نکاحِ محبت

829 49 48
                                    

درد دل کا سویرا
قسط ٣١

مشی اور ارشی کو تیار کر کے ایک ریڈ کلر کا جالی کا دوپٹہ ان کے سر میں گھونگھٹ کی طرح ڈال دیا گیا۔۔۔دونوں ہی گھبرائی ہوئی تھیں۔۔۔نکاح خواں کو بلانے کا کہا گیا تو ارشی کی آنکھ سے آنسو ٹپکا۔۔۔جب کے مشی کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں اور اس کے کانپتے بدن پر زجاجه نے ہاتھ رکھا اور اس کو نہ گھبرانے کا کہا۔۔۔نکاح خواں کے ساتھ غازی عثمان اور سبحان آے۔۔۔نجمہ عفت مناہل عابدہ صالحہ ارسلان پہلے ہی موجود تھے
پہلے ارشی کا نکاح پڑھایا گیا۔۔۔

ارشیہ ارسلان بنتِ ارسلان سکندر آپ کو شہریار جہانگیر ولد جہانگیر سکندر بعوض پچاس ہزار روپے سکہ رائج الوقت اپنے نکاح میں قبول ہے؟
میں تم سے محبت کر پاؤں یا نہیں مگر میں تمہاری وفادار رہوں گی۔۔۔
قبول ہے۔۔۔نم آواز اس کے حلق سے نکلی

ارشیہ ارسلان بنتِ ارسلانسکندر آپ کو شہریار جہانگیر ولد جہانگیر سکندر سے بعوض پچاس ہزار روپے سکہ رائج الوقت اپنے نکاح میں قبول ہے؟
میں وفا میں دغا نہیں کروں گی۔۔۔
قبول ہے۔۔۔

ارشیہ ارسلان بنتِ ارسلان سکندر آپ کو شہریار جہانگیر ولد جہانگیر سکندر سے بعوض پچاس ہزار روپے سکہ رائج الوقت اپنے نکاح میں قبول ہے؟
مجھے تمہارا ساتھ قبول ہے۔۔۔
قبول ہے۔۔۔

ہر طرف مبارک مبارک ہونے لگی۔۔۔اس کے بعد نکاح خواں باہر شہری کا نکاح پڑھوانے نکلے۔۔۔تاکہ شہری اپنی بہن کے نکاح میں شرکت کر سکے۔۔۔

شہریار جہانگیر ولد جہانگیر سکندر آپ کا نکاح ارشیہ ارسلان بنت ارسلان سکندر سے بعوض پچاس ہزار روپے سکہ رائج الوقت پڑھایا جاتا ہے آپ کو قبول ہے۔۔۔؟
کیا تم واقعی مجھے مل رہی ہو؟
قبول ہے۔۔۔

شہریار جہانگیر ولد جہانگیر سکندر آپ کا نکاح ارشیہ ارسلان بنت ارسلان سکندر سے بعوض پانچ ہزار روپے سکہ رائج الوقت پڑھایا جاتا ہے آپ کو قبول ہے۔۔۔؟
میرا وعدہ ہے میری محبت ہم دونوں کے لئے کافی ہو گی۔۔۔
قبول ہے۔۔۔

شہریار جہانگیر ولد جہانگیر سکندر آپ کا نکاح ارشیہ ارسلان بنت ارسلان سکندر سے بعوض پانچ ہزار روپے سکہ رائج الوقت پڑھایا جاتا ہے آپ کو قبول ہے۔۔۔؟
مجھے صرف تم ہی قبول ہو۔۔۔
قبول ہے۔۔۔

سب سے مبارک باد وصول کر کے شہری نکاح خواں کے ہمراہ مشی کا نکاح پڑھوانے بڑھے۔۔۔شہری نے کمرے میں داخل ہوتے ہی ارشی کو تلاش کیا جو مشی کے ساتھ ابھی تک گھونگھٹ میں بیٹھی تھی۔۔۔وہ آگے بڑھا تو عفت وغیرہ نے اس کو مبارک باد دے کر چھیڑنا شروع کیا۔۔۔شہری مسکراتے ہوے مشی کی طرف بڑھا۔۔۔اور جھک کر اس کے بالوں پر بوسہ دیا۔۔۔

مشک جہانگیر بنت جہانگیر سکندر آپ کا نکاح ارصم کمال ولد کمال احمد سے بعوض پچاس ہزار روپے میں کروایا جاتا ہے آپ کو قبول ہے۔۔۔؟
اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ کہا
قبول ہے۔۔۔

مشک جہانگیر بنت جہانگیر سکندر آپ کا نکاح ارصم کمال ولد کمال احمد سے بعوض پچاس ہزار روپے میں کروایا جاتا ہے آپ کو قبول ہے۔۔۔؟
کیا واقعی میں کسی کی ہونے جا رہی ہوں۔۔۔
قبول ہے۔۔۔

مشک جہانگیر بنت جہانگیر سکندر آپ کا نکاح ارصم کمال ولد کمال احمد سے بعوض پچاس ہزار روپے میں کروایا جاتا ہے آپ کو قبول ہے۔۔۔؟
اس نے آنکھیں بند کی۔۔۔
جی۔۔۔قبول ہے۔۔۔

