بھٹکا ھوا انسان

772 54 59
                                    

درد دل کا سویرا
قسط ٣٣

ارشی اسی طرح روتے روتے قرآن پاک کو سینے سے لگاے سو گئی۔۔۔تقریباً نو بجے کے قریب اس کی آنکھ کھلی۔۔۔اس نے آرام سے ادب سے قرآن کو اپنی جگہ پر رکھا۔۔۔اور منہ ہاتھ دھو کر نیچے چلی گئی۔۔۔نیچے ناشتہ کیا مگر دھیان صرف ادھر ہی رہا کہ وہ قرآن کب کیسے شروع کرے گی۔۔۔کچھ گم صم سی وہ سب کو حیران کر رہی تھی۔۔۔مگر اس کو اپنی پریشانی کس طرح ختم کرنی تھی وہ جانتی تھی۔۔۔ناشتے وغیرہ سے فارغ ہو کر وہ سب کو اطلاع کرتی ہوسپٹل چلی گئی۔۔۔ہسپتال میں مشی کا پوچھا وہ مصروف تھی۔۔۔ارشی اوپر کی طرف بڑھی۔۔۔آئ۔سی۔یو میں داخل ہوئی تو توقع کے مطابق غازی بھی وہاں تھا۔۔۔ارشی سلام دعا کرتی بیٹھی۔۔ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی۔۔۔غازی کو وہ کچھ پریشان لگی
ٹھیک ہو۔۔۔کوئی مسلہ ہے؟
جی۔۔۔مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔
وہ اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پھنسا کر بولی
کہو۔۔۔
غازی بھائی۔۔۔میں چاہتی ہوں کہ آپ مجھے پہلے سنیں۔۔۔پھر تحمل سے مجھے بتائیں کہ میں کیا کروں۔۔۔میں نے اور مشی پہلے روزانہ قرآن اور نماز پابندی سے پڑھتے تھے۔۔۔اس معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔۔۔چاہے دنیا ادھر سے ادھر کیوں نا ہو جایئں ہم نے نماز میں کبھی دیری نہیں کی۔۔۔مگر پتہ ہے کیا ہم کبھی کبھی بھٹک جاتے ہیں۔۔۔ہم بہت نا شکرے۔۔۔بندے بن جاتے ہیں۔۔۔ہمیں کسی کی پرواہ نہیں ہوتی۔۔۔بس تھوڑی سی دنیاوی خوشی کے لئے ہم بہک جاتے ہیں۔۔۔ہمارا دماغ دل کے ایک وار کی مار ہوتا ہے اور ہمارا دل دماغ کی ایک ہلکی سی چوٹ سے چھلنی ہو جاتا ہے۔۔۔اور پھر میں تو کوئی مضبوط اعصاب کی مالک نہیں۔۔۔پھر ہم ہوتے ہیں اور نفس ہوتا ہے۔۔۔پھر نفس اپنے نفیس انداز میں بنا کسی ڈر کے گناہ پر گناہ کرواتا جاتا ہے۔۔۔میں بھی بہک گئی تھی۔۔۔نماز پڑھنے بلکل ترک کر دیا تھا۔۔۔بھول چکی تھی خدا ہے۔۔۔اک وہی تو ہے۔۔۔میں غلط راستے پر نکل پڑی۔۔۔بہت عرصہ نماز قرآن کو سوچا بھی نہیں۔۔۔مگر اللہ‎ تو رحیم ہے نا۔۔۔وہ مجھے لے آیا پھر سیدھے راستے پر۔۔۔میں نماز پڑھتی ہوں۔۔۔مگر غازی بھائی قرآن۔۔۔مجھے لگتا ہے میں بھول چکی ہوں۔۔۔اور اگر نہ بھولی ہوئی تو مجھے لگتا ہے کہ ایک لفظ پڑھ کے ہی میں شرم کے مارے مر جاؤں گی۔۔۔میں پڑھنا چاہتی ہوں۔۔۔میں اس پر عمل کرنا چاہتی ہوں۔۔۔مجھ میں ہمت نہیں رہی۔۔۔میری کوشش نا کام ہو جاتی ہے۔۔۔
اس نے اپنے اعصاب ڈھیلے چھوڑ دیے جیسے اس کو بہت سکوں ملا ہو۔۔۔کسی سے بات کر کے۔۔۔وہ خاموش ہو گئی۔۔۔خاموش کمرے میں سسکی کی آواز گونجنے لگی۔۔۔غازی کچھ لمحے خاموش رہا پھر لب کھولے۔۔۔
دیکھو ارشی۔۔۔تم نے خود کہا ہم بھٹک جاتے ہیں۔۔۔بہک جاتے ہیں اور تمہارے ہی الفاظ ہیں کہ اللہ‎ رحیم ہے۔۔۔تو پھر ڈر کیسا الجھن کیسی؟لو اس عظیم ہستی کا نام۔۔۔اور کھولو قرآن۔۔۔پتہ ہے کیا تمہارا دل بلکل ٹوٹا ھوا ہے۔۔۔اب اس کو جوڑو۔۔۔اور نئی چیزیں اس میں بساؤ۔۔۔کیوں کہ ابھی تمہارا دل بلکل خالی ہے جیسے تمہارا ذہن ہے۔۔۔جو کچھ سمجھ نہیں پا رہا۔۔۔دیکھنا تم قرآن کو بہت اچھے سے سمجھ لو گی۔۔۔اور عمل بھی کرو گی۔۔۔مگر یاد رہے اب اس دل میں خدا کے علاوہ کسی کو جگہ نہ دینا۔۔۔اس وقت تمہیں قرآن ہی پڑھنا چاہیے مگر یاد رہے اس کا ترجمہ پڑھنے کی کوشش کرنا تا کہ تمہیں پتہ ہو کہ تم کیا پڑھ رہی ہو۔۔۔سمجھ آئ۔۔۔اور اگر تم بھول چکی ہو تو پتہ نہیں اگلی سانس بھی ہم لے پاتے ہیں کہ نہیں تو تم اس غلطی کو کیسے سدھارو گی۔۔۔بھول گیا ہے تو توبہ کرو دوبارہ آغاز کرو۔۔۔اور اگر تمہیں لگتا کہ قرآن کا ایک لفظ پڑھ کہ تم شرمندگی سے مر جاؤ گی۔۔۔تو پھر بسمہ للہ کرو۔۔۔زباں پر قرآن ہو
زندگی کا اختتام ہو
ایسی موت پر۔۔۔
میرا دل قربان ہو
غازی نے شعر کہا اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا

دردِ دل کا سویرا Tahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon