اپنوں کے سنگ۔۔

775 45 9
                                    

درد دل کا سویرا
قسط ١١

ممانی یہ مشی باتیں کر رہی تھی۔۔۔ارشی جلدی سے کہتی سبحان کے قریب آئ اور سبحان کا بازو پکڑ لیا
اے پتہ ہے مجھے تیرا بھی۔۔۔رقیہ سب کو گھورتی واپس چلی گئی
چلو اب۔۔۔۔زارا کا سانس بھال ہو چکا تھا۔۔۔مشی جلدی سے باہر کی طرف بھاگی۔۔واپسی پر اس کے ہاتھ میں ایک بڑی سفید رنگ کی چادر تھی جس کے چاروں طرف پیلے اور ہرے رنگ کے پھول بوٹیاں بنی ہوئیں تھیں۔۔۔تھی تو پرانی مگر بہت خوبصورت تھی۔۔۔ویسے بھی سادگی خوبصورتی کا دوسرا نام ہوتی ہے۔۔سب سبحان کو لے کر لان کی طرف بڑھیں۔۔۔مشی اور ارشی آگے کی طرف تھیں جب کہ پیچھے مناہل اور زارا سبحان کے اوپر چادر کیے چل رہی تھیں۔۔اور عفت ادا سے سبحان کے ساتھ چل رہی تھی۔۔۔
دھیرے دھیرے چلتے چلتے اسٹیج تک پہنچی۔۔۔سبحان اسٹیج پر پڑے جھولے پر براجمان ہو گیا۔۔۔ارشی نے وہ چادر سبحان کے سر پر دلہنوں کی طرح ڈال دی۔۔۔جسے سبحان نے آنکھیں دیکھا کر سر سے ہٹایا۔۔۔
چلو جی۔۔۔بابا آ جایئں۔۔۔۔
ارسلان عابدہ کو لئے اسٹیج پر چڑھے۔۔۔
آپ پہلے بیٹھیں۔۔۔عابدہ مسکراتی سبحان کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔ اس کے سر پر تیل لگایا۔۔۔ہاتھ میں پڑے پتے پر مہندی لگائی اور مٹھائی کھلائی۔۔۔پھر نوٹ وار کر سائیڈ پر رکھا اور سبحان کو چومتی اٹھ گئی۔۔۔پھر نجمہ اور ارسلان نے رسم کی۔۔۔
چلو اب میری باری۔۔۔شہری نے کہا اور بیٹھ گیا۔۔۔شہری کے ساتھ ارصم مسکراتا ہوا بیٹھ گیا۔۔۔
چل منہ کھول۔۔۔۔
پہلے تیل تو لگا لے۔۔۔
پہلے منہ کھول۔۔۔شہری نے بڑی بڑی دو مٹھائیاں اس کے منہ میں گھسا دی۔۔۔
اے ہاۓ۔۔۔۔سبحان گندا سا منہ بناتا شہری کو گھورنے لگا
یار میں چاہتا ہوں کہ تیرا پیٹ خراب ہو جائے۔۔۔۔
استغفار۔۔۔کل میری برات ہے بھائی۔۔۔میں پورا دن واشروم میں نہیں گزارنا چاہتا۔۔
اللہ‎ کرے ایسا ہی ہو۔۔۔اور زجاجه بھابھی کی فکر نہ کرنا سبحان بھائی۔۔۔میں ہوں نا۔۔۔۔طلال کی بات پر سب ہنسنے لگے جب کہ سبحان نے کھا جانے والی نظروں سے طلال کو دیکھا
