عبدالله

698 51 47
                                    

درد دل کا سویرا
قسط ٢٧

مشی حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
تم عجیب ہو۔۔۔
ہاں میں عجیب و شریف ہوں۔۔۔
تم واقعی عجیب ہو۔۔۔
غازی نے کوئی جواب نہیں دیا بس مسکرا کر اسے دیکھنے لگا
کون ہو تم؟
مشی نے حیرت زدہ آنکھوں سے اس سے ایسے پوچھا جیسے وہ واقعی اسے نہیں جانتی۔۔۔
میں۔۔۔میں عبدالله ہوں۔۔۔
مشی اسی طرح اسے دیکھتی گئی
تم واقعی عبدالله ہو۔۔۔
مشی نے مسکرا کر کہا۔۔۔
وہ بھی مسکرا دیا۔۔۔

******************

غازی اور سکندر ولا کے باشندؤں کے کافی اچھے تعلقات ہو گئے۔۔۔غازی نے ارسلان کی کمپنی کے ساتھ ڈیل کر لی۔۔۔اب دونوں کے تعلقات اور مضبوط ہو گئے۔۔۔آنا جانا لگا رہتا۔۔۔غازی کو جب کسی اپنے کی یاد آتی تو وہ اس گھر چلا آتا۔۔۔یہ اس کا آئیڈیل گھر تھا۔۔۔جیسے وہ اپنا چاہتا تھا۔۔۔مگر اس کی قسمت میں نہ تھا۔۔۔غازی نے کچھ عرصے میں ہی اپنی کمپنی کہاں سے کہاں پہنچا دی۔۔۔شارک آتا تو تھا مگر غازی کے کیبن میں آنے کی جرات نہ کرتا۔۔۔غازی بھی بس سلام کرتا۔۔۔اور نظروں کے ساتھ ساتھ منہ پھیر کر چلا جاتا۔۔۔اپنی ماں سے ملنا ہوتا تو اپنی گاڑی میں پر آتا۔۔۔گھر کے اندر نہیں جاتا۔۔۔بہن کو فون کرتا۔۔۔اس کی ماں اور بہن باہر آتے۔۔۔گاڑی میں بیٹھتے۔۔۔اور جو ملنا ہوتا وہیں ملا جاتا۔۔۔
غازی نے اپنا گھر لے لیا تھا بہت خوبصورت اور بہت سادہ۔۔۔غازی امیری کے باوجود سادگی پسند ہی رہا۔۔۔وہ سادہ نہیں تھا۔۔۔اس کو وقت نے حالات نے سادہ بنا دیا۔۔۔بے بسی نے سادہ بنا دیا۔۔۔وہ شوخ رنگ نہیں پہنتا تھا۔۔۔کیوں کہ اس کی زندگی بے رنگی ہو گئی تھی۔۔۔اور اس زندگی میں رنگ بڑھنے کے لئے اسے جس مصور کا انتظار تھا وہ اس دنیا سے بیگانی۔۔۔کسی انجانی دنیا میں پہنچی ہوئی تھی۔۔۔وہ اپنی آخری سانس تک اسی مصور کا انتظار کرنا چاہتا تھا۔۔۔

کچھ سال گزرے۔۔۔مشی نے غازی کے ساتھ بات وغیرہ کر کے فاطمہ کو اپنے گھر کے قریبی ہسپتال شفٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔۔غازی کو کوئی اعتراض نہ تھا۔۔۔وہ چاہے اِس ہسپتال آے یا اُس ہسپتال۔۔۔اس کو ایک ہی وقت لگتا تھا۔۔۔مگر مسلہ یہ تھا کہ وہ ہسپتال ابھی زیر تعمیر تھا۔۔۔مزید انتظار کیا۔۔۔اور کوئی چارہ نہ تھا۔۔۔ہسپتال کا کام درمیان میں رک گیا۔۔۔کچھ مسلے مسائل تھے۔۔۔دن گزرتے گئے۔۔۔وقت بدلتا گیا۔۔۔مشی سنبھل گئی۔۔۔چار سال ہو گئے۔۔ہسپتال کی تعمیر کافی عرصہ رکی رہی پھر بحال ہوئی۔۔۔مشی نے غازی کے ساتھ ہسپتال جا کر بات کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔کیوں کہ ہسپتال کی دو منزلیں تعمیر ہو چکی تھی۔۔۔تیسری منزل کی تعمیر کی جا رہی تھی۔۔۔ہسپتال کو چھوٹی موٹی طبی سہولتوں کے لئے ابھی ایک ہفتے پہلے ہی کھول دیا گیا۔۔۔مشی غازی کے ساتھ وہاں گئی
السلام عليكم۔۔۔آپ ڈاکٹر وہاج ہیں؟
وعلیکم السلام۔۔۔جی کچھ کام تھا آپ کو۔۔۔
جی دراصل ایک پیشنٹ ہے۔۔۔اس نے ہسپتال کا نام بتایا۔۔۔ان کو ادھر شفٹ کرنا ہے۔۔۔آپ کا ہسپتال ویسے تو کھل گیا ہے مگر ابھی زیر تعمیر ہے۔۔۔دراصل وہ کوما میں ہے۔۔۔تو کیا آپ کے ہسپتال میں اس کی فسیلٹی موجود ہے؟
جی جی موجود ہے۔۔۔آپ کر سکتے ہیں شفٹ ویسے بھی تیسری منزل بھی بس ہو گئی تیار۔۔۔پھر ہر لحاظ سے کھول دیا جائے گا۔۔۔
جی شکریہ بہت بہت۔۔۔
فاطمہ کو ہسپتال شفٹ کر دیا گیا۔۔۔
سردار۔۔۔ادھر کوما کا بورڈ لا کر لگاؤ۔۔۔ڈاکٹر وہاج نے ایک ملازم کو کہا
دراصل یہ پہلا بڑا کیس ہے۔۔۔یہ سارا پورشن بڑے کیسز کے لئے ہے۔۔۔ابھی ہمارے پاس کوئی بڑا کیس آیا نہیں۔۔۔تو اس وجہ سے۔۔۔ڈاکٹر وہاج نے تفصیل دی۔۔۔
آپ ادھر کوما رہنے دیں آئ سی کا بورڈ لگا دیں۔۔۔
جی۔۔۔؟
جی پلیز۔۔۔ڈاکٹر وہاج کچھ حیرانگی سے سر ہلاتے ہوے مڑے
ایسا کیوں کہا؟
بس۔۔۔آئ سی یو سے زیادہ خطرناک ہے یہ کوما۔۔۔کوما پڑھتا ہوں نا تو ہمت ہارنے لگتا ہوں۔۔۔
مشی کو کیا غازی کو خود اپنی منطق سمجھ نہیں آئ۔۔۔آئ سی یو کا بورڈ لگوا دیا گیا۔۔۔اور ادھر سے ڈاکٹر وہاج اور مشی کے تعلقات کا آغاز ھوا جو وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتا گیا۔۔۔مشی نے جاب بھی اسی ہسپتال میں شروع کی۔۔۔اس نے سب کچھ سمجھ بوجھ سے کیا تھا۔۔۔

تو چونکہ ماضی کی خار دار،داغدار کہانی سے آپ واقف ہو گئے۔۔۔وہ چاہے مشی کا ماضی ہو۔۔۔فاطمہ کا۔۔۔یا ارشی کا حال ہو۔۔۔وہ تینوں ایک ہی طرح کے درد سے گزرے تھے۔۔۔آب آئیے کچھ حال کا جائزہ لیں۔۔۔

