یہ رات۔۔۔

787 54 25
                                    

درد دل کا سویرا
قسط ٢٠

مشی نے بےبی پنک کلر کا سوٹ پہنا ہوا تھا۔۔۔بالوں کا ڈھیلا سا جُوڑا بناے۔۔۔ہیل والی جوتی پہنے۔۔۔وہ نبیہا کی طرف جانے کے لئے تیار تھی۔۔۔
آگے گاڑی نہیں جا سکتی بیٹا گلی بہت تنگ ہے۔۔۔ڈرائیور نے کہا
جی چاچا۔۔ادھر سے میری دوست آے گی۔۔مجھے لینے۔۔۔آپ جایئں۔۔۔مشی نے وہ بتایا جو طے تھا
لیکن بیٹا یہ سنسان علاقہ ہے ادھر میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔۔۔
چاچا ابھی آ جائے گی میری دوست۔۔۔آپ فکر نہ کریں۔۔۔آپ جایئں۔۔۔امی کو جانا بھی تو ہے۔۔۔بازار۔۔۔آپ جایئں۔۔۔
نہیں بیٹا۔۔۔
اوہو چاچا۔۔۔مشی ابھی بول ہی رہی تھی کہ اس کا فون بجا
دیکھیں آ گیا فون میری دوست کا۔۔۔آپ جایئں۔۔۔مشی نے کال اٹینڈ کی۔۔۔ڈرائیور گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔۔۔
ہاں نبیہا۔۔۔ڈرائیور نے گاڑی چلائی
مشی یہ راستہ بہت تنگ ہے گاڑی نہیں آ سکتی۔۔۔تم پہنچ گئی؟
ہاں ابھی پہنچی۔۔۔
اچھا ایسا کرو جو سامنے گلی ہے نا ادھر آ جاؤ۔۔۔گاڑی نہیں آ سکتی۔۔۔تو میں ادھر سے آتی۔۔۔تم اتنی دیر ادھر سے آؤ۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔؟ڈرائیور جا چکا تھا
ٹھیک ہے۔۔۔مشی کو اندازہ نہیں تھا اس نے کتنی بڑی حماقت کی ہے۔۔۔
مشی نے قدم بڑھاے۔۔۔گلی بہت تنگ تھی۔۔۔شام کا وقت تھا۔۔۔مشی نے موبائل کی ٹارچ چلائی۔۔۔تھوڑا سا آگے جا کے مشی کا دل گھبرایا۔۔۔کیوں کہ آس پاس کوئی انسان کیا پرندہ تک نہیں تھا۔۔۔مشی کے قدموں کے ساتھ ساتھ اس کا ڈر بڑھتا گیا۔۔۔
اللہ‎۔۔۔یہ سڑک کتنی لمبی ہے۔۔۔مشی دل ہی دل میں کڑھی۔اس گلی میں زیادہ تر زیر تعمیر بلڈنگز تھی۔۔۔اس کی تعمیر کافی عرصے سے کچھ وجوہات کی بنا پر رکی ہوئی تھی۔۔۔کوئی آبادی نہ تھی۔۔۔دور دور تک کسی کی آواز نہیں تھی۔۔۔اس کو لگا یہ کھنڈرات کا علاقہ ہے۔۔۔
مشی تیزی سے قدم بڑھانے لگی۔۔۔ایک انجانا سا خوف محسوس ھوا۔۔۔کسی کی قدموں کی چاپ محسوس ہوئی۔۔۔مشی آیت الکرسی پڑھتی بڑھتی گئی۔۔۔پھر اچانک وہ رکی اور پیچھے دیکھنا چاہا ہی تھا کہ ایک زور دار پتھر کے وار سے وہ زمین میں ڈھیر ہو گئی۔۔۔

**********************

غازی آج بھی وقت پر فاطمہ کے پاس آ گیا۔۔۔
فاطمہ نے درس مکمل کیا۔۔۔
ایک گلاس پانی ملے گا۔۔۔
ہاں۔۔۔ابھی لائی۔۔۔
سنیں۔۔۔فاطمہ ٹھٹکی
ہاں۔۔
مجھے بھوک بھی لگی ہے۔۔۔
اچھا۔۔۔فاطمہ نے کچھ کہنے کے لئے لب وا کیے مگر کچھ کہے بنا چلی گئی۔۔۔غازی کو ادھر سے اتنا پیار اور عزت ملتی کہ اس گھر سے اور گھر والوں سے کسی بھی قسم کا حجاب باقی نہ رہا تھا۔۔۔وہ پہلے جتنا ادھر آنے سے گریز کرتا۔۔اب ہر وقت ادھر ہی پایا جاتا۔۔۔
یہ لو پانی۔۔۔امی چاول بنا رہی ہیں۔۔۔غازی نے مسکرا کے پانی کا گلاس پکڑا اور غٹاغٹ پی گیا۔۔۔
غازی۔۔۔
جی۔۔۔
تم کب تک مجھے سنیں۔۔۔سنیں کہتے رہو گے؟
کیا مطلب؟
مطلب میرا نام فاطمہ ہے۔۔۔فاطمہ کہا کرو مجھے۔۔۔
آپ مجھ سے بڑی ہیں۔۔۔
دو سال ہی بڑی ہوں۔۔۔
ہاں مگر مجھ سے آپ کا نام لیا نہیں جاتا۔۔۔غازی سر جھکاے بات کر رہا تھا
کیوں۔۔؟۔۔سنیں سنیں ہی کرتے رہو گے۔۔۔
نہیں۔۔۔میں آپ کو کسی اور نام سے بلا لیتا ہوں۔۔۔
اچھا کس نام سے۔۔۔؟وہ مسکرائی
جنت۔۔۔اس نے کسی بھی دیری کے بغیر کہا
اچھا۔۔۔وہ کیوں؟ فاطمہ کھلکھلای
کیوں کہ آپ بہت خوبصورت ہیں۔۔۔
اچھا۔۔۔فاطمہ بس ہنستی چلی گئی
غازی کو اس کا ہنسنے کا انداز بہت پسند تھا۔۔۔وہ اس کے کھلکھلانے پر ہمیشہ اپنا آپ کھو بیٹھتا۔۔۔

دردِ دل کا سویرا Where stories live. Discover now