اللہ‎ میرے ساتھ ہے۔۔۔

726 50 33
                                    

درد دل کا سویرا 
قسط ٢٢ 

چاچا۔۔۔کیا ھوا۔۔۔؟
گاڑی ایک دم سے جھٹکے کھاتی رک گئی
پتہ نہیں بیٹا میں دیکھتا ہوں۔۔۔
ڈرائیور جلدی سے نیچے اترا
چاچا۔۔۔کیا یار۔۔۔
شہری بھی پریشانی سے نیچے اترا۔۔۔
شہری سبحان کو فون لگا۔۔۔اسے کہہ کہ دوسری گاڑی لے کر آے۔۔عثمان نے کہا
ہاں۔۔۔شہری نے جلدی سے اپنا فون نکالا۔۔۔
شٹ۔۔۔نو نیٹ ورک۔۔۔شہری نے موبائل زور سے ہاتھ میں مارا
چاچا کتنا رہ گیا ہے راستہ۔۔۔
بیٹا ابھی تو آدھا بھی نہیں ھوا۔۔۔
چل عثمان پیدل چلتے ہیں۔۔۔چاچا راستہ بتائیں۔۔۔
بیٹا جی۔۔۔کافی لمبا راستہ ہے۔۔۔
اف۔۔۔نہ ہم واپس جا سکتے نہ آگے جا سکتے۔۔۔
شہری کو سخت وحشت ہوئی۔۔۔
اچھا۔۔۔پریشان نہ ہو۔۔۔ابھی ٹھیک ہو جاتی ہے گاڑی
عثمان ابھی تسلی ہی دے سکتا تھا
شہری پریشانی سے سڑک کے بیچ و بیچ ٹہلنے لگا۔۔۔

******************

مشی کے آنسو ابل ابل کر باہر آ رہے تھے۔۔۔ادھر ہر لڑکی کا یہی حال تھا۔۔۔
اللہ‎ جی۔۔۔ایسا کیوں ھوا۔۔۔؟اب میرا تن بدن سارا جہان دیکھے گا۔۔۔کس کس کی نظریں میری تصویروں پر ٹھہریں گی۔۔۔ا۔۔ا۔۔اگر۔۔۔بابا۔۔۔نہیں۔۔اللہ‎ جی۔۔۔مجھے ادھر سے نکال دے۔۔۔اللہ‎ جی ایسی آزمائش پر نہیں اتر سکتی اور اگر یہ کوئی سزا ہے تو میں توبہ کرتی۔۔۔مشی اچانک سیدھی ہوئی اور اس چیز سے بلا تر ہو کر کہ کعبہ کس طرف ہے وہ سجدہ ریز ہو گئی۔۔۔اللہ‎ جی مجھے معاف کر دیں۔۔۔مجھے ہمت دیں۔۔۔مجھے آپ کی ضرورت ہے۔۔۔

مصیبت میں گھبرانا کمال درجے کی مصیبت ہے۔۔۔(حضرت علیؓ)

مشی نے سر اٹھایا۔۔۔لڑکیاں اسے حیرت سے دیکھ رہیں تھی۔۔۔پھر جھٹکے سے اٹھی۔۔۔
کیا کوئی باہر نکلنے کا راستہ نہیں۔۔۔وہ بڑبڑاتی کمرے کی داہنی طرف بڑھی۔۔۔جب کوئی راستہ نہ ملا تو تھک ہار کر واپس بیٹھ گئی۔۔۔
اللہ‎ جی۔۔۔اللہ‎ جی۔۔۔اللہ‎ جی
آنسو بہتے گئے۔۔۔زبان اللہ‎ کا نام لیتی گئی۔۔۔

*********************

تقریباً پونے تین بجے وہ وہاں پہنچے جہاں مشی اتری تھی۔۔۔
آپ نے یہاں اتارا تھا۔۔۔
جی بیٹا۔۔۔
چاچا آپ نے کیسے اس کو اکیلا جانے دیا۔۔۔
بیٹا۔۔۔مشی بیٹی نے خود ہی کہا تھا۔۔۔تو۔۔۔ڈرائیور نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔۔۔
شہری ڈرائیور کو دیکھتا ھوا آگے بڑھا۔۔۔
شہری۔۔۔ویران علاقه ہے۔۔۔ہم ایسے نہیں ڈھونڈ سکتے۔۔۔کہاں دیکھیں گے۔۔۔نہ ہی اس کی دوست کا گھر معلوم ہے۔۔۔
تو کیا کریں؟
پولیس کی مدد لیتے ہیں۔۔۔شہری رک کر عثمان کو دیکھنے لگا اور پھر سر ہلا کر گاڑی میں آ بیٹھا۔۔۔
چاچا چلیں پولیس سٹیشن۔۔۔

**********************

یک دم دروازہ کھلا۔۔۔ایک لڑکے نے اس لڑکی کو اسی طرح بے دردی سے پھینکا۔۔۔اس لڑکی کے ہونٹوں اور سر سے خون نکل رہا تھا۔۔۔اس کا جسم بھی زخمی تھا اور اس کی روح بھی۔۔۔
عظیم کے ہاتھ میں پستول تھی۔۔۔اور دھیرے دھیرے چلتا مشی کے قریب آیا۔۔۔
ٹھیک ہو تم۔۔۔؟اس نے مسکرا کے پوچھا اور اس کے کندھے پر زور سے ہاتھ رکھا جیسے وہ اس کا بہترین دوست ہو۔۔۔مشی نے غصے سے اس کا ہاتھ جھٹکا۔۔۔
بڑی اکڑ ہے تیرے میں۔۔۔عظیم نے غصے سے پستول اس کے کندھے میں دے ماری۔۔۔مشی نے چلاتے ہوے اپنا کندھا تھام لیا۔۔۔
مشی آنکھوں میں ڈر اور نفرت لئے اس کو دیکھنے لگی اور اپنے سائیڈ پر رکھا ھوا لکڑی کا ٹکڑا مضبوطی سے پکڑا۔۔۔
ویسے میں انتظار میں ہوں۔۔۔بس کچھ ہی رہ گئی ہیں لڑکیاں۔۔پھر تمہاری ب۔۔۔مشی نے ایک زور دار وار عظیم کے ہاتھ پر کیا۔۔۔اس کی پستول نیچے گر پڑی۔۔جسے مشی نے فورا ہی پکڑ لیا۔۔۔چند ہی پلوں میں گیم پلٹ ہے۔۔۔یہ سب اتنی جلدی ھوا کہ کسی کو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا۔۔۔نہ عظیم کو۔۔۔نا پیچھے کھڑے لڑکے کو۔۔۔مشی جلدی سے اٹھی اور پستول کا رخ عظیم کی جانب کیا۔۔۔
آ۔۔آ۔۔آگے مت آنا۔۔۔مشی کے ہاتھوں کی طرح اس کی آواز بھی کانپ رہی تھی۔۔۔سب کا دھیان مشی کی جانب تھا۔۔۔مشی کے ہاتھ میں گیم دیکھ کے شاید لڑکیوں میں ہمت آ گئی تھی۔۔۔ادھر ایک لڑکی نے لوہے کا پائپ اٹھایا اور اس لڑکے کو دے مارا۔۔۔اس کے سر سے خون نکلنے لگا اور وہ دروازے کے قریب  زمین پر ڈھیر ہو گیا۔۔۔عظیم مڑ کے حیرت سے دیکھنے لگا۔۔۔
دیکھو مجھے پتا ہے تمہیں چلانے نہیں آتی۔۔۔عظیم کو اندازہ تھا لیکن اس بات کا ڈر بھی تھا کہ کہیں غلطی سے چل نہ جاۓ وہ رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔۔۔
آگے ن۔۔ن۔۔نہیں آنا۔۔۔
اچھا تم لوگوں کو جانا ہے نا۔۔۔میں جانے دوں گا۔۔۔ایک لڑکی لکڑی کا ٹکڑا لئے کھڑی ہو گئی۔۔۔
دیکھو دو نشے کی حالت میں ہیں۔۔۔ایک چلا گیا ہے۔۔۔اور باقی ہم۔۔۔اس کو تو مار ہی دیا۔۔۔میں وعدہ کرتا ہوں جانے دوں گا۔۔۔پستول ادھر دے دو۔۔۔
خبردار۔۔۔آگے نہیں آنا۔۔۔
وہ مرا نہیں تھا۔۔بے ہوش ہوا تھا۔۔۔اتنی آسان موت تو نہیں نا ملنی چاہیے۔۔۔عظیم آنکھوں میں خوف لئے اپنے بے ہوش ساتھی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔دوبارہ مشی کو قائل کرنے کے لئے ابھی مشی کی طرف مڑا ہی تھا کہ مشی نے ایک زور دار پتھر کے وار سے اس کو بھی نیچے گرا دیا۔۔۔پستول نیچے گری ہوئی تھی اور مشی نے پتھر تھام رکھا تھا۔۔۔عظیم سر تھامے گرا پڑا تھا،اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوے۔۔۔اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔۔۔مشی نے ایک لمحے میں پتھر نیچے پھینکا اور اپنے پاس کھڑی لڑکی کے ہاتھوں سے لوہے کا پائپ جھپٹا اور عظیم کی ٹانگوں پر وار کیے۔۔۔عظیم چلاتا ھوا اپنی ٹانگوں کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔مشی کا سانس بری طرح اکھڑا ھوا تھا۔۔۔مشی دروازے کے جانب بڑھی ہی تھی کہ دروازے کے قریب گرے لڑکے نے ہلکی سی جنبش کی۔۔۔مشی سمیت سب لڑکیاں ڈر گئیں۔۔۔مشی نے ہاتھ میں پکڑے پائپ سے اس پر وار کرنا شروع کیے اور بس اس کے چہرے پر سینے پر ٹانگوں پر مارتی گئی۔۔۔اس کا چہرہ مکمل طور پر بگڑ چکا تھا۔۔۔اس کے چہرے پر خون کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔۔۔وہ مڑ چکا تھا۔۔۔مشی وہ پائپ تھامیں دروازے کی طرف بڑھی۔۔۔سب لڑکیوں نے اس کی پیروی کی اور اس کے پیچھے ہو لیں۔۔۔باہر جب کوئی اور نہ دکھا تو مشی نے پائپ پھینکا اور بھاگنے لگی۔۔۔

اس رات گھپ اندھیرا چھا گیا تھا۔۔اندھیری رات۔۔۔اس کی زندگی کی طرح۔۔۔جیسے تاریکی اسی انتظار میں تھی کہ یہ رات آے اور وہ چھا جائے۔۔۔معلوم ہے لڑکیوں کو سب سے زیادہ کیا چیز عزیز ہوتی ہے۔۔۔۔عزت۔۔۔مگر جب یہ عزت داغدار ھو جائے تو ان کی زندگی بھی داغدار ھو جاتی ہے۔۔۔۔کچھ رات کی تاریکی نے بے وفائی کی۔۔۔کچھ دوست پر اعتماد نے۔۔۔ اس داغ کے بعد ان کے پاس دو ھی راستے ہوتے ہیں۔۔۔ایک یا تو وہ اور مضبوط ھو جایئں یا وہ اسی عزت کے ساتھ مر جایئں۔۔۔
وہ لڑکیاں اپنی عزت کو بچانے کے لیے بھاگ رہی تھیں۔۔۔سب کے پاؤں شل ھو چکے تھے۔۔۔مگر بھاگنا مجبوری تھی۔۔۔
کچھ لڑکیاں زخمی تھی۔۔۔ایک لڑکی سے بلکل بھی نہیں بھاگا جا رہا تھا۔۔۔بہت دشواری سے بھاگ رہی تھی۔۔۔آنسو صاف کرتی۔۔کبھی آنکھیں بند کر کے اپنی بے بسی کا ماتم کرتی وہ بھاگتی گئی
مگر درد اب برداشت سے باہر ھو رہی تھی۔۔۔ایک دم سے ٹھوکر لگی اور منہ کے بل گر گئی۔۔۔اہ۔۔۔وہ درد سے کراہی
مگر شاید کسی کو آواز نہ سنائی دی کیوں کہ کوئی بھی حواس میں تھا ھی نہیں۔۔۔اس نے کوشش کی مگر بے سود۔۔۔کتوں کی مسلسل آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔اس جھرمٹ میں سے  مشی نے مڑ کر دیکھا تو اس لڑکی پڑ نظر پڑی۔۔۔وہ جو تیزی سے منزل طے کر رہی تھی ایک دم سے رکی
اس لڑکی کے پاس گئی اور اس کو سہارا دے کر اس کو اٹھایا۔۔کبھی کبھی کچھ لوگوں کو سہارے کی ضرورت پڑتی ہے اور ان کو سہارا لینا پڑتا ہے ورنہ ان کی زندگی لنگڑی ھو جاتی ہے۔۔اس نے اس کو سہارا دیا یہ دیکھے بغیر کہ اس کا کندھا بھی زخمی ہے۔۔۔۔مگر شاید ان کی منزل قریب تھی۔۔۔دور سے ان کو کچھ لوگ دکھائی دیے۔۔۔
شہری عثمان پولیس کے ہمرا گلی کے دہانے پر کھڑے تھے۔۔۔وہ ابھی ہی پہنچے تھے۔۔۔
شہری نے ان لڑکیوں کو دیکھا تو ایک دم سے آگے بڑھا۔۔۔اس کی نظریں مشی کو ڈھونڈنے لگیں۔۔۔خواتین پولیس بھی آگے بڑھیں اور لڑکیوں کو تھاما۔۔۔سب لڑکیاں پاگلوں کی طرح رو رہیں تھیں۔۔۔مشی اس لڑکی کو سہارا دیے ہوے تھی کہ شہری پر نگاہ پڑی۔۔۔شہری بھی مشی کو دیکھ چکا تھا۔۔۔پھٹے کپڑے۔۔۔کپڑوں سے جھانکتا بدن۔۔۔تھپڑ کا نشان۔۔۔نہ کوئی دوپٹہ۔۔۔ننگے پاؤں۔۔۔وہ بس بے بسی سے دیکھتا گیا۔۔۔پھر ایک دم سے آگے بڑھا  اور مشی کو گلے لگا لیا۔۔۔
مشی میری جان۔۔۔مشی ہچکیاں بھرنے لگی
بھائی۔۔۔مشی کو پیچھے عثمان نظر آیا جو اب کسی پوزیشن میں نہیں رہا۔۔۔جیسے وہ اس چیز کا یقین کرنا چاہتا ہو جیسا اس نے ابھی دیکھا وہ سچ ہے۔۔۔ 
مشی میری جان۔۔۔۔شہری نے اسے خود سے علیحدہ کیا اور اس کے آنسو پونچھنے لگا۔۔۔وہ دونوں بہن بھائی روے جا رہے تھے اور ایک دوسرے کے آنسو پونچھ رہے تھے۔۔۔اچانک مشی کا دھیان اس لڑکی پر گیا۔۔۔جو نیچے گری پڑی تھی۔۔۔اس کی بہت بری حالت تھی۔۔۔اس سے نہ اٹھا جا رہا تھا نہ بولا جا رہا تھا۔۔۔شہری نے ایک فی میل افیسر کو اشارہ کیا جو دوسری لڑکیوں کو گاڑی میں بیٹھا رہی تھی۔۔۔وہ جلدی آئ اور اس لڑکی کو اٹھا کر گاڑی کی طرف بڑھی۔۔۔
مشی۔۔۔عثمان آگے بڑھا
عثمان بھائی۔۔۔مشی پہلے نم آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی پھر گلے لگ گئی۔۔۔
عثمان بھائی۔۔۔
عثمان بھی بھیگے چہرے کے ساتھ اس کو اپنے ساتھ لگاے کھڑا تھا۔۔۔ایک دم سے ہچکیوں کو آواز بند ہوئی۔۔۔مشی بے ہوش ہو چکی تھی۔۔۔
سب لڑکیوں کو سب سے پہلے  ہسپتال منتقل کیا گیا۔۔۔پولیس کی ایک نفری نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔۔۔فلحال وہ کسی لڑکی سے کچھ بھی نہیں پوچھ سکتے تھے۔۔۔وہ لڑکیوں کی حالت سنبھلنے کے انتظار میں تھے۔۔۔اور ان کا انتظار کرنا فضول تھا۔۔۔کیوں کہ ان کی حالت تو اب ساری زندگی نہیں سنبھلنی تھی۔۔۔

**************

دردِ دل کا سویرا Место, где живут истории. Откройте их для себя