
عابدہ جلدی جلدی کہتی چلی گئی۔۔۔
شہری اور ارصم تھوڑی دیر بعد نکل گئے۔۔۔باقی سب تیار ہو کر ڈاکٹر وہاج کے گھر چلے گئے۔۔۔ارشی اور مشی گھر میں بیٹھی شہری اور ارصم کا انتظار کر رہی تھیں۔۔۔مگر آج وہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔
حد ہے۔۔۔سر میں درد شروع ہو گیا ہے۔۔۔
چاۓ بنا دیتی ہوں۔۔پتہ نہیں انہوں نے کب آنا ہے۔۔۔مشی نے گھڑی کو تکتے ہوے کہا
دونوں کچن میں گئی۔۔۔مشی نے چاۓ کے لئے دودھ رکھا۔۔۔اور ارشی پاس ہی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی اور ٹیبل پر رکھے بسکٹ کے ڈبے کو پکڑ لیا اور اس کو کھانے لگی۔۔
مشی۔۔۔
ہاں۔۔۔
تمہیں ارصم بھائی کیسے لگتے ہیں۔۔؟
کیا مطلب۔۔؟مشی کا ماتھا ٹھنکا
مطلب اچھے یا برے۔۔۔
پتہ نہیں مجھے۔۔۔
کیا مطلب پتہ نہیں۔۔۔دیکھو جیسے مجھے شہری زہر لگتا ہے بہت زیادہ۔۔۔تمہیں کیسے لگتا ہیں ارصم بھائی۔۔۔ارشی نے بسکٹ کو آدھا کیا۔۔
مجھے نہیں پتہ ارشی۔۔۔۔مشی بیزار ہوئی
مطلب اچھے نہیں لگتے۔۔۔تو تم نے آج سے ان کو بھائی کہنا ہے۔۔۔۔ارشی نے مزے سے کہا
تو کہہ لوں گی۔۔۔۔مشی نے سر مارا جیسے بڑا کام کہا۔۔۔
کیا کہو گی؟
ارصم بھائی۔۔۔مشی اب چاۓ ڈالنے لگی۔۔۔
ابھی چاہے لے کر مڑی ہی تھی کہ دروازے پر ارصم کو پایا۔۔۔ارشی نے مشی کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔۔۔
آپ آ گئے۔۔۔۔اف اتنی دیر۔۔۔ارشی اٹھ کر اس کے قریب گئی
ہاں وہ بس۔۔۔مجھے کپڑے دے دو میرے استری ہونے تھے۔۔۔
ہاں پھپھو نے کہا تھا آپ کو دینے کو۔۔اوپر ہیں۔۔۔آپ چلیں میں لاتی ہوں۔۔۔۔
ہوں آپ لوگ بھی ہو جایئں تیار۔۔۔ارصم مشی کو ایک نظر دیکھتا اوپر کی جانب بڑھ گیا
چلو۔۔۔۔ارشی جلدی سے بھاگی۔۔۔
مشی اس کے پیچھے پیچھے ہو لی
ارشی نے جلدی سے اپنے کپڑوں کو ہینگر سے نکالا اور واشروم میں گھستے ہوئے بولی
مشی پلیز ارصم بھائی کو ان کے کپڑے دے آؤ۔۔۔
لیکن ارشی۔۔۔مگر ارشی نہیں رکی۔۔۔مشی کو ناچار اٹھنا پڑا
ٹھک ٹھک۔۔۔۔
جی آ جایئں۔۔۔۔مشی اندر آئ
یہ آپ کے کپڑے۔۔۔مشی نے آرام سے بیڈ پر رکھ دیے اور ابھی مڑی ہی تھی کہ ارصم بول اٹھا
مجھے نہیں پتہ آپ کو نہیں معلوم۔۔؟
مشی حیرت سے مڑی
جی؟
مجھے نہیں لگتا آپ کو نہیں معلوم کہ میں آپ کو پسند کرتا ہوں۔۔۔ارصم نے ابرو اچکا کر کہا۔۔۔اور مشی وہیں تھم گئی
چلیں اگر آپ کو معلوم نہیں تو بتا دیتا ہوں۔۔۔۔مشی اے ایم ان لو ود یو۔۔۔۔تو میرے نہیں خیال سے مجھے اچھا لگے گا اگر آپ مجھے بھائی کہیں گی۔۔۔تو ایسی غلطی بھی نہیں کرنا۔۔۔ابھی پیار سے کہہ رہا ہوں آیندہ بھی پیار سے ہی کہوں کا لیکن شاید طریقہ الگ ہو۔۔۔ارصم اس کو آخر میں مسکرا کر دیکھتا کپڑے پکڑنے لگا۔۔۔اور مشی اس کے اظہار محبت کو سن کر بلکل سن ہو گئی۔۔۔مشکل سے مڑی اور اپنے کمرے کی راہ لی
اندر گئی اور دھڑکتے دل کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔ارشی نکلی
کیا ہوا۔۔؟ارشی اس کا سفید پڑتا چہرہ دیکھ کر گھبرائی
کچھ نہیں۔۔۔تم جلدی سے تیار ہو جاؤ۔۔۔مشی نظریں چراتی کپڑے لے کر واشروم میں گھس گئی
تھوڑی دیر بعد گاڑی کی آواز آئ تو دونوں نیچے اتری۔۔ارشی نے نیلے رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا جس پر سفید رنگ کی کڑھائی کی گئی تھی اس کے برعکس مشی نے کالے رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی جس پر بادامی رنگ کی کڑھائی کی گئی تھی۔۔۔دونوں گاڑی کی پچھلی نشست پر براجمان ہو گئی۔۔۔
میں آپ لوگوں کا ڈرائیور تو نہیں۔۔۔۔ارصم نے بیک مرر میں دیکھتے ہوے کہا
ہاں۔۔مشی جاؤ تم آگے۔۔۔مشی ارشی کو گھورنے لگی۔۔۔ارصم نے ہارن دیا تو اس کو نا چاہتے ہوے بھی آگے بیٹھنا پڑا۔۔۔
یہ شہری کہاں ہے۔۔؟ارشی تھوڑا آگے کو ہوئی
وہ سیدھا ادھر آ جائے گا۔۔۔۔ارشی منہ بناتی بڑبڑاتی ہوئی پیچھے ہو کر بیٹھ گئی۔۔۔ارصم ہنسنے لگا۔۔۔
ڈاکٹر وہاج کے گھر کے قریب پہنچے تو سامنے سے شہری کی گاڑی آتی ہوئی دکھائی دی
چلو جی۔۔۔۔ارشی کے حلق تک کڑوا ہو گیا
ارصم نے گاڑی پورچ میں کھڑی کی اور شہری نے باہر ہی پارک کر دی
اتنی دیر مجھے لگا تو پہلے ہی پہنچا ہو گا۔۔۔۔
بس بزی بندے ہیں ہم۔۔۔۔
کس کے ساتھ رہتے ہیں بزی۔۔۔۔ارصم نے ہنس کر کہا
یقیناً گرل فرینڈ کے ساتھ۔۔۔اوہ۔۔۔سوری گرل فرینڈز کے ساتھ۔۔۔ارشی جل کر بولی
کونسی والی وہ لندن والی یا لاہور والی۔۔۔ارصم نے آنکھ جھپکا کر شہری سے پوچھا
نہیں یار اسلام آباد والی۔۔۔۔مشی ایک دم سے ہنسی
ادھر ہی کھڑے کھڑے ساری باتیں کرنی ہیں آپ لوگوں کو۔۔۔ارشی کہتی اندر کی طرف بڑھی۔۔۔۔تینوں ہنس دیے
ڈاکٹر وہاج اور ان کی ماں نے چاروں کا پر تپاک استقبال کیا۔۔۔سب نے کھانا کھایا۔۔۔کافی دیر بیٹھے اور پھر گھر کی راہ لی