شہری نے اس کے سر پر پیار کیا۔۔۔اب آخری مرحلہ طے کرنا تھا۔۔۔

ارصم کمال ولد کمال احمد آپ کا نکاح مشک جہانگیر بنت جہانگیر سکندر سے بعوض پچاس ہزار روپے میں کروایا جاتا ہے آپ کو قبول ہے۔۔۔؟
تو کیا یہ لمحہ آ گیا۔۔۔؟
قبول ہے۔۔۔

ارصم کمال ولد کمال احمد آپ کا نکاح مشک جہانگیر بنت جہانگیر سکندر سے بعوض پچاس ہزار روپے میں کروایا جاتا ہے آپ کو قبول ہے۔۔۔؟
اس کی دھڑکنوں کو قرار آیا
قبول ہے۔۔۔

ارصم کمال ولد کمال احمد آپ کا نکاح مشک جہانگیر بنت جہانگیر سکندر سے بعوض پچاس ہزار روپے میں کروایا جاتا ہے آپ کو قبول ہے۔۔۔؟
محبت سزا ہے۔۔۔وہ مسکرایا
قبول ہے۔۔۔

مبارک باد کا سلسلہ تھما تو ارشی اور مشی کو اسٹیج پر لے جایا گیا۔۔۔گھونگھٹ کے بغیر۔۔۔ان کا روپ۔۔۔دونوں کو دیوانہ کر رہا تھا۔۔۔مشی کانپ رہی تھی جب کہ ارشی کانپ نہیں رہی تھی گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔۔۔
دونوں کو اپنے اپنے محرموں کے ساتھ بیٹھا دیا گیا جن کی دندیاں اندر ہی نہیں جا رہی تھی۔۔۔کچھ دیر گزری۔۔۔کھانا کھلا۔۔۔سب کھانے کی طرف متوجہ ہوے۔۔۔۔اتنے میں دلہن اور دولہا کو فوٹوشوٹ کے لئے اندر بھجوا دیا گیا۔۔
فوٹوشوٹ تو جیسے تیسے کر کے ہو گیا۔۔۔ارشی شہری سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی۔۔۔اس مرحلے کو پار کیا تو اگلا مرحلہ اس سے بھی مشکل نکلا۔۔۔مشی اور ارشی کو اکیلا چھوڑ کر ارصم اور شہری کو لے جایا گیا۔۔۔کچھ دیر بعد ہی دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔شہری دروازہ کھولتا ھوا آیا اور دروازے پر ہی کھڑا ہو گیا۔۔۔پیچھے سے ارصم آیا اور مشی کا ہاتھ پکڑے ایسے کمرے سے باہر نکلا جیسے کوئی کتا ان کے پیچھے پڑا ہے۔۔۔کمرے سے باہر کھڑے دلبر اور طلال کھی کھی کرنے لگے۔۔۔
شہری اندر بڑھا اور دروازہ بند کیا۔۔۔ارشی کچھ سمجھ نہ پائی۔۔۔وہ جہاں کھڑی تھی ادھر سے ہل نہ پائی
شہری دھیرے دھیرے اس کے قریب آیا۔۔۔اس کے سامنے کسی محافظ کی طرح کھڑا ہو گیا۔۔۔ارشی اپنا منہ اٹھا نہ پائی۔۔۔شہری کچھ دیر اس کے چہرے کی خوبصورتی کو اپنی آنکھوں کے ذریعے اپنے دل میں اتارتا گیا پھر تھوڑا سا جھکا اور اس کے چہرے سے اپنا چہرہ ایسے ٹکا لیا کہ دونوں کا ماتھا اور ناک ایک دوسرے کے ساتھ ٹچ ہونے لگے۔۔۔جس سے ارشی کے جسم میں کرنٹ کی ایک لہر دوڑ گئی۔۔۔شہری نے آنکھیں موند لیں۔۔۔ایک منٹ دو منٹ۔۔۔پتہ نہیں کتنے لمحے شہری کی بے باکی کی نذر ہو گئے۔۔۔پھر دروازے کی دستک سے شہری ہٹا اور بنا کچھ کہے بنا کچھ سنے۔۔۔باہر نکل گیا جب کہ ارشی کا رکا ھوا سانس بحال ھوا۔۔۔اور اس کی حالت غیر سی ہونے لگی۔۔۔
جب کہ دوسری طرف ارصم مشی کو لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔
اف۔۔۔ماما نے ہمیں باہر بیٹھنے کو کہا تھا ہم بچ بچا دلبر اور طلال کی مدد سے آ گئے۔۔۔جب میں نے ماما سے کہا کہ مشی سے اکیلے میں بات کرنی ہے تو ماما نے ایسی گھوری ڈالی کہ۔۔۔توبہ۔۔۔ارصم بہت ڈرا ھوا لگا۔۔۔مشی کو چاہتے ہوے بھی ہنسی نہیں آئ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی۔۔۔
ارصم آگے بڑھا اور اس کے کندھوں سے اس کو تھام کے کھڑا ہو گیا۔۔۔
گھبرا کیوں رہی ہو۔۔۔؟
مشی نے چہرہ اور جھکا لیا۔۔۔
اچھا اچھا۔۔۔
خوش ہو؟
آپ خوش ہیں؟
اس نے دھیمی آواز میں پوچھا
ہاں۔۔۔کون فاتح اپنی فتح پر خوش نہیں ہوتا۔۔۔
اس کی بات پر مشی ہلکا سا مسکرائی۔۔۔

دردِ دل کا سویرا Where stories live. Discover now