خبیثوں۔۔۔۔باز آ جاؤ۔۔۔کوئی بھی وقت قبولیت کا ہو سکتا ہے۔۔۔سبحان ابھی تک گندے گندے منہ بنا رہا تھا۔۔۔
اس کے بعد واجد اور دلبر بیٹھے مگر سبحان کو مٹھائی کھلانے کے بجاے خود کھا لی اور تیل بھی ہونے سر پر لگا دیا۔۔۔
سبحان بھائی کل میں نا زجاجه بھابھی کی طرف سے آوں گی۔۔۔پیسے تیار رکھنا۔۔۔ارشی نے خبر دی
ہیں؟
ہاں نا وو رستہ روکائ۔۔دودھ پلائی۔۔۔وہ جو جوتی چھپائی۔۔ان سب کے پیسے ملیں گے نا۔۔۔۔
ہمے بھی لے جانا۔۔۔مناہل اور عفت بولیں۔۔
تم بھی آ جانا مشی۔۔۔
نہیں مجھے میرے گھر والے بہت پیسے دیتے ہیں۔۔۔مشی نے مسکرا کر کہا تو ارشی نے منہ بنایا
بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔۔۔کیوں ارصم بھائی۔۔۔۔ارشی آخر میں ارصم سے گو ہوئی
مگر لوگ تو بھلے ہیں نا۔۔۔ارصم مشی کو دیکھتا جا رہا تھا
السلام عليكم۔۔۔۔
وعلیکم السلام۔۔۔۔آؤ جی آؤ۔۔۔شہری اسٹیج سے نیچے اترا اور غازی سے ملا۔۔۔غازی بلیو شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔۔۔ایک شاندار انسان۔۔۔شاندار شخصیت کے ساتھ۔۔۔
اگر آج تو نہ آتا نا تو۔۔
ہاں تو سبحان نے شادی نہیں کرنی تھی۔۔۔شہری نے سبحان کی بات کاٹی۔۔۔غازی ہنس دیا
یہ تو میں نہیں مان سکتا۔۔۔۔
ہاں ماننے والی بات بھی نہیں ہے۔۔۔پیچھے سے عثمان آیا اور غازی کے کندھے پر ہاتھ رکھا
بلکل۔۔۔سبحان کھسیانی سی ہنسی ہنس دیا۔۔۔
ویسے سبحان کہتے ہیں شادی کا لڈو کھانے والے ہی لڈو بن جاتے ہیں۔۔۔جو بعد میں ان کی بیوی کھا جاتیں ہیں؟شہری نے کچھ سوچتے ہوے کہا
ہاں پتہ نہیں آپ نے کیوں کھا لیا۔۔۔دلبر نے افسوس سے کہا
بیٹا جانی آپ کو بھی کھانا پڑے گا۔۔۔سبحان نے کہا
ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔۔ایک نہیں چار چار کھاؤں گا۔۔۔
توبہ چار لڈو یعنی چار شادیاں۔۔۔ارشی نے ہنس کر کہا
جی مگر آپ جیسی مل گئی تو ایک ہی کافی ہے۔۔۔دلبر نے ڈرنے کی خوب ایکٹنگ کی
اچھا جی میں جس کی زندگی میں جاؤں گی نا وہ خوش قسمت ہو گا۔۔۔بلکہ ایک وہی تو خوش قسمت ہو گا۔۔۔ارشی نے تالی ماری
ہاں ہاں ہم اس کی قسمت کے لئے دعا گو ہیں۔۔۔ارصم نے کہا
ارصم بھائی آپ بھی۔۔۔۔ارشی نے منہ بناتی کہا

