احترام محبت epi 6

122 7 65
                                    

آج کی صبح بھی معمول کے مطابق طلوع ہوئی تھی۔ سورج اپنے وقت پر طلوع ہوا تھا۔
پرندے بھے زرق کی تلاش میں نکل پڑے تھے۔
ابراہیم مینشن میں بھی معمول کے مطابق فجر کے بعد سے گھر کے ملازمین کاموں میں جت گے تھے
ناشتے کا وقت تھا۔سب بڑے ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے تھے۔
ابراہیم صاحب اخبار پڑھ رہے تھے۔ لڑکیاں اور لڑکے یونی کے لیے ریڈی ہو رہے تھے۔

اور گھڑی صبح کے آٹھ بجا رہی تھی۔

آہستہ آہستہ سب ہی تیار ہو کر نیچے آ رہے تھے ۔اور بڑوں کو سلام کرتے وہیں ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھ گئے۔
کچھ دیر بعد سب ہی ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھے۔ ابراہیم صاحب نے بھی سبکو ایک نظر دیکھا اور اخبار ایک طرف رکھا ۔پھر چائے کا کپ لیا اور سپ لینے لگے۔
ساتھ ہی وہ سب کو دیکھ رہے تھے۔
گویا کچھ کہنا چاہتے ہوں۔
"بابا کیا بات ہے؟سب خیرت ہے نہ؟
حسن صاحب نے بلآخر پوچھ لیا۔
"ہاں برخوردار سب ٹھیک ہے۔میں کچھ سوچ رہا تھا
بس اسی بارے میں آپ لوگوں سے بات کرنی ہے۔"
انھوں نے بریڈ پر جیم لگاتے کہا۔

وہ اپنا کھانا خود ہی لیتے تھے۔ یہاں تک کے بہوؤں کے لاکھ کہنے پر بھی وہ منع کر دیتے۔اس عمر میں بھی وہ کافی فٹ تھے۔
جی بابا بولیں کیا بات ہے؟
اب کے حسنین صاحب نے استفسار کیا۔
سب بچے بھی انکی طرف متوجہ ہو گئے۔

"بیٹا میں ریحان کی شادی کے بارے میں سوچ رہا تھا
ماشاء اللّٰہ سے ہمارے بیٹے نے بزنس بھی سنبھال لیا ہے۔
اور یہی عمر ہوتی ہے شادی کی۔"
"ابراہیم صاحب نے اپنی دل کی بات سبکے گوش گزار کر دی۔
انکی بات پر سب نے ہی بیک وقت انکی طرف دیکھا جب کے ریحان چھینپ گیا، اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ بات اسکے بارے میں کی جائے گی۔
"ایان ریحان کے ساتھ بیٹھا تھا اور باقی عالی جبرائیل اور روحیل انکے سامنے بیٹھے تھے اور ریحان کو دیکھ کر مسکرائے جا رہے تھے۔ریحان اپنی طرف سے انکو اگنور کر رہا تھا مگر اصل بلا تو اسکے ساتھ بیٹھی تھی۔
دا گریٹ ایان ابراہیم خان

"آہم آہم ریحان برو"
کیسا فیل کر رہے ہیں آپ"
ایان نے ٹوسٹ کا بائیٹ لیتے کہا۔
باقی بڑے بھی ناشتے کے دوران اسی ٹاپک پر ہی گفتگو میں مصروف ہو گئے تھے۔
ایان کے پوچھنے پر ریحان نے اسے گھوری سے نوازا۔

"نہیں مطلب
کچھ کچھ ہو رہا ہے بھیا"
سب بمشکل اپنی ہنسی دبائے ہوئے تھے۔کیوں کے اس وقت وہ گھر کے بڑوں کے درمیان تھے۔
"چپ کر جا ایان
ورنہ یہ گرم چائے کا کپ میں نے تیرے اوپر گرا دینا ہے"

ایان کے تنگ کرنے پر ریحان نے اسے سرگوشی کی ۔

"نہیں برو"
مزہ نہیں آیا",
کچھ اور ٹرائے کریں۔
لگ ہی نہیں رہا کے آپ غصے میں ہیں۔"
ایان نے بھی ریحان کی دھمکی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اسے دوبارہ چھیڑا۔
جس پر ریحان نے آبرو اچکاتے ہوتے اسے دیکھا۔پھر اسکے لبوں پر مسکراہٹ آئی اور اس نے بڑی رازداری سے ٹیبل کے نیچے سے ایان کے پاؤں پر اپنا پیر رکھا اور زور سے دبایا کہ ایان جو عالی لوگوں سے اشاروں کنایوں میں بات کر رہا تھا ،اپنی امدنے والی چیخ پر اس نے بمشکل ہاتھ منہ پر رکھ کر کنٹرول کیا اور خفگی سے ریحان کو دیکھا جس نے اسکو دیکھ کر آنکھ دبائی اور دوبارہ سے ناشتے میں مصروف ہو گیا۔

 Ahtraam Muhabat By Mehar ChaudhryWhere stories live. Discover now