بھروسہ۔۔۔

629 48 61
                                    

درد دل کا سویرا
وجیہہ آصف
قسط ٣٥

مشی مسکراتے ہوے بیٹھ گئی۔۔۔
تم ماما سے ملے۔۔۔
نہیں۔۔۔میں آؤں گا کچھ دنوں میں۔۔۔
اپنی ماما کی بات نہیں کر رہی۔۔۔تمہاری ماما کی کر رہی ہوں۔۔۔
ہاں۔۔۔ان سے تو اب ملتا رہتا ہوں۔۔۔
وہ مسکرایا۔۔۔
اچھا وہ شہری بھائی نے کچھ دنوں تک اسلام آباد جانا ہے۔۔۔تم نے کہا تھا بتا دینا تو میں نے بتا دیا اب تم بات کر لینا۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔
باتیں وغیرہ جاری رہیں اور پھر مشی نیچے اتر گئی

*****************

مشی کی کل فلائٹ تھی۔۔۔ارشی کو بخار چڑھا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کو سخت کمزوری ہو رہی تھی۔۔۔
ارشی میں نہیں جا رہی۔۔۔
کیوں۔۔۔؟
اس نے بمشکل پوچھا
کیوں کہ ہم ہسپتال جا رہے ہیں۔۔۔
کیا ہے مشی۔۔ہسپتال آج جایئں گے تم نے کل جانا ہے۔۔۔
نہیں تمہاری طبیعت نہیں ٹھیک۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔تو میں بھی ایک شرط پر جاؤں گی ہسپتال۔۔۔
کیا ہے ارشی۔۔۔ضد نہ کرو
اگر تم کل جانے کا وعدہ کرتی ہو تو میں چلوں گی۔۔۔
نہیں میں نہیں جا رہی۔۔۔
میں بھی نہیں جا رہی۔۔۔
ارشی ضد نہ کرو۔۔۔
تم بھی نہ کرو۔۔۔
ارشی۔۔۔مشی نے سخت ہو کر کہا
نہیں۔۔۔وہ بھی ڈٹی رہی۔۔۔مگر ارشی کو ہسپتال لے جانے کے لئے اسے ماننا پڑا۔۔۔مشی اپنے کام وغیرہ نمٹا کر جب ارشی کو ہسپتال لے جانے کے لئے آئ تو وہ سو چکی تھی۔۔۔وہ پوری رات نہیں سوئی۔۔۔اسی لئے مشی نے اسے جگایا نہیں۔۔۔مشی اس کے اٹھنے کا انتظار کرتی رہی مگر وہ کافی دیر تک سوتی رہی اور اس کا بخار بھی ہلکا ہو چکا تھا۔۔۔
اگلے دن مشی ارشی کو ہسپتال ڈراپ کر کے ایئر پورٹ پہنچی۔۔۔ارشی نے اپنے ٹیسٹ وغیرہ کرواے۔۔۔
رپورٹس اگلے دن ملنی تھیں۔۔۔وہ تھکی ہوئی واپس آئ۔۔۔کل کیا قیامت ٹوٹنی تھی کسی کو اندازہ بھی نہ تھا۔۔۔
وہ شام کو رپورٹس لینے چلی گئی۔۔۔
آپ کا نام۔۔۔؟
ارشی۔۔۔
وہ رپورٹ اوپر ہی پر تھی۔۔۔نہ دینے والی نے دیکھی نہ لینے والی نے کھولنے کی زحمت کی۔۔۔ارشی نے واپسی پر رپورٹس کو کھولا۔۔۔مگر۔۔۔
ارشی نے حیرانی و پریشانی سے نام پڑھا۔۔۔نام اس کا ہی تھا۔۔۔پھر بلڈ گروپ دیکھا۔۔۔اس کا ہی تھا۔۔۔
نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔یہ کیسے۔۔۔نہیں۔۔۔ارشی بار بار رپورٹس پڑھ رہی تھی کبھی نام دیکھتی کبھی بلڈ گروپ۔۔۔
