اصول

987 50 16
                                    

درد دل کا سویرا
قسط ١٧

غازی کو خود سمجھ نہیں آئ کہ اس نے ایسا کیوں کہا۔۔۔؟
شارک صاحب جب بھی اسے نماز پڑھنے کے لئے کہتے وو باہر گھوم کر آ جاتا۔۔۔مگر مسجد جانے کی غلطی نہ کرتا۔۔۔آج اس کو اتنی دلچسپی ہو رہی تھی۔۔۔؟۔۔۔۔اس کے ذہن میں بس ایک ہی بات تھی۔۔۔'میں کیسا مسلمان ہوں؟۔۔۔
غازی دروازہ کھلنے سے یک دم ماضی سے نکلا
السلام عليكم۔۔۔ڈاکٹر وہاج اندر آے
غازی نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔
میں نے کہا کافی دیر ہو گئی ہے وزٹ کیے ہوے۔۔۔آج ذرا تھوڑا معائنہ بھی کر لوں۔۔ویسے ڈاکٹر مشی ایک بھی دن کا ناغہ نہیں کرتیں۔۔۔وہاج کہتے ہوے فاطمہ کے قریب آے اور اس کو چیک کرنے لگے
یہ ریکوور کر رہی ہے۔۔۔مگر اسی طرح۔۔بہت آہستہ۔۔بہت زیادہ آہستہ۔۔۔مگر انشااللہ اللہ‎ کرم کرے گا۔۔۔
ڈاکٹر وہاج چند ایک باتیں کر کے چلے گئے۔۔۔اور غازی واپس صوفے پر بیٹھ کر فاطمہ کو دیکھنا لگا

*********************

ارشی تھکی ہاری یونی سے آئ۔۔۔پانی پی کر اوپر چلی گئی کچھ پریشان سی تھی۔۔۔پورا دن ایسے ہی کمرے میں گزارا۔۔۔مشی آئ تو اس نے کھانے کی پیشکش کی جو اس نے مسترد کر دی
کیا ھوا ہے؟
کچھ نہیں۔۔۔
علی نہیں آیا۔۔۔
نہیں۔۔۔
ارشی۔۔۔
ہوں۔۔۔
کیا وہ واقعی بھاگ گیا۔۔۔؟
نہیں مشی۔۔۔علی ایسا نہیں ہے۔۔وہ واپس آ جائے گا۔۔بس مجھے ٹینشن ہے کہ اس کے ساتھ کوئی حادثہ نہ ہو گیا ہو۔۔۔
اللہ‎ کرے۔۔۔مشی منہ میں بڑبڑای۔۔۔
تم دعا کرنا مشی۔۔۔۔
ہاں ابھی ابھی کی ہے۔۔۔مشی نے پر سکون لہجے میں کہا
کیا؟
دعا۔۔۔
کیا کی؟
کہ اللہ‎ ھدایت دے تمہیں۔۔۔
ھدایت پر ہی ہوں میں۔۔۔ارشی کروٹ بدلتے ہوے بولی
مشی نے کچھ نہیں کہا۔۔۔بس خاموش رہی

********************

طلال۔۔۔وے ایتھے آ وے۔۔۔۔
اک تے میری ماں۔۔۔نہ سکون لیندی نہ لین دیندی۔۔۔وہ بڑبڑایا
ہاں جی۔۔۔
جا میرا پتر۔۔۔چھیتی نال پنڈی لے کر آ۔۔۔میں کھانا بناواں۔۔۔رقیہ نے پرس سے پیسے نکالتے ہوے کہا
ماں۔۔آپ کو پہلے نہیں یاد آیا تھا۔۔۔
میں چھتر لانے نے۔۔۔اوکھا ہویا میرے نال تے۔۔۔چل چھیتی جا۔۔۔۔تیرا پیو آن ولا اے۔۔۔رقیہ نے ٹائم دیکھا
طلال خراب موڈ کے ساتھ باہر نکلا۔۔۔تھوڑی دیر بعد ہی موبائل بجا۔۔۔
ہیلو۔۔۔السلام عليكم۔۔۔!
وعلیکم السلام۔۔۔کیسے ہو؟
میں ٹھیک ہوں۔۔ارصم بھیا۔۔آپ بتاؤ؟
ہاں۔۔۔کہاں ہیں ماما۔۔۔۔
اماں گھر ہیں میں باہر آیا ھوا ہوں۔۔۔۔
اچھا۔۔مناہل تو ہے نا گھر۔۔۔
جی۔۔۔خیریت۔۔؟
ہاں۔۔۔میں نے سوچا کہ زجاجه کو لے جاتے ہیں کہیں۔۔۔تم لوگ بھی آ جاؤ۔۔۔بات کرتا ہوں میں۔۔۔
اللہ‎ تیرا شکر ہے۔۔۔۔ہاں بس جلدی کرو بات۔۔۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔۔۔اس نے الوداعی کلمات ادا کر کے فون رکھ دیا۔۔۔
طلال جب واپس آیا تو مناہل سامان پیک کر رہی تھی۔۔۔
کیا ھوا۔۔؟
طلال ارصم بھائی نے کال کی تھی۔۔۔ہم جا رہے ہیں۔۔۔مناہل بہت خوش تھی۔۔۔
واہ اتنی جلدی۔۔۔طلال خوش خوش سا رقیہ کو سبزی پکڑانے گیا
ویکھو ذرا۔۔۔اینا خوش تے کدے وی نئی ہویا۔۔۔رقیہ اس کو گھوری ڈالتی ہانڈی چڑھانے لگی۔۔۔

