احترام محبت قسط نمبر 18

77 4 17
                                    


"معزرت چاہتی ہوں مسز حیات ابھی آخری دفعہ آپکا چیک اپ کرنا ہے اور یہ انجیکشن ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق آپکو لگانا ہے۔مسز حیات کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ خوش نہیں ہوئیں تھی اس آخری چیک اپ کے لیے مگر مجبوری تھی ۔
نرس بات کرتے ہوئے انکی طرف دیکھنے سے گریز کر رہی تھی اور انجیکشن تیار کرنے میں مصروف تھی ۔
اسنے ایک نظر مسز حیات کی طرف دیکھا جو آنکھیں موندے لیٹی تھیں اور ایک نظر پیچھے دروازے کی جانب دیکھا اسنے کمرے میں آنے کے بعد دروازہ بند کر دیا تھا ۔
وہ نروس تھی ....بہت نروس
ابھی بھی اسنے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا اور آگے پیچھے دیکھنے لگی جیسے ایک ڈر سا اسے محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے ۔

ہاں دیکھ تو رہا تھا کوئی اسے

کیا وہ انجان تھی اس سب سے بڑے بادشاہ کی نظر سے ؟

کیا وہ بھول گئی تھی کہ دروازہ کے اس پار جو ہو رہا تھا اور جو ہونے جا رہا تھا وہ انسانوں کی نظروں سے بے شک چھپ جائے گا مگر کیا وہ اس
واحد رب العالمین سے بھی چھپا رہے گا ؟

کیا اس سے کچھ چھپا رہ سکتا ہے ۔؟

اسنے مسز حیات کی طرف دیکھا اور پھر انکی بیٹیوں کی طرف
نجانے کیسے ایک آنسو آسکے رخسار پر بہہ نکلا ....

اس نے آنکھیں زور سے میچیں اور وہ انجیکشن انکے بازو میں لگا دیا ....

وہ احمق بار بار دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔
ایک بند دروازے سے بھی اسے یہ خوف محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی جیسے ابھی دروازہ توڑ کر اندر آ جائے گا اور وہ رنگے ہاتھوں پکڑی جائے گئی۔

مگر شاید اسکے دل پر مہر لگ چکی تھی جو کوئی بھی احساس ضمیر کو جھنجھوڑنے میں بری طرح ناکام ہوا تھا ۔

اگر جو لمہہ بھر کے لیے احساس بیدار ہوتا بھی تو وہ فوراً اسے جھٹک دیتی
اس نے انجیکشن ڈیسٹ بن میں ڈالا اور ان بچیوں کی طرف بڑھی جو اب اٹھ چکی تھی اور یک ٹک آنکھیں کھولے اس اجنبی چہرے کو دیکھ رہی تھی۔

گویا ان ننھی پریوں کو بھی احساس ہوگیا تھا کہ یہ انکی اپنی نہیں ہے ۔
اسنے کانپتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھائے ...

"مت کرو یہ ظلم ایک عورت ہو کر دوسری عورت سے اسکی اولاد چھین رہی ہو ؟

دل ملامت کر رہا تھا .

مگر ،دماغ تھا کہ کچھ اور سوچنا ہی نہیں چاہتا تھا ۔

نہیں.... می...میں کچھ غل.... غلط... نہیں... نہیں کر رہی

ماتھے پر آیا پسینہ صاف کرتے لڑکھڑاتی زبان میں گویا وہ خود سے مخاطب تھی ۔

"انکی تو دو ...دو بیٹیاں ہیں اگر ایک میں ....میں لے بھی لوں گی تو ...تو انکے پاس ایک تو ..رہے گی نہ ..."

دماغ نے ضمیر کی آواز دبانے کی کوشش کی
جب کچھ لمحوں تک کوئی آواز نہیں آئی تو وہ مطمئن ہو گئی ،اور آگئے بڑھی
اب وہ انکے اوپر سے کمبل اٹھا رہی تھی ۔

 Ahtraam Muhabat By Mehar ChaudhryWhere stories live. Discover now