ارشی شہری کو بار بار ارصم سے بات کرنے کا کہہ رہی تھی۔۔۔مگر شہری کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔مگر بات کو کرنی ہی تھی سو ہمت کی اور سبحان کے ساتھ صالحہ کے کمرے کی طرف بڑھا جہاں ارصم پہلے سے موجود تھا۔۔۔
پھپھو۔۔۔ایک بات کرنی ہے۔۔۔شہری جلد ہی مدعے پر آیا
ہاں ضرور کرو۔۔۔
پھپھو۔۔۔شہری نے ایک نظر ارصم پر ڈالی۔۔۔اور بولنا شروع کیا۔۔۔مشی کا کڈنیپ۔۔۔پولیس سٹیشن۔۔۔مشی کی تصاویر۔۔۔غازی کا ساتھ۔۔۔فاطمہ کا حال۔۔۔اور مشی کے لئے رشتے آنے والے لڑکوں کے حادثے۔۔۔تمام تفصیلات سے دونوں ماں بیٹوں کو آگاہ کیا۔۔۔جو عجیب سی کشمکش کا شکار ہو گئے۔۔۔
پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔۔ارصم نے پوچھا تو شہری سر جھکا گیا
ارصم نے سانس کھینچا۔۔۔
خیر جو بھی ھوا  مجھے اس سے کوئی سرو کار نہیں۔۔۔مجھے اب بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔مشی کو کہہ دو۔۔۔ارصم نے مختصر بات کی اور خالی ذہن کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا

************************

یار زارا کیا ھوا ہے تمہیں۔۔۔
کچھ نہیں۔۔۔زارا آج بہت غصے میں تھی
بتا بھی دو۔۔۔
یار مشی میں ڈاکٹر مبین سے بہت پریشان ہوں۔۔۔یار عجیب سا گھورتے ہیں۔۔۔اور آج میرے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے جیسے کچھ پوچھنا چاہتے ہوں۔۔۔اور پھر گھورتے گئے۔۔۔پھر خود ہٹ گئے۔۔۔اف۔۔۔میں تو تنگ آ گئی ہوں۔۔۔ہم ڈاکٹر وہاج سے بات کریں
نہیں ابھی نہیں۔۔۔زارا ایسے کیسے ہم۔۔۔مطلب۔۔۔ہم بات کریں گے مگر ذرا ٹھہر جاؤ۔۔۔
مشی۔۔۔حد ہے۔۔۔زارا منہ بسور کے بیٹھ گئی

ڈاکٹر مبین۔۔۔یہ کیا۔۔۔؟ڈاکٹر وہاج باہر کی جانب بڑھے تو ڈاکٹر مبین کو سگریٹ پیتے پایا
آپ سگریٹ پی رہے ہیں؟
جی۔۔۔پیتا تو نہیں ہوں بس ٹینشن میں پینے کی عادت ہے۔۔۔ڈاکٹر مبین نے کش بھرا
ٹینشن یا غصہ۔۔۔؟
ہوں؟
میں پوچھا رہا ہوں ابھی آپ ٹینشن میں ہیں یا غصے میں۔۔۔؟
غصے میں۔۔۔ڈاکٹر مبین حیرت ہوے بنا بولے
آپ کو کیسے پتہ چلا؟
گناہ تو پھر غصے میں ہی ہوتے ہیں۔۔۔سارے نہیں مگر اکثر۔۔۔
?Is this a sin
ڈاکٹر مبین کا اشارہ سگریٹ کی طرف تھا
...A kind of
ڈاکٹر وہاج نے ترکی بہ ترکی کہا
اور آپ ڈاکٹر ہو کر ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔کم از کم آئندہ میں آپ کو ہسپتال سگریٹ پیتے ہوے نہ دیکھوں۔۔۔ڈاکٹر مبین نے سگریٹ کو بھجایا اور پھینک دیا
مسلہ کیا ہے۔۔۔؟
کچھ نہیں۔۔۔
شادی تو ہوئی نہیں ابھی تک۔۔۔اور گھر میں بھی صرف آپ کی والدہ ہیں۔۔۔تو یعنی کسی لڑکی کا چکر ہے۔۔۔؟
ڈاکٹر مبین خاموش رہے
مسلہ جو بھی ہو آپ اپنی زندگی خراب مت کریں۔۔۔آپ ایک سینئر اور قابل ڈاکٹر ہیں۔۔۔اختیاط کریں۔۔۔

دردِ دل کا سویرا Where stories live. Discover now