********************

ارشی اور مشی کی علی کے ٹاپک پر جنگ چل رہی
تھی کہ ارصم اجازت طلب کرتا اندر آیا۔۔۔
مجھے مشی سے بات کرنی ہے۔۔۔
تو کریں۔۔۔ارشی نے کہا۔۔۔مگر تھوڑی دیر بعد ارصم کی گھوری کی وجہ سے کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔۔
مشی کا دل کیا ادھر سے بھاگ جائے۔۔۔
ایک دن۔۔۔بابا کی ڈیتھ کے بعد جب ماما کا آپ لوگوں سے رابطہ بحال ھوا تو تصویروں کا بھی تبادلہ ھوا تھا۔۔۔بہت سی تصویریں سینڈ کیا کرتے تھے آپ لوگ۔۔۔زیادہ ارشی ہی کرتی تھی۔۔۔ماما چونکہ آپ لوگوں کو پہلی بار دیکھ رہی تھیں تو وہ ہر وقت کسی نا کسی کی تصویر کھول کے آنسو بہا رہی ہوتیں۔۔۔میں تمہاری اور ارشی کی بات کر رہا ہوں۔۔۔عثمان سبحان شہری کو تو چھوٹے ہوتے دیکھ رکھا تھا۔۔۔تمہیں ارشی اور واجد کو نہیں دیکھا ھوا تھا۔۔۔وہ آپ لوگوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتیں۔۔۔پھر کبھی کبھی عثمان کی کوئی شرارت بتاتی تھیں۔۔۔ہر وقت آپ لوگوں کا تذکرہ۔۔۔جب مجھے ماما نے پہلی بار تمہاری تصویر دکھائی تھی تو پتہ ہے میں کتنی دیر تمہاری تصویر دیکھتا رہا تھا۔۔۔مجھے خود بھی نہیں معلوم۔۔۔وہ ہنسا تھا۔۔۔میں نے اس وقت سے ہی تمہیں خود کے لئے چن لیا تھا۔۔۔تم محبت ہو میری۔۔۔اس کا لہجے میں محبت جھلک رہی تھی۔۔۔مگر۔۔۔وہ مشی کو نہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔تم مجھ سے محبت نہیں کرتی۔۔۔اور میرا ایک اصول ہے میں زبردستی محبت حاصل کرنے کا قائل نہیں ہوں۔۔۔میرے باپ نے شادی کے بعد میری ماں کو مارا پیٹا۔۔۔ان کے میکے سے سارے رابطے ختم کروا دیے۔۔۔اور۔۔۔میری ماں جب میں آٹھ سال کا تھا اس وقت حاملہ ہو گئی۔۔۔اور میرے باپ کی مار کی وجہ سے انہوں نے اپنے جسم میں پلتی جان کو کھو دیا۔۔۔میرے باپ نے کبھی مجھ سے محبت نہیں کی اور میں نے بھی زبردستی لینے کی کوشش نہیں کی۔۔۔یہ اصول ہے میرا۔۔۔میں بس تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ۔۔۔ارصم نے آنکھوں کا رخ اس کی جانب کیا۔۔۔میں تمہارے کے لئے اپنا اصول بدل سکتا ہوں۔۔۔تو انکار کرنے کا فائدہ نہیں ہے۔۔۔مجھے نہیں معلوم تم انکار کیوں کر رہیں ہیں۔۔۔وجہ جو بھی ہو تم میرے ہی جسم کی زینت بنو گی۔۔۔ارصم یہ کہتے ہوے فورا اٹھا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا جبکہ مشی پر ابھی تک ٹرانس کی کیفیت طاری تھی۔۔۔

***********************

السلام عليكم۔۔۔امید ہے آپ لوگ خیریت سے ہوں گے ۔۔۔مجھے معلوم ہے کہ میرے ناول کی قسط چھوٹی ہوتی ہے اور آج کی تو کچھ زیادہ ہی چھوٹی ہے  وجہ وقت کی قلت ہے میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔۔۔میں یہ وعدہ نہیں کرتی کہ آیندہ قسط لمبی ہو گی مگر میں یہ وعدہ کر سکتی ہوں اور کرتی ہوں کہ میں کوشش کروں گی کہ لمبا لکھ سکوں۔۔۔شکریہ

دردِ دل کا سویرا Where stories live. Discover now