***********************

مجھے بھی چاۓ ملے گی۔۔۔۔ارصم نے مشی کو کچن میں چاۓ بناتے دیکھا تو کہا۔۔۔
جی ضرور۔۔۔۔مشی کا دل زور سے دھڑکا
ارصم ادھر ہی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔۔۔
ارصم بھائی۔۔۔۔ارشی جن کی طرح نمودار ہوئی
شہری کی گرل فرینڈز کے بارے میں بتائیں نا میں عابدہ تائی کو بتاؤں گی۔۔۔ارشی نے مزے سے کہا
مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔
ارصم بھائی جھوٹ نہ بولیں۔۔۔
مجھے واقعی نہیں پتہ۔۔۔۔
ارصم بھائی۔۔۔۔ارشی نے ناراضی سے کہا
مشی سے پوچھ لو۔۔اس کو پتہ ہے۔۔۔
مشی تمہیں پتہ ہے؟ارشی نے حیرانگی سے کہا
ن۔۔ن۔۔نہیں۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ۔۔۔
جھوٹ نہ بولو۔۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے چھپانے کی۔۔۔۔بتاو مجھے۔۔۔
ارشی مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔مشی چاۓ ڈالنے لگی
نہیں بتانا نہ بتاؤ۔۔مگر مجھے پتہ ہے وہ جسے بھی پسند کرتا ہے وہ چڑیل ہی ہو گی۔۔
ارصم اور مشی نے بہت مشکل سے بنسی روکی
میری ہونے والی کی برائیاں کر رہے ہو تم لوگ۔۔۔شہری نے اندر داخل ہوتے ہوے کہا
ہم تو نہیں کر رہے۔۔۔یہ ارشی ہی آپ کی ہونے والی کو چڑیل کہہ رہی ہے۔۔۔مشی نے ارصم کو چاۓ کا کپ تھماتے ہوے کہا
کہہ تو ٹھیک رہی ہے چڑیل تو ہے مگر مجھے پسند ہے۔۔۔شہری ہنسا۔۔۔ارشی منہ بسورتی رہ گئی

*******************
مشی نے صبح نماز پڑھی اور قرآن پاک کھولا۔۔۔۔اس کی روٹین تھی کہ وہ ساتھ ترجمہ بھی کرتی تھی اور سمجھنے کی کوشش بھی کرتی۔۔۔نویں دسویں کے امتحانات کے بعد اس نے ایک مدرسے میں ارشی کے ساتھ داخلہ لیا تھا جہاں ان کو قرآن کی تفسیر کروائی جاتی۔۔۔اس نے پورے قرآن پاک کی تفسیر نہیں کی تھی۔۔۔مگر جتنی بھی کی تھی اس کو بھول چکی تھی اسی لئے وہ اپنی غلطی کو سدھار رہی تھی۔۔۔

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم

وَٱلطُّورِ
طور کی قسم۔۔۔۔

طور۔۔۔طور۔۔۔ام وہ پہاڑ جہاں ﷲﷻ نے حضرت موسیٰ سے کلام کیا تھا۔۔۔اللہ‎ عزوجل اس کی قسم کھا رہے ہیں۔۔۔ہوں

وَكِتَٰبٍ مَّسْطُورٍ
اور کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے۔۔۔

ام۔۔۔یعنی کہ قرآن مجید۔۔۔یعنی ﷲﷻ اس پہاڑ کی اور قرآن پاک کی قسم کھا رہے ہیں۔۔۔

فِى رَقٍّ مَّنشُورٍ
کشادہ اوراق میں۔۔۔

وَٱلْبَيْتِ ٱلْمَعْمُورِ
اور بیت المعمور۔۔۔

بیت المعمور۔۔۔جو آسمان والوں کا قبلہ ہے۔۔۔جہاں فرشتے طواف کرتے ہیں۔۔۔۔جو ہمارے قبلے کے بلکل اوپر ہے ساتویں آسمان میں۔۔۔۔مشی دل ہی دل میں خوش ہوئی کہ اس کو تھوڑا بہت تو یاد ہے

وَٱلسَّقْفِ ٱلْمَرْفُوعِ
اور اونچی چھت کی۔۔۔

اونچی چھت یعنی کہ آسمان۔۔یعنی عرش جو جنت کی چھت ہے۔۔۔

وَٱلْبَحْرِ ٱلْمَسْجُورِ
اور سلگاے ہوے سمندر کی۔۔

سلگاے ہوے سمندر۔۔ام۔۔مشی نے ذہن میں زور ڈالا۔۔۔ہاں۔۔۔آپی نے کہا تھا کہ مروی ہے کہ ﷲﷻ قیامت کے دن سمندر کو آگ کر دے گا۔۔۔۔اور اس لئے جہنم کی آگ میں زیادتی ہو جائے گی۔۔۔ہاں۔۔۔

إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَٰقِعٌ
بےشک تیرے رب کا عذاب واقع ہو کر رہے گا۔۔

یعنی اللہ‎ نے جو کفار سے وعدہ کیا ہے۔۔۔اس کا ذکر ہے۔۔۔

مَّا لَهُۥ مِن دَافِعٍ
اور اس کو کوئی روک نہیں سکے گا۔۔۔

بے شک۔۔۔۔مشی نے مسکرا کر کہا

(جاری ہے)

دردِ دل کا سویرا Where stories live. Discover now