شغل میلہ چلتا رہا۔۔۔مہندی کی رسم آدھی رات تک چلی۔۔۔سب نے خوب مزہ کیا۔۔۔
اگلے دن صبح صبح سب کو اٹھا دیا گیا۔۔۔
اٹھو منحوسوں۔۔۔نجمہ لڑکوں کو اٹھانے گئی جبکہ رقیہ لڑکیوں کو
اٹھ بھی چکو۔۔۔نجمہ ہلا ہلا کر تھک گئی مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔۔۔
ذلیل ہیں سارے کے سارے۔۔۔اٹھنا ہے کے نہیں۔۔۔
پھپھو۔۔سونے دو نا۔۔۔ابھی تھوڑی دیر پہلے تو سوے تھے۔۔۔طلال نیند میں بولا جبکہ دلبر کے خراٹوں کی آواز دور دور تک جا رہی تھی
میں نے کہا تھا۔۔۔دیر سے سو۔۔اب اٹھ رہے ہو یا نہیں۔۔۔
نہیں۔۔۔عثمان نے کان بند کرتے ہوے کہا
رک تو تو ہے ہی بے شرم۔۔۔صبر کر ذرا۔۔۔نجمہ باہر گئی اور پانی کا جگ لئے اندر آئ
اٹھو سارے۔۔۔نجمہ نے کہتے ساتھ ہی سب کے اوپر پانی گرا دیا
آے۔۔۔پھپھو۔۔۔دلبر بس رو دینے کو تھا
اے اٹھو۔۔۔
آخر کر نجمہ کی کوشش رنگ لائی اور سب آہستہ آہستہ اٹھ پڑے
اب آؤ جی لڑکیوں کی طرف۔۔۔
ارشی۔۔میری جان۔۔اٹھ جاؤ۔۔۔عفت۔۔مناہل شادی کا گھر ہے اٹھ پڑو۔۔۔رقیہ بڑے پیار سے کہہ رہی تھی
اچھا ماما سونے دیں۔۔۔
اے۔۔پیار دی زبان نی سمج آندی۔۔۔پیار نال کہہ رہیں آں اٹھ جاوؤ۔۔میں پانی سٹ دینا اے۔۔۔
اماں جاؤ ایتھوں۔۔۔
میں چھتر لانے نے تینو۔۔میرے نال پنجابی وچ گل کتی جے۔۔۔
تسی وی نہ کرو فیر۔۔۔
صبر کر۔۔۔تینوں میں دسنی آں۔۔۔رقیہ آگے بڑھی اور مناہل کا ہاتھ پکڑ کر اس کو اٹھایا۔۔۔
اماں۔۔۔
چپ کر نی۔۔۔چل تو وی اٹھ کی نام اے تیرا۔۔۔عفت۔۔۔۔
کیا ہے تائی ماں۔۔۔عفت جمائ لیتی اٹھی
نی ارشی اٹھ جا۔۔۔کنی تو ٹیٹھ ایں۔۔۔
ممانی میں نے رونے لگ جانا ہے۔۔۔
تے پتر رو لے۔۔۔مگر اٹھ جا۔۔۔اس دوران مشی اٹھ چکی تھی
ارشی بھی بڑی مشکل سے اٹھی۔۔۔
چلو شاباش سارے ورو غسل خانے تے۔۔۔منہ ہتھ تووو تے نیچے آوو۔۔۔رقیہ کہتی چلی گئی۔۔۔
سب منہ ہاتھ دھو کر سوجی آنکھوں کے ساتھ نیچے اترے۔۔ناشتہ کیا۔۔۔اور کاموں میں لگ گئے۔۔۔تقریباً چار بجے لڑکیاں میک اپ کرنے آن پہنچی۔۔۔عفت نے جلدی سے نیلے رنگ کی مکیسی پہنی۔۔۔اور اس کے ساتھ ارشی تیار ہونے بیٹھی۔۔
ارشی کی جامنی رنگ کی لمبی کام والی فراک تھی۔۔۔اس کے نیچے چوری دار پاجامہ۔۔۔
دونوں تیار ہونے لگی۔۔۔
اف چلو بھی۔۔۔بیٹھو گاڑی میں ہال  میں پہنچو۔۔۔واجد چکر لگا لگا کر تھک گیا ہے۔۔۔اب نکلو۔۔۔
ساری لڑکیاں گاڑی میں بیٹھیں اور ہال پہنچیں۔۔۔
مشی نے مہرون رنگ کا کام والا جوڑا پہن رکھا تھا۔۔بڑے بڑے خوبصورت جھمکے اور اونچی لمبی پونی۔۔۔ہاتھوں میں چوڑیاں ڈالے وہ ہال میں داخل ہوئی۔۔۔۔اس کے برعکس مناہل نے شارٹ فراک کے ساتھ شرارہ پہن رکھا تھا۔۔۔سب ہی قیامت ڈھا رہی تھیں۔۔۔مگر آج کی جان کی زجاجه تھی۔۔۔۔لال اور گولڈن رنگ کے لہنگے میں وہ بھی قیامت سے کم نہ لگ رہی تھی اوپر کام سے بھری ہوئی لونگ شرٹ۔۔۔اور نفاست سے سر پر سیٹ کیا ہوا کام والا شاندار دوپٹہ۔۔۔۔جب کہ آج سبحان کی لال رنگ کی شیروانی تھی۔۔۔اور لائٹ سے گولڈن رنگ کی پگڑی پہنے ہوے وہ عالیشان طریقے سے اسٹیج پر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔تمام لڑکوں نے بھی شیروانی ڈال رکھی تھی۔۔۔مگر سب کے ڈیزائن اور رنگ مختلف تھے۔۔۔۔
نکاح کی تقریب خیر خیریت سے ہو گئی۔۔۔زجاجه کو اسٹیج پر لیا گیا۔۔۔تمام رسومات کرنے کے بعد رخصتی ہوئی۔۔۔اور سب خیر خیریت سے گھروں کو روانہ ہوے۔۔۔

دردِ دل کا سویرا Where stories live. Discover now