نہیں۔۔۔ایسا کیسے۔۔۔
اتنے میں گھر پہنچی۔۔۔گھر میں سب موجود تھے۔۔۔اس کی روی روی آنکھیں۔۔۔جھکی ہوئی نظریں۔۔۔عجیب تھیں
وہ چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی۔۔
اس کے چہرے پر بے پناہ کرب تھا۔اس کے ہاتھ میں ایک ایسی حقیقت تھی جو اس کے منہ پر طمانچہ بن کر رہ گئی تھی۔۔۔
سبحان اور شہری اس کی حالت دیکھ کر آگے بڑھے
کیا ہوا؟شہری نے رپورٹ پکڑی۔۔رپورٹ کو دیکھتے ہی اس کے حواس باختہ ہونے لگے۔۔اس نے بے یقینی سے ارشی کو دیکھا
یہ کیا ہے؟رپورٹ دیکھا کر اس نے طیش زدہ لہجے میں کہا۔۔۔مگر وہ جواب نہ دے سکی۔۔سبحان نے رپورٹ پکڑی اور اسی جگہ پر تھم گیا
تم نے میری عزت دو ٹکے کی کر دی۔۔۔ایک زور دار تھپڑ اس نے ارشی کے منہ پر مارا۔۔۔وہ قریب پڑے سوفے پر گر پڑی۔۔
وہ بہت مشکل سے اٹھی مگر پھر ایک زور دار تھپڑ سے بے ہوش ہو گئی۔۔۔
شہری پاگل ہو گیا ہے کیا۔۔۔ارصم شہری کو گھورتے ہوے ارشی کے پاس گیا اور اس کو اٹھا کر اس کے کمرے میں لے گیا۔۔۔
شور سے نجمہ اور ارسلان باہر آے۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔؟
شہری سر تھام کر بیٹھا تھا۔۔۔
نہ شہری کچھ بول پایا نہ ہی سبحان۔۔۔
کیا ہوا ہے۔۔۔؟
نجمہ چیخی
وہ ارشی کی رپورٹس آئ ہیں۔۔۔زجاجه نے ہمت کی
تو۔۔۔؟
ارسلان نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا
وہ۔۔۔پریگنینٹ ہے۔۔۔زجاجه نے چہرہ جھکاے کہا
نجمہ ارسلان بے یقینی سے اس کو تکنے لگے۔۔۔
ادھر ارشی کی حالت سنبھال نہیں رہی تھی تو ارصم واجد کے ساتھ اس کو ہسپتال لے آیا کوئی اور چلنے کو تیار نہ تھا۔۔۔
ارصم اور واجد باہر کھڑے تھے۔۔۔ارشی کا چیک اپ ہو رہا تھا۔۔۔ڈاکٹر باہر آئ۔۔۔
آپ کو ان کی حالت کے بارے میں پتہ ہے۔۔۔
جی۔۔۔ارصم نے سر جھکاے کہا
اس حالت میں سٹریس۔۔۔بہت برا ثابت ہو سکتا ہے۔۔۔میرے خیال سے ان کو اب ایدمٹ کر دیں آپ۔۔۔اب ان کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔آپ کو خیال رکھنا چاہیے تھا۔۔۔
ڈاکٹر کہہ کر چلی گئی اور ارصم بس پریشان ہو گیا۔۔۔ارشی کو ہوش آیا۔۔۔تو ارصم اور واجد اس کے پاس گئے
کیا کوئی نہیں آیا۔۔۔؟
ارشی نے روتے ہوے پوچھا
واجد اور میں آے ہیں نا۔۔۔
ارصم بھائی۔۔۔میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔خدا جانتا ہے میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔
مجھے معلوم ہے۔۔۔ارصم نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔ایک طرف ارشی پر اعتبار اور دوسری طرف ڈاکٹر کی باتیں۔۔۔گھر میں کوئی بھی کچھ سننے کے لئے تیار نہ تھا ایسے میں وہ مشی کو ہی پکار سکتا تھا۔۔۔
ہیلو۔۔۔اس نے مشی کے بجاے زارا کو کال کی
ہیلو۔۔۔ارصم بھائی۔۔۔
زارا کہاں ہو؟
آپ کی بیگم نہیں ہے یہاں۔۔۔
زارا نے مزاقاً کہا
زارا اٹس سیریس۔۔۔کسی ایسی جگہ چلی جاؤ جہاں آرام سے بات کر سکو۔۔۔
زارا کچھ حیرانی سے کونے پر چلی گئی
کیا ہوا۔۔۔؟
ارصم سانس لیتا بولنے لگا اور زارا کو کچھ بولنے کے قابل نہ چھوڑا۔۔۔
بس تم مشی کو نہ بتانا۔۔۔یعنی پاکستان پہنچ کے بتانا۔۔۔پتا نہیں اس کو بتا دیا تو وہ کیسے سفر کرے گی۔۔۔مجھے اس وقت اس کی ضرورت ہے۔۔۔ارشی کو اس کی ضرورت ہے۔۔۔تم کوئی بہانہ کرو اور اس کو لے آؤ۔۔۔مجھے جو ٹھیک لگا وہ میں نے کیا۔۔۔اب زارا مجھے تمہاری مدد چاہیے۔۔۔
زارا سے کچھ بولا نہ گیا فقط "ہوں" کر کے اس نے فون رکھ دیا۔۔۔اور جب وہ مڑی تو مشی پیچھے ہی کھڑی تھی۔۔۔زارا کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی
کیا ہوا زارا۔۔۔؟۔۔۔کس سے بات ہو رہی تھی۔۔۔؟
مشی۔۔۔اس نے سسکی بھری
مشی ماما کی طبیعت نہیں ٹھیک۔۔۔ارشی کے آنسوؤں میں روانی آ گئی
کیا ہوا آنٹی کو۔۔۔؟
پتہ نہیں مشی مجھے بس واپس جانا ہے۔۔۔پلیز۔۔۔
اچھا۔۔۔روو نہیں تم۔۔۔میں بات کرتی ہوں۔۔۔
مشی نے ڈاکٹر وہاج سے بات کی پہلے وہ سب کو لے جانے لگے مگر مشی کے کہنے پر رہنے دیا۔۔۔زارا اور مشی پہلی فلائٹ سے پاکستان پہنچی۔۔۔فجر کے بعد دونوں ہسپتال پہنچ چکی تھی۔۔۔ارشی پوری رات آنسو بہاتی رہی۔۔۔تھوڑی دیر کے لئے آنکھ لگتی پھر ہڑبڑا کر اٹھتی اور اپنی پاک دامنی کی قسمیں کھانے لگ جاتی۔۔۔
رئیسہ جمال۔۔۔کس روم میں ہیں؟
مشی کے پوچھنے پر ریسیپشنسٹ حیران ہوئی کہ یہ تو ابھی کل گئی تھی۔۔۔
ایک منٹ مشی۔۔۔زارا نے اسے کھینچا اور موبائل نکال کے ارصم کو کال کی
ارصم بھائی روم نمبر بتائیں۔۔۔
اچھا۔۔۔ہم آ رہے ہیں۔۔۔
ارصم یہاں ہیں۔۔مشی حیران ہوئی
مشی ماما ٹھیک ہیں۔۔۔
ہاں۔۔۔؟
ماما کو کچھ نہیں ہوا تھا۔۔۔
کیا مطلب۔۔۔؟
زارا نے کچھ کہا نہیں بس اس کا ہاتھ پکڑ کے چلنے لگی۔۔۔
دروازہ کھولتے ہی مشی ارشی کو لیٹے دیکھ کر نا سمجھی سے آگے بڑھی۔۔۔
ارشی میری جان۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔؟
ارشی جو پہلے ہی رو رہی تھی ایک دم سے اس کا صبر لبریز ہو گیا۔۔۔

دردِ دل کا سویرا Where stories